https://youtu.be/t3qptdrkaEk کوشش یہ کرو کہ ہم نے جو بھی کام کرنا ہے خدا تعالیٰ کا پیار لینے کے لیے کرنا ہے ، خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کرنا ہے، خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے کرنا ہے مورخہ۱۳؍ستمبر ۲۰۲۵ء، بروز ہفتہ، امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے مڈ ویسٹ ریجن کے ایک تئیس (۲۳)رکنی وفد کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر محض حضورِانور کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے اور آپ کی بابرکت صحبت سے روحانی فیض حاصل کرنے کی غرض سے امریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضورِانور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ آغاز میں امیرِِ قافلہ نے وفد کا تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ریجن نو امریکی ریاستوں پر مشتمل ہے۔ شکاگو سب سے بڑی مجلس ہے، جبکہ اس ریجن میںZion (زائن)، Oshkosh (اوشکوش)، Milwaukee(مِلواکی)، Minnesota(منیسوٹا)، Saint Louis (سینٹ لوئس) اورKansas City (کنساس سٹی)وغیرہ کی مجالس بھی شامل ہیں۔ بعد ازاں وفد میں شامل ہر خادم کو فرداً فرداً اپنا تعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، جس میں اپنے نام، خاندانی پسِ منظر، تعلیمی مصروفیات اور جماعتی خدمات کا ذکر کیا گیا۔ مزید برآں دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کو حضورِانور سے مختلف سوالات کرنے نیز ان کے جوابات کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں جو پہلا سوال پیش کیا گیا، اس میں راہنمائی طلب کی گئی کہ خدام الاحمدیہ کے عہد میں جان، مال اور عزت کو اپنی قوم اور ملک کے لیے قربان کرنے کا جو ذکر ہے، اس کا اطلاق پاکستان جیسے ملک میں کس طرح ہوتا ہے جہاں احمدیوں کے شہری اور مذہبی حقوق کو ریاستی طور پر دبایا جاتا ہے؟ اس کے جواب میں حضورِانور نےفرمایا کہ جب تک احمدی کسی ملک میں رہتے ہیں، اُن پر لازم ہے کہ وہ اس ملک کے قوانین کی پابندی کریں، بشرطیکہ وہ قوانین اُن کے بنیادی مذہبی فرائض میں مداخلت نہ کریں۔ حضورِانور نے واضح فرمایا کہ جہاں کوئی قانون بنیادی دینی عقیدہ یا عبادت سے روکنے والا ہو، وہاں اس کی پابندی نہیں کی جاسکتی۔ مثلاً اگر قانون یہ کہے کہ پنجوقتہ نماز نہ پڑھی جائے، تو احمدی بہرحال نماز ادا کریں گے۔ اگر کلمہ پڑھنے سے روکا جائے، تو احمدی پھر بھی کلمہ پڑھیں گے۔ اگر مسلمان ہونے کی شناخت سے انکار کا کہا جائے، تو احمدی بہرحال اپنی مسلم شناخت پر قائم رہیں گے۔ البتہ دیگر تمام معاملات میں احمدی لازماً قانون کے پابند ہیں۔ وہ نقضِ امن کا باعث نہیں بنتے، کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے اور نہ ہی دوسروں کے حقوق غصب کرتے ہیں۔ اس طرح احمدی اپنےملک کے قوانین کی مکمل پاسداری کرتے ہیں۔ حضورِانور نے مزید فرمایا کہ اگر ملک اپنی حفاظت کےلیے جان کی قربانی مانگے تو احمدی اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ چنانچہ آج بھی بہت سے احمدی مختلف عہدوں پر فائز پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں اور ماضی میں بھی انہوں نے اپنے وطن کی خاطردفاعی جنگوں میں حصّہ لیا اور یوں اپنے عہد کی عملی تکمیل کی ہے۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ بعض اوقات ہم اپنی جماعتی تقریبات میں ایسے مہمانوں کو مدعو کر لیتے ہیں جو عدل، امن اور انسانیت کے علمبردار نہیں ہوتے۔ اس بارے میں حضورِانور کی کیا راہنمائی ہے؟ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ اگر آپ کا ان لوگوں سے ایک قریبی تعلق ہےتو آپ انہیں یہ بات بتا سکتے ہیں کہ ہماری جماعت کا طریق اور تعلیم یہی ہے کہ ہم ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔ ہم معاشرے اور دنیا میں امن اور ہم آہنگی قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس لیے یہ صرف ہمارا نعرہ ہی نہیں بلکہ ہم اسے اپنی زندگی میں نافذ کرنا چاہتے ہیں اور دنیا میں بھی قائم کرنا چاہتے ہیں اور اگر وہ انکار کریں تو آپ کو چاہیے کہ انہیں اپنی تقریبات میں مدعو نہ کریں۔ حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ان لوگوں سے کسی دنیوی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ حضورِانور نے مزید وضاحت فرمائی کہ لیکن اگر آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف بول رہا ہو یا لوگوں کے حقوق کا احترام اور پاس نہ کرتا ہو تو ایسے شخص کو ہماری کسی تقریب میں مدعو نہیں کرنا چاہیے۔ آپ اس بارے میں انتظامیہ کو اطلاع دے سکتے ہیں۔ اگر مجھے معلوم ہو کہ کوئی شخص معاشرے میں امن قائم نہیں کر رہا، بلکہ اس میں خلل ڈال رہا ہے، تو مَیں عموماً انتظامیہ کو کہتا ہوں کہ اسے کبھی بھی مدعو نہ کریں بلکہ کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ہم نے اپنی دعوتیں واپس لے لیں۔ ایک خادم نے راہنمائی طلب کی کہ اگر گھروں میں جہاں انگریزی پہلی زبان ہو اور والدین خود روانی سے اُردو نہ بولتے ہوں، تو ایسی صورت میں بچوں کو اردو سکھانے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ سب سے پہلےحضورِانور کے دریافت فرمانے پر سائل نے عرض کیا کہ اس نے اپنے والدین کو سنتے سنتے اردو سیکھی ہے۔ حضورِانور نے راہنمائی فرمائی کہ اگر والدین آپ سے اردو بولیں تو پھر ٹھیک ہے، آپ سیکھ جائیں گے، حتّی کہ میرے اپنے نواسے پوتے بھی انگریزی بولتے ہیں۔ جب مَیں ان سے اردو میں کوئی سوال پوچھتا ہوں تو وہ انگریزی میں جواب دیتے ہیں۔ تو یہ یہاں کی عادت ہے اور کیونکہ یہاں کا ماحول بالکل مختلف ہے، وہ سکولوں میں اچھا خاصا وقت گزارتے ہیں، کچھ گھنٹے سکول میں رہتے ہیں اور کتابیں انگریزی میں پڑھتے ہیں۔ اسی لیے وہ انگریزی بولتے ہیں۔ انگریزی پڑھتے ہیں۔لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم ان سے اردو میں بات کریں۔ تو اسی طرح آہستہ آہستہ وہ سیکھ لیں گے۔یہ تو ہر ایک کی اپنی اپنی capability اور potential ہے کہ کتنا اس کو language سیکھنے کا شوق ہے اور سیکھتے ہیں اور بعض لوگ نہیں سیکھ سکتے۔ لیکن کم از کم وہ سمجھ تو لیتے ہیں۔ سائل نے مزید دریافت کیا کہ ہم اپنے بچوں کو لکھنایا سمجھنا کیسے سکھا سکتے ہیں؟اس کی بابت حضورِانور نے راہنمائی فرمائی کہ اس کےلیے اردو کلاسیں لگانی چاہئیں۔ اگر وہ وقفِ نَو بچے ہیں، تو وقفِ نَو ڈیپارٹمنٹ کو چاہیے کہ وہ اردو کلاس لگائیں اور ان کو سمجھائیں۔ بعض دفعہ یوں بولنے میں بعض hesitantہوتے ہیں۔ آخر پر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ otherwise ہمیں انگلش بولنی نہیں آتی، پھر بھی ہم بول لیتے ہیں، تم اردو بول لیا کرو۔ ایک شاملِ مجلس نے حضورِانور سے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے پسندیدہ واقعہ کے بارے میں سوال کیا۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ بہت سارے واقعات ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تو ہر واقعہ ہی ایسا ہےجو ہمارے لیے ایک lesson ہے۔ اس لیے اللہ میاں نے کہا ہے کہ وہ تمہارے لیے اُسوۂ حسنہ ہیں۔ ان کی ایسی باتیں ہیں کہ ان کو followکرو۔ بے شمار واقعات مَیں بتاتا ہوں، کل ہی خطبہ میں مَیں نے بتائے ہیں۔ آپ کا ہرعمل، every deed اور ہرorder ایسا ہے، اگر تم اس پر عمل کرو تو تم اپنی زندگی کو improveکر لو گے۔ حضورِانور نے آخر میں ہدایت فرمائی کہ ہسٹری پڑھا کرو، پھر تمہیں واقعات یاد ہو جائیں گے، سارے واقعات ہی اچھے ہیں۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عَلمِ انعامی صرف نمبروں کا کھیل ہے، ہم یہ کیسے یقینی بنا سکتے ہیں کہ اس مقابلے میں ہم نوجوانوں کی روحانی نشوونما کے اصل مقصد سے محروم نہ ہوں؟ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ بات تو بعض لوگ صحیح کرتے ہیں، نمبروں کا کھیل بنایا ہوتا ہے اور اس طرح غلط رستے پر چلے جاتے ہیں۔ حضورِانور نے اس ضمن میں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں بیان فرمایا کہ مَیں بھی خدام الاحمدیہ میں نائب صدر رہا ہوں، عَلمِ انعامی کے لیے جو recommend کرنے والی کمیٹی ہوتی ہے، مَیں اس کا ممبر تھا۔ جس میں دیکھتے ہیں کہ کس کو عَلمِ انعامی دینا ہے، سارا ڈیٹا ان کے پاس ہوتا ہے اور اس کو وہ پورا دیکھتے ہیں۔ تو ایک مجلس کا مجھے شک پڑا۔ مَیں نے انہیں کہا کہ پچھلے سال کی رپورٹ لاؤ۔ مَیں نے پچھلے سال کی رپورٹ دیکھی تو وہ وہاں زیرو سے شروع کرتے ہوئے ایک extreme نمبرتک پہنچ گئے تھے، اِس سال کی پھر وہیں سے زیرو سے شروع کیا ہوا تھا۔ تو مَیں نے کہا کہ یہ تو ساراfabricateکیا ہوا ہے، کام کوئی نہیں کیا، یہ تم صرف دھوکا دے رہے ہو۔ تمہارا جہاں پچھلے سال کا endتھا، وہاں سے اگلا start ہونا چاہیے تھا، اس کی بجائے پھر زیرو سے لے کے اپنی پرفارمنس شو کرنے کے لیے انہوں نے شروع کر دیا تھا۔ تو مَیں نے کمیٹی میں recommendکروایا، صدر صاحب سے عاملہ میں recommend کرایا کہ اس مجلس کو اس competition سے ہی باہر نکال دو، یہ دھوکا دے رہے ہیں۔ حضورِانور نے سب سے اہم اور بنیادی بات کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے تاکید فرمائی کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اس بات کے لیے کام کرنا چاہیے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے، نہ کہ نمبر لگانے ہیں یا لوگوں کو خوش کرنا ہے یا جھوٹ بول کے نعرۂ تکبیر لگا دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جھوٹے نعروں کی ضرورت کوئی نہیں ہے، نہ تمہیں عَلم ِانعامی کا فائدہ ہوگا۔ حضورِانور نے مزید توجہ دلائی کہ آج کہتے ہیں کہ جی علمِ انعامی ہمیں دے دیں، اگر تو واقعی کوشش کر کے لیا اور پچھلے سال سے آگے کوئی نیا قدم بڑھایا، improvement تھی، پھر تو ٹھیک ہے۔ لیکن پچھلے سال سے زیرو سے شروع کیا اور اسّی پر پہنچ گئے اور پھر نئے سال میں back to square one پہنچ گئے، پھر نئے سرے سے collection بنانا شروع کر دیا، تو پھر یہ دھوکا ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے۔اس لیے کوشش یہ کرو کہ ہم نے جو بھی کام کرنا ہے خدا تعالیٰ کا پیار لینے کے لیے کرنا ہے، خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کرنا ہے، خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے کرنا ہے۔ اگر وہ نہیں ہے تو These are useless things، یہ فضول چیزیں ہیں۔ ایک خادم نے سوال پوچھا کہ اگر میرے اُوپر تعلیمی قرضہ نیز گھر اور گاڑی کا قرضہ بھی ہو تو کیا مَیں حج پر جاسکتا ہوں؟ اس پر حضورِانور نے اصولی راہنمائی فرمائی کہ حج کی شرائط ہیں، سفر کی سہولت موجود ہو، امن کی حالت ہو اور خرچہ وغیرہ جو کر سکتے ہیں کر سکیں، صحت اچھی ہو، یہ ساری حج کرنے کے لیے conditions ہیں۔ حضورِانور نے وضاحت فرمائی کہ اس لیے ساری عمر دن میں نمازیں پانچ وقت فرض ہیں، روزے سال میں ایک دفعہ فرض ہیں، حج ساری عمر میں ایک دفعہ فرض ہے۔اگریہrequirements پوری ہوتی ہیں تو کر لو۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مَیںmanage کر لوں گا کہ اپنے قرضے بھی اُتار دوں اور جو آپ کا وقت ہے، اس کے اندر قرضے اُتار لوں گا اور حج پر چلا جاؤں توfinanciallyمجھے over taxنہیں ہوگا، overburdened نہیں ہو جاؤں گا، تو پھر ٹھیک ہے چلے جاؤ، لیکن بہتر یہی ہوتا ہے کہ پہلے قرضے اُتارے جائیں اور پھر قرضے اُتار کے حج یا عمرہ کیا جائے۔ حضورِانور نےزور دیاکہ پانچ وقت نمازیں صحیح طرح پڑھ لو تو آپ ہی اللہ تعالیٰ قبول کر لے گا۔ حضورِانور نے ایک واقعہ کے ذریعہ انسانی نیت کے فلسفہ پر روشنی ڈالی کہ انسان کی نیت بہت اہم ہوتی ہے۔ ایک شخص نے پیسے جمع کیے، غریب آدمی تھا، کئی سال حج کرنے کے لیے پیسے اکٹھے کیے۔ لیکن اس کے بعد جب حج پر جانے لگا، تو ہمسایوں کے گھر سے اس کو گوشت پکنے کی خوشبو آئی، اس نے اپنے بچے کو بھیجا کہ جا کے ان سے تھوڑا سا سالن لے آؤ۔ہم نے بھی کئی مہینوں، کئی سال سے گوشت نہیں کھایا، تو جب وہ بچہ گیا تو اس نے کہا کہ نہیں! تمہیں نہیں دینا، یہ تمہارے کھانے والا نہیں ہے۔خیر وہ اس بچے کا باپ پھر دوبارہ ہمسائے کے پاس گیا، اس نے پوچھا کہ تم گوشت کھا رہے ہو، تو ہمارے لیے کیوں نہیں کھانے والا؟ وہ کہنے لگا کہ اس لیے کہ مجھے اور میرے بچوں کو سات دن ہو گئے ہیں کہ ہم نے کھانا نہیں کھایا۔ بھوکے تھے، مَیں باہر گیا ہوں، تو ایک گدھا مرا ہوا تھا۔ تو اس کا گوشت مَیں کاٹ کے لے آیا ہوں، مُردار کا گوشت کھانا بھوک اور مرنے کی حالت میں جائز ہے، وہ میرے لیے جائز ہے مگر تمہارے لیے نہیں۔ اس آدمی کو جس نے حج کے لیے رقم اکٹھی کی تھی، اس کو اس سے اتنا صدمہ ہوا کہ میرا ہمسایہ بھوکا رہتا تھا، مَیں نے خبر نہیں لی اور مَیں کچھ نہ کچھ تو کھاتا تھا، اس کو بھی دے دیتا۔ بہرحال اس نے جتنے پیسے حج کے جانے کے لیے اکٹھے کیے تھے، وہ اس کو جا کے دے دیے کہ تم یہ گندا کھانا پھینک دو اور جا کے پاک اور اچھا کھانا بازار سےلے آؤ اور خود بھی کھاؤ اور اپنے بچوں کو بھی کھلاؤ۔ تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک بزرگ کو مکّہ میں بتا دیا کہ اس دفعہ یہ سارے جو لوگ حج کرنے آئے ہیں ان کا کوئی حج قبول نہیں ہوا۔ صرف اُس آدمی کا حج قبول ہوا ہے۔ اور جب وہ بزرگ اُس کے پاس گیا اور پوچھا کہ تم نے ایسا کیا کیا ؟ تو اس نے کہا کہ کیا صرف یہ تھا کہ مَیں نے کئی سالوں میں پیسے اکٹھے کیے تھے، پھر مَیں نے اس بھوکے کو کھانا کھلانے کے لیے اپنے پیسے اس کو دے دیے۔ آخر میں حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ اس نے حج نہیں بھی کیا تھا تو الله تعالیٰ نے اس کا حج قبول کر لیا، اگر آپ نیک کام کر رہے ہیں اور غریبوں کا خیال رکھ رہے ہیں، نمازیں صحیح طرح پڑھ رہے ہیں، آپ کی حج کرنے کی نیک نیت ہے، تو جب اللہ آپ کو موقع دے گاتو حج بھی ہو جائے گا۔ لیکن اس سے پہلے بھی اگر نیت نیک ہوتواللہ تعالیٰ بغیر حج کیےبھی حج قبول کر لیتا ہے۔good intention ہونی چاہیے۔ ایک خادم نے عرض کیا کہ تشخیصِ بجٹ کے موقع پر بعض خدام بُرا مناتے ہیں اور ناظم مال یا قائد کو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا نجی معاملہ ہے۔ نیز عہدیداران بھی کئی مرتبہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم لوگوں سے ان کی تنخواہ وغیرہ کے بارے میں پوچھنا مناسب نہیں سمجھتے۔ حضورِانور اس سلسلے میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔ اس پرحضورِانور نے فرمایا کہ اس لیے وصیّت فارم میں بھی پہلے یہ ہوتا تھا کہ میری اتنی اِنکم (Income)ہوئی ہے اور اس پر مَیں چندہ وصیت ادا کر رہا ہوں۔ اُس وقت خلافتِ رابعہ میں پھر یہ سوال اُٹھا تھا کہ بعض لوگ اس طرح نہیں کرنا چاہتے تو انہوں نے کہا تھا کہ ٹھیک ہے۔اگر موصی ہے تو ہم یہ expectکرتے ہیں کہ وہ تقویٰ پر چلنے والا ہوگا، تو اس لیے وہ صرف یہdeclaration دے دے کہ مَیں جو چندہ دے رہا ہوں وہ میری اِنکم کے مطابق ہے۔ حضورِانور نے مزید فرمایا کہ تو اگر کوئی اِنکم نہیں بھی بتاتا، یہ کہہ دیتا ہے کہ جو مَیں چندہ دے رہا ہوں، اتنا ہی دے سکتا ہوں اور اِنکم کے مطابق دے رہا ہوں یا مَیں اتنا ہی چندہ دے سکوں گا۔ اتنا بھی کہہ دے، تو بس ٹھیک ہے، اس سے لے لو۔ اس کو اس سے زیادہ کریدنےاور پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اتنی آمد ہے اور کیوں ہے؟ حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ ان کو چھوڑ دو، آج کل ویسے ہی GDPRکا جو نیا لاء(Law) دنیا میں ہر جگہ بن گیا ہے، اس سے ویسے ہی اگر آپ کسی سے انفارمیشن لیتے ہیں اور وہ کسی طریقے سے کہیں leak ہو جاتی ہے تو وہ آپ یا جماعت پر کیس کر سکتے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ جو انفارمیشن کوئی جتنی دیتا ہے اورstatement دے کے دیتا ہے، اتنی ہی انفارمیشن لو۔ باقی تقویٰ کا معیار ہے۔اس کا معاملہ اللہ کا معاملہ۔ہاں! یہ اسے کہہ دو کہ تم دیکھ لو کہ تم نے چندہ خدا کی خاطر دینا ہے، اس لیے یا تو تم اپنی آمد بتا دو اگر تم بتا سکتے ہو اور اگرنہیں تو یہ لکھ دو کہ جو چندہ مَیں دے رہا ہوں، اپنی آمد کے مطابق دے رہا ہوں یا یہ لکھ دو کہ مَیں اتنا ہی چندہ دوں گا، اس سے زیادہ نہیں دے سکتا، میری آمد جو بھی ہو۔ حضورِانور نے آخر میں دوبارہ توجہ دلائی کہ otherwise بہت سارے آج کل کے جو دنیا کے قانون ہیں، اس میں آپ لوگ، انwestern ملکوں میں لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ جی ڈی پی آر (GDPR) کا مطلب ہے General Data Protection Regulation، یعنی عام ضابطہ برائے تحفظِ معلومات۔ یہ یورپی یونین (EU) اور یورپی اکنامک ایریا (EEA) کا ایک قانون ہے، جو مورخہ ۲۵؍ مئی۲۰۱۸ء سے نافذ العمل ہوا۔ اس کا مقصد افراد کے ذاتی ڈیٹا کا تحفظ اور ان کو یہ حق دینا ہے کہ ان کی معلومات کس طرح جمع، استعمال اور محفوظ کی جائیں۔ ادارے یا کمپنیاں صرف اجازت سے ڈیٹا لے سکتی ہیں اور اس کے استعمال کی وضاحت لازمی ہے۔ شہری اپنے ڈیٹا کو دیکھنے، درست کروانے یا حذف کروانے کا حق رکھتے ہیں، جبکہ خلاف ورزی کی صورت میں ڈیٹا رکھنے والی کمپنیوں پر بھاری جرمانے عائد ہوتے ہیں۔ اس ملاقات کا آخری پیش کیا جانے والا سوال یہ تھا کہ حضور انورکے دور ِخلافت کا سب سے مشکل وقت کون سا تھا اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے کیسے حضورِانور کی خاص مددفرمائی؟ اس پر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے فرمایاکہ سب سے مشکل وقت تو وہی تھا، جب مجھے خلیفہ بنا دیا، اس کے بعد تو اللہ میاں نے آپ ہی آسانیاں پیدا کر دیں۔ پھر مجھے بھی نہیں پتا لگا۔ اللہ میاں آپ ہی سب کام چلا رہا ہے۔ مَیں کیا بتاؤں؟ جو مشکل وقت تھا، وہ لوگوں نے دیکھ لیا، تم نے بھی کسی پرانی ویڈیو میں دیکھ لیا ہو گا۔ ملاقات کے اختتام پر تمام شاملینِ مجلس کو حضورِانور کے ساتھ گروپ تصویر بنوانے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کےنارتھ ایسٹ ریجن کے ایک وفد کی ملاقات