صحابہؓ کی سی حالت اور وحدت کی ضرورت اب بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ہاتھ سے طیار ہورہی ہے اُسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طیارکی تھی۔ اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے اس لئے تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہؓ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو اپنے اندر صحابہ ؓ کا رنگ پیدا کرو۔ اطاعت ہو تو ویسی ہو۔ باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو۔ غرض ہر رنگ میں، ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہؓ کی تھی۔ (ملفوظات جلد ۲، صفحہ ۳۵ ،۳۶۔ ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مَیں باربار کہہ چکا ہوں کہ جس قدر کوئی قرب حاصل کرتا ہے، اسی قدر مؤاخذہ کے قابل ہے۔ اہل بیت زیادہ قابل مؤاخذہ کے تھے۔ وہ لوگ جو دورہیں، وہ قابل مؤاخذہ نہیں، لیکن تم ہو۔اگر تم میں ان پر کوئی ا یمانی زیادتی نہیں تو یہ تم میں اوران میں کیا فرق ہوا؟ تم ہزاروں کے زیر نظر ہو۔و ہ گورنمنٹ کے جاسوسوں کی طرح تمہاری حرکات وسکنات کو دیکھ رہے ہیں…جب کوئی شخص مجھ سے تعلق نہیں رکھتاتو یہ امر دوسرا ہےلیکن جب آپ میرے پاس آئے، میرادعوی قبول کیا اور مجھے مسیح مانا تو گویا مِنْ وَجْہٍ آپ نے صحابہ کرامؓ کے ہمدوش ہونے کا دعوی کر دیاتو کیا صحابہ نے کبھی صدق ووفا پر قدم مارنے سے دریغ کیا۔ان میں کوئی کسل تھا۔ کیا وہ دل آزار تھے؟ کیا ان کو اپنے جذبات پر قابو نہ تھا؟وہ منکسر المزاج نہ تھے؟ ان میں پر لے درجہ کا انکسار تھا۔سو دعا کرو کہ خدا تم کو بھی ویسی ہی توفیق عطا کرے کیونکہ تذلل اور انکساری کی زندگی کوئی اختیار نہیں کر سکتا جب تک اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہ کرے۔ اپنے آپ کو ٹٹولو اور اگر بچہ کی طرح اپنے آپ کو کمزور پاؤتو گھبراؤ نہیں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا صحابہ کی طرح جاری رکھو۔راتوں کو اٹھواور دعا کرو کہ خدا تم کو اپنی راہ دکھلائے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے بھی تدریجاًتربیت پائی۔وہ پہلے کیا تھے۔ وہ ایک کسان کی تخم ریزی کی طرح تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آبپاشی کی۔آپ نے ان کے لیے دعائیں کیں۔بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آبپاشی سے پھل عمدہ نکلا۔ جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام چلتے اسی طرح وہ چلتے۔ وہ دن کا یارات کا انتظار نہ کرتے تھے۔ تم لوگ سچے دل سے توبہ کرو، تہجد میں اٹھو، دعا کرو، دل کو درست کرو۔،کمزوریوں کوچھوڑ دو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے قول و فعل بناؤ۔ یقین رکھو کہ جو اس نصیحت کو وردبنائے گا اور عملی طور سے دعا کرے اور عملی طور پر التجا خدا کے سامنے لائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس پر فضل کرے گا اور اس کے دل میں تبدیلی ہو گی خدا سے ناامیدمت ہو۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ۳۸۔۳۹،ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: داغِ ہجرت