اس کالم میں ایسے اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ ہدیۂ قارئین کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔ ………………………… حضرت حافظ محمد قاری صاحب جہلمیؓ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10اکتوبر 2011ء میں حضرت حافظ محمد قاری صاحبؓ (یکے از 313 ) ولد نور حسین صاحب راجپوت کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ آپ حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمیؓ کے شاگرد تھے۔ گو کہ حضرت مولوی صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت پہلے کی تھی لیکن پہلے بیعت کرنے کا شرف حضرت محمد قاری صاحبؓ کو حاصل تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے پرائیویٹ سیکرٹری حضرت میاں محمد یوسف خان صاحب بیان فرماتے ہیں کہ حضرت قبلہ والد صاحب کا یہ معمول تھا کہ تہجد کبھی گھر میں اور کبھی مسجد میں ادا کرتے لیکن نماز فجر مسجد جاکر ہی ادا فرماتے جو گھر سے دُور تھی۔ مجھے بھی اپنے ہمراہ لے جاتے۔ یہ مسجد حضرت مولوی محمد قاری صاحبؓ کی تھی اور مسجد قصاباں (جہلم) کہلاتی تھی۔ جہلم میں سب سے پہلے حضرت قاری صاحبؓ ہی نے احمدیت قبول کی تھی اور اس وقت ان کی بڑی مخالفت ہوئی تھی۔ حضرت قاری صاحبؓ کی حیثیت اُن دنوں میں صرف ایک امام کی تھی اور اسی پر آپؓ کا گزارہ تھا۔ محلہ کے لوگوں نے متولّی سے شکایت کی کہ قاری کافر ہوگیا ہے اس کی جگہ اَور امام مقرر کیا جائے۔ متولّی نے دریافت کیا: قاری شہادت کیا دیتا ہے؟ لوگوں نے کہا شہادت تو یہی دیتا ہے کہ خدا ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔ پھر پوچھا: اذان کس طرح دیتا ہے اور نماز کس طرح پڑھتا ہے؟ جب اُسے یہ جواب مل گئے کہ یہ سب کچھ وہی ہے جو پہلے تھا تو اس نے لوگوں کو جواب دیا کہ ان حالات میں مَیں اسے الگ نہیں کر سکتا تمہاری مرضی ہے تو نماز پڑھو ورنہ نہ پڑھو۔ یہ پہلی نصرت تھی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مومن بندے کی فرمائی۔ اس کے بعد حضرت قاری صاحبؓ اکیلے ہی اذان دے کر نماز پڑھ لیتے تھے لیکن جن دنوں میں مَیں نے آپؓ کو دیکھا اُن دنوں آپؓ کی مسجد میں نمازیوں کو نماز پڑھنے کے لیے جگہ نہ ملتی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی کتب ’’آریہ دھرم‘‘، ’’سراج منیر‘‘، ’’تحفہ قیصریہ‘‘ اور ’’کتاب البریہ‘‘ میں شامل مختلف فہرستوں میں حضرت حافظ صاحبؓ کا نام بھی درج فرمایا ہے۔ نیز کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں درج 313کبار صحابہ میں بھی آپ کا نام 176نمبر پر شامل فرمایا ہے۔ حضرت حافظ محمد قاری صاحبؓ نے 10؍اکتوبر 1909ء کو جہلم میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپؓ کا یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔آپؓ کی ایک بیٹی نے 1904ء میں وفات پائی تھی جو حضرت حیدرشاہ صاحب سب پوسٹ ماسٹر جہلم ابن بابو نظام شاہ صاحب سٹیشن ماسٹر چکر کوٹ ضلع کوہاٹ کے ساتھ بیاہی ہوئی تھیں۔ …٭…٭…٭… محترم ملک محمد عبداللہ صاحب انجینئر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍اکتوبر 2011ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرم پروفیسرمرزا مبشر احمد صاحب نے اپنے خسر محترم مکرم ملک محمد عبداللہ صاحب انجینئر کا ذکرخیر کیا ہے۔ آپ نے 28 مارچ 1993ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ اس سے پیشتر آپ کی زوجہ محترمہ غلام زہرہ صاحبہ نے بھی 28 مارچ کو ہی 1989ء میں وفات پائی تھی۔ دونوں اسلام آباد (پاکستان) کے احمدیہ قبرستان میں مدفون ہیں۔ محترم ملک محمد عبداللہ صاحب نہایت شریف النفس، بااخلاق، ملنسار، سچائی پر سختی سے قائم، احمدیت سے گہری وابستگی رکھنے والے اور مہمان نواز تھے۔ قیام پاکستان کے وقت آپ سرینگر میں تعینات تھے جبکہ آپ کے بچے جموں میں رہائش پذیر تھے۔ جموں سے پاکستان ہجرت کرتے ہوئے آپ کے دو بھائی، تین سالے اور دو ہم زلف (ایک ہم زلف مع اپنے تمام بیوی بچوں کے) شہید ہو گئے۔ جبکہ آپ کا کم سِن بیٹا بھی یا تو شہید ہو گیا یا سکھ اٹھا کر لے گئے۔ اس موقع پر سارے خاندان نے بہت صبر کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان آکر آپ نے پہلے MES میں اور وہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد ریپکو (REPCO) میں خدمات سرانجام دیں۔ جب خاکسار کی شادی 1967ء میں آپ کی بیٹی سے ہوئی تو چند روز کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ آپ غیرمبائع ہیں (جبکہ میری خوشدامن صاحبہ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتی تھیں ) البتہ یہ امر خوش کن تھا کہ ملک صاحب موصوف حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا ذکر بڑے احترام کے ساتھ کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا مطالعہ بھی مستقل کر تے تھے۔ اس دوران آپ کا تبادلہ ایبٹ آباد ہوگیا تو خاکسار نے وہاں کے مربی مکرم مولانا چراغ دین خان صاحب مرحوم کا تعارف آپ سے کروادیا اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں بھی آپ کے بارہ میں تفصیلی عریضہ تحریر کیا۔ خوش قسمتی سے انہی دنوں حضورؒ موسم گرما گزارنے کے لئے ایبٹ آباد تشریف لائے تو اس کا علم ہونے پر میرے خسر نے حضورؒ سے ملاقات کے لئے بے حد اشتیاق کا اظہار کیا۔ چنانچہ ہم دونوں جمعہ کی ادائیگی کے لئے حضور کی قیامگاہ پہنچے۔ نماز کے بعد حضور کھڑے ہو کر احباب سے مصافحہ فرمانے لگے۔ میرے خسر محترم کی باری آنے پر محترم مولانا چراغ دین صاحب نے تعارف کے طور پر کہا کہ ان کا نام ملک محمد عبداللہ ہے یہ یہاں انجینئر ہیں اور غیرمبائع ہیں۔ اس پر حضورؒ نے بلند آواز میں مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’غیر مبائع تھے۔ کیوں ملک صاحب ٹھیک ہے نا…!‘‘۔ میرے خسر محترم کے چہرے پر خاص چمک ظاہر ہوئی اور آپ نے نہایت خندہ پیشانی سے عرض کیا: جیسے حضور فرمائیں۔ گھر پہنچنے پر خسر محترم نے بے حدخوشی کے ساتھ سارا واقعہ گھر والوں کو سنایا۔ بعد ازاں محترم ملک محمد عبداللہ صاحب جمعہ کی نماز میں اور مغرب کے وقت حضور کی مجلس عرفان میں شرکت کرنے لگے۔ اس دوران آپ گاہے بگاہے غیرمبائعین کے مرکز واقع ایبٹ آباد بھی جاتے تھے۔ ایک بار آپ نے وہاں ڈاکٹر سعید احمد صاحب سے (جو بعد میں غیرمبائعین کے امیر بھی بن گئے) استفسار کیا کہ جب حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات میں بیٹے کا ذکر آتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد روحانی اولاد ہے مگر حضورؑ کا یہ الہام کہ ہم تیرے بیٹے اور پوتے کو برکت دیں گے، یہاں پوتے سے کیا مراد ہے۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے نہایت روکھے انداز میں کہا کہ مَیں نے خواب میں دیکھ لیا ہے کہ آپ کی بیٹی اور داماد آپ کو دوسری طرف کھینچ رہے ہیں اس لئے آپ سے بات کرنا بیکار ہے۔ میرے خسر محترم نے اگرچہ بہت کہا کہ وہ مطالعہ کے نتیجہ میں اٹھنے والے سوالات کے تشفّی بخش جوابات چاہتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس سلسلہ میں مزید بات کرنے سے قطعی طور پر انکار کردیا۔ دوسری طرف ملک صاحب موصوف حضورؒ کے ساتھ نجی ملاقاتوں اور مجالس عرفان کے دوران اپنے بیشتر سوالات کے تسلی بخش جوابات پا چکے تھے۔ چنانچہ آپ نے حضور کی خدمت میں ایک سے زیادہ بار عرض کیا کہ اگر حضور ارشاد فرماتے ہیں تو میں بیعت کرلیتا ہوں۔ حضورؒ استفسار فرماتے کہ کیا آپ کی مکمل تسلی ہو گئی ہے۔ آپ عرض کرتے کہ کچھ سوال باقی ہیں۔ اس پر حضورؒ فرماتے کہ جب مکمل انشراح صدر ہو جائے تو پھر بیعت کر لیں۔ اگرچہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے آپ کا تعلق گہرا ہوتا جا رہا تھا مگر بیعت میں تاخیر ہو رہی تھی۔ ایک دفعہ محترم ملک صاحب نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کو چائے کے لئے گھر پر مدعو کیا اور وہاں تین سوالات بھی پیش کئے جن کے تشفّی بخش جوابات پا کر بہت مطمئن ہوئے۔ چنانچہ اُنہی دنوں خاکسار نے آپ کو ایک طویل عریضہ لکھا جس میں یہ گزارش کی کہ اب جبکہ آپ کے مطابق آپ کی 95% تشفّی ہوچکی ہے تو بیعت میں تاخیر مناسب نہیں۔ موت کے وقت کا کسے علم ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے خدانخواستہ آپ کو اچانک بلا لیاتو آپ کے پاس بیعت نہ کرنے کا کیا جواز ہوگا؟۔ اس درد بھرے عریضے کے چند روز بعد آپ نے بیعت کی سعادت پالی۔ ملک صاحب کی بیعت پر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ مولانا محمدیعقوب صاحب ’’ایڈیٹر لائٹ‘‘ کی گزشتہ سال ہونے والی بیعت پر غیرمبائعین کہتے تھے کہ ہمیں ان کے بیمار جسم کی کیا ضرورت تھی، اچھا ہؤا انہیں ربوہ جماعت والے لے گئے ہیں۔ مگر عبداللہ صاحب تو صحتمند جسم کے مالک ہیں ، اِن کے بارہ میں وہ کیا کہتے ہیں !۔ اگلے جلسہ سالانہ کے موقع پر خاکسار نے حضورؒ سے شرف ملاقات حاصل کیا تو حضورؒ نے متبسّم چہرے کے ساتھ فرمایا: ’’مبشر اب تو خوش ہو‘‘۔ میری خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا کہ حضور کو نہ صرف خاکسار کا نام یاد ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہے کہ خاکسار ملک صاحب موصوف کی بیعت کے لئے متفکّر اور کوشاں رہا تھا۔ بیعت کے بعد ملک صاحب کا حضورؒ کے ساتھ ان کی زندگی کے آخری لمحات تک گہرا تعلق رہا۔ حضورؒ نے آپ کو ازراہ شفقت اپنی د ستخط شدہ تصویر، کچھ کتب اور اپنی جرسی وغیرہ بھی مرحمت فرمائی۔ ملک صاحب موصوف Chain Smoker تھے اور ان کے بائیں ہاتھ کی دو انگلیاں درمیان میں سیاہ ہو گئی تھیں۔ بیعت کرنے کے بعد آپ کے دل میں خیال آیا کہ سگریٹ پینے سے میرے منہ میں بو پیدا ہوتی ہے اور پھر اسی منہ سے قرآن شریف اور درود پڑھتا ہوں۔ اس خیال سے طبیعت بہت بے قرار رہنے لگی تو ایک روز ہونٹوں سے سگریٹ نکال کر میز پر رکھ دیا اور سگریٹ نوشی ترک کرنے کا بلند آواز میں اعلان کر دیا۔ اس کے بعد چند دن بڑی تکلیف میں گزرے۔ سارا سارا دن ٹہلتے رہتے، راتیں بھی بے خوابی کی نذر ہو گئیں۔ مگر آپ نے یہ تکلیف دہ وقت نہایت استقامت کے ساتھ گزارا اور سگریٹ نوشی مستقل طور پر ترک کر دی۔ …٭…٭…٭… مکرم فتح محمد صاحب بھٹی روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10اکتوبر 2011ء میں مکرم سراج الحق قریشی صاحب کے قلم سے مکرم فتح محمد صاحب بھٹی کارکن سوئی گیس دفتر جلسہ سالانہ ربوہ کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ محترم فتح محمد بھٹی صاحب 27ستمبر 2011ء کی شام ہارٹ اٹیک کے نتیجہ میں 61سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ آپ ایک مخلص ، ایماندار ، محنتی اور خدمت کا جذبہ رکھنے والے کارکن تھے۔ اپنے ساتھی کارکنان میں ہردلعزیز تھے اور شریف النفس ، ہمدرد اور مہمان نواز کے طور پر مشہور تھے۔ آپ کو دفتر جلسہ سالانہ ربوہ میں تقریباً 39 سال بطور مکینک خدمات بجالانے کی توفیق ملی۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند اور دینی کاموں میں پورے خلوص اور جذبہ سے حصہ لینے والے نیک فطرت انسان تھے۔ ہر سال باقاعدگی سے رمضان المبارک کے روزوں کے ساتھ شوال کے روزے بھی رکھا کرتے تھے۔ آپ کا تعلق وتہ خیل ضلع میانوالی سے تھا۔ گائوں میں بعض نامساعد حالات کی بِنا پر آپ اپنی و الدہ اور چھوٹے بھائی مکرم گل خان صاحب کو لے کر ربوہ منتقل ہوگئے اور یہاں جماعت کے حسن اخلاق اور اعلیٰ تعلیمات سے متأثر ہو کر اس گھرانہ نے احمدیت قبول کی۔ اس پر آپ کے خاندان اور علاقہ کے لوگوں نے نہ صرف شدید مخالفت شروع کردی بلکہ مقدمات بھی قائم کئے اور آپ کو تشدّد کا نشانہ بنانے کے علاوہ جان لینے کی بھی کوشش کی۔ لیکن آپ نے انتہائی جوانمردی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ مرحو م نے اپنے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بھتیجے اور ایک بھتیجی اور ایک شادی شدہ بہن چھوڑی ہے۔ آپ اپنے بھتیجوں اور بھتیجی کے کفیل بھی تھے۔ …٭…٭…٭… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12ستمبر 2011ء میں مکرم قریشی داؤد احمد ساجد صاحب کا کلام شائع ہوا ہے۔ اس کلام میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: ہیولہ نُور کا مٹی کے گھر میں رہتا ہے میرے خیال میں قلب و نظر میں رہتا ہے وہ بولتا ہے تو ٹھہرا ہوا سمندر ہے نگاہِ دُوربیں گویا سفر میں رہتا ہے دہر کے لوگ اگرچہ نہ اس کو پہچانیں پر اس کا تذکرہ تو بحر و بر میں رہتا ہے ہے ان کے واسطے وہ حضرت خضر کی طرح نصیب جن کا کہ مدّوجزر میں رہتا ہے جلا کے دیپ میرے دل میں اپنی یادوں کے قریب یوں میرے شام و سحر میں رہتا ہے اُٹھیں جو ہاتھ تو مانگوں دعا اسی کے لئے وہ میری سوچ میں اور چشمِ تر میں رہتا ہے