دنیا میں کوئی مسئلہ اور کوئی شخص ایسا نہیں جس پر اعتراض نہ ہو (المصلح الموعودرضی اللہ عنہ) عیب تراشو! غیب شناسو! تم بھی کبھی آرام کرو نا (اشکوں کے چراغ) ہر علاقے، ہر ملک، ہر قوم اور ہر مذہب میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کی طبیعت اورمزاج میں ایسی جلد بازی پائی جاتی ہے کہ کسی بھی گفتگو اور کلام کو سنتے ہی، کسی تحریر کو اول اول دیکھتے ہی، اس پر غور و فکر کیے بغیر فوراً نکتہ چینی اور اعتراض کرنا شروع کر دیں گے۔ ان کی یہ عادت اکثر اوقات انہیں حق گوئی اور حق قبول کرنے سے محروم کر دیتی ہے اور معاشرے کا امن و سکون الگ سے برباد ہو جاتاہے۔ ایسے ہی کچھ مزاجوں اور رویوں پر مبنی چند دلچسپ ومفید واقعات پیش کیے جارہے ہیں تاکہ ہم ایسے واقعات کو پڑھ کر سبق حاصل کریں۔ انبیاءآئینہ کا حکم رکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:مولوی ابو یوسف محمد مبارک علی صاحب کے والد مرحوم نے ایک بار مجھ سے ذکر کیاکہ ایک ہندو ان کے پاس آیا کرتا تھا۔جو اسلام سے رغبت رکھتا تھا۔کچھ عرصہ کے بعد وہ کشمیر سے آیا اور اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اب میں پکا ہندو ہو گیا ہوں۔لیکن پھر عرصہ کے بعد جو اس کو دیکھا تو وہ عیسائی ہو گیا تھا۔جب اس سے وجہ پوچھی ۔تو اس نے کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھا تھا۔جس میں آنحضرتﷺ کو ایک تاریک کوٹھڑی میں دیکھا اور اس میں آگ جل رہی تھی (لعنةاﷲ علیہ) گویا خبیث نے اس کو دوزخ سمجھا۔اور اس کے گرد پادریوں کو دیکھا۔اس سے میں نے نتیجہ نکالا کہ پادری حق پر ہیں۔اور آپﷺ (معاذاﷲ) مغلوب ہو رہے ہیں۔ مولوی صاحب کو تعبیر کا علم نہ تھا۔مجھ سے جب انہوں نے کہا تو میں نے کہا کہ اس کی یہی تعبیر ہے۔جو حالت اس شخص کی ہوئی؛چنانچہ تعطیر الانام میں ایسا ہی لکھا ہے۔کہ جب کسی نبی مامور و مرسل کو ردی حالت میں دیکھتا ہے۔مثلاً مجذوم دیکھتا ہے یا برہنہ دیکھتا ہے یا یہ کہ وہ بُری غذا کھاتے ہیں،تو سب اس کے اپنے ہی حالات ہوتے ہیں ۔ انبیاءآئینہ کا حکم رکھتے ہیں اور اس کی اصلی صورت دکھادیتے ہیں۔اور یہ بات ہماری اپنی تجربہ کردہ ہےکہ جب کوئی آدمی کسی مامور و مرسل کو بُری حالت میں دیکھتے ہیں تو جلدی ہی ان کی وہ حالت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی عقوبت کے دن قریب ہوتے ہیں۔یہ میرے مجربات سے ہے۔ نووارد مولوی حامد حسین صاحب نے کہا کہ میں مکہ معظمہ میں تھا۔حاجی امداد اﷲ صاحب سے ایک شخص نے ایسا ہی کہا کہ میں نے ایسی شکل پر دیکھا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ یہ تمہاری اپنی شکل ہے۔(ملفوظات جلد۲ صفحہ۳۳۷-۳۳۸۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء) کوئی نشان دکھائیں تب مانوں گا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:ایک ولی اللہ ذات کے قصاب تھے ایک شخص ان کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں تب ما نتا ہوں اگر آپ کوئی نشان دکھائیں۔ انہوں نے اس کو کیا عمدہ جواب دیا ہے کہ باوجود یکہ تیرا خیال ہے کہ ہم ایسے ہیں اور پھر با وصف ایسے گنہگا ر ہونے کے تو دیکھتا ہے کہ ہم اب تک غرق نہیں ہو گئے ۔ اسی طرح پر ہم بھی کہتے ہیں کہ کیا یہ نشان ہمارا کم ہے کہ ہم کو مفتری کہا جاتا ہے لیکن پچیس سا ل سے بھی زیادہ سے یہ سلسلہ چلا آتا ہے اور دن بہ دن اس کی ترقی ہو رہی ہے اور ہم غرق نہیں ہو گئے ۔دانشمند اگر خدا ترس دل لے کر سوچے تو اس کے لئے یہ بھی کوئی چھوٹا سا نشان نہیں ہے ۔ (ملفوظات جلد۳ صفحہ۶۴۵۔ایڈیشن۱۹۸۸ء) ظاہر پر نظر رکھنے والے کو کچھ دکھائی نہیں دیتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:ذوالنون مصری ایک باکمال شخص تھا اور اس کی شہرت باہر دور دور پہنچی ہوئی تھی۔ ایک شخص اس کے کمال کو سن کراس کے ملنے کے واسطے گیا اور گھر پر جاکر اسے پکارا تو اس کو جواب ملا کہ خدا جانے کہاں ہے۔ کہیں بازار میں ہوگا۔ وہ جب بازار میں ان کی تلاش کرتاہوا پہنچا تو وہ بازار میں معمولی طو رپر سادگی سے کچھ سودا خرید رہا تھا۔ لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ذوالنون ہے۔ اس نے دیکھاکہ ایک سیاہ رنگ پست قامت آدمی ہے۔ معمولی سالبا س ہے۔ چہرہ پر کچھ وجاہت نہیں۔ معمولی آدمیوں کی طرح بازار میں کھڑا ہے اس سے اس کا سارا اعتقاد جاتا رہا اور کہا کہ یہ تو ہماری طرح ایک معمولی آدمی ہے۔ ذوالنون نے اس کو کہا کہ تو کس لئے میرے پاس آیا ہے ۔جبکہ تیرا ظاہر پر خیال ہے۔ ذوالنون نے اس کے مافی الضمیر کو دیکھ لیا۔ اس لیے کہا کہ تیری نظر ظاہر پر ہے۔ تجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایمان تب سلامت رہتا ہے کہ باطن پر نظررکھی جاوے۔ کہتے ہیں لقمان بھی سیاہ منظر تھے۔ یہی وجہ ہے جو لکھاہے کہ اﷲ تعالیٰ کے بندوں اور برگزیدوں کے پاس ارادت سے جانا سہل ہے۔ لیکن ارادت سے واپس آنا مشکل ہے کیونکہ ان میں بشریت ہوتی ہے اور ان کے پاس جانے والے لوگوں میں سے اکثر ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے دل میں اس کی ایک فرضی اور خیالی تصویر بنالیتے ہیں، لیکن جب اس کے پاس جاتے ہیں تو وہ اس کے برخلاف پاتے ہیں جس سے بعض اوقات وہ ٹھوکر کھاتے ہیں اور ان کے اخلاص اور ارادت میں فرق آجاتا ہے۔(ملفوظات جلد۴ صفحہ۴۱۴ وجلد۴ صفحہ۶۶۶۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء) کیا یہ کرامت نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:میں نے تذکرة الاولیاءمیں ایک لطیفہ دیکھا کہ ایک شخص ایک بزرگ کی نسبت بدگمانی رکھتا تھا کہ یہ مکار ہے اور فاسق ہے۔ایک دن اُن کے پاس آیا اور کہا۔کہ حضرت کوئی کرامت تودکھائیں۔فرمایا میری کرامت تو ظاہر ہے۔باوجودیہ کہ تم تمام دنیا کے معاصی مجھ میں بتاتے ہو۔مگر پھر دیکھتے ہو کہ خدا تعالیٰ مجھے غرق نہیں کرتا۔ لوط کی بستی تباہ ہوئی۔عاد ثمود وغیرہ تباہ ہوئے۔مگر مجھ پر غضب نہیں آتا۔کیا یہ تیرے لیے کرامت نہیں ہے؟بات بڑی لطیف ہے۔یعنی عیوب پیدا کرنے والے لوگوں کو یہ بھی تو چاہیے کہ وہ دیکھیں کہ وہ شخص جو منجانب اﷲ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جس پر اس قدر اعتراض اور نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں۔وہ جو ہلاک نہیں ہوتا کیا خدا بھی اس سے دھوکے میں ہی رہا؟(ملفوظات جلد۴ صفحہ۶۷۰۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء) دماغی نقص حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: کہتے ہیں کوئی پٹھان قدوری پڑھ رہا تھا جس میں اُس نے پڑھا کہ نماز میں حرکت صغیرہ ممنوع ہے اور حرکت کبیرہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ پھر کسی دوسرے وقت اُس نے حدیث کا جو سبق لیا تو ایک حدیث ایسی آ گئی جس میں لکھا تھا کہ رسول کریمﷺ نے حالتِ نماز میں ہی دروا زہ کھول دیا اور بعض جگہ آپﷺنے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر نماز میں سانپ وغیرہ سامنے آجائے تو اُسے ماراجا سکتا ہے۔وہ پٹھان یہ پڑھتے ہی کہنے لگا ’’خومحمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا، قدوری میں لکھا ہے کہ حرکتِ کبیرہ سے نماز ٹوٹ جاتا ہے‘‘۔اب اگر کوئی شخص ایسا ہو جو نماز پڑھ رہا ہو اور نماز میں ہی سانپ نکل آئے اور وہ نماز نہ توڑے بلکہ پڑھتا رہے تو کیا ہم کہیں گے وہ زیادہ نیک ہے؟ ہم تو یہی کہیں گے کہ اُس کے اندر کوئی دماغی نقص ہے جس کی وجہ سے اُس نے سانپ کو دیکھنے کے باوجود اُسے مارنے کی کوشش نہ کی حالانکہ اسلام نے اُس کی اجازت دی تھی۔ (خطابات شوریٰ جلد ۲صفحہ۲۱۹) ہمارے مذہب میں یہ چیزیں پاک ہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:حضرت خلیفہ اوّل سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں مسجد اقصیٰ سے درس دے کرواپس آرہا تھا کہ راستہ میں جو ڈپٹیوں کامکان ہے(جس میں آجکل صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں) وہاں ڈپٹی صاحب بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر وہ اٹھے اور مصافحہ کیا اور پھر کہا مولوی صاحب! ایک بات دریافت کرنی ہے۔ میں نے کہا پوچھئے۔ وہ کہنے لگے کیا بادام روغن اور پلا ؤکا استعمال فقیر لوگوں کے لئے بھی جائز ہے؟ مَیں نے کہا کہ ہمارے مذہب میں یہ چیزیں پاک ہیں اور ہم اُن کے استعمال میں کوئی حرج نہیں دیکھتے۔ وہ کہنے لگے میں نے سمجھا تھا فقیر لوگ یہ چیزیں استعمال نہیں کر سکتے۔ درحقیقت اُن کی غرض حضرت مسیح موعودؑ پر اعتراض تھا کہ آپ نے کوئی خاص غذا نہیں مقرر کی ہوئی بلکہ اتباع نبوی میں اعلیٰ یا سادہ غذا جو غذا میسر آجائے آپ استعمال فرما لیتے ہیں اور بادام روغن تو آپ دماغی کام کی وجہ سے ا ور بیماری کی وجہ سے کبھی علاج معالجہ کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔ (خطابات شوریٰ جلد ۲صفحہ۲۲۲) اعتراض کرنے والے اعتراض ہی کرتے ہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:قادیان کا ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص بہت غریب تھا اُس نے یہ کہنا شروع کیا کہ آپ امیروں کے ہاں دعوتیں کھاتے ہیں غریبوں کے ہاں دعوت نہیں کھاتے۔ اُس شخص کی اپنی یہ حالت تھی کہ میرا خیال یہ تھا کہ اگر وہ سامنے دال روٹی بھی رکھے گا تو اُسے تکلیف ہو گی لیکن ہر دو تین ماہ کے بعد وہ میرے پاس آتا اور کہتا کہ آپ غریبوں کی دعوت نہیں کھاتے۔ آپ میری دعوت قبول کریں۔ میرے گھر آئیں اور وہاں بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ آخر میں نے کہا میں تمہاری دعوت مان لیتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ تم سالن پکاؤ یا دال یعنی ان دونوں میں سے کچھ پکاؤ مگر ہو ایک ہی چیز اور اس کے ساتھ پُھلکے پکالیں، چاول نہیں پکانے۔ اگر تم نے سالن اور دال دونوں چیزیں پکا لیں یا چاول پکالئے تو میں تمہاری دعوت قبول نہیں کروں گا۔ اُس نے کہا مجھے یہ شرط منظور ہے۔ وہ شخص مجھ سے اخلاص رکھتا تھا اُس نے میرا مطلب سمجھ لیا۔ چنانچہ جس دن دعوت تھی اُس نے پتلا سا شوربہ بنا لیا اور اُس کے ساتھ پُھلکے تیار کر لئے ۔ میں اُس کے گھر گیا اور کھانا کھایا۔ کھانا سے فارغ ہو کر میں اُس کے گھر سے باہر نکلنے لگا تو غالباً سیالکوٹ کے ایک دوست دروازے پر کھڑے تھے۔ اُنہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا ’’تُسی ایسے غریباں دی دعوت وی کھا لیندے او۔‘‘میں نے کہا اس شخص کی یہ بات کہ ’’تُسی غریباں دی دعوت نہیں کھاندے‘‘ میں نے تین سال سنی ہے۔ اب تمہاری یہ بات تین سال تک سُن لوں گا۔ اِس پر وہ شخص شرمندہ ہو گیا اور واپس چلا گیا۔ غرض ایک طرف تو وہ امیر شخص تھا جس کو غریب کے ہاں میرا جانا بُرا لگا۔ اور دوسری طرف وہ غریب شخص تھا جو مجھے تین سال تک یہ کہتا رہا کہ آپ غریبوں کی دعوت قبول نہیں کرتے اور آخر مجھے اُس کی دعوت منظور کرنی پڑی۔ تو اعتراض کرنے والے بعض اوقات اعتراض کرتے رہتے ہیں اور حقیقت اس کے خلاف ہوتی ہے۔(خطابات شوریٰ جلد ۳صفحہ۵۵۳) اعتراض ختم نہیں ہوتے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:میرا لیکچر اسلامیہ کالج میں ہوا کہ اسلام میں فتنوں کا آغاز کیسے ہوا ۔اسی مضمون پر علی التواتر دو سال میری وہاں تقریریں ہوئیں۔پہلے حضرت عثمانؓ کےعہد کے واقعات پر اور دوسرے سال حضرت علیؓ کے واقعات پر جب پچھلے سال میں تقریر کے لئے کھڑا ہوا تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ اور باتیں تو بعد میں ہونگی میرے ساتھ پہلے اس مسئلہ کا تصفیہ کر لو کہ زمین چلتی ہے یا سورج ۔یہ ایک طے شدہ اور صاف مسئلہ ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے نزدیک ابھی تک یہ بھی حل شدہ نہیں ۔پس دنیا میں کوئی مسئلہ اور کوئی شخص ایسا نہیں جس پر اعتراض نہ ہو ۔(معیار صداقت، تقریر ۲۱و ۲۲ مارچ کی درمیانی شب ۱۹۲۱ء بمقام مکان مرزا گل محمد ابن مرزا نظام الدین، انوارالعلوم جلد ۶صفحہ ۴۸-۴۹) انسان خواہ کچھ کرے اعتراض ضرور ہوتاہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:ہردلعزیز کی مثال یاد آگئی جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کہیں گدھالےکر جا رہا تھاساتھ اس کا بیٹا بھی تھا۔راستہ میں انہیں کچھ آدمی ملے جنہوں نے کہا کیسے بےوقوف ہیں پیدل جا رہے ہیں اور گدھا خالی ہے۔سوار کیوں نہیں ہو جاتے ۔یہ سن کر باپ گدھے پر سوار ہو گیا۔کچھ دُور جانے کے بعد کچھ آدمی ملے جنہوں نے کہا آج کل خون سفید ہو گئے ہیں دیکھو بیٹا تو پیدل جا رہا ہے اور باپ سوار ہے۔یہ سن کر باپ اُتر بیٹھا اور بیٹے کو چڑھا دیا۔ تھوڑی دور پر اور آدمی ملے جنہوں نے کہا دیکھو بڈھا تو پیدل جا رہا ہے اور ہٹا کٹا اور جوان سوار ہے۔یہ سن کر دونو ں نے مشورہ کیا کہ باپ بیٹھتا ہے تو بھی اعتراض ہوتا ہے اور بیٹا بیٹھتا ہے تو بھی ا عتر ا ض ہوتا ہے اب یہی تدبیر ہے کہ دونوں بیٹھ جائیں یہ مشورہ کر کے دونو ں گدھے پر بیٹھ گئے۔آگے چلے تو کچھ اور لوگ ملے انہوں نے کہا شرم نہیں آتی ایک بےزبان جانور پر ہر دو آدمی سوار بیٹھے ہیں۔یہ سن کر وہ دونوں اُتر بیٹھے اور مشورہ کرنے لگے کہ پچھلی سب صورتیں قابل اعتراض تھیں اب کیا کیا جائے۔آخر سوچ کر سوا اِس کے کوئی تدبیر نظر نہ آئی کہ دونوں مل کر گدھے کو اُٹھالیں۔آخر اسی طرح کیا مگر گدھے نے لاتیں مارنی شروع کیں اور ایک پل پر اُلٹ کر گر گیا اور ہلاک ہو گیا اور باپ بیٹا ہر دلعزیزی کی خواہش پر افسوس کرتے ہوئے گھر واپس آگئے ۔اس خیال کا مطلب یہ ہے کہ انسان خواہ کچھ کرے اس پر اعتراض ضرور ہوتا رہتا ہے۔(منہاج الطالبین فرمودہ مورخہ ۲۷ دسمبر ۱۹۲۵ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان، انوارالعلوم جلد ۹صفحہ ۱۵۶-۱۵۷) عورت کا ختنہ کیوں نہیں ہوتا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ایک دفعہ ریل میں میرے ساتھ ایک سکھ آنریری مجسٹریٹ سفر کر رہے تھے وہ مجھے کہنے لگے کہ اگر آپ بُرا نہ منائیں تو میں ایک مذہبی سوال کرنا چاہتا ہوں۔میں نے انہیں کہا کہ مذہبی سوال میں برا منانے کی کیا ضرورت ہے۔پھر اس نے دو چار منٹ اپنے غیر متعصّب ہونے کے متعلق تقریر کی اور کہا میں اسلام کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں مگر بعض باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ مثلاً آپ کے ہاں جو ختنہ کا حکم ہے،مرد تو اس پر عمل کر سکتے ہیں عورت کیا کرے۔ میں نے کہا یہ کیا مشکل بات ہے آپ کے ہاں داڑھی رکھنے کا حکم ہے جو مرد تو رکھ سکتے ہیں مگر عورت کیا کرے ۔ جو علاج آپ اس کے لئے تجویز کریں گے،وہ ہماری طرف سے سمجھ لیں ۔کہنے لگے ان کے تو ہوتی ہی نہیں ۔میں نے کہا اسی طرح ختنہ کا حال ہے۔تو ایسے ایسے اعتراض ان لوگوں نے بنائے ہوئے ہوتے ہیں جن سے اپنے دل کو تسلی دے لیتے ہیں۔ (غیر مسلموں میں تبلیغ کے لئے زریں ہدایات۔ انوارالعلوم جلد ۱۳صفحہ۱۳۰) شیعوں کی روایات سے حضرت علیؓ پر تو اعتراضات ہوتے ہیں حضرت عمرؓ پر نہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:شیعوں اور سُنیوں میں بہت مدت سے ایک نزاع چلا آتا ہے جسے قضیۂ قرطاس کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس قضیۂ قرطاس کی تفصیل یہ ہے کہ احادیث میں آتا ہے رسول کریمﷺ کو مرض الموت میں جب تکلیف بہت بڑھ گئی تو آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ کاغذ اور قلم دوات لاؤ تاکہ میں تمہارے لئے کوئی ایسی بات لکھوا دوں جس کے نتیجہ میں تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ اس پر شیعہ کہتے ہیں کہ دراصل رسول کریمﷺ یہ لکھوانا چاہتے تھے کہ میرے بعد علیؓ خلیفہ ہوں اور انہیں کو امام تسلیم کیا جائے لیکن حضرت عمرؓ نے آپؐ کو کچھ لکھوانے نہ دیا اور لوگوں سے کہہ دیا کہ جانے دو، رسول کریمﷺ کو اس وقت تکلیف زیادہ ہے اور یہ مناسب نہیں کہ آپ کی تکلیف کو اور زیادہ بڑھایا جائے ہمارے لئے ہدایت کے لئے قرآن کافی ہے اس سے بڑھ کر کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ شیعہ کہتے ہیں کہ یہ ساری چالاکی عمرؓ کی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ رسول کریمﷺ کوئی وصیت کر جائیں تاکہ بعد میں حضرت علیؓ کو محروم کر کے وہ خود حکومت کو سنبھال لیں۔ اگر وہ رسول کریمﷺ کو وصیت لکھوانے دیتے تو آپ ضرور حضرت علی ؓ کے حق میں وصیت کر جاتے۔ اس اعتراض کے کئی جواب ہیں مگر میں اس وقت صرف دو جواب دینا چاہتا ہوں۔ اوّل یہ کہ رسول کریمﷺ اگر حضرت علیؓ کے حق میں ہی خلافت کی وصیت کرنا چاہتے تھے تو حضرت عمرؓ کے انکار پر آپ نے دوبارہ یہ کیوں نہ فرمایا کہ قلم دوات ضرور لاؤ۔ میں تمہیں ایک اہم وصیت لکھوانا چاہتا ہوں۔ آخر آپ کو پتہ ہونا چاہئے تھا کہ عمرؓ (نَعُوْذُ بِاللہِ) علیؓ کا دشمن ہے اور اس وجہ سے عمرؓ کی کوشش یہی ہے کہ کسی طرح علیؓ کو کوئی فائدہ نہ پہنچ جائے۔ ایسی صورت میں یقیناً رسول کریمﷺ حضرت عمرؓ سے فرماتے کہ تم کیا کہہ رہے ہو مجھے بےشک تکلیف ہے مگر میں اس تکلیف کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ تم جلدی قلم دوات لاؤ تاکہ میں تمہیں کچھ لکھوا دوں۔ مگر رسول کریمﷺنے دوبارہ قلم دوات لانے کی ہدایت نہیں دی بلکہ حضرت عمرؓ نے جب کہا کہ ہماری ہدایت کے لئے خدا کی کتاب کافی ہے تو رسول کریمﷺ خاموش ہو گئے۔جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ درحقیقت وہی کچھ لکھوانا چاہتے تھے جس کی طرف حضرت عمرؓ نے اشارہ کیا تھا اور چونکہ رسول کریمﷺ کے سامنے انہوں نے ایک رنگ میں خدا کی کتاب پر ہمیشہ عمل کرنے کا عہد کر لیا اس لئے رسول کریمﷺ نے اس بات کی ضرورت نہ سمجھی کہ آپ کوئی علیحدہ وصیت لکھوانے پر اصرار کریں۔ پس اس واقعہ سے حضرت عمرؓ پر نہ صرف کوئی الزام عائد نہیں ہوتا بلکہ آپ کے خیال اور رسول کریمﷺ کے خیال کا توارد ظاہر ہوتا ہے۔ دوسرا جواب جو درحقیت شیعوں کے اس قسم کے بے بنیاد خیالات کو ردّ کرنے کے لئے ایک زبردست تاریخی ثبوت ہے وہ یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر وصیت وہی شخص لکھوا سکتا ہے جسے یہ یقین ہو کہ اَب موت سر پر کھڑی ہے اور اگر اس وقت وصیت نہ لکھوائی گئی تو پھر وصیت لکھوانے کا کوئی موقع نہیں رہے گا لیکن جسے یہ خیال ہو کہ مریض کو اللہ تعالیٰ صحت عطا کر دے گا اور جس مرض میں وہ مبتلاء ہے وہ مرض الموت نہیں بلکہ ایک معمولی مرض ہے تو وہ وصیت کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور سمجھتا ہے کہ اس غرض کے لئے اسے تکلیف دینا بالکل بےفائدہ ہے۔ اب اس اصل کے ماتحت جب ہم ان واقعات کو دیکھتے ہیں جو رسول کریمﷺ کی وفات پر صحابہؓ کو پیش آئے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو حکومت سنبھالنے کا خیال تو الگ رہا یہ بھی خیال نہیں تھا کہ آنحضرتﷺ فوت ہونے والے ہیں۔ چنانچہ جب رسول کریمﷺ نے وفات پائی تو اس اچانک صدمہ نے جو ان کی توقع اور امید کے بالکل خلاف تھا حضرت عمرؓ کو دیوانہ سا بنا دیا اور انہیں کسی طرح یہ یقین بھی نہیں آتا تھا کہ رسول کریمﷺ وفات پاگئے ہیں۔ وہ جنہیں رسول کریمﷺ کی وفات کے بعد بھی یہ یقین نہیں آتا تھا کہ آپ وفات پا گئے ہیں اور جن کے دل میں آپ کی محبت کا احساس اس قدر شدت سے تھا کہ وہ تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ جو شخص یہ کہے گا کہ رسول کریمﷺ فوت ہو گئے ہیں میں اس کی گردن اُڑا دوں گا ان کے متعلق یہ کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ کر کہ رسول کریمﷺ اَب فوت ہونے والے ہیں آپؐ حضرت علیؓ کے حق میں کوئی بات نہ لکھوا دیں آپؐ کو کچھ لکھنے سے روک دیا ہو۔ بلکہ اگر ہم غور کریں تو شیعوں کی اِن روایات سے حضرت علیؓ پر اعتراض آتا ہے کہ آپ آنحضرتﷺ کی وفات کی توقع کر رہے تھے جبکہ حضرت عمرؓ شدتِ محبت کی وجہ سے یہ سمجھ رہے تھے کہ معمولی بیماری کی تکلیف ہے آپ اچھے ہو جائیں گے اور ابھی وفات نہیں پا سکتے۔ پس اس سے حضرت علیؓ پر تو اعتراض وارد ہوتا ہے مگر حضرت عمرؓ پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا بلکہ یہ امر ان کی نیکی،تقوٰی اور فضیلت کو ثابت کرتا ہے۔(خلافت راشدہ۔ انوارالعلوم جلد ۱۵ صفحہ ۳۶تا۳۸) خدا کی خاطر اعتراضات کو برداشت کرنا حقیقی قومی ترقی کی روح ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:جو کام انسان خدا کی خاطر کرتا ہے اُس پر جو اعتراض کئے جائیں وہ انسان کو بخوشی برداشت کرنے چاہئیں۔اللہ تعالیٰ کی خاطر کام کرنے والا اعتراضوں پر خوش ہوتا ہے نہ کہ ناراض ۔پس اعتراض ایک کان سے سُننے چاہئیں دوسرے سے نکال دینے چاہئیں ۔ دین میں خدا کی خاطر گالیاں سُننے سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہو سکتی ہے۔سچا احمدی تو وہی ہے جو خدا کی خاطر اعتراضوں کو برداشت کرتا ہے۔حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں کسی دوست نے ایک نیک تحریک جاری کی۔ کچھ عرصہ کے بعد اُن سے پوچھا گیا کہ کام کیسا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ اچھا کام نظر نہیں آتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو پسند نہیں کیونکہ نہ کسی نے گالی دی اور نہ اعتراض کیا۔ تو خدا کی خاطر جو تحریک ہوتی ہے اس پر ضرور اعتراض ہوتے ہیں اُن پر بُرا نہیں منانا چاہئے۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ کہنے لگے کہ مبارک ہو یہ تحریک مبارک ہے۔ گالیوں سے بھرا ہواایک خط آیا ہے۔ تو خدا کی خاطر اعتراضات کو برداشت کرنا حقیقی قومی ترقی کی روح ہے۔اعتراضات کا فوراً جواب دینا تُھڑدِلی کی علامت ہے۔ مولوی برہان الدین صاحبؓ سلسلہ کے بزرگوں میں سے تھے۔ ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے۔بڑا شاندار استقبال ہوالیکن وہاں دشمنوں نے گالیاں بھی دیں۔ جب حضورؑ واپس آنے لگے تو لوگ پتھر مارنے لگے، پتھروں کی کثرت کی وجہ سے گاڑی کی کھڑکیاں بند کر دی گئیں۔ مولوی صاحب بیچارے بوڑھے آدمی تھے ، وہ ان لوگوں کے قابو چڑھ گئے کبھی داڑھی کھینچتے، کبھی مکّے مارتے، کبھی دھکّے دیتے وہ چلتے جائیں اور کہتے جائیں ’’سُبْحَانَ اللہِ ساڈیاں ایسیاں قِسمتاں کِتّھوں‘‘ آخر لوگوں نے پکڑ کر اُن کے منہ میں گوبر ڈال دیا تو کہنے لگے ’’سُبْحَانَ اللہِ ساڈی قسمت وچ ایہہ نعمتاں کِتّھوں‘‘ تو مومن پر دین کی وجہ سے جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ اُس کی نجات کا موجب ہوتا ہے اِس سے اُسے گھبرانا نہیں چاہئے۔ حضرت ابوطلحہؓ رسولِ کریمﷺ کے عزیز صحابی تھے۔ جنگِ اُحد میں جب حضور چند دوستوں کے ساتھ اکیلے رہ گئے تو حضرت ابوطلحہؓ حضورؐکے سامنے کھڑے ہو گئے اور حضورؐ کے منہ کے سامنے اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ دشمن نے اِس قدر تِیر پھینکے کہ اُن کا ہاتھ شَل ہو گیا۔ کئی سال کے بعد کسی نے اُن کا ہاتھ دیکھا تو کہا ’ٹُنڈا‘۔ حضرت ابوطلحہؓ نے کہا کہ میرے لئے تو ساری برکتوں کا موجب یہ ہاتھ ہے۔ جنگ اُحد میں جب رسولِ کریمﷺ پر دشمن نے وار کیا تو مَیں نے یہ ہاتھ حضور کے منہ کے آگے رکھ دیا۔ وار ہواتو میرا ہاتھ چَھلنی ہو گیا کِسی نے پوچھا آپ کو درد نہیں ہواتھا؟ کہنے لگے اُس وقت تو میرے منہ سے سِی تک نہیں نکلی۔ درد تو ہوتا تھا مگر مَیں اِس ڈر کے مارے کہ کہیں میرا ہاتھ نہ ہِل جائے، رسولِ کریمﷺ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے سِی تک نہیں کرتا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں گالیاں کھانا، ماریں کھانا اور بے عزتی برداشت کرنا رُتبہ حاصل کرنا ہے۔(مستورات سے خطاب تقریر فرمودہ ۲۷ دسمبر ۱۹۴۳ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان، انوارالعلوم جلد ۱۷ صفحہ ۱۲-۱۳) خدا جب ہدایت دیتا ہے تو عقل تیز ہو جاتی ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق یہ لکھ لکھ کر بڑے خوش ہوتے تھے کہ مرزا غلام احمد تو مضمون نگار ہے اور حکیم نورالدین ایک طبیب ہے ہاں یہ مان لیتا ہوں کہ مولوی محمد احسن صاحب امر وہی کچھ علمیت رکھتے ہیں اور پھر اس پر بڑے خوش ہوتے تھے کہ میں نے بڑا تیر مارا ہے لیکن اب مرنے کے بعد اُن کو کون یاد کرتا ہے؟ مگر یہاں خداتعالیٰ ہر گھر ، ہر گاؤں اور ہر ملک سے لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لا رہا ہے اور ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غلاموں کے قدموں میں ڈال رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑکے دعویٰ سے پہلے آپ کے پاس ایک شخص بیمار ہو کر آیا اور حضرت مسیح موعود ؑکے سلوک کو دیکھ کر یہیں رہ پڑا۔ وہ ایسا بے وقوف تھا کہ مٹی کا تیل کھانے میں ڈال کر کھا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ چکنائی ہی کھانی ہے کوئی دوسرا تیل نہ کھایا یہ کھا لیا۔ اُس وقت یہاں تار گھر نہیں ہوتا تھا تار دینے کے لئے آدمی بٹالے جاتے تھے یہ بھی تار دینے کے لئے بٹالے جاتا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی روزانہ اسٹیشن پر جاتے تھے اور لوگوں کو قادیان آنے سے روکتے تھے ممکن ہے شاذونادر بعض لوگوں کو ورغلا کر واپس بھیج دینے میں کامیاب ہو جاتے ہوں گے۔ وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ میں یہاں کا رہنے والا ہوں مرزا صاحب کو خوب جانتا ہوں آپ وہاں نہ جائیں۔ ایک دن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو اسٹیشن پر کوئی بھی آدمی نہ ملا مذکورہ بالا شخص کو جس کا نام پیرا تھا اور جو تار دینے بٹالہ گیا تھا اُنہوں نے دیکھ لیا اور اُس کو تبلیغ کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ اُسے جا کر کہا تجھ پر کیا مار پڑی ہے کہ تو مرزا صاحب کے قابو آگیا ہے تو نے آخر وہاں کیا دیکھا ہے؟ اُس نے یہ واقعہ خود آکر قادیان سنایا اور بتایا کہ پہلے میں حیران ہوا کہ کیا کہوں مجھے آتا تو کچھ ہے نہیں اور حقیقتاًوہ تھا بھی جاہل اور احمدیت سے بالکل ناواقف چونکہ اُس کے رشتہ داروں نے اُسے چھوڑ دیا تھا اور بیماری میں اُس کا علاج نہیں کرایا تھا اِس لئے وہ اُن کو چھوڑ کر قادیان میں ہی رہ گیا تھا حضرت مسیح موعود نے اُس کا علاج کیا اِس لئے وہ حضرت مسیح موعود کے حُسنِ سلوک کو دیکھ کر یہیں رہ پڑا مگر باوجود جاہل ہونے کے اُس کی فطرت نے اُسے جواب سمجھادیا۔ چنانچہ اس کے اپنے بیان کے مطابق مولوی صاحب کو یہ جواب دیاکہ مولوی صاحب! میں تو اَن پڑھ ہوں اور مجھے کچھ نہیں آتا مگر ایک بات میں دیکھتا ہوں وہ یہ کہ مرزا صاحب اپنے گھر سے نہیں نکلتے، لوگ اطلاع کرواتے ہیں، بعض اوقات کسی مجبوری کی وجہ سے مرزا صاحب دیر تک باہر نہیں آتے اور کہلا بھیجتے ہیں کہ طبیعت اچھی نہیں اِس وقت نہیں آسکتے اور گو ملنے والے بڑے بڑے آدمی ہوتے ہیں لیکن چپ کر کے دروازے کے آگے بیٹھے رہتے ہیں اور اگر مصافحہ ہو جاتا ہے تو بڑے خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں بڑا کام ہو گیا۔ مگر مولوی صاحب! میں اکثر بٹالہ آتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسٹیشن پر آتے ہیں اور لوگوں کو ورغلاتے ہیں لیکن پھر بھی لوگ آپ کی نہیں مانتے اور مرزا صاحب کی طرف چلے جاتے ہیں اور پھر کہا کہ مولوی صاحب! آپ کی تو جوتیاں بھی اس کام میں گھس گئی ہونگی مگر سنتا کوئی نہیں آخر کچھ تو مرزا صاحب میں بات ہوگی جو ایسا ہو رہا ہے۔ (قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید۔،تقریر فرمودہ ۱۱؍ستمبر ۱۹۴۵ء، بمقام مسجد اقصیٰ قادیان، انوارالعلوم جلد ۱۸ صفحہ ۱۵۶-۱۵۷) اعتراض کا صحیح صحیح جواب دینا چاہیے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:بعض اوقات لوگ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتراض ہوتا دیکھ کر اُس کو اُلٹنے لگ جاتے ہیں یا بعض اوقات غصے میں آ جاتے ہیں یہ طریقہ صحیح نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جب بھی کوئی آدمی آ کر کوئی سوال کرتا تو آپ اُس کا صحیح جواب دیتے اور کوئی ایچ پیچ نہ کرتے خواہ دشمنوں کو اس سے ہنسی کا موقع مل جاتا۔ میرے پاس بھی ایک دفعہ دو مولوی دیوبند کے آئے۔ اُن کو پتہ تھا کہ میں کسی مدرسہ میں نہیں پڑھا ہوا۔ میں اُس وقت لاہور میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک آدمی نے آتے ہی سوال کیا آپ نے کیا پڑھا ہوا ہے؟ میں نے کہا مَیں نے آپ کی تعریف علم کے مطابق کچھ نہیں پڑھا۔ وہ کہنے لگے آخر کسی مدرسے میں کچھ تو پڑھا ہوگا۔ میں نے کہا میں نے کسی مدرسے میں کچھ نہیں پڑھا۔ تو وہ کہنے لگے آپ نے کسی عربی کے مدرسے میں علومِ اسلامی حاصل نہیں کئے؟ میں نے کہا نہیں بالکل نہیں۔ وہ کہنے لگے تو اِس کا یہ مطلب ہے کہ آپ علومِ اسلامی سے کورے ہیں میں نے مسکرا کر کہا بالکل نہیں۔ اُس وقت اُس کے ساتھ جو دوسرا مولوی آیا تھا وہ بھی پہلے تو اعتراض میں شریک تھا لیکن اُس نے جب میرے چہرے پر نظر ڈالی تو مجھے مسکراتا دیکھ کر چپ نہ رہ سکا اور اپنے ساتھی سے کہنے لگا۔ ان کا مطلب اِس سے کچھ اَور ہے۔ اُس کے ساتھی نے کہا اور کیا مطلب ہو سکتا ہے واضح بات ہے۔ اِس پر دوسرے مولوی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ آخر اسلام کے مبلغ ہیں آپ کو اسلام کی کچھ تو واقفیت ہوگی۔ میں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جس مکتبہ سے علم حاصل کیا تھا اُسی سے میں نے کیا ہے اور وہی کتاب میں نے پڑھی ہے۔ میں دیوبند میں نہیں پڑھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مدرسہ میں پڑھا ہوں۔ بے شک میں آپ کے علم کے لحاظ سے بڑا جاہل ہوں جس طرح آپ جاہل ہیں میرے علم کے لحاظ سے۔ میرے اِس جواب سے اُن پر ایسی اَوس پڑی کہ پھر نہیں بول سکے۔ تو جب کوئی آپ پر اعتراض کرے یا کوئی سوال پوچھے تو اس کا صحیح جواب دینا چاہئے اُس کو موڑنا توڑنا نہیں چاہئے۔ (قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید۔ تقریر فرمودہ ۱۱؍ستمبر ۱۹۴۵ء، بمقام مسجد اقصیٰ قادیان، انوارالعلوم جلد ۱۸ صفحہ ۱۵۷-۱۵۸) اعتراضات کے جواب ایسے دو کہ دشمن صداقت مان جائے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:جب میں چھوٹا بچہ تھا تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں بعض دشمن آتے اور آپ پر اعتراض کرتے تو چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہایت سادگی سے بات کرتے تھے بعض دفعہ مجھے یہ وہم ہوتا تھا شاید آپ اُس شخص کی چالاکی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے مگر جب دشمن مخالفت میں بڑھتا جاتا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی آسمانی طاقت نے آپ پر قبضہ کر لیا ہے اور آپ اِس شان سے جواب دیتے کہ مجلس پر سناٹا چھا جاتا تھا۔ ایسی ہی بے وقوفی ان لوگوں کی ہے جو اس وقت کہ جب کوئی شخص قرآن شریف پر اعتراض کرے تو کہتے ہیں چپ ہو جاؤ ورنہ تمہارا ایمان ضائع ہو جائے گا حالانکہ یہ فضول بات ہے۔ چاہئے تو یہ کہ قرآن شریف پر جو اعتراض ہوں ان کے جوابات ایسے دیئے جاویں کہ دشمن بھی ان کی صداقت کو مان جائے نہ یہ کہ اعتراض کرنے والے کو اعتراض کرنے سے منع کر دیا جائے اور شکوک کو اُس کے دل میں ہی رہنے دیا جائے۔ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک بات خوب یاد ہے میں نے کئی دفعہ اپنے کانوں سے وہ بات آپ کے منہ سے سنی ہے۔ آپؑ فرمایا کرتے کہ اگر دنیا میں سارے ابوبکرؓ جیسے لوگ ہوتے تو اِتنے بڑے قرآن شریف کی ضرورت نہیں تھی۔ صرف بِسْمِ اللّٰہِ کی ’’ب‘‘کافی تھی۔ قرآن کریم کا اتنا پُرمعارف کلام جو نازل ہوا ہے یہ ابوجہل کی وجہ سے ہے۔ اگر ابوجہل جیسے انسان نہ ہوتے تو اِتنے مفصّل قرآن شریف کی ضرورت نہ تھی۔ غرض قرآن کریم تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس پر جتنے اعتراضات ہوں گے اتنی ہی اس کلام کی خوبیاں ظاہر ہوں گی۔ پس یہ ڈر کہ اعتراض مضبوط ہوگا تو اس کا جواب کس طرح دیا جائے گا ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ کیا خدا کے کلام نے ہمارے ایمان کی حفاظت کرنی ہے یا ہم نے خدا کے کلام کی حفاظت کرنی ہے؟ وہ کلام جس کو اپنے بچاؤ کے لئے انسان کی ضرورت ہے وہ جھوٹا کلام ہے اور چھوڑ دینے کے لائق، ہمارے کام کا نہیں۔ ہمارے کام کا وہی قرآن شریف ہے جس کی حفاظت کیلئے کسی انسان کی ضرورت نہ ہو بلکہ اس کا محافظ خدا ہو اور اس پر جو اعتراض ہو وہ خود اُس کو دور کرے اور اپنی عظمت آپ ظاہر کرے ہمارا قرآن کریم ایسا ہی ہے۔ (قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید،تقریر فرمودہ ۱۱؍ستمبر ۱۹۴۵ء، بمقام مسجد اقصیٰ قادیان، انوارالعلوم جلد ۱۸ صفحہ ۱۶۰) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: سکرین کے سانپ