اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِؕ وَنَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَالۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً ؕ وَاِلَیۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ۔(الانبیاء:۳۶) یعنی ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور ہم تمہیں شر اور خیر کے ذریعہ سخت آزمائیں گے اور ہماری طرف ( ہی) تم لوٹائے جاؤ گے۔ ۱۱؍مئی ۲۰۲۵ء کو اتوار کے روز سید میر محمود احمد ناصر صاحب کی ۹۶؍سال کی عمر میں ربوہ میں وفات ہوئی۔ اسی روز مسجد مبارک ربوہ میں ہزاروں افراد جماعت نے ان کی نمازجنازہ پڑھی اور بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ خاص میں ان کی تدفین ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۶؍مئی کا خطبہ جمعہ زیادہ تر ان کی اعلیٰ تعلیم و تربیت نوخیز عمر میں وقف زندگی اور بے مثال وفا و اطاعت امام اور اوصاف حمیدہ اور مسلسل اور بے لوث خدمت دین پر دیا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ اس مضمون میں اس نیک فطرت وجود، عالم باعمل، عالم بے بدل، درد مند دل، معمور الوقت وجود، خلافت کے جاں نثار اور انتہائی وفا دار سلطان نصیر سید زادے کے ساتھ وابستہ چند یادوں کو پیش کرنا مقصود ہے۔ وما توفیقی الا باللّٰہ خاندانی پس منظر: انسان کی پہچان اس کے خاندان اور آباءواجداد سے ہوتی ہے۔ آپ کے جدّامجد حضرت سید میر ناصر نواب صاحبؓ کی صاحبزادی سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ (جو بعد میں حضرت اماں جان کے نام سے موسوم ہوئیں) کا نکاح حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودؑ سے ہوا۔ محترم سید میر محمود احمد ناصر حضرت سید میر محمد اسحاق صاحبؓ (ابن حضرت سید میر ناصر نواب صاحبؓ) کے چھوٹے بیٹے اور حضرت مصلح موعود مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ و حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ (چھوٹی آپا) کے داماد تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ہاں جب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدؒ پیدا ہوئے تو حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی طرف سے جماعتوں کے دورے پر تھے۔ انہوں نے اپنے منظوم سفر نامہ میں لکھا: وہ نکل آئے پر جو تھے مستور اب میں پر نانا ہو گیا مشہور میرے پودوں میں پھل لگائے خدا مجھ کو دادا بھی اب بنائے خدا اس لحاظ سے سید میر محمود احمد ناصر صاحب بھی اپنے دادا کی اس دعا کا ثمرہ تھے۔اور ان کے سب سے چھوٹے پوتے تھے۔ علم و معرفت میں کمال: سید میر محمود احمد ناصر بلاشبہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے علم و معرفت میں کمال حاصل کیا اور خلیفہ وقت کے ساتھ سلطان نصیر بن کر وفا اور اطاعت و محبت میں بھرپور خدمت دین کی توفیق پائی۔ آپ کے اندر عباد الرحمٰن کی علامات پائی جاتی تھیں جن کا سورۃ الفرقان کے آخری رکوع میں ذکر ہے۔ خلافت سے اخلاص و وفا: آپ ہر کام میں ہمیشہ خلیفہ وقت کو مقدم رکھتے تھے۔ جس طرح آپ کے باپ دادا حضرت مسیح موعودؑ اور بعد میں خلفاء کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق رکھتے تھے اسی اسلوب پر چل کر آپ نے اپنی ساری زندگی گزاری اور خلیفہ وقت کا سلطان نصیر اور دست وبازو بن کر خدمت دین کی توفیق پاتے رہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے عشق میں تو آپ کو ہمیشہ سرشار پایا اور آگے آنے والے خلفاء کے مقام عزت و تکریم کو ہمیشہ پیش نظر رکھا اور ہر امر میں ان کو مقدم رکھا۔ خلیفہ وقت سے ہمیشہ ایک قدم پیچھے چلتے۔ تصویر میں عنوان لگاتے ہوئے پہلے خلیفہ وقت کا نام لکھتے اور باقی افراد جو تصویر میں ہوتے ان کو بعد میں لاتے۔ جامعہ احمدیہ کا وقار: آپ کی زندگی کا ایک لمبا عرصہ جامعہ احمدیہ میں پروفیسر اور پھر بطور پرنسپل گزرا۔ آپ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ یہ عاجز اس وقت مظفرگڑھ کا امیر ضلع تھا جب اس ضلع کا ایک لڑکا جامعہ میں داخل ہوا اور غالباً قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جامعہ سے فارغ کر دیا گیا۔ اس کا باپ روتا پیٹتا ہوا اس عاجز کے پاس ربوہ آیا کہ میر صاحب کو سفارش کروں۔ اس عاجز نے میر صاحب کو عرض کی کہ اس بچے کو معاف کر دیں اور یہ بھی کہہ دیا کہ وہ بہت لائق لڑکا ہے۔ بڑے جوش سے فرمایا ’’سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمیں لائق نہیں مخلص لڑکے چاہئیں۔‘‘ جامعہ کا معیار: ایک مرتبہ شوریٰ کے اجلاس میں ( جس میں یہ عاجز بھی شامل تھا) جامعہ کے معیار پر تنقید کی گئی۔ آپ سے برداشت نہ ہوا اور آپ مائیک پر آکر قدرے بلند آواز میں بول پڑے کہ جس معیار کے بچے آپ لوگ جامعہ کو دیں گے اسی معیار کے وہ مربی بن کر نکلیں گے۔ آپ لائق بچوں کو آکسفورڈ اور بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں بھیج دیتے ہیں اور بعض نالائق اور بگڑے ہوئے بچے جامعہ بھیج دیتے ہیں جو جامعہ کا ماحول بھی خراب کر جاتے ہیں۔ اب بھی پہلے بزرگوں مولانا جلال الدین شمس اور مولانا ابو العطا جالندھری کے معیار کے لوگ جامعہ سے مربی بن کر نکلتے ہیں۔ جامعہ احمدیہ سے آپ کی محبت: اس عاجز کے والد میاں فضل الرحمٰن بسمل صاحب بی اے بی ٹی ٹیچر تھے اور گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ میں پڑھاتے رہے۔ ۱۹۷۴ء کے ہنگاموں کے دوران والد صاحب امیر جماعت بھیرہ تھے جب معاندین کے مشتعل ہجوم نے والد صاحب کے گھر پر حملہ کیا والد صاحب زخمی ہو گئے سامان لوٹ لیا گیا یا جلا دیا گیا۔ ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کے فیصلے کے بعد اس عاجز کے والدین ربوہ آگئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒنے والد صاحب کو وقف بعد از ریٹائرمنٹ سکیم کے تحت جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعینات کر دیا جہاں وہ چند سال انگریزی، فارسی اور اردو پڑھاتے رہے۔ اُس وقت پرنسپل ملک سیف الرحمٰن صاحب تھے۔ بعد ازاںوالد صاحب کی آخری بیماری کے دوران اس عاجز نے مسجد اقصیٰ ربوہ میں جمعہ پر دعا کے لیے اعلان کروایا۔ اس وقت میر صاحب جامعہ کے پرنسپل تھے۔ جمعہ کے بعد آپ فضل عمر ہسپتال والد صاحب کی تیمار داری کے لیے کمرے میں تشریف لائے اور فرمایا ان کو پہلے علم نہیں تھا کہ اس عاجز کے والد صاحب جامعہ میں پڑھاتے رہے ہیں آج جمعہ پر اعلان سن کر علم ہوا ہے اور اس لیے والد صاحب کو ملنے اور حا ل پوچھنے آگیا ہوں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت درد مند دل دیا ہوا تھا اور خادمین سلسلہ سے آپ کو گہری ہمدردی تھی۔ حضرت مسیح موعوؑد کی ہینڈ سٹک: ایک بار ریسرچ سیل میں یہ عاجز اپنے ایک دوست کے ساتھ آپ سے ملاقات اور دعا کے لیے گیا۔ آپ نے پندرہ منٹ دیے۔ ملاقات کے دوران اس عاجز نے بھیرہ کے ایک صحابی حضرت قریشی غلام حسین صاحبؓ کا ذکر چھیڑ دیا جن کو حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ہاتھ اپنی ہینڈ سٹک تحفہ کے طور پر بھیجی تھی۔ کہتے ہیں خلافت ثانیہ کے آغاز پر مولوی محمد علی صاحب ان کے پاس آئے اور کہنے لگے دیکھیں! حضرت مسیح موعود نے فلاں فلاں وقت یہ فرمایا تھا لیکن اب صاحبزادہ صاحب اس سے متضاد یوں یوں کہتے ہیں۔ قریشی صاحب نے جواباً فرمایا مولوی صاحب آپ تو مسیح موعودؑ کا مقام گرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور میں تو اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب صاحبزادہ (مرزا بشیر الدین محمود احمد) صاحب بھی نبوت کا دعویٰ کریں اور میں سب سے پہلے ان کی بیعت کروں ۔ اس پر مولوی محمد علی صاحب اپنے مشن میں ناکام ہو کر رخصت ہو گئے۔ یہ روایت اس عاجز نے اپنے والد صاحب سے کئی بار سنی تھی۔ میر صاحب سن کر بہت محظوظ ہوئے۔ جب اس عاجز نے بتایا کہ حضرت مسیح موعودؑکی ہینڈ سٹک ان کے پوتے کے گھر سرگودھا میں اب تک محفوظ ہے تو میرصاحب فرمانے لگے بس اب آپ کی ڈیوٹی ہے کہ آپ مجھے وہ ہینڈ سٹک لا کر دکھائیں۔ یہ لوگ اس عاجز کے جاننے والے تھے اور قریشی صاحب کے پوتے قریشی احمدحسن صاحب جن کے گھر میں چھڑی تھی ان سے چند سال پہلے علی پور (مظفر گڑھ) میں مل چکے تھے بلکہ جب ان کو یہ علم ہوا کہ ان کاہم وطن مظفر گڑھ کا امیر ضلع ہے تو فرط مسرت میں عاجز کو چومنے لگے۔ وہ تو فوت ہوچکے تھے ان کی بیگم شمیم اختر صاحبہ بنت ملک عبد اللہ صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ بھیرہ جن سے بچپن سے جان پہچان تھی وہ ہینڈسٹک ان کےپاس تھی اور وہ سٹک کے سلسلے میں کسی پر اعتماد نہیں کرتی تھیں وہ خود کار پر فیصل آباد سے سرگودھا جا رہی تھیں۔ ان کے بیٹے نے بتایا ہمارے پاس ۱۵؍منٹ ہیں آپ نے جس کو سٹک دکھانی ہے دکھا لیں۔ چنانچہ یہ لوگ اس عاجز کے غریب خانے پر ہینڈسٹک سمیت ربوہ پہنچ گئے۔ اتفاق سے سید کمال یوسف صاحب ناروے سے ربوہ آئے ہوئے تھے اور عاجز نے ان کو چائے پر مدعو کیا ہوا تھا۔ پہلے ہم نے میر صاحب سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی اور پھر ہم سب بیت الصفہ میر صاحب کو ہینڈ سٹک دکھانے پہنچ گئے۔ میر صاحب کے کمرے میں دیوار پر ہینڈ سٹک کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑکی تصویر لگی ہوئی ہے یہ ہینڈ سٹک بالکل اس سٹک کی طرح کی تھی جس سے یہ تصدیق بھی ہوگئی کہ یہ سٹک حضرت مسیح موعود ؑکی ہی تھی۔ اس موقع پر ہم نے ہینڈ سٹک کے ساتھ میر صاحب کی کئی تصاویر بھی لیں۔( اس پر اس عاجز کا ایک تفصیلی مضمون مارچ اپریل ۲۰۲۵ء کے رسالہ انصار الدین لندن میں چھپ چکا ہے۔) خشوع و خضوع: آپ کو مسجد مبارک ربوہ میں کئی بار سنتیں اور نوافل پڑھتے دیکھا۔ آپ پر اکثر خشوع و خضوع کا عالم طاری ہوتا تھا اور دنیا و ما فیھا سے بے نیاز ہوکر خدا سے مناجات کر رہے ہوتے تھے۔ اسی طرح کئی بار آپ کو بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ خاص میں دیکھا۔ حضرت اماں جانؓ اور مصلح موعود ؓکی قبریں ساتھ ساتھ ہیں۔ وہاں انہیں ہاتھ اٹھا کر خشوع وخضوع کے ساتھ لمبی دعائیں کرتے ہوئے دیکھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ میں خاص طور پر آپ کے خشوع و خضوع کا ذکر فرمایا ہے۔ آپ بلاشبہ ان مومنوں میں سے تھے جن کے بارے میں سورۃ المؤمنون کے شروع میں فرمایا گیا ہے : اَلَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ۔(المؤمنون:۳) قادیان دارالامان: جلسہ سالانہ قادیان پر اس عاجز کو چند بار جانے کا موقع ملا۔ آپ کا بچپن قادیان میں گزرا تھا۔ آپ عموماً اپنے شاگردوں اور زائرین جلسہ کو قادیان کے مقامات مقدسہ اور قبل از ہجرت پاکستان قادیان کے تاریخی مقامات کی نشان دہی کر رہے ہوتے تھے۔ایک رنگ میں تعلیمی دورہ بھی ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ یہ عاجز بھی اس علمی دورے میں ساتھ ہولیا آپ کے ایک بھانجے سید حسین احمد صاحب اور آپ کے ایک دو بچے بھی شامل تھے۔ آپ نے اس عاجز کو مسجد اقصیٰ جاتے ہوئے اپنے گھر کی بھی نشاندہی فرمائی تھی۔ حیاتِ ناصر کی تصنیف: اس عاجز کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہدایت پر نافلہ موعود حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ پر کتاب لکھنے کا ستمبر ؍ اکتوبر ۱۹۸۷ء میں کام ملا تھا۔ اور اس کے لیے پروفیسر چودھری محمد علی صاحب اور صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب پر مشتمل نگران کمیٹی مقرر کی گئی۔ اس عاجز کو کہا گیا کہ یہ کام ایک سال میں ختم کرنا ہے اور ۱۹۸۹ء میں صد سالہ جوبلی کے موقع پر اس کتاب کو شائع کرنا ہے۔ ایک سال بعد اس عاجز نے حضورؒ کو خط لکھا کہ اس کمیٹی کی نگرانی میں ساری کتاب مکمل کرنا تو مشکل ہے۔ اس لیے سوانح فضل عمر کی طرز پر انتخاب خلافت تک جلداول مکمل ہو سکتی ہے۔ اس پر حضورؒ نے سید میر محمود احمد ناصر صاحب (جو اس وقت پرنسپل جامعہ احمدیہ اور وکیل التصنیف تھے) کو لکھا کہ چند علماء کا بورڈ بٹھا کر اسے فائنل کیا جائے۔ چنانچہ میر صاحب نے اس عاجز کو خط لکھا کہ مسودہ کی فائلیں لے کر ان کو ملوں۔ یہ عاجز اپنی نگران کمیٹی کو بتا کر دو ضخیم باکس فائلیں لے کر میر صاحب کو جامعہ احمدیہ میں ملا۔ آپ نے علماء کا ایک بورڈ تشکیل دیا جو حافظ مظفر احمد صاحب، عبد السمیع خان صاحب اور مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری پر مشتمل تھا۔ بورڈ کے پہلے دو ارکان نے جو اس وقت جامعہ میں پڑھا رہے تھے چند بیٹھکوں میں مسودےپر غورکیا اور دس پوائنٹ بنا کر آپ کو دیے۔ آپ نے اس عاجز کو فرمایا کہ ہم نے ایک خاص زاویے سے جائزہ لینا تھا اور ہم نے اپنی رائے حضور کو بھیج دی ہے۔ جو حضور کی طرف سے ارشاد آئے گا اس عاجز کو بلاکر بتادیں گے۔ اس سے پہلے اس عاجز کو کچھ نہیں بتائیں گے۔ خیر عاجز دعائیں کرتا رہا بالآخر میر صاحب نے اس عاجز کو بلوایا اور چھوٹے چھوٹے دو پوائنٹس کی تصحیح کے لیے کہا جن پر حضورؒ نے کمنٹ کیا تھا۔اس عاجز نے فوری تصحیح کر دی اور کہا کہ اب مسودہ اپنی نگران کمیٹی کے پاس لے جائیں۔ اس وقت اس عاجز کو احساس ہوا کہ آپ کوئی فیصلہ حضور سے بالا بالا نہیں کرتے۔ اپنی آرا کو حضور کی رائے کے تابع رکھ کر کام کرتے ہیں۔ آپ خلیفہ وقت کے حقیقی سلطان نصیر تھے۔ معمور الاوقات شخصیت: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام انت الشیخ المسیح الذی لا یضاع وقتہ کی روشنی میں آپ بہت معمور الاوقات تھے۔ حیاتِ ناصر کی تصنیف کے دوران اس عاجز نے ایک بار لکھ کر نگران کمیٹی کے ممبران اور آپ کو اپنے گھر روزہ افطار کرنے کی دعوت دی۔ افطاری سے تقریباً نصف گھنٹہ قبل سائیکل پر تشریف لائے اور فرمایا یہ وقت آپ نے دعاؤں کے لیے مقرر کیا ہوا ہے اس لیے آپ صرف معذرت کرنے آئے ہیں۔ یہ کہہ کر آپ چلے گئے۔ شمائل نبویؐ پر کتب اور درس: آپ نے احادیث پر مشتمل شمائل نبویؐ پر چھوٹی چھوٹی کتابیں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا اور کچھ جلدیں آپ اس عاجز کو بھی بھجواتے رہے۔ اس سے آپ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور محبت کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپ کے دروس حدیث بھی سننے کا موقع ملتا رہا۔ قرآن کریم کی کسی آیت سے جوڑ کر آپ لمبی لمبی حدیثیں نہایت روانی سے عربی میں پڑھتے اور نہایت احسن رنگ میں اردو ترجمہ کر کے سمجھاتے۔ کہتے ہیں حدیث کا درس اور اسلوب بیان آپ کو اپنے والد محترم حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ سے گویا ورثے میں ملا تھا۔سنا ہے کہ آپ کے والد صاحب کا درس حدیث کچھ اس طرز کا ہوتا تھا کہ سامعین محسوس کرتے کہ دربار نبوی میں پہنچ گئے ہیں۔ دعا کے لیے خطوط: یہ عاجز خلیفہ وقت کے بعد جن چیدہ چیدہ بزرگان سلسلہ کو خط لکھتا رہا ہے ان میں سے ایک آپ تھے۔ آپ کی خواہش تھی کہ احباب صرف خلیفۃ المسیح کو خط لکھا کریں۔ ممکن ہے ایسے خط حضور کو بھیج دیتے ہوں ایک خط کے حاشیے پر جو عبارت آپ نے لکھ کر خط واپس کیا اس سے یہی معلوم ہوتا تھا تا ہم یہ عاجز آخر تک ان کے صاحبزادے کو واٹس ایپ پر لکھ کر سلام پہنچانے اور دعا کرنے کی درخواست کرتا رہا اور ان کی طرف سے اکثر جواب آجاتا کہ ابا کو اس عاجز کا سلام اور پیغام پہنچا دیا ہے۔ آپ کی داستانیں ایک کھلی کتاب کی طرح انگلستان امریکہ اور سپین میں بکھری ہوئی ہیں جہاں آپ مبلغ رہے اور ملک ملک آپ کے شاگرد مربیان کے ذریعہ پھیلی ہوئی ہیں جنہوں نے آپ سے علم حاصل کیا اور سلسلہ کا کار آمد وجود بن کر خلیفہ وقت کی نگرانی میں اسلام کا نور دنیا کے کونے کونے میں پھیلا رہے ہیں۔ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء واللّٰہ ذوالفضل العظیم۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: بےجا تنقید، اعتراضات اور نکتہ چینی کی روِش اخلاقی تنزلی کی علامت