اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط۱۱۔گذشتہ سے پیوستہ) تاریخِ الفضل کا ایک ورق روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۸؍جون۲۰۱۴ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے قلم سے ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میںسلسلہ احمدیہ میں پریس کے آغاز سے ۱۹۴۰ء تک اس کی بتدریج ترقی کی ایمان افروز تاریخ بیان کی گئی ہے اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا اجمالی تذکرہ کیا گیا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جس سرعت سے نشرواشاعتِ اسلام کا کام کرنا چاہتے تھے اُس میں ایک بڑی رکاوٹ امرتسر اور بٹالہ کے مختلف مطبع خانوں سے لٹریچر کی اشاعت تھی۔ بعض اوقات حضورؑ پریس کو قادیان منگوالیا کرتے تھے اور اس کے لیے تمام اخراجات بھی ادا کرتے تھے۔ لیکن اکثر پریس والے اپنے وعدے کے مطابق کام مکمل نہ کرتے جو تکلیف کا باعث ہوتا۔ چنانچہ ۱۸۸۷ء میں آپؑ نے قادیان میں اپنا پریس نصب کرنے کا فیصلہ فرمایا جس کا ابتدائی تخمینہ تیرہ چودہ سو پاؤنڈ تھا۔ تاہم یہ منصوبہ قابل عمل نہ ہوسکا۔ ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ پر جو مشورے ہوئے اُن میں سے ایک یہ بھی تھا چنانچہ ۱۸۹۳ء میں جب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کی اشاعت شروع ہونے لگی تو حضورؑ کے ارشاد پر محترم شیخ نوراحمد صاحب مالک ریاض ہند پریس اپنا پریس امرتسر سے قادیان لے آئے اور گول کمرے میں نصب کیا۔ بالآخر ۱۸۹۵ء میں ضیاءالاسلام پریس قادیان کا قیام عمل میں آیا جس میں پہلی کتاب ’’ضیاءالحق‘‘ شائع ہوئی۔ اس پریس کی ابتدائی نگرانی حضورؑ خود فرمایا کرتے تھے۔ یہ چھوٹا سا لکڑی کا پریس تھا جو ہاتھ سے چلایا جاتا تھا۔ سب سے بڑی دقّت یہ تھی کہ اس کو چلانے کے لیے آدمی نہ ملتے تھے۔ بعض صحابہؓ نے وہاں خدمت بھی کرنا چاہی۔ ایک دوست کا بیان ہے کہ ایک دن وہاں کچھ وقت کام کیا مگر چونکہ عادت نہ تھی اس لیے کندھے شل ہوگئے اور ہاتھ تو ایسے ہوگئے جیسے خون ٹپک رہا ہو۔ حضورعلیہ السلام سے کسی نے میری حالت کا ذکر کیا تو نماز ظہر کے بعد مجھے دیکھ کر حضورؑ نے ازراہ شفقت فرمایا: میاں! یہ تمہارا کام نہیں ہے۔ حضورؑ کے ضیاءالاسلام پریس پر مرزا اسماعیل بیگ صاحب اور شیخ نور احمد صاحب وغیرہ کام کرتے تھے اور حضرت حکیم فضل الدین صاحب مہتمم تھے۔ جلد ہی الحکم اخبار کا اپنا انواراحمدیہ پریس قائم ہوگیا جس کی مشینوں میں اضافہ بھی ہوتا گیا۔ ۱۹۰۷ء میں حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے ایک بڑی مشین خرید کر پریس میں لگادی۔ اسی طرح اخبار بدر اور فاروق کے بھی اپنے پریس قائم ہوگئے۔ ۱۹۱۴ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے دَور کے آغاز میں قادیان میں اللہ بخش سٹیم پریس نصب کیا گیا۔ تاہم اخبار الفضل اور دیگر لٹریچر کی کتابت اور طباعت کے مسائل بڑھتے ہی گئے۔ ۱۹۲۴ء میں جب حضورؓ یورپ تشریف لائے تو آپؓ کے پیش نظر طباعت کے لیے مشین کی خریداری بھی تھی چنانچہ اس کا جائزہ لیا جاتا رہا۔ بعدازاں مختلف پریسوں کے لیے انجن اور نئی مشینوں کی خریداری کا سلسلہ تو جاری رہا لیکن ایک مشکل یہ بھی تھی کہ الفضل اُسی پریس سے شائع ہوسکتا تھا جس پریس کی منظوری لی گئی تھی چنانچہ اگر پریس میں کوئی خرابی پیدا ہوجاتی جو دو تین دن میں درست ہوتی تو اس دوران اخبار بھی شائع نہ ہوسکتا۔ اچانک اخبار بند ہوجانے سے دور کی جماعتوں میں بہت بےچینی پیدا ہوجاتی۔ ایسی ہی ایک خرابی ۱۹۳۸ء میں واقع ہوئی جب ایک پُرزہ ٹوٹ گیا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی یہ بھی خواہش تھی کہ عمدہ خوشخط کاتب قادیان میں رہیں تاکہ آپؑ کے کام میں رخنہ پیدا نہ ہو۔ تاہم یہ دقّت ہمیشہ رہی۔ بلکہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے اپنے دَور میں یہ تحریک بھی کروائی کہ کچھ لوگ محض سلسلہ کی خدمت کے لیے کتابت سیکھیں۔ تاہم اس دقّت کی وجہ الفضل کے صفحات بھی بعض دفعہ کم کرنے پڑتے۔ اخبار کی اشاعت میں ایک بڑی مشکل کاغذ کی فراہمی بھی تھی جسے لاہور سے منگوانا پڑتا تھا۔ جنگ عظیم دوم شروع ہوتے ہی کاغذ کے نرخ میں یکدم بہت اضافہ ہوگیا کیونکہ کاغذ سویڈن سے درآمد کیا جاتا تھا لیکن جرمن آبدوزوں نے تارپیڈو مار کر اتحادیوں کے بحری جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا جس سے کاغذ کی کمی ہوگئی۔ نتیجۃً اخبارات مالی مشکلات کا شکار ہوگئے اور استعمال ہونے والے کاغذ کی کوالٹی پر بھی اثر پڑا اور اکثر جرائد کا حجم بھی کم ہوگیا۔ ………٭………٭………٭……… الفضل کی اشاعت لاہور میں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں اخبار الفضل کے لاہور میں سات سالہ عرصے (۱۵؍ستمبر۱۹۴۷ء تا ۳۰؍دسمبر۱۹۵۴ء) کا جائزہ مکرم منور علی شاہد صاحب کے قلم سے پیش کیا گیا ہے۔ جون ۱۹۱۳ء سے لے کر اگست ۱۹۴۷ء تک روزنامہ الفضل قادیان سے شائع ہوتا رہا۔ تقسیمِ ہند کے بعد۱۵؍ستمبر ۱۹۴۷ء سے روزنامہ الفضل لاہور پاکستان کے نام سے شائع ہونا شروع ہوا اور ۲۶؍فروری۱۹۵۳ء تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ ۱۹۵۳ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات کے باعث ۲۷؍فروری۱۹۵۳ء سے الفضل ایک سال کے لیے بند کر دیا گیا۔ ۱۵؍مارچ۱۹۵۴ء سے دوبارہ الفضل لاہور شائع ہونا شروع ہوا اور یہ دسمبر ۱۹۵۴ء میں ربوہ منتقل ہو گیا۔ روزنامہ الفضل کے لاہور سے نکلنے کا دَور اس لحاظ سے بے سرو سامانی کا دور تھا کہ مرکز سے دُوری، مہجوری، مجبوری و محرومی اس کے شامل حال رہی۔ یہ پرانی انارکلی سے ملحق ۳۔میکلیگن روڈ سے نکلتا رہا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکی ہدایت پر مولانا روشن دین تنویر صاحب، جناب شیخ خورشید صاحب اور مکرم احمد حسین صاحب کاتب ۹؍ستمبر۱۹۴۷ء کو قادیان سے لاہور پہنچے۔ الفضل کے مینیجر جناب چودھری عبدالواحد صاحب (سابق مدیر ’’اصلاح‘‘ سرینگر) تھے۔ اخبار کا ابتدائی کام مسجد لال روڈ کے سامنے ایک کوٹھی میں نہایت بےسرو سامانی میں شروع کیا گیا۔ دن رات کی بھاگ دوڑ کے بعد بالآخر ۱۴؍ستمبر کی شام کو الفضل لاہور کا پہلا شمارہ شائع ہونے کے لیے پریس میں بھجوایا گیا جس پر ۱۵؍ستمبر ۱۹۴۷ء (۳۰؍شوال ۱۳۶۶ھ ) کی تاریخ درج تھی۔ ایڈیٹر مکرم روشن دین تنویر صاحب اورپرنٹر و پبلشر قاضی عبد الحمید صاحب تھے جبکہ گیلانی الیکٹرک پریس ہاسپٹل روڈ لاہور میں طبع ہو کر جودھا مل بلڈنگ لاہور سے شائع کیا گیا۔ صفحہ اوّل پر حضرت مصلح موعودؓ کا ارشاد بعنوان ’’کیا آپ سچے احمدی ہیں؟‘‘ شائع ہوا۔ روزنامہ الفضل پر اس کے اجرا کے ۶سال بعد حکومت کی طرف سے ایک سال کے لیے پابندی عائد کر دی گئی۔ ایک سال کی پابندی کا عرصہ مکمل ہوتے ہی ایک دو ورقہ علامتی الفضل ۱۵؍مارچ۱۹۵۴ء سے نکلنا شروع ہوا جو مکرم محمدشفیع اشرف صاحب بطور قائم مقام ایڈیٹر نکالتے رہے۔ انہوں نے ۲۵؍مارچ ۱۹۵۴ء تک دس پرچے نکالے۔ ۲۶؍مارچ ۱۹۵۴ء سے الفضل۸صفحات پر مشتمل اپنی روایتی شان کے ساتھ دوبارہ نکلنا شروع ہوا ۔ پارٹیشن کے بعد لاہور سے الفضل کے اجرا کے وقت سے رپورٹنگ کی ڈیوٹی محترم ثاقب زیروی صاحب کے سپرد تھی۔ آپ کو تمام پریس کانفرنسوں اور سرکاری تقریبات میں مدعو کیا جاتا تھا ۔ ۱۹۴۹ء کے اوائل میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی زیر ہدایت محترم مسعود احمد دہلوی صاحب کو الفضل کا رپورٹر مقرر کر دیا گیا اور محترم ثاقب صاحب نے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے فرائض سنبھال لیے ۔ محترم دہلوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ پاکستان ٹائمز کے نامی گرامی رپورٹر میاں محمد شفیع المعروف م۔ش نے مجھے اپنے شاگردوں کے حلقہ میں شامل کر لیا اور رفتہ رفتہ وہ مجھے رپورٹنگ کے اسرار و رموز سے آگاہ کرتے رہے۔ اس زمانہ میں سرکاری تقریبات میں محترم مولانا عبدالمجید سالک ایڈیٹر روزنامہ انقلاب بھی تشریف لایا کرتے تھے۔ چونکہ میں نے کچھ عرصہ ’انقلاب‘ میں بھی کام کیا تھا۔ وہ مجھ سے پہلے واقف تھے۔ ان کی نظر التفات نے بھی اخبار نویسوں کے حلقہ میں جگہ بنانے میں بہت مدد کی۔ حالیہ تاریخ کا ایک سیاہ دن وہ بھی تھا جب۲۸؍مئی ۲۰۱۰ء کو لاہور کی مساجد میں دہشتگردی کے بعد بڑھتی ہوئی مخالفت کا بہانہ بناکر ۲۵؍جولائی ۲۰۱۲ء سے اخبار فروش یونین کے ذریعے الفضل کی لاہور میں تقسیم و فروخت قانونی نوٹس کی دھمکی دے کر بند کرادی گئی۔ ………٭………٭………٭……… الفضل کے ساتھ وابستہ خوبصورت یادیں روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۸؍جون۲۰۱۴ء میں مکرم زبیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ کسی بھی موضوع پر مقالہ یا تقریر کی ضرورت ہو تو الفضل سے تیاری کی جاسکتی ہے۔ پھر مختلف مسالک کے بزرگوں کے حالات بھی اس میں شائع ہوتے ہیں۔ ایک متعصب دوست جو امام ابن تیمیہؒ کے پیروکار تھے اُنہیں خاکسار نے وہ الفضل دیا جس میں حضرت ابن تیمیہؒ پر ایک مضمون شامل تھا۔ وہ اتنے خوش ہوئے کہ مزید اخبارات کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح دیگر مسالک کے بزرگوں کے مضامین اور خلفائے راشدین نیز ائمہ اہل بیت کی ثناخوانی سے متعلق مضامین متعلّقہ احباب کو دیے تو وہ خوشی سے وہ شمارے لے جاتے۔ بعض شمارے مَیں مستحق احمدی احباب کو دے دیتا ہوں۔ الفضل کا مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جیسا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فلپائن کے مبلغ کو نصیحت فرمائی تھی: اردو زبان بھولنا نہیں … الفضل دیکھتے رہیں تو اردو زبان نہیں بھولے گی۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۸؍جون۲۰۱۴ء میں مکرمہ احمدی بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ جب سے مَیں نے ہوش سنبھالی تو گھر میں الفضل کو دیکھا۔ اُس وقت یہ سہ روزہ تھا۔ جب الفضل کو بندش کا سامنا کرنا پڑا تو یہ چیز شدید ذہنی اور قلبی کرب کا باعث تھی کہ اکثر دعا کے دوران آنسو نکل آتے۔ آخر ایک روز خواب دیکھی کہ میرے پوتے نے الفضل دیتے ہوئے کہا کہ یہ لیں جسے ہر وقت یاد کرتی تھیں۔ پھر ایک شب دیکھا کہ ہاکر نے اخبار ڈالے ہیں جاکر دیکھا تو الفضل بھی اس میں تھا۔ مَیں نے اٹھاکر چوما اور سب کو آواز دے کر یہ خوشخبری دی۔ آنکھ کھلی تو صبح کی اذانیں ہورہی تھیں۔ طبیعت پر اداسی چھاگئی جسے دُور کرنے کے لیے نماز اور تلاوت کے بعد حضورانور کی کیسٹ لگالی۔ اسی دن لجنہ کی ایک عہدیدار آئیں تو بتایا کہ الفضل دوبارہ جاری ہورہا ہے۔ یہ خبر سن کر کچھ بول نہ سکی صرف آنسو نکل آئے۔ پھر چند دن بعد ملازم اخبارات لایا تو سب سے اوپر الفضل نظر آیا۔ بےاختیار اٹھاکر سینے سے لگایا اور آنسوؤں کے ساتھ سجدہ میں گر کر دعا کی کہ خدا کرے کہ یہ نہر مصفّٰی ہمیشہ جاری رہے۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں حضرت ذوالفقار علی خان گوہرؔ صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے: اے عزیز! اپنے لیے بختِ رسا پیدا کرتُو بنے جانِ جہاں ایسی فضا پیدا کرسامنے تیرے ہے میدانِ عمل کی وسعتعزمِ شہباز دکھا ، بالِ ہُما پیدا کرآرزوؤں میں تیری روح ہو قربانی کیاپنے ارمانوں میں تُو ذوقِ وفا پیدا کرجلوۂ یارِ حقیقی کا ہو ادراک تجھےنکتہ چیں آنکھ میں وہ نُورِ حیا پیدا کراُٹھ کہ ہے سعی و عمل ہی میں حیاتِ جاویدرہبری کر کے نئے راہ نما پیدا کرپھنس گئی ظلمتِ الحاد میں ساری دنیاگمرہوں کے لیے پھر راہ ہدیٰ پیدا کر مزید پڑھیں: چارلی کرک کا قتل اوربحیثیت مسلمان میرا ردعمل