https://youtu.be/iuEXxgpm_ds ہے عجب میرے خدا میرے پہ احساں تیرا(اشعار ۱۹ تا ۲۲) (تسلسل کے لیے دیکھیے الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍اگست ۲۰۲۴ء) ۱۹۔میری اولاد کو تو ایسی ہی کردے پیارے دیکھ لیں آنکھ سے وہ چہرۂ تاباں تیرا چہرۂ تاباں chehra-e-taabaaN: چمکدار پُرنور چہرہ Beaming radiant face میرے پیارے اللہ! تو میری اولاد کا خود سے ایسا تعلق بنا دے کہ وہ تجھ سے اتنے قریب ہوجائیں گویا اپنی آنکھوں سے تیرا روشن اور پُر نور چہرہ دیکھ رہے ہوں۔ یہ وہ اولاد تھی جس کے لیے الٰہی بشارتیں موجود تھیں۔ الہامات ہوئے تھے پھر بھی دعاؤں میں یہ گداز آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اپنی اولاد کے لیے محبت کا ثبوت ہے۔ خدا کی ہستی کا عرفان ہونا یہ شعور بیدار کرتا ہے کہ جیسے ہم اسے دیکھ رہے ہیں اور وہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔یہ دعا قبول ہوئی اورآپ کی اولاد نے آنکھوں سے خدا کو دیکھ کرایک دنیا کو دکھایا۔ سب زندہ خدا کی ذات و صفات کا علم و عرفان بانٹتے رہے۔ صرف جسمانی اولاد ہی نہیں روحانی اولاد بھی علم وعرفان میں سب سے آگے ہے اور ان نوروں کو جن کی تخم ریزی حضرت اقدس ؑ کے ہاتھ سے ہوئی تھی دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا رہی ہے۔ ۲۰۔عمر دے، رزق دے اور عافیت و صحت بھی سب سے بڑھ کر یہ کہ پاجائیں وہ عرفاں تیرا رزق rizq: سامان خورونوش Provisions, foodstuff عافیت aafiyat: خیریت، صحت، تندرستی، سلامتی، بھلائی، Happiness prosperity،safety, welfare عرفاں irfaaN: پہچان، خدا تعالیٰ کا علم حاصل کرنا۔ Divine knowledge and recognition میرے پیارے اللہ ! میری اولاد کو خیر کی لمبی عمر دینا۔ رزق دینا۔ صحت تندرستی اور سلامتی سے رکھنا اور ان سب سے بڑھ کر یہ احسان کرنا کہ انہیں تیری ذات و صفات کا شعور ہو۔ آپ کی ساری اولاد موعود اور محمود تھی۔ سب مظاہرالٰہی اور شعائراللہ تھے۔یہ ذریت طیبہ دعاؤں کے رزق سے پلی بڑھی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے عرفان کی دعائیں جو مقبول ہوئیں۔عرفان حاصل ہوا اور اسے عام کیا۔ ۲۱۔ اب مجھے زندگی میں ان کی مصیبت نہ دکھا بخش دے میرے گناہ اور جو عصیاں تیرا گنہ gunah: گناہ Sin عِصیاں isyaaN: گناہ، خطا، جُرم، Disobedience, sins, faults, crimes میرے اللہ! اب جو میری زندگی ہے اس میں مجھے اپنی اولاد کی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ میری ساری خطائیں اور گناہ بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دس بچوں سے نوازا تھا جن میں سے پانچ چھوٹی عمر میں وفات پاگئے۔بچوں کی وفات والدین کے لیے بڑے صدمے کا باعث ہوتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہتے ہوئے حضرت امّاں جانؓ صبر کا نمونہ دکھاتی رہیں۔ صاحبزادہ مبارک احمدؓ کی وفات پر آپؓ کا صبر مثالی تھا، بچہ شدید بیمار تھا، حالت نازک تھی۔ نماز کا وقت ہوگیا، حضرت اماں جان ؓ نے حضرت اقدسؑ سے کہا کہ آپ ذرا اس کے پاس بیٹھ جائیں۔ میں نے نماز نہیں پڑھی۔ میں نما زپڑھ لوں۔ وہ نماز میں مشغول تھیں کہ لڑکے کا انتقال ہوگیا۔ انہوں نے سلام پھیرتے ہی پوچھا کہ لڑکے کاکیاحال ہے ؟ جواب ملا ’ لڑکا تو فوت ہوگیا‘ اس خبر پر اس ماں کا رد عمل دیکھیے۔ یہ وہ فنا فی اللہ ماں ہے جو اپنے لخت جگر کو عالم نزع میں چھوڑ کر نماز وقت پر ادا کرنے کھڑی ہوگئی۔ ’ الحمدللہ! میں تیری رضا پر راضی ہوں۔‘یہ صبر جمیل اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ حضرت اقدس ؑ کو الہام ہوا: ’’خدا خوش ہو گیا۔‘‘ یہ الہام کیا تھا سارے درد کا درماں تھا۔ فرمایا: مجھے اس الہام سے اتنی خوشی ہوئی ہے کہ اگر دو ہزار مبارک احمد بھی مرجاتا تو میں پرواہ نہ کرتی۔ (الحکم ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۷ء۔ بحوالہ اصحاب احمد جلد۱ صفحہ ۳۹۔ مرتبہ مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے) صدمہ صرف بچے کی وفات کا ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ اُس کے ساتھ دنیا میں مخالفت کا ایک طوفان اٹھ جاتا۔ طرح طرح کے بے بنیاد الزامات اور استہزا کا سامنا کرنا پڑتا۔ ناسمجھ لوگ وفات کو بھی تمسخر کا ذریعہ بنا لیتے۔ یہ پہاڑوں سے بڑے صدمے آپؓ بڑے صبر سے برداشت کرتیں اور دعاؤں میں ڈوبی ہوئی خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتیں۔ ۲۲۔اس جہاں کے نہ بنیں کیڑے یہ کر فضل ان پر ہر کوئی ان میں سے کہلائے مسلماں تیرا کیڑے keere: مکوڑا، پتنگا Worm, insect میرے اللہ ! میری دعا ہے کہ میری اولاد دنیا کے معاملات میں نہ پڑے ان کو اپنے فضل سے سچا پکا مسلمان بنادے۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا مسلمان بنادے۔ دجال کا رعب ان کے گھر تک نہ آئے۔ یہ وہ سارے مقاصد پورے کرنے والے ہوں جن کے لیے تو نے اپنے مسیح و مہدیؑ کو اس دور میں بھیجا۔ اولاد کے لیے دعاؤں میں گداز کا عالم حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: آپ کی نیکی اور دینداری کا مقدم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا۔ پانچ نمازوں کا تو کیا کہنا۔ حضرت امّاں جانؓ نماز تہجد اور نماز ضحی کی بھی بے حد پابند تھیں اور اُنہیں اس ذوق و شوق سے ادا کر تی تھیں کہ دیکھنے والوں میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی تھی۔ بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقع ملتا نماز میں دل کا سکون حاصل کر تی تھیں … پھر دعا میں بھی حضرت اماں جان ؓکو بے حد شغف تھا۔ اپنی اولاد اور ساری جماعت کے لیے جسے وہ اولاد کی طرح سمجھتی تھیں بڑے درد و سوز کے ساتھ دعا کیا کرتی تھیں اور احمدیت کی ترقی کے لیے اُن کے دل میں غیر معمولی تڑپ تھی۔ اپنی ذاتی دعاؤں میں جو کلمہ ان کی زبان پرسب سے زیا دہ آتا ہے وہ یہ مسنون دعا تھی۔ یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ یعنی اے میرے زندہ خدا اور میرے زندگی بخشنے والے آقا!مَیں تیری رحمت کا سہارا ڈھونڈتی ہوں۔ (جاری ہے) مزید پڑھیں: ہمت کے پہاڑ، محنت کے سمندر