https://youtu.be/JNdpPqzUflM اس دنیا میں آنے والے کچھ انسان قدرت کا ایک شاہکار ہوتے ہیں جنہیں قدرت بے شمار صلاحیتوں، جذبات اورعقل و شعور سے نوازتی ہے۔ قدرت کی طرف سے عطا کردہ صفات میں سوچنے، سمجھنے، فوری فیصلہ کرنے، محبت کرنے، دوسروں کا احساس کرنے اور بےساختہ دیوانگی کی قوتیں بھی شامل ہیں۔ چونکہ انسان فطری طور پر سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لیے زمانے کے ساتھ ساتھ حالات، تجربات اور معاشرتی رویّوں سے بھی علم و حکمت حاصل کرتا ہے۔ زمانہ اسے صبر، برداشت، سمجھوتہ اور ترقی کے نئے راستوں سے روشناس کرواتا رہتا ہے اور یہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہنے والا عمل ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک شعر ہے : عاقل کا یہاں پر کام نہیں وہ لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں مقصود مرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو یہ شعر سن کر مرحوم زاہد افضال کی شبیہ نگاہوں میں آ جاتی ہے۔ زاہد افضال صاحب ۱۱؍اپریل ۲۰۲۵ء کو ۶۴؍سال کی عمر میں ہم سے جدا ہو گئے۔ا ن کی شخصیت ایسی تھی جو عقل کے ترازو پر ناپی نہیں جا سکتی۔ عمل اور خلوص کے پیمانے پر بہرحال وہ اپنی مثال آپ تھے۔دنیا کی نظروں میں وہ روایت سے ہٹ کر بظاہر عقل کے پیمانوں پر پورے نہیں اُترتے تھےمگر انہوں نے جماعت احمدیہ جرمنی کے لیے کچھ کام ایسے کر دیے جو ان کی بےساختہ اور بے خوف جدّت پسندی کی وجہ سےعقل والوں کو ہمیشہ حیرت میں ڈالے رکھتے تھے۔ ایسے لگتا تھا جیسے قدرت نے انہیں ایک الگ ہی سانچے میں ڈھالا تھا۔ ایسا سانچہ جس میں جذبہ، جنون، اور خلوص کو ہنر اور وجدان کے ساتھ یکجا کر دیا گیا تھا۔ وہ دنیا کی بنائی گئی حدود کو بھی چیلنج کرتےرہے، زمانے سے سیکھتے بھی رہے۔ انہوں نے خود کو کبھی محدود نہ ہونے دیا۔ چند ہی برسوں میں وہ ایسے محیرالعقل کام کرگئے کہ برسوں کے تجربہ کار بھی حیران رہ گئے۔ درج ذیل چند واقعات ان کی یاد میں ایک خراجِ عقیدت ہیں جو دنیا سے تو چلے گئے مگر اپنی دیوانگی میں وہ کچھ کر گئے جو صرف خوابوں میں ممکن تھا۔ شروع شروع میں جب جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ ناصر باغ میں منعقد ہوا کرتا تھا اور مکرمی عبد الرحمان مبشر صاحب افسر جلسہ سالانہ ہوا کرتے تھے، خاکسار کوشعبہ تبلیغ میں خدمت کی سعادت حاصل تھی۔ جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے دو تین سو بوسنین مہمان پہنچ گئے۔ مہمانوں کو سلانے کے لیے اُس وقت جماعت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے تھے۔ افسر صاحب جلسہ سالانہ نے زاہد افضال صاحب کو بلابھیجا اور کہا کہ ایمرجنسی میں سونے والے گدوں کا بندوبست کرنا ہے۔ انہوں نے اپنے بھائی خالد افضال کو ساتھ لیا اور چند گھنٹوں کے اندر اندر دو سو سے زائد سونے والے گدے لے کر ناصر باغ پہنچ گئے۔ سب ہی ان کو خوشگوار حیرت سے دیکھتے رہے۔ پتا لگا کہ با دکروئیزناخ میں کسی فوجی چھاؤنی میں جاکر ان گدوں کو دو تین دن کے لیے ادھار مانگ کر بغیر کوئی معاوضہ دیے لے کر آئے ہیں۔ سال ۱۹۹۴ء میں جب مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کا آغاز ہوا تو اس سال جسوال برادران ایم ٹی اے کی ٹیم لے کر ناصر باغ پہنچ گئے اور جرمنی کے جلسہ سالانہ کی کارروائی کو براہ راست دکھانے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ خاکسار بھی افسر جلسہ سالانہ عبد الرحمان مبشر صاحب کی ٹیم میں شامل تھا۔ ٹی وی کی براہ راست نشریات کے لیے جب بجلی کے کنکشن وغیرہ چیک کیے گئے تو علم ہوا کہ ناصر باغ میں موجود بجلی میں تو اتنی طاقت ہی نہیں کہ وہ ٹی وی کی براہ راست نشر یات کا بوجھ اٹھا سکے۔ اس افتاد میں پھر زاہد افضال اور ان کے بھائی خالد افضال کو بلایا گیا اور ان سے اس مشکل کا ذکر کیا گیا۔ ہیوی ڈیوٹی جنریٹر درکار تھے۔ چنانچہ دونوں بھائی مطلوبہ ہیوی ڈیوٹی جنریٹر کی تلاش میں نکل گئے اور دو گھنٹے کے اندر اندر مطلوبہ جنریٹر کسی جاننے والے سے عارضی طور پر لے آئے۔ زاہد افضال صاحب اپنے بھتیجے نیر افضال صاحب کے ساتھ مل کر جماعتی اور جلسہ سالانہ کے کاموں میں جدت پسندی لانے کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے تھے۔ ناصر باغ میں جلسہ سالانہ کے دنوں میں پیاز اور آلو چھیلنا بڑا جان جوکھوں کا کام ہوتا تھا اور اس کے لیے بڑی بڑی ٹیمیں بنانی پڑتی تھیں۔ زاہد صاحب کی زیر نگرانی ان کی ٹیم نے کوئی ایسا جگاڑلگایا کہ ایک موٹر کے ساتھ کچھ اوزار لگا کر آلو اور پیازچھیلنے کی دیسی طرز کی مشینیں تیار کر لیں اور پھر پیاز اور آلو چھیلنے کا کام دو چار افراد ہی بہت کم وقت میں مکمل کرلیتے تھے۔ وضو کرنے کے لیے شروع شروع میں جلسہ سالانہ کے موقع پر احباب جماعت کو بہت مسائل کا سامناکرنا پڑتا تھا۔ زاہد افضال صاحب نے بڑی کاوشوں کے بعد بڑے بڑے ٹب بنا کر ان میں ٹونٹیاں لگا کر اس مسئلہ کا حل بھی نکال دیا۔ شروع میں جب ٹونٹیوں کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا تھا تو پاکستان سے ایک من کے قریب وزنی ٹونٹیا ں یہ ہوائی جہاز میں بغیر اضافی کرایہ دیے لے کر آ گئے۔ پاکستان کے ہوائی اڈے پر جب کسٹم حکام نے حیرت سے کہا کہ اتنی ساری ٹونٹیا ںکدھر لے جا رہے ہو تو ان کو بتایا کہ یہ ایک نیک کام کے لیے لے کر جا رہے ہیں۔ چنانچہ اس کسٹم والے کا بھی دل نرم ہو گیا اور اس نے یہ سامان مفت میں لے جانے کی اجازت دے دی۔ بعد میں جرمنی میں واقع کچھ فرموں نے جب یہ ٹب دیکھے تو پھر انہوں نے بھی ان کے اس اچھوتے آئیڈیا کو آگے بڑھاتے ہوئے بڑے بڑے ٹب بنا کر جلسہ کے لیے پیش کرنے شروع کر دیے۔ من ہائم کی مئی مارکیٹ جہاں جماعت احمدیہ جرمنی کا ماضی میں جلسہ سالانہ منعقد ہوا کرتاتھامیں ایک دفعہ گیس کے سلنڈروں میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا۔ مکرمی عبد الرحمان مبشر صاحب افسر جلسہ سالانہ تھے۔ خاکسار بھی ان کی ٹیم میں بطور انچارج ملٹی نیشن جلسہ کے شامل تھا۔ موقع پر موجود سب افراد میں گھبراہٹ کے آثار پیدا ہو گئے اور خوف سا محسوس ہونے لگا کہ اگر سارے گیس سلنڈروں کو آگ لگ گئی توبڑا حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ موقع پر موجود لوگ پیچھے ہٹنے لگ گئے اچانک زاہد افضال اپنے بھائی خالد افضال کے ساتھ آگے بڑھے ۔ اپنی جان کی پروا کیے بغیرجلتے ہوئے گیس سلنڈروں کو ہٹا کر انہوں نے ایک بڑے حادثے کو ٹال دیا۔ بعد میں جب ان سے بات ہوئی تو ان کا یہ جواب سن کر خوشگوار حیرت ہوئی کہنے لگےکہ زندگی موت تو اللہ کے اختیار میں ہوتی ہے اگر اس موقع پر ایسا نہ کیا جاتا تو جماعت کابڑا نقصان ہو سکتا تھا۔ اللہ کی ذات پر پختہ یقین رکھنے والا ہی ایسی باتیں کر سکتا ہے۔ من ہائم کی مئی مارکیٹ میں ہی ایک اور جلسہ سالانہ کے دوران مستورات کی جلسہ گاہ میں ٹوائلٹ سسٹم میں خرابی پیدا ہو گئی۔ تعفن اور بدبو سے لجنہ ممبرات کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ مرحوم زاہد افضال صا حب جو ایک لمبے عرصے تک جلسہ سالانہ جرمنی میں ناظم مینٹیننس کی خدمات کی سعادت پاتے رہے اُن کو بلایا گیا۔ اور پھر خاکسار جس کے پاس اس وقت افسر جلسہ سالانہ کی خدمت کی سعادت تھی کی موجودگی میں انہوں نے ٹوائلٹ سسٹم بند ہو جانے والی جگہ کا تعین کیا اپنے ہاتھو ں سے پائپوں میں پھنسا گند وغیرہ نکالا اور کئی گھنٹے لگا کر سارے سسٹم کو دوبارہ چالو کیا۔ خاکسار یہ سارا منظر ذاتی طور پر دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو کیسے کیسے ہیرے عطا فرما رکھے ہیں جو بغیر کسی لالچ یا طمع کے محض اللہ کی رضا کی خاطر ہر کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ خاکسار کو جن سال کے دوران افسر جلسہ سالانہ کی خدمت کی سعادت ملی یہ بات آن ریکارڈ رہی کہ زاہد افضال صاحب وہ دیوانے کارکن ہوتے تھے جو جس دن مئی مارکیٹ جماعت کے حوالے کی جاتی وہ اپنا خیمہ لگاکر مئی مارکیٹ میں ہی منتقل ہو جاتے اور پھر ہر وہ کام کرتے رہتے جس سے جماعت کی رقوم میں بچت کی جاسکتی۔ تیاری کے گیارہ روز، جلسہ کے تین روز اور پھر وائنڈ اپ کے سات دن یہ وہاں کے ہی رہائشی رہتے۔ جماعت کے اس ایونٹ کے لیے ہر جگہ پانی کی فراہمی، بیوت الخلا اور نہانےکے لیے غسل خانوں کی تنصیب اور صفائی۔ لنگر خانہ میں پانی کی سپلائی وغیرہ جیسے کام ان کے ذمہ ہوتے تھے۔جتنے سال بھی یہ ذمہ داری ان کے پاس رہی جماعت کو اللہ کے فضل سے کبھی کوئی جرمانہ یا کسی نقصان کی ادائیگی نہیں کرنی پڑی۔ زاہد افضال صاحب وہ دیوانے تھے جن کے جنون میں خدمت احمدیت کا مقصد چھپا ہوا تھا، جن کی دیوانگی کی وجہ احمدیت اور خلافت کی محبت تھی۔ وہ اس دنیا سے چلے تو گئےمگر اپنی بےغرض و بے لوث خدمات اور بے مثال جذبے سے دلوں میں ایسا چراغ روشن کر گئے جو کبھی بجھنے والا نہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ان کے بھتیجے نیر افضال صاحب کو صحت اور سلامتی والی زندگی دے جو اپنے چچا کے نقش قدم پر بالکل اسی طرح جماعتی خدمات بجا لا رہے ہیں ۔ دیگر پسماندگان کو اللہ تعالیٰ صبر دے اور ان کے تینوں بیٹوں کو اپنے بے مثال باپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مکرم رشید احمد کاہلوں صاحب