https://youtu.be/TcfrgsDZXNw بُرے سوشل میڈیا انفلوئنسرز زہریلے سانپوں کی مانند ہیں جو آپ کے بستروں الماریوں اور کپڑوں میں گھس سکتے ہیں۔ اِن سانپوں کو پکڑ کر روشنی میں لانا ضروری ہے (پیش خدمت آرٹیکل ’’شہر آسیب میں ایک شام ‘‘سلسلے کی چوتھی کڑی ہے ) ایک لذیذ سوغات جو بچپن کے بےفکر رَت جگوں میں دستیاب ہوتی تھی اور بچے بڑے شوق سے اس کی طرف لپکتے تھے، ٹوٹ پڑتے تھے، اس سے دل نہیں بھرتا تھا چاہے کتنا وقت گزر جائے من مزید کا تقاضا کرتا تھا۔ جس رات یہ سوغات ہاتھ نہ لگتی دل اداس اور ماحول ادھورا ادھورا سا لگتا تھا۔ یہ لذیذ سوغات قصہ گوئی کی روایت تھی۔ جاڑے کی یخ بستہ راتوں میں بچے گرم بستروں میں لپٹے کہانی گو (خاندان کے بڑے بوڑھے) کی طرف متوجہ ہوتے۔ کہانی گو چند لمحوں کے لیے مستغرق ہو جاتا، وہ ذہن کے ریکارڈ روم میں گھوم پھر کر ایک اچھی سی کہانی کا انتخاب کرتا، بچوں کی طرف دیکھ کر زیر لب مسکراتا اور پھر گلا صاف کر کے کہانی کا آغاز کر دیتا۔ کمرے کے کونے میں دھری انگیٹھی سے پھوٹتی چنگاریوں کی مدھم روشنی، سلگتے کوئلوں کی بُو، سرد مہر دیواروں سے الجھتی گرمائش اور بند دروازوں پر سر پٹختی ہواؤں کی دھن میں کہانی آگے بڑھتی۔ بچے کہانی کار کے چہرے کو اس طرح تکتے رہتے کہ جیسے وہ ٹی وی سکرین پر کہانی کے بدلتے مناظر دیکھ رہے ہیں۔ جب کہانی سنسنی خیز موڑ پر پہنچتی تو کہانی کار کسی ماہر مقرر کی طرح سامعین کے تجسس کو ابھارنے کے لیے توقف اختیار کرلیتا، پھر بےساختہ ایک بچہ بول اٹھتا آگے بتائیں کیا ہوا؟ قصہ گوئی کی روایت ہر موسم میں جاری رہتی۔ گرم مرطوب راتوں کی محفلیں آنگن یا چھتوں پر بچھی چارپائیوں پر جمتیں۔ تاروں بھرے آسمان کے نیچے پہاڑی قلعوں میں قید شہزادیوں کے قصے چھڑتے، دلیر شہزادوں کے پرخطر سفروں کا حال سنایا جاتا۔ رحم دل حکمرانوں اور ظالم بادشاہوں کے سبق آموز واقعات داستان میں پروئے جاتے۔ جن،بھوتوں اور جادوگروں کی کہانیوں کے علاوہ مثالی کرداروں، نمونوں اور رول ماڈلز کے سچے قصے بھی سنائے جاتے تھے، ٹیپو سلطان کی بہادری، حاتم طائی کی سخاوت، عظیم مذہبی ہستیوں کا خدا اور بندے سے تعلق وغیرہ قصوں کہانیوں کے رنگ میں بچوں تک پہنچایا جاتا۔ کہانی کسی اصلاحی یا اخلاقی پہلو کو اجاگر کرتی ۔کوئی سیکھتا اور کوئی سبق اس سے حاصل کرتا۔ کہانیوں کے ذریعے بچوں میں اخلاقی اقدار، روایات اور ثقافت کو پروان چڑھایا جاتا۔ گزرتے وقت کے ساتھ کہانیاں بچوں کے رسائل میں بیان ہونے لگیں۔ ہندوستان میں بچوں کا سب سے پہلا رسالہ ’بچوں کا اخبار‘ کے نام سے ۱۹۰۲ء میں لاہور سے شائع ہوا۔ ایکس جنریشن (وہ نسلیں جن کا بچپن انٹرنیٹ، سمارٹ فون، سوشل میڈیا اور دیگر انٹرنیٹ سے منسلک آلہ جات کے بغیر گزرا) تعلیم وتربیت، نو نہال، آنکھ مچولی اور پھول جیسے بچوں کے رسائل سے خوب واقف تھی۔ ان رسائل میں فکشن کہانیوں کے ساتھ مثالی کرداروں، اخلاقی نمونوں اور رول ماڈلز کو بھی متعارف کروایا جاتا تھا۔ اُن کے عظیم کارناموں کی مدح سرائی کی جاتی تھی، اُن کے اوصاف اور خصوصیات کو نمایاں کیا جاتا تھا، اُن کے عزم و حوصلے و استقامت و صبر کی تعریفیں کی جاتی تھیں۔ بچوں کو یہ باور کروایا جاتا تھا کہ اگر انہوں نے زندگی میں کچھ کرنا ہے تو وہ ان مثالی کرداروں کی پیروی کریں مثلاً سیاست کے میدان میں محمد علی جناح ایک مثالی کردار ہیں، اسی طرح خدمت خلق کے شعبے میں عبدالستار ایدھی ایک نمونہ ہیں اور علم و تحقیق کی دنیا میں نوبیل پرائز یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام ایک رول ماڈل ہیں۔ مثالی کردار اپنی ذات میں درس گاہ ہوتے ہیں، ان کا پرعزم طرز زندگی، ان کی چٹان جیسی استقامت اور مقصد کو پا لینے کا جنون اُن کی شخصیت کا خاصہ ہوتا ہے۔ ان کے عزم و جنون کی عکاسی فیض احمد فیض صاحب کا ایک مصرع خوب کرتا ہے: جو رُکے تو کوہ ِگراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے مثالی کردار کہانیوں کے دریچوں سے جھانک کر بچوں سے مخاطب ہوا کرتے تھے، یہ رسائل اور کتابوں کے صفحات میں پائے جاتے تھے، یہ معیاری ڈراموں اور فلموں کے ذریعے سکرین پر جلوہ افروز ہوا کرتے تھے۔ آج مثالی کردار کے لیے بچھا ہوا تخت پوش خالی ہے، آج سٹیج پر رول ماڈل کی بجائے بہروپیوں کا قبضہ ہے، آج کتاب قاری کو ڈھونڈتی ہے، آج ڈراموں اور فلموں میں کردار تو ہیں لیکن سب ناقابل تقلید و ناقابل ستائش۔ آج تخت پوش پر سوشل میڈیا کے ایجاد کردہ اثر رساں (social media influencer) براجمان ہیں۔ آج سامعین ٹک ٹاکر کے لیے تالیاں پیٹتے ہیں۔ حال یہ ہے کہ ایک پارک اور اس کے ارد گرد سڑکیں لوگوں سے کھچا کھچ بھر گئیں، معلوم ہوا کہ پارک میں ایک ٹک ٹاکر اثر رساں(influencer) تشریف لائے ہیں اور لوگ ان کے ساتھ ایک تصویر کھنچوانے کے لیے پاگل ہو رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ٹک ٹاکر کی پروفائل پر بے ہودہ، لغو، بے معنی شارٹ ویڈیوز کے علاوہ کچھ نہ تھا لیکن چونکہ اس کے فالورز ملین میں تھے اس وجہ سے وہ جین زی کے لیے مثالی کردار تھا۔ آج جین زی کے لیے مثالی کردار وہ نہیں ہے جو اپنی زندگی کو ایک مقصد کے ساتھ باندھ دے اور پھر اس مقصد کے لیے دنیا تیاگ جائے۔ آج ٹک ٹاک، انسٹاگرام، فیس بک اور یوٹیوب وغیرہ پر بیٹھے اثر رساں جین زی کو یہ درس دیتے ہیں کہ زندگی کا مقصد مہنگی گاڑیوں میں گھومنا، محل نما گھروں میں رہنا، مہنگے برانڈ کی گھڑیاں، جوتے اور کپڑے خریدنا اور سوشل میڈیا پر اپنی تعریفیں سمیٹنا ہے اور یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لیے محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ محنت احمق لوگ کرتے ہیں، آپ کو تو بس چند وائرل ویڈیوز اور ڈھیر سارے فالورز کی ضرورت ہے پھر دیکھیں پیسہ کیسے آپ پر برستا ہے۔ محنت میں برکت، محنت میں عظمت، محنت کرو آگے بڑھو سب دقیانوسی باتیں ہیں۔ آج بجلی کے بلب کو دیکھ کر بہرے ایڈیسن کی یاد کسی کو نہیں آتی۔ آج میری کیوری (Marie Curie) کی کہانی میں کس بےوقوف کو دلچسپی ہے؟ مادام میری کیوری فرانس کی شدید سردی میں کتابیں اوڑھ لیتی تھی اور اس دو نوبیل پرائز جیتنے والی دنیا کی واحد عورت نے اگر تحقیق و علم کے لیے جان دے دی تو آج یہ کارنامہ جین زی کی نظر میں بے معنی ہے۔ ابن سینا سولہ سال کی عمر میں طبیب بن گئے تھے اور ان کی طبی علوم پر مبنی کتاب چھ سو سال تک یورپی درس گاہوں میں پڑھائی گئی لیکن جین زی کے لیے اس قصے میں دم نہیں ہے۔ اثر رساں جین زی کو مندرجہ ذیل سنہرے اصول سکھاتے ہیں۔ علم و تحقیق کے میدان میں نام کمانا کوئی کارنامہ نہیں ہے، اخلاقی اقدار کا نمونہ بننا کوئی چمک نہیں رکھتا، اصل کارنامہ اور چمک سوشل میڈیا پر شہرت حاصل کرنا ہے اور شہرت حاصل کرنے کے لیے آپ کو جس قسم کی بھی غلاظت میں اترنا پڑے وہ جائز ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا influencer بننا کوئی مشکل کام بھی نہیں ہے۔ آپ کیمرے کے سامنے کوئی فحش لطیفہ سنا دیں، کوئی بےہودہ حرکت کر دیں، کوئی ذومعنی فقرہ کس دیں یعنی کوئی بھی اخلاق باختہ، لغو، بے معنی حرکت کر دیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ آپ کی ویڈیو وائرل ہو جائے گی اور آپ بھی اثررساں بن جائیں گے۔پھر آپ کے ساتھ بھی تصویر کھنچوانے کے لیے لوگ پارکوں بازاروں میں جمع ہو جائیں گے۔ پھر ایک دن آئے گا جب آپ ناظرین کو اپنے نئے عالی شان گھر کا دورہ کروائیں گے انہیں مہنگا فرنیچر، برینڈ کے جوتے کپڑے دکھائیں گے اس طرح آپ بھی سوشل میڈیا کے مثالی کردار بن جائیں گے۔ اگر آپ کی ویڈیوز مقبول نہ ہو رہی ہوں تو آپ ایک اور کلیہ بھی آزما سکتے ہیں۔ آپ کسی مشہور چیلنج کو پورا کرکے یا پھر کوئی خطرناک سٹنٹ سرانجام دے کر مقبولیت حاصل کر سکتے ہیں۔ مثلاً ایک مشہور ٹک ٹاک چیلنج جسے بلیک آؤٹ چیلنج کہا جاتا ہے اس میں کیا کرنا ہوتا ہے کہ آپ کو کچھ دیر کے لیے اپنا گلا کپڑے سے گھونٹنا ہوتا ہے۔ اس چیلنج کو کرتے ہوئے کئی بچے جان سے گئے اور کئی بچوں کے دماغ ہمیشہ کے لیے damage ہو گئے لیکن گھبرائیے نہیں وائرل ہونے کے لیے رِسک تو لینا پڑتا ہے۔ نام کمانے کے لیے سوشل میڈیا پر وائرل ہونا ضروری ہے اور وائرل ہونے کے لیے لوگوں کو چونکانا سود مند ہے۔ اب چونکانے کے لیے ون ویلینگ بھی ایک اچھا خیال ہے یا پھر آپ اس سے بہتر سٹنٹ کا مظاہرہ کرسکتے ہیں جیسا کہ ریل کی پٹڑی پر لیٹ کر ریل گاڑی کا انتظار کرنا، بجلی کے کھمبے پر چڑھنا، بھری سڑک پر ریورس گاڑی چلانا، بلندی سے چھلانگ لگانا وغیرہ۔ ارے! مجھے آپ کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر آرہے ہیں، کیا کہا آپ نے؟ والدین آپ کو ڈانٹیں گے؟ ارے جناب! جب آپ کی ویڈیوز وائرل ہو جائیں گی اور آپ ٹک ٹاکر سٹار بن جائیں گے تو والدین آپ کو گلے لگائیں گے آپ کا ماتھا چومیں گے۔ والدین شریکوں کو سنائیں گے کہ دیکھو! ہماری بچی ابھی صرف سترہ سال کی ہے اور اس کے ٹک ٹاک پر ایک ملین فالورز ہو گئے ہیں اور تمہاری بچی سارا دن گھر میں بیٹھی کتابوں میں گھسی رہتی ہے۔ تو جناب والدین کی فکر چھوڑیں وہ بھی سوشل میڈیا کی چمک دمک میں پھنس گئے ہیں، آپ بس کمر کسیں اور سوشل میڈیا پر دھوم مچا دیں۔ ہاں! ایک اَور بات یاد آئی کہ یہ جو ٹین ایجرز، بالغ راتوں رات ٹک ٹاک، انسٹاگرام، فیس بک سٹار بن جاتے ہیں تو کیا یہ کامیابی انہیں اتفاق سے ملتی ہے؟ جی نہیں اچانک لوگ اثر رساں نہیں بنتے بلکہ اس کے پیچھے سوشل میڈیا کی مارکیٹنگ تکنیک کام کررہی ہوتی ہے۔ اگر ٹک ٹاک پر پہلے سے ہی مشہور شخصیات کی شارٹ ویڈیوز وائرل ہوتی رہیں تو عام صارف سوچے گا کہ یہ تو مشہور لوگ ہیں ان کی ویڈیوز تو ضرور مقبولیت حاصل کریں گی۔ صارف ایپ اور اپنے درمیان ایک فاصلہ، دوری محسوس کرتا ہے لیکن جب گم گشتہ دور افتادہ دیہات میں بیٹھے ایک عام سے لڑکے کی ویڈیو وائرل ہوتی ہے اور وہ راتوں رات سوشل میڈیا سٹار بن جاتا ہے تو عام صارف بھی وائرل ہونے کے خبط میں مبتلا ہو جاتا ہے، اب اسے ایپ اجنبی نہیں لگتی۔ اثر رساں بننے کے لیے سوشل میڈیا کمپنیوں نے ایک اور سہولت دی ہوئی ہے۔ دراصل سوشل میڈیا کمپنیاں انتہائی غیر اہم، بےمعنی اور بیکار چیزوں کو انتہائی اہم بنا کر دکھاتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر صارف کو مسلسل مگن رکھنے کی خاطر تازہ دم contentکی فراہمی ہر وقت کھلی رہنا ضروری ہے۔ لیکن دنیا میں ہر روز چونکا دینے والے، صارف کو سکرین کی طرف کھینچنے والے واقعات رونما نہیں ہوتے۔ گھسی پٹی روایتی سیاسی خبریں، موسم کا اتار چڑھاؤ، ٹریفک کا حال وغیرہ ان بے مزہ شب و روز کے چکر سے سوشل میڈیا کا دھندہ نہیں چلتا اور مثبت، اچھے اور نارمل و متوازن واقعات کی کمرشل اہمیت بہت کم ہوتی ہے، اس کے برعکس سنگین، بھیانک، سنسنی خیز اور سکینڈل پر مبنی content کی مارکیٹ value زبردست ہے۔ مارکیٹ میں تو یہ سب ہاتھوں ہاتھ بکنے والا مال ہے پر مسئلہ یہ ہے کہ روز سکینڈل بھی کسی کے نہیں بنتے، سنگینی، سنسنی خیزی اور چونکا دینے والی کہانیاں دستیاب ہونا بھی عام معمول کی بات نہیں ہے۔ ڈیمانڈ اور سپلائی کے درمیان خلا کو content creator اور سوشل میڈیا اثر رساؤں نے پر کیا۔ تو جناب بندر کی طرح اچھل کود کرنا، عجیب سی شکلیں بنانا، گانا بجانا، دوسروں کو چڑانا، مذاق اڑانا اور خودنمائی کے بھونڈے مظاہرے، سب بڑا آسان ہے۔ اب دیکھیے ہم نے آپ کو ایک مددگار اثر رساں ہونے کی حیثیت سے کیسی زبردست ٹپس دی ہیں، ان سے فائدہ اٹھانا نہ اٹھانا اب آپ کا کام ہے۔ اثر رساؤں کے مذکورہ بالا مفید مشوروں اور خفیہ باتوں سے مستفید ہونے کے بعد یہاں ایک وضاحت ضروری ہے۔ کنٹینٹ کریئیٹر اور سوشل میڈیا سٹار بننا کوئی برا کام نہیں ہے اور نہ ہی تمام لوگ جو اس سے وابستہ ہیں برے ہیں۔ سوشل میڈیا کو انسانی و مذہبی اقدار و اخلاقیات اور سماج میں توازن، امن و سلامتی کے فروغ کے لیے استعمال کرنا عین دانشمندی ہے۔ دور حاضر میں سوشل میڈیا کے توسط سے مثبت متوازن صحت مندانہ رویوں و رجحانات کو پھیلانا زیادہ سہل، برق رفتار اور موثر ہو گیا ہے۔ ایک منطقی تدبیر، ایک عارفانہ نکتہ، اچھی بات وغیرہ کو دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچانا قابل تحسین عمل ہے۔ اگر سوشل میڈیا کے آلے کو خدمت انسانیت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو یہ آلہ نعمت سے کم نہیں ہے اور اگر یہ آلہ خدمت ابلیسیت کے لیے وقف ہے تو پھر یہ ڈیجیٹل ایٹم بم ہے جو آپ کے بچوں پر تابکاری اثرات کے آتش فشاں بن کر پھوٹے گا۔ اس مضمون کا مقصد ان کنٹینٹ کریئیٹر اور اثر رساؤں کے کام کو غیر اہم اور متنازعہ بنانا نہیں ہے جو خدمت انسانیت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ہم برے کنٹینٹ کریئیٹرز اور خبیث اثر رساؤں کے برے کاموں اور ان کے بچوں اور نو بالغوں پر اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اب ادھر قاری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ہم اچھوں کا ذکر چھوڑ کر بروں کی باتیں کیوں کر رہے ہیں یعنی ہمیں ان یوٹیوبرز کا ذکر کرنا چاہیے جو مفت میں لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں جو لوگوں کو مہارتیں سکھا رہے ہیں جو لوگوں کو کوئی سروس سوشل میڈیا پر بالکل مفت دے رہے ہیں۔ ہم ان اثر رساؤں کا ذکر کیوں نہیں کرتے جو بچوں، نوبالغوں اور بالغوں کی درست سمت رہنمائی کرتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایک گھرانہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ہم سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کا استعمال بالکل نہیں کریں گے تو ان کا یہ فیصلہ انہیں نہ صرف سمارٹ فون و سوشل میڈیا کے فوائد سے محروم رکھے گا بلکہ اس سے وابستہ شر و نقصان و مضر اثرات سے وہ محفوظ رہیں گے۔ اب ایک اور گھرانہ سمارٹ فون، سوشل میڈیا کے فوائد سے استفادہ اٹھانے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہاں ممکنہ نقصان و مضرات کا امکان و احتمال بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا گھرانہ فوائد کا تو بڑھ چڑھ کر ذکر کرے اور نقصان کے امکان کو فراموش کر بیٹھے گا تو پھر ضرور نقصان اٹھائے گا۔ سوشل میڈیا کے خطرات مخفی در مخفی، باریک اور پیچ در پیچ ہیں جبکہ فائدے زبان زد عام، عیاں اور ظاہر ہیں جس طرح سانپ سوراخوں، کونے کھدروں گھر کے سامان وغیرہ میں چھپنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی یہ خاصیت انہیں ظاہر خطروں سے زیادہ مہلک بنا دیتی ہے اسی طرح مضرات سوشل میڈیا سانپ کی مانند ہیں، خوبصورت contentکی پیکیجنگ میں زہریلے سانپ جو صارف کے تحت الشعور کو ڈستے ہیں یعنی صارف کو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ کیسا زہریلا اثر پڑ رہا ہے۔ ایسے یو ٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور دیگر اثر رساں گیمنگ اور ٹریڈنگ ایپس کے ذریعے جوا کھیلنے کی ترغیب دیتے ہیں تو کبھی جوئے کا لفظ اپنے کنٹینٹ میں استعمال نہیں کرتے، یہ اپنا عالی شان گھر اور مہنگا فرنیچر دکھاتے ہوئے کبھی یہ نہیں کہتے کہ اے صارف! اس وی لاگ کے ذریعے ہم آپ کے اندر حرص اور لالچ کو پیدا کر رہے ہیں اور آپ کو سادہ اور قناعت پسند زندگی سے دور لے جا رہے ہیں، آپ کو مادیت و مادہ پرستی کے شہر کا باسی بنا رہے ہیں۔ ایک خاتون یو ٹیوبر جب خاص مردانہ مسائل و امراض کے حل تجویز کرتی ہے تو وہ یہ اقرار نہیں کرتی کہ اس کا مقصد معلوماتِ عامہ میں اضافہ کرنے سے زیادہ ویوز کا حصول ہے، الا ماشاء اللہ ۔ ایسے بد اثررساں جو انفارمیشن کے نام پر ڈس انفارمیشن پھیلاتے ہیں کیا وہ اپنے content میں یہ کہتے ہیں کہ ہم سبسکرپشن حاصل کرنے کے لیے دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں؟ ادھر ایک لطیفہ یاد آیا ہے، مشہور برطانوی ورلڈ چیمپئن باکسر کارل فروچ نے سال ۲۰۱۹ء میں دھماکہ خیز سائنسی انکشاف کرکے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا کہ دراصل زمین گول نہیں بلکہ فلیٹ ہے اور ناسا جو ہمیں گول زمین کی تصویریں دکھاتا ہے وہ جعلی ہیں ناسا یہ تصویریں سی جی آئی یعنی کمپیوٹر سوفٹ ویئر سے بناتا ہے موصوف انٹرویوز میں لوگوں کو یہ چیلنج دیتے ہوئے نظر آئے کہ ثابت کریں زمین گول ہے۔ ان کے خلا اور سیاروں کے بارے میں تصورات بھی انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔ ایک اور لطیفہ یاد آیا، کووڈ ۱۹ کے دوران سبسکرپشن اور ویوز حاصل کرنے کے لیے ڈس انفارمیشن کا طوفان آ گیا اور اس طوفان بدتمیزی کا سب سے پہلا تگڑا شکار بل گیٹس تھا۔ بل گیٹس کے بارے میں انٹرنیٹ پر یہ پھیلایا گیا کہ وہ کورونا ویکسین میں مائیکرو چپ ڈال کر لوگوں کی آبادی کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے اور ان کی نگرانی کرنا چاہتا ہے۔ یورپ میں 5G موبائل نیٹ ورک کے ذریعے کورونا پھیلانے والی تھیوری سب سے زیادہ مشہور ہوئی اور کئی مقامات پر فائیو جی موبائل ٹاورز کو آگ بھی لگا دی گئی۔ اب بتائیں کہ ڈس انفارمیشن پھیلانے والے کیا اپنے کنٹینٹ میں یہ کہتے ہیں کہ ہم جھوٹ بول رہے ہیں۔ بُرے سوشل میڈیا انفلوئنسرز زہریلے سانپوں کی مانند ہیں جو آپ کے بستروں، الماریوں اور کپڑوں میں گھس سکتے ہیں۔ ان سانپوں کو پکڑ کر روشنی میں لانا ضروری ہے۔ آستین کے سانپوں کا ذکر تو بہت سنا ہوگا، ہو سکتا ہے ایک آدھے سے کبھی مڈبھیڑ بھی ہو گئی ہو، آستین کے سانپوں کی نئی قسم سکرین کے سانپ اب دور حاضر میں پھنکارتے ہیں۔ غرض سوشل میڈیا کے تاریک ترین گوشوں پر floodlights ڈالنے سے ہم زہریلے سانپوں سے بچ سکتے ہیں۔ اب ہم ڈیمانڈ اور سپلائی کی طرف واپس آتے ہیں۔ہم اس نقطے تک پہنچے تھے کہ ٹک ٹاک، انسٹاگرام،فیس بک، یوٹیوب،ایکس وغیرہ کا دھندہ کبھی کبھار برپا ہونے والے اہم واقعات پر نہیں ٹک سکتا کیونکہ ان کمپنیوں کا مقصد صارف کو مسلسل سکرین میں مگن رکھنا ہے۔سکرین اور صارف کا تعلق معطل نہیں ہونا چاہیے۔ سکرین اور انسان کے تعلق کو ہر دم شاداب و جوان رکھنے کے لیے سوشل میڈیا کمپنیوں نے بیرونی دنیا میں رونما ہونے والے کبھی کبھار کے اہم واقعات پر انحصار کرنے کی بجائے اپنی بلا تعطل سپلائی چین ایجاد کر لی۔ یہ منقطع نہ ہونے والی سپلائی چین غیر اہم، لغو، بےمعنی، اخلاق باختہ مواد ہے جسے دلکش پیکیج میں لپیٹ کر سکرین کو متحرک رکھا جاتا ہے۔ سپلائی چین کو فعال رکھنے والے ورکرز اثر رساں کہلاتے ہیں۔ اس سپلائی چین سے محض یہ نقصان نہیں ہو رہا کہ بچے سکرین بینی میں مگن رہتے ہیں، اس سے جین زی میں مادہ پرستی پیدا ہو رہی ہے، یہ غیر حقیقی طرزِ زندگی کے عشق میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ان میں انسانوں سے زیادہ چیزوں کے ساتھ محبت کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ مادیت پرستی، حرص و لالچ صرف ویورز تک محدود نہیں بلکہ اثر رساں خود بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں یا یوں کہنا بہتر ہے کہ جو انتشار وہ پھیلا رہے ہیں وہ لوٹ کر انہیں کو بھسم کر رہا ہے۔ آسٹریلیا کی چونتیس سالہ اثر رساں نے فالورز اور ڈونیشن کے لیے اپنی سگی ایک سال کی بچی کو ایسی دوائیں دیں جس سے اسے شدید درد ہو۔ پھر اس ظالم عورت نے درد سے روتی چیختی بچی کی ویڈیوز بنائیں تاکہ بچی کے لیے فنڈ اکٹھے کیے جا سکیں۔ سوشل میڈیا اثر رساں ایک اور عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔ اُن پر ویورز کا دباؤ ہوتا ہے کہ ہر وی لاگ یا شارٹ ویڈیو میں کچھ نیا ہو، کچھ حیران کر دینے والا ہو۔ مداحوں کا یہ بڑھتا ہوا دباؤ کنٹینٹ کریئیٹر کو جنونی بنا دیتا ہے۔ وہ سبسکرپشن بڑھانے اور مداحوں کو اینگیج رکھنے کی خاطر بداخلاقی و بیہودگی کے تمام ریکارڈ توڑ دیتے ہیں، اپنی بیویوں بہنوں کو کنٹینٹ میں شامل کر لیتے ہیں، اپنے بزرگوں سے ڈانس اور لغو حرکات کرواتے ہیں۔ غرض ہر وقت سٹریس میں رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے ویورز ہاتھ سے نہ نکل جائیں کہیں سبسکرپشن کم نہ ہو جائے۔ مداحوں کا مسلسل دباؤ انہیں ذہنی مریض بنا دیتا ہے۔ انسٹاگرام اور دیگر ایپس پر غیر حقیقی باڈی امیج کو دیکھ کر لڑکے اور لڑکیاں اپنے جسم کے خدوخال، رنگ روپ چال ڈھال سے غیر مطمئن اور ناخوش ہیں۔ سوشل میڈیا پر اثر رساؤں کے موتیوں جیسے چمکتے دانت، سفید و گلابی رنگت، بےداغ ملائم چمکتی جلد، دلکش بالوں کا سٹائل، انتہائی متناسب نین نقش، پتلا جسم اور برینڈ کے کپڑے جین زی کو تخیلاتی، غیرحقیقی خوبصورتی کے سراب کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ اثر رساؤں کی خوبصورتی فلٹر اور کیمرے کی چالاکیوں کی محتاج ہوتی ہے لیکن ان کے مداح ان کے جسموں اور ان کی جعلی خوبصورتی کو آئیڈیالائز کرتے ہیں، وہ خود کو ان جیسا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مداح وزن کم کرنے کے لیے غیر فطری طریقے اپناتے ہیں، بہت سے لڑکے لڑکیاں eating disorders میں مبتلا ہو جاتے ہیں، کھانا پینا ترک کر کے صحتیں برباد کر لیتے ہیں اور ذہنی دباؤ، اضطراب و افسردگی کے عالم میں شب و روز گزرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ماڈلز کی ویڈیوز اور تصویریں دیکھ کر نو بالغ اور بالغ لڑکیاں body dysmorphia کا شکار ہو سکتی ہیں، اس مرض میں مبتلا انسان اپنے جسم کے خدوخال، نین نقش اور چال ڈھال سے ناخوش ہوتا ہے پھر بڑھتے بڑھتے یہ مرض eating disorder میں منتقل ہو جاتا ہے۔ ای۔ ڈی سے مراد ایسے ابنارمل، غیر صحت مندانہ، بے توازن کھانے کے رویے، رجحانات اور عادات ہیں جو جسمانی وزن کو کم کرنے یا اپنی صورت و شکل کے حوالے سے اپنائے جاتے ہیں ای۔ ڈی کا ایک مرض anorexia ہے جس کا نوالہ جین زی بن رہے ہیں، اس کا مریض وزن کم کرنے کے خبط میں کھانے پینے سے پرہیز کرنے لگتا ہے، سوکھ کے کانٹا ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی اسے وزن زیادہ لگتا ہے۔ امریکہ میں ہر سال ہزاروں ٹین ایجرز ای۔ ڈی کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ انسٹاگرام پر جین زی دبلے پتلے ماڈلز، فنکاروں اور اثر رساؤں کو دیکھتے ہیں تو انہیں اپنا پیٹ بڑھا ہوا، کان لمبے، آنکھیں بدنما، جلد داغدار اور چہرہ بدصورت محسوس ہوتا ہے۔ وہ جب انسٹاگرام کی دنیا سے اٹھ کر آئینے میں عکس دیکھتے ہیں تو ناخوش و غیر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ گم گشتہ کہانی گوئی کے کلچر میں مثالی کرداروں کی خوبصورتی ان کا اخلاق، پاکیزہ کردار اور بصیرت و حکمت ہوتا تھا۔ کامل نسوانی خوبصورتی وفا، حیا، صبر و قناعت، دانش مندی کے ساتھ نتھی تھیں لیکن انسٹاگرام کی جادو نگری میں یہ سب سچی خوبصورتی کے معیارات غائب ہو گئے اور صرف جسمانی خوبصورتی کا دھوکا رہ گیا۔ کہانی والی سنڈریلا صرف خوبصورت نہیں تھی بلکہ وہ خوش اخلاق رحم دل اور صابر و شاکر بھی تھی۔ بیوٹی اینڈ دابیسٹ میں بیوٹی انصاف پسند، عقل مند اور وفادار بھی تھی۔ انسانی بچپن میں شیریں اور کڑوی دو بہنوں کی کہانی بچوں کو سنایا کرتے تھے۔ دونوں بہنیں حسین تھیں لیکن شیریں باادب، بااخلاق، ہمدرد تھی جبکہ کڑوی بدتمیز، بے رحم اور بداخلاق تھی۔ ایک دن بہنوں کو راستے میں پری ملی، شیریں پری کے ساتھ ہمدردی اور ادب کے ساتھ پیش آئی، اسے پانی پلایا۔ کڑوی نے پری کا مذاق اڑایا، اسے برا بھلا کہا۔ جب دونوں بہنیں گاؤں واپس پہنچیں تو لوگوں نے ایک عجیب منظر دیکھا، جب شیریں بات کرتی تو اس کے منہ سے موتی اور پھول نکلتے، دوسری طرف جب کڑوی کچھ بولتی تو اس کے منہ سے بدبو خارج ہوتی اور کیڑے نکلتے۔ اس کہانی میں سیرت، اخلاق اور ہمدردی کو اصل خوبصورتی قرار دیا گیا ہے۔ آج اثر رساں ٹین ایجرز خوبصورتی کی صرف جسمانی تصویر سامنے رکھتے ہیں اور یہ جسمانی خوبصورتی بھی غیر حقیقی معیارات پر قائم ہوتی ہے۔ آج کے قصے کہانیوں میں خوبصورتی جسمانی عناصر میں تقسیم ہو گئی ہے جیسے ایک مکمل تصویر کے قینچی سے چھوٹے ٹکڑے کر لیے جائیں اور ہر ٹکڑے کی الگ قیمت مقرر ہو۔ کاسمیٹک انڈسٹری تصویر کے ہر ٹکڑے کے لیے الگ سامان تیار کرتی ہے اور پھر social media influencers کے ذریعے مداحوں کو مصنوعات استعمال کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ دنیا بھر کی بیوٹی انڈسٹریز ہر سال influencer marketing پر تقریباً دو بلین ڈالرز خرچ کر رہی ہیں۔ آج ساٹھ سے ستر فی صد بیوٹی پروڈکٹس سوشل میڈیا پر ترغیب کی وجہ سے صارفین خرید رہے ہیں۔ سوشل میڈیا لائف جین زی کو اس اضطراب میں گھیرے رکھتی ہے کہ تمہارا مقابلہ دوسروں کے ساتھ ہے اور تمہیں ہر وقت ڈیجیٹل دنیا میں judge کیا جا رہا ہے، تمہاری تصویروں، ویڈیوز کو ہزاروں نظریں تول رہی ہیں کہ آیا یہ تصویر یہ ویڈیو قابل قدر ہے یا نہیں، اس لیے تمہاری ظاہر ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ جین زی میں اس خوف کا فائدہ بیوٹی انڈسٹری اٹھا رہی ہے۔ سوشل میڈیا خود ایک مسئلہ ایجاد کرتی ہے کہ آپ کی فزیکل اپیرنس ہی لوگوں کی توجہ کھینچ سکتی ہے آپ کی جسمانی خوبصورتی ہی آپ کو کامیاب کروا سکتی ہے اور آپ کو اپنی فزیکل اپیرنس میں جو کمیاں درپیش ہیں ان کو لازمی درست کرنا چاہیے۔ اب سوشل میڈیا کے پیدا کردہ اس مسئلے کا حل بیوٹی انڈسٹری پیش کرتی ہے کہ جناب ہمارے پاس آئیے ہم آپ کی آنکھوں کو بے پناہ خوبصورت بنا دیں گے، آپ کی جلد کو سنگ مر مر کی طرح چمکا دیں گے، آپ کے ہونٹوں کو فلاں مشہور اداکارہ کے ہونٹوں کی طرح بنا دیں گے۔ ہم آپ کے سراپے کو اردو شاعر تنویر نقوی کی غزل میں ڈھال دیں گے: ’’جان بہاراں رشک چمن غنچہ دہن سیمی بدن‘‘۔ سوشل میڈیا اور بیوٹی انڈسٹری کا گٹھ جوڑ ٹین ایجرز اور بالغوں میں نفسیاتی مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ ایسے عجیب نفسیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں جن کا کچھ سال پہلے نام و نشان نہیں تھا جیسا کہ ایک نیا مرض snapchat dysmorphia ہے۔ اس مرض میں مبتلا لوگ خود کو فلٹر سے آراستہ سیلفی کی طرح بننے کے لیے سرجری کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ جین زی میں mirror checking کا compulsive رجحان پیدا ہو رہا ہے یعنی بار بار آئینہ دیکھنا۔ سوشل میڈیا پر بیوٹی اشتہارات کی بمباری جین زی کی عزت نفس کو مجروح و کم کرتی ہے، لڑکیوں کو لگنے لگتا ہے کہ میک اپ اور بیوٹی فلٹرز کے بغیر وہ اچھی لگ ہی نہیں سکتیں۔ ٹین ایجرز میں دو بڑھتے ہوئے نفسیاتی امراض کا ذکر اوپر ہو چکا ہے: eating disorder اور body dysmorphic disorder۔ تحقیقات کے مطابق سوشل میڈیا کے تباہ کن اثرات نوجوان لڑکیوں پر نسبتاً زیادہ ظاہر ہو رہے ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ لڑکوں کے حوالے سے بے فکر ہو جانا چاہیے۔ لڑکے اضطراب اور افسردگی کے مراحل سے گزرنے کے علاوہ ویڈیو گیمز کی لت کا شکار ہو رہے ہیں، جارحیت و تشدد بڑھ رہا ہے، یہ پورنو گرافی اور ڈرگ کے عادی بن رہے ہیں، بے تحاشا سکرین بینی کی وجہ سے یہ اجنبیت اور تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں۔ بے مقصد scrolling ان کے اندر روحانی خلا کو بڑھاتی جا رہی ہے۔ تو لڑکوں کے معاملے میں بے فکر ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ بدقسمتی سے یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ مندرجہ بالا امراض جن کا ذکر کیا گیا ہے ان میں نسبتاً لڑکیاں زیادہ مبتلا ہو رہی ہیں اور اس کے متعلق ڈیٹا ہوش ربا تصویر پیش کرتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ نو بالغ، بالغ لڑکیوں اور عورتوں پر سوشل میڈیا کا بد اثر زیادہ ہو رہا ہے۔ اس کی کھوج ان شاء اللہ ہم اس سلسلے کی پانچویں کڑی میں لگائیں گے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: کائنات کی وسعت پذیری