یقیناوہ لوگ جودنیا کے گوشت کے ٹکڑے اوراس کے پانی کی تلچھٹ پر گرتے ہیں اوراللہ کی عطائِ جزیل سے مایوس ہوتے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جن سے اللہ ہمکلام نہیں ہوتا۔یقینا مَیں ذوالقرنین کی طرح تیزرَو ہوں ، مَیں نے ایک قوم کوسخت گرمی میں اوردوسری قوم کوآنکھوں کے فقدان کی وجہ سے سخت سردی اورگدلے چشمے پرپایا۔ مَیں صائب الرائے ہوں اورمَیں اللہ (کے دکھانے) سے دیکھتا ہوں۔ ’’اورجب ان پر کوئی سختی آئے تو وہ صبرکرتے ہیں وہ ایذا دینے والے بداطوار(لوگوں )سے احسان کا سلوک کرتے ہیں خواہ وہ ڈاکوؤں کے گروہ سے ہوں۔ وہ اللہ کی حضوری میں رہتے ہیں اوراس سے جدا نہیں ہوتے اوراُسی کے آستانے پردھونی رمائے رہتے ہیں۔ اورجنہیں اپنے ایمان کے متعلق ہمیشہ خوف لگا رہتاہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایمان اُڑ جانے میں چڑیاسے بھی زیادہ تیزہے اور خوف صفائی کرنے میں مسواک سے بڑھ کر ہے۔ پس وہ ہلکی بارش پر قناعت نہیں کرتے وہ(نفس کی) سنگلاخ زمین کولتاڑتے ہیں تاکہ اُسے نرم اور ہموار کردیں اوروہ اسی طرح اس میدان میں تجربہ کار ہیں اورجب اوّل وآخر شب چلتے ہیں تووہ ابتلاء کی تیز آندھی سے ڈرتے ہیں۔ وہ شام وسحر بے خواب آنکھ اورپاک صاف دل سے روتے ہیں۔ وہ غم خواری کرتے ہیں اوراس میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ اپنے مقروض کو چھوٹ دیتے ہیں اوران کا مال نہیں چھینتے۔ وہ بخیل اور بدخلق نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ ڈینگیں مارتے ہیں۔ وہ دنگے فساد اور توڑپھوڑ سے گریز کرتے ہیں اور تُواُن میں ضُعفِ دین نہیں پائے گا اورنہ ہی وہ مداہنت کرتے ہیں۔ وہ سلوک کی راہوں پر چلتے اوراُن پررواں دواں ہیں۔ انہوں نے اپنے محبوب (خدا)کے لئے اپنی سواریوں کے کجاوے کَس لئے ہیں اوردنیاسے قطع تعلّقی اختیار کر لی ہے اورصرف اللہ میں رغبت رکھتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کی طرح بیٹھ نہیں رہتے جو آخرت سے مایوس ہوچکے ہوں بلکہ وہ اللہ کی طرف دوڑتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنی سواریوں سے اُترتے نہیں اور نہ ہی اپنے اونٹوں کوآرام کرنے دیتے ہیں۔ وہ لوگوں کی محتاجی سے بچتے ہیں اور کہیں نہیں ٹھہرتے۔ وہ اپنے ربّ کی رضاکی خاطر سجدہ ریز ہوکر اور کھڑے ہوکر رات گزارتے ہیں اورآسائش کی زندگی بسرنہیں کرتے۔ اور وہ جو تمام حجاب دورہونے اورحق تعالیٰ کا دیدار کرنے کے لئے بے قرار رہتے ہیں۔ وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ اُن پر رحم کیا جائے۔ وہ اللہ کی نسبت اپنے نفس کوآسودہ نہیں کرتے۔ خواہ ان کا خون بہادیاجائے۔ وہ اپنے نفوس میں محبت الٰہی کی آگ روشن کرتے ہیں اورہر آن اُسے روشن رکھتے ہیں۔ وہ وفا کی گرہ کو مضبوطی سے باندھتے ہیں اوراس پر قائم رہتے ہیں خواہ وہ ٹکڑے ٹکڑے کردئیے جائیں۔ یہی لوگ ہیں جن پراللہ رحم کرتاہے اور ہر دروازے سے ان پراپنی چہرہ نمائی کرتاہے اورانہیں وہاں سے عطا فرماتاہے جواُن کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ اللہ سے پیار کرتے،اُس کاکامل تقویٰ اختیار کرتے اوراسی سے ڈرتے ہیں۔ یقیناوہ لوگ جودنیا کے گوشت کے ٹکڑے اوراس کے پانی کی تلچھٹ پر گرتے ہیں اوراللہ کی عطائِ جزیل سے مایوس ہوتے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جن سے اللہ ہمکلام نہیں ہوتا اوروہ کسی ویران جنگل میں پھینک دئیے جاتے ہیں اوروہ اندھے ہونے کی حالت میں ہی مرجاتے ہیں۔ وہ آنکھیں نہیں کھولتے باوجود سورج کی روشنی کے جو اُن پرطلوع ہوئی، اورنہ ہی وہ آنکھوں کوحرکت دیتے ہیں گویاان پرسورج طلوع ہی نہیں ہوا اورگویاوہ جانتے ہی نہیں۔ اوراللہ تعالیٰ کی سنت اسی طرح جاری ہے کہ وہ شخص جواُس کے حضورحصولِ رضاکے لئے آیا وہ اُس شخص کی طرح نہیں ہوسکتاجس نے نافرمانی کی اور گمراہ ہوگیا۔ بے شک وہ(اللہ)غافلوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ اس کی طرف دوڑ کرجاتاہے جواُس کی طرف چل کر آتا ہے۔ اوروہ متقیوں سے محبت کرتا ہے۔ اس کی ایسی سنت ہے جو مخفی نہیں جیسے سیلاب کے بعد رہ جانے والی جھاگ۔ سنو، سنو!اُس کی سنت صبح روشن کی طرح ظاہر ہے جو ہر وقت دیکھی جاسکتی ہے۔ جھوٹاتباہ ہوگیا اور سچا سربلند اور منصب عالی پر متمکن ہوگیا۔ پس خوشخبری ہے اُس کے لئے جوخدا کی طرف لَوٹااوراس کے لئے مشتاق ہوااور اُس کی چوکھٹ پربیٹھ گیااورصرف اسی سے محبت کرنے لگا۔ بلاشبہ وہ(خدا)محبت کرتاہے اُس شخص سے جواُس کی خاطرپِس جاتاہے۔ اور وہ فربہ انسان کو پسند نہیں کرتا۔ پس ہلاکت ہے اُن کے لئے جواندھے چوہے کی طرح دَم سادھے بیٹھے رہتے ہیں۔ اُن کے وسوسے ایک کثیرالاولاد عورت کی اولاد کی طرح کثیرہیں۔ اللہ کی طلب میں توانہیں پیاس نہیں ہے اور دنیا کے گوناگوں فوائد ان کے دلوں پرمسلّط ہیں۔ ان کے نفوس کمزور ہوگئے،پس بارِایمان (ان پر)گراں ہوگیا اوروہ بوجھ تلے دب گئے۔ وہ ہمیشہ دنیا کی یادمیں لگے رہتے ہیں اوراُن کی ساری بے قراری دنیا کے لئے ہوتی ہے۔ قریب ہے کہ وہ دین کاجامہ پھاڑ دیں اوروہ جانتے بوجھتے ہوئے اللہ کی طرف غلط باتیں منسوب کرتے ہیں۔ اورجس مکر کوانہوں نے اختیارکیا۔ اس سے انہوں نے اپنی آنکھیں پھوڑ دیں بایں ہمہ کہتے ہیں کہ ہم بینا قوم ہیں۔ انہوں نے اپنی (ناقۂ)فراست کولٹایااوراُسے ذبح کر ڈالا۔ قرآن انہیں پابندکررہاہے اوروہ ہیں کہ وہ اُس سے رُوگردانی کررہے ہیں۔ اُن کی حالت اُس کھیتی سی ہے جسے بارش کی کثرت نے خراب کردیا ہو یا اس روئیدگی کی سی ہے جسے سردی کی شدت یاپانی کی قلت نے نقصان پہنچایاہو۔ اللہ کی تویہی منشاء تھی کہ وہ انہیں علم میں بڑھائے لیکن وہ اپنا سبق بھول گئے۔ یااُن کی حالت اُس شخص کی سی ہے جو ایک ایسی جگہ بیٹھا ہو جہاں کبھی بھی دھوپ نہیں پڑتی، پس سورج طلوع ہوایہاں تک کہ اس کے سر پر آگیا اوروہ اندھیرے میں ہی رہا، اورکچھ دوسرے لوگ ہیں جوشدت گرماپرراضی ہیں اور ان میں سے ایک، دوسرے کے بالمقابل ہے۔ یقینا مَیں ذوالقرنین کی طرح تیزرَو ہوں ، مَیں نے ایک قوم کوسخت گرمی میں اوردوسری قوم کوآنکھوں کے فقدان کی وجہ سے سخت سردی اورگدلے چشمے پرپایا۔ مَیں صائب الرائے ہوں اورمَیں اللہ (کے دکھانے) سے دیکھتا ہوں۔ اور مجھے خوب معلوم ہے کہ قضاء و قدر نے اپنا تیر نکالا اور چلایا، اس لئے اے عقل مندو!آنسوبہانے والی آنکھ سے اللہ کو یاد کروتاکہ جُود وکرم میں سے تھوڑا یازیادہ حصہ پائو۔ سلامتی ہواس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ میں ہوں خدائے یگانہ کابندۂ فقیر۔ غلام احمدؐ القادیانی المسیح الربّانی‘‘۔ (تذکرۃالشہادتین، عربی حصّہ کا اردو ترجمہ۔ صفحہ 45 تا 49)