مَیں تمہارے لئے مقربین کی علامات بیان کروں گا۔یہ ایسے لوگ ہیں کہ جن کی روح کی شادابی کی حفاظت اللہ نے فرمائی ہے۔ وہ آسمان کا نور ، زمین کی امان اور صادقوں کے امام ہوتے ہیں۔ ’’عَلَامَاتُ الْمُقَرَّبِیْن۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔اے لوگو! اکٹھے ہو جائو، میں تمہارے لئے مقربین کی علامات بیان کروں گا۔یہ ایسے لوگ ہیں کہ جن کی روح کی شادابی کی حفاظت اللہ نے فرمائی ہے۔ وہ خشک اور کم عقل شخص کی مانند نہیں ہوتے۔ تو انہیں خوش شکل ، خوبرو اور بھرپور جوان کی طرح پائے گا اور اس شخص کی طرح نہیں پائے گا جو دق کے مریض کی طرح لاغر ہو گیا ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے سینے کھول دئیے گئے اور ان کی کمریں مضبوط کی گئیں اور ان کے نور کو تابانی عطا کر دی گئی۔ انہوں نے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دیا۔ وہ اللہ کی راہ میں کسی بھی تکلیف کی پرواہ نہیں کرتے خواہ ان کی رگ جان ہی کاٹ دی جائے۔ وہ صرف رب العالمین کی خاطر موت سے بچتے ہیں۔ خَلق ان کے دودھ سے پرورش پاتی ہے اور دل ان کے فیض سے مضبوط کردیئے جاتے ہیں۔ وہ اس بیمار بکری کی طرح نہیں جس کا دودھ بیماری سے سرخی مائل ہو گیا ہو اور نہ اس شخص کی طرح ہے جس کی آنکھوں کے پپوٹے بیماری کے باعث مستقلاً الٹ گئے ہوں۔ وہ بھڑوں ، بچھوئوں اور لومڑیوں کی سرزمین میں مبعوث کئے جاتے ہیں اور ایسے وقت مبعوث کئے جاتے ہیں جب فجار کی کثرت ہوتی ہے۔ تو انہیں آلودگیوں سے بہت زیادہ بچنے والا پائے گا۔ ان میں کوئی یبوست نہیں پائے گا اورنہ تو انہیں بخیل کی مانند پائے گا۔ تو انہیں پائے گا کہ وہ اللہ کی خاطر اور اس سے پُرخلوص محبت کے لئے اپنی جانوں کو بیچتے ہیں اور اس کی رضا کی خاطر اس کی مخلوق سے ہمدردی کرتے ہیں اور تو انہیں دلّالوں کی طرح نہیں پائے گا۔ لئیم اور کمینہ (شخص) انہیں مفتری تصور کرتا ہے حالانکہ وہ آسمان کا نور ، زمین کی امان اور صادقوں کے امام ہوتے ہیں۔ زمین ان کی ملاقات سے نفرت کرتی ہے اور آسمان ان کے دلائل کو روشنی بخشتا ہے اور وہ نافرمان لوگوں پر اللہ کی حجت ہوتے ہیں۔ انہوں نے حلف اٹھا کر اللہ سے یہ عہد باندھ رکھا ہے کہ وہ اپنے نفسوں کے تابع فرمان ہو کر نہ کسی سے محبت کریں گے اور نہ عداوت اور وہ اس بات سے بھگوڑوں کی طرح بھاگتے ہیں اور انہوں نے اپنے ظاہر و باطن کو اپنے پروردگار کے حضور پیش کر دیا ہے اور اس کی بارگاہ میں دنیا سے منقطع ہو کر آگئے ہیں۔ انہوں نے سعادت کا پھل حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو فنا کر دیا ہے اور ایک نئی پیدائش کے لئے موت قبول کر لی ہے۔ انہوں نے قضاء و قدر کے تحت تمام درپیش خطرات میں داخل ہو کر اور ان پر صبر کر کے اپنے رب کو راضی کر لیا ہے۔ انہوں نے خلوص اور مخلصین کی تمام شرائط کو ان کے تمام تقاضوں کے مطابق ادا کر دیا ہے۔ یہ (مقربین) بلاشبہ ایسے لوگ ہیں جنہیں اللہ نے اپنی ذات کی طرح مخفی رکھا ہوا ہے اور اس نے اپنے انوار ان پر برسائے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ہیئت ، اپنی پیشانیوں اور علامات سے پہچانے جاتے ہیں اور اللہ کا نور ان کے چہروں پر چمکتا ہے اور ان کے چہروں کی آب و تاب سے نظر آتا ہے۔ اور ان میں ایسی چمک ہوتی ہے جو ہَرزہ گو لوگوں کو رسوا کر دیتی ہے۔ ان کے دشمنوں کی ایک بدبختی یہ ہے کہ وہ ان (مقربین) کے متعلق بدظنی کرتے ہیں لیکن اپنی اس بدظنی کو ثابت نہیں کر سکتے اور وہ متقی نہیں ہوتے۔ وہ محض بھینگے ،، دھنسی ہوئی آنکھوں والے یا اندھے کی طرح ہیں اور بینا لوگوں میں سے نہیں۔ ان کی پیشانی سخت کھردری ہے۔ اور نفس مریل اونٹنی کی طرح ہے اور ان کے دل سیاہ ہیں اگرچہ ان کے تہہ بند خرجاء کی مانند سفید ہوں (خَرۡجَاء : ایسی بکری جس کی صرف پچھلی دونوں ٹانگیں کوکھوں تک سفید ہوتی ہیں )اور وہ اژدہا کی مانند ہیں۔ وہ اہل اللہ سے عداوت رکھتے ہیں اور وہ اپنے آپ پر ہی ظلم کر رہے ہیں۔ اگر وہ پیدا نہ ہوتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا۔ انہوں نے اپنے زمانے کے امام کو شناخت نہ کیا اور جاہلیت کی موت پر راضی ہو گئے۔ پس اس اندھی قوم پر ہلاکت! پُر آسائش زندگی کی آسودگیوں نے انہیں فریب میں مبتلا کر دیا ہے۔ پس وہ بے چینی کی ہولناکیوں اور تلخ گھونٹوں کو بھول گئے ہیں۔ انہیں زمانے کے دھکوں سے کوئی مصیبت نہیں پہنچی، یہی وجہ ہے کہ وہ زمین پر اِترا کر چلتے ہیں اور رحمان کے بندوں کے پاس سے اکڑتے ہوئے اور تکبر کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ اولیاء اللہ اس دنیوی زندگی کے عیش و عشرت سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور اللہ ہی کے لئے فقر کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے نفوس کو پاک و صاف رکھتے ہیں۔ وہ اس دنیا کے مصائب کو قبول کر لیتے ہیں اور آخرت کے جہنم سے بچتے ہیں اور اس (آخرت) کی خاطر کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان پر جب بھی کوئی مصیبت آن پڑے تو وہ عرفان الٰہی میں مزید ترقی کرتے ہیں۔ ہر سورج جو ان پر طلوع ہوتا ہے اس میں تو انہیں اس حالت میں پائے گا کہ ان کا آج ان کے گزشتہ کل سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا ہے۔وہ پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ وہ ہر دم آگے ہی آگے بڑھتے ہیں اور اللہ ان کے نور میں مزید نور کا اتنا اضافہ فرماتا ہے کہ وہ پہچانے نہیں جاتے۔ جاہل انہیں ایسے انسان تصور کرتا ہے جو آلائشوں سے آلودہ ہیں حالانکہ وہ اپنے نفسوں سے دور کئے گئے ہیں۔ جب انہیں کسی شیطانی چکر کا ذرا بھی احساس ہو تو وہ عاجزی کرتے ہوئے اپنا رخ اللہ کی جانب کر لیتے ہیں اور اس (اللہ) کی پناہ کی طرف دوڑتے ہیں تو ناگہاں وہ صاحب بصیرت ہو جاتے ہیں۔ وہ سست ہونے کی حالت میں دعا کے لئے کھڑے نہیں ہوتے بلکہ قریب ہے کہ وہ دعا کرتے کرتے ہی جان دے دیں۔ اور ان کے اس تقویٰ کی وجہ سے ان کی (دعا) سنی جاتی ہے اور وہ مددیافتہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح دعا کے وقت انہیں ضعف کے بعد قوت دی جاتی ہے اور ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور فرشتے انہیں تقویت دیتے ہیں پس وہ ہر خطا سے مصئون و محفوظ ہو جاتے ہیں اور اللہ کی جانب صعود کرتے ہیں اور اس کی رضا میں گم ہو جاتے ہیں۔ پس اللہ کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا اور وہ لوگوں کی نگاہ سے چھپا لئے جاتے ہیں۔ یہ ایک مخفی قوم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے معاملے میں ہلاک ہونے والے ہلاک ہو گئے۔ اس دنیا کے اندھے انہیں دیکھ کر ان سے استہزاء کرتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ ) کیا اس کو اللہ نے مبعوث کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ وہ (استہزاء کرنے والے) اندھے ہیں۔ ‘‘ (تذکرۃ الشہادتین مع علامات المقرّبین۔(مع اردو ترجمہ) صفحہ 50تا 55)