تبلیغ اسلام اور احبابِ جماعت کی تعلیم و تربیت کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کی بابرکت عملی کاوشیں اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے ہماری ایک نسل یا دو نسل کی قربانیاں مکتفی نہیں بلکہ اس امر کی ضرورت ہے کہ قیامت تک ہر ایک صدی میں ہماری نسلیں صحابہ کرامؓ کے نقش قدم پر چلنے والی، صحیح اسلام پر قائم رہنے والی اور اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے والی ہوں اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہماری نسلوں کی صحیح تربیت کا انتظام نہ ہو اور اس اہم غرض کو پورا کرنے کے لئے سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانیؓ نے خدام الاحمدیہ کی بابرکت تحریک جاری فرمائی حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کو اپنے عہد خلافت کی ابتدا ہی سے احمدی نوجوانوں کی تنظیم و تربیت کی طرف ہمیشہ توجہ رہی کیونکہ قیامت تک اعلائے کلمۃاللہ اور غلبۂ اسلام کے لیے ضروری تھا کہ ہر نسل پہلی نسل کی پوری قائم مقام ہو اور جانی اور مالی قربانیوں میں پہلوں کے نقش قدم پر چلنے والی ہو اور ہر زمانے میں جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کی تربیت اس طور پر ہوتی رہے کہ وہ اسلام کا جھنڈا بلند رکھیں۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اس مقصد کی تکمیل کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف انجمنیں قائم فرمائیں مگر ان سب تحریکوں کی جملہ خصوصیات مکمل طور پر مجلس خدام الاحمدیہ کی صورت میں جلوہ گر ہوئیں اور حضرت امیرالمومنین کی براہ راست قیادت غیرمعمولی توجہ اور حیرت انگیز قوت قدسی کی بدولت مجلس خدام الاحمدیہ میں تربیت پانے کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کو ایسے مخلص اور ایثار پیشہ اور دردمند دل رکھنے والے اور انتظامی قابلیتیں اور صلاحتیں رکھنے والے مدبّر دماغ میسر آگئے جنہوں نے آگے چل کر سلسلہ احمدیہ کی عظیم ذمہ داریوں کا بوجھ نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی سے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور آئندہ بھی ہم خداتعالیٰ سے یہی امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر نسل میں ایسے لوگ پیدا کرتا چلا جائے گا۔ انشاء اللہ العزیز۔(تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحہ ۴۴۵-۴۴۷) اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لیے ہماری ایک نسل یا دو نسل کی قربانیاں مکتفی نہیں بلکہ اس امر کی ضرورت ہے کہ قیامت تک ہر ایک صدی میں ہماری نسلیں صحابہ کرامؓ کے نقش قدم پر چلنے والی، صحیح اسلام پر قائم رہنے والی اور اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے والی ہوں اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہماری نسلوں کی صحیح تربیت کا انتظام نہ ہو اور اس اہم غرض کو پورا کرنے کے لیے سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانیؓ نے خدام الاحمدیہ کی بابرکت تحریک جاری فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قیامت تک اس تحریک کے نتیجہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے جائیں جو صحیح اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے والے اور اسلام کا جھنڈا بلند کرنے والے ہوں۔ آمین(تاریخ احمدیت جلد ۸ پیش لفظ) ۱۸۹۷ء: انجمن ہمدردان اسلام ۱۸۹۷ء میں جبکہ آپؓ کی عمر آٹھ نو سال کی تھی۔ قادیان کے احمدی نوجوانوں کی انجمن قائم ہوئی جس کے سرپرست مولانا مولوی نور الدینؓ (حضرت خلیفة المسیح الاولؓ) تھے اول اول اس کے اجلاس پرانے اور قدیم مہمان خانے میں ہوا کرتے تھے۔ اور اس وقت زیادہ سے زیادہ چھ سات ممبر تھے جن میں ایک سرگرم ممبر آپ بھی تھے۔ حضرت بھائی عبدالرحمٰنؓ قادیانی تحریر فرماتے ہیں: تشحیذ الاذہان کا پہلا اور ابتدائی نام انجمن ہمدردان اسلام تھا۔ جو بالکل ابتدائی ایام اور پرانے زمانہ کی یادگار ہے۔ جبکہ سیدنا محمود بمشکل آٹھ نو برس کے تھے آپ کے دینی شغف اور روحانی ارتقاء کی یہ پہلی سیڑھی تھی۔ جو حقیقتاً آپ ہی کی تحریک، خواہش اور آرزو پر قائم ہوئی تھی۔ کھیل کود اور بچپنے کے دوسرے اشغال میں انہماک کے باوجود آپ کے دل میں خدمت اسلام کا ایسا جوش اور جذبہ نظر آیا کرتا تھا۔ جس کی نظیر بڑے بوڑھوں میں بھی شاذہی ہوتی آپ کی ہر ادا میں اس کا جلوہ اور ہر حرکت میں اس کا رنگ غالب و نمایاں ہے جسے آپ کی کھیلوں کے دیکھنے اور مشاغل کو جانچنے کا اکثر موقعہ ملتا تھا۔ گھنٹوں آپ مطب میں تشریف لا کر ہم میں بیٹھا کرتے کبھی ٹیمیں بنا کرتیں اور کھیلوں کے مقابلوں کی تجاویز ہوا کرتیں کبھی فوجیں بنا کر مصنوعی جنگوں کا انتظام ہوتا۔ کبھی ڈاکو اور چوروں کا تعاقب ہوتا ان کی گرفتاری کے سامان ہوتے اور مقدمات سن کر فیصلے کیے جاتے سزائیں دی جاتیں اور کارہائے نمایاں کرنے والوں کو انعام و اکرام ملتے تو کبھی بحث مباحثات اور علمی مقابلوں کا رنگ جما کرتا۔ گرما گرم بحث ہوتی۔ ججز مقرر ہوتے اور فاتح و مفتوح کا فیصلہ ہوتا۔ الغرض ایسے ہی مشاغل اور مصروفیتوں کے نتائج میں سے ایک انجمن ہمدردان اسلام کا قیام بھی ہے جو آپ کی خواہش، مرضی اور منشاء کے ماتحت قائم کی گئی۔ حضرت مولانا نور الدینؓ۔ سیدنا فضل عمرؓ کی ذات والا صفات کی وجہ سے ہماری طرف خاص توجہ فرماتے۔ ہماری انجمن کے اکثر اجلاسوں میں شریک ہو کر ہدایات دیتے۔ اسی ہماری انجمن میں ایک مرتبہ سیدنا حضرت نور الدینؓ شریک تھے۔ ہمارے آقائے نامدار سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نور نظر لخت جگر نے… تقریر فرمائی۔ تقریر کیا تھی علم و معرفت کا دریا اور روحانیت کا ایک سمندر تھا۔ تقریر کے خاتمہ پر حضرت مولانا نور الدینؓ کھڑے ہوئے۔ اور آپ نے… آپ کی تقریر کی بےحد تعریف کی۔ قوت بیان اور روانی کی داد دی نکات قرآنی اور لطیف استدلال پر بڑے تپاک اور محبت سے مرحبا جزاک اللہ کہتے ہوئے دعائیں دیتے نہایت اکرام کے ساتھ گھر تک آپ کے ساتھ آکر رخصت فرمایا۔ اس انجمن کے پہلے صدر بھی مدرسہ کے ایک استاد تھے اور سیکرٹری بھی استاد (یعنی منشی خادم حسین صاحب بھیروی) لیکن جب دوبارہ انتخاب ہوا تو صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب قرار پائے۔ آپ کی صدارت میں انجمن کا پہلا اجلاس ۳؍ مارچ ۱۸۹۹ء کو ہوا۔ (تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ ۳۹-۴۰) ۱۹۰۰ء: انجمن تشحیذ الاذہان ۱۹۰۰ء میں آپ نے ایک نئی انجمن کی بنیاد رکھی جس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ‘‘تشحیذ الاذہان’’ رکھا۔ اس مجلس کی غرض و غایت یہ تھی کہ نوجوانان احمدیت کو تبلیغ اسلام کے لیے تیار کرے۔(تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ ۴۳) ۱۹۰۰ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک مجلس کی بنیاد رکھی جس کا نام سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ‘‘تشحیذ الاذہان’’ تجویز فرمایا۔ یہ دنیا میں احمدی نوجوانوں کی پہلی فعال مرکزی مجلس تھی۔ مجلس کے پریذیڈنٹ صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب منتخب ہوئے۔ اس مجلس کی غرض و غایت یہ تھی کہ نوجوانوں کو تبلیغ اسلام کے لیے تیار کرے۔ یہ انجمن اگر چہ ۱۹۰۰ء میں معرض وجود میں آئی مگر نمایاں رنگ میں اس کی سرگرمیاں ۱۹۰۶ء میں جماعت کے سامنے آئیں جب کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کے ہاتھوں میں اس کا احیاء عمل میں آیا اور ‘‘تشحیذ الاذہان’’ ہی کے نام سے اس کا ترجمان بھی جاری ہو گیا۔ (تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحہ ۱۶۰) خیال رہے تشحیذالاذہان کو مجلس اور انجمن دونوں ناموں سے پکارا گیا ہے۔ ۱۹۰۶ء: مجلس تشحیذ الاذہان کا احیاء مجلس تشحیذ الاذہان کی سر گر میاں ایک عرصہ تک تیزی سے جاری رہنے کے بعد رفتہ رفتہ کم ہوتی گئیں یہاں تک کہ انجمن قریباً معطل ہو کر رہ گئی تھی کہ دسمبر ۱۹۰۵ء میں بفضلہ تعالیٰ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ کے ذریعہ سے اس میں دوبارہ جان پڑ گئی۔ باقاعدہ قواعد بنے اور ۷؍ستمبر ۱۹۰۶ء کو مدرسہ کے احاطہ میں اس کے دور ثانی کا پہلا جلسہ بڑی آب و تاب سے منعقد ہوا۔ جس میں پہلی تقریر حضرت مولانا مولوی حکیم نور الدین (خلیفة المسیح الاولؓ) نے فرمائی اور دوسری سید نا حضرت محمودؓ نے کی۔ اور آپ نے انجمن ‘‘تشحیذالاذہان’’ کے فرائض کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے ایک مجلس ارشاد بھی قائم فرمائی۔ جس کے اجلاس اردو اور انگریزی دو حصوں میں منقسم تھے۔ انگریزی مجلس ارشاد کی صدارت مولوی محمد علی صاحب ایم اے نے کی اور (حضرت مولوی شیر علی کی یادداشت کے مطابق) مولوی صدر الدین صاحب کا بھی لیکچر ہوا تھا۔(تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ ۶۰-۶۱) ۱۹۰۸ء: مجمع الاخوان حضرت خلیفة المسیح الاول ؓنے مارچ ۱۹۰۸ء میں مجمع الاخوان قائم فرمائی جس کا ماحصل یہ تھا کہ کوئی ایسا امتیازی نشان مقرر کیا جائے کہ سب تعاونوا علی البر کا مصداق بن کر خدائی فضلوں کے جذب و نزول کاموجب ہوں۔(تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحہ ۱۷۵) ۱۹۰۹ء: انجمن ارشاد ۱۹۰۹ء کے آخر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ‘‘انجمن تشحیذ الاذہان’’ کے بعد دوسری ‘‘انجمن ارشاد’’ بنائی جس کا مقصد دشمنان اسلام کے اعتراضوں کا ردو ابطال تھا۔ (تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحہ ۲۹۷) ۱۹۱۱ء : انجمن انصار اللہ کا قیام اور اس کے کارنامے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی اجازت سے انجمن انصار اللہ قائم کی۔ فروری میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو عالم رؤیا میں دکھایا گیا کہ ایک بڑے محل کا ایک حصہ گرایا جارہا ہے۔ ساتھ ہی ایک میدان میں ہزاروں پتھیرے بڑی تیزی سے اینٹیں پاتھ رہے ہیں آپ نے پوچھا کہ یہ محل کیا ہے اور یہ کون لوگ ہیں تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ محل جماعت احمد یہ ہے پتھیرے فرشتے ہیں اور محل کا ایک حصہ اس لیے گرایا جا رہا ہے تا بعض پرانی اینٹیں خارج کر کے بعض کچی اینٹیں پکی کی جائیں اور نئی اینٹوں سے محل کی توسیع کی جائے۔ نیز معلوم ہوا کہ جماعت کی ترقی کی فکرہم کو بہت کم ہے اور فرشتے ہی اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر یہ کام کر رہے ہیں۔ اس خواب کی بنا پر حضرت صاحبزادہ صاحب ؓنے ایک انجمن بنانے کا فیصلہ کیا تا کہ اس کے ذریعہ احمدیوں کے دلوں میں ایمان کو پختہ کیا جائے۔ اور فریضہ تبلیغ کو با حسن وجوه ادا کیا جائے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے نہ صرف خود ہی استخارہ کیا بلکہ کئی اور بزرگوں سے استخارہ کر وایا۔ کئی ایک دوستوں کو اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارات ہوئیں تب آپ نے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی اجازت سے ایک انجمن‘‘ انصار اللہ’’ کی بنیاد ڈالی اور اخبار بدر میں اس کا مفصل ا علان کر دیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاول ؓنے بیماری کے باوجود یہ مضمون شروع سے لے کر آخر تک مطالعہ فرمایا۔اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو فرمایا: میں بھی آپ کے انصاراللہ میں شامل ہوں۔ اس انجمن کے قواعد و ضوابط آپ نے یہ تجویز فرمائے۔ ۱۔ ہر ممبر کا فرض ہو گا کہ حتی الوسع تبلیغ کے کام میں لگا رہے اور جب موقعہ ملے اس کام میں اپنا وقت صرف کریں۔ ۲۔ ہر ممبر قرآن شریف اور حدیث شریف پڑھنے پڑھانے میں کوشاں رہے۔ ۳۔ ہر ممبر سلسلہ کے افراد میں صلح و اتحاد کی کوشش میں مصروف رہے اور جھگڑے کی صورت میں یا خود فیصلہ کریں۔ ورنہ حضرت خلیفۃالمسیح سے راہ نمائی حاصل کریں۔ ۴۔ہر قسم کی بدظنیوں سے بچے جو اتحاد اور اتفاق کو کاٹتی ہیں۔ ۵۔ وہ ہر ماہ کے آخر میں اپنے کام کی رپورٹ دے۔ ۶۔ اس انجمن کے ممبر رشتہ اتحاد و اخوت کو پختہ کرنے میں ہر ممکن ذرائع بروئے کار لائیں۔ ۷۔ تسبیح و تحمید اور درود شریف بکثرت پڑھیں۔ ۸۔ حضرت خلیفۃ المسیح کی فرمانبرداری کا خاص خیال رکھیں۔ ۹۔ پنجوقتہ نمازوں میں پابندی کے علاوہ نوافل صدقہ اور روزہ کی طرف بھی توجہ رکھیں۔ آپؓ نے ممبر شپ کے لیے یہ شرط بھی عائد کی کہ جو شخص اس انجمن میں آنا چاہے وہ سات وفعہ استخارہ کرے اگر اس کے بعد اس کا دل اللہ کے تصرف سے اس طرف مائل ہو تو پھر شوق سے داخل انجمن ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔ اس اعلان پر ابتدا میں کئی اصحاب انجمن انصار اللہ کے ممبر بنے۔ ان کے بعد رفتہ رفتہ جماعت کے بہت سے سربر آوردہ اصحاب اس مبارک تحریک میں شامل ہو گئے۔ ۶؍ اپریل ۱۹۱۱ء کو اس انجمن کا افتتاحی جلسہ قادیان میں منعقد ہوا۔ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے اس جلسہ میں ممبروں کو متعدد ہدا یات دیں مثلاً یہ کہ وہ تبلیغی لیکچر دینے کے لیے بہت مشق کریں اور چھٹیاں لے کر مرکز میں آئیں۔ ہر روز تبلیغ کریں، خواہ پانچ منٹ کے لیے ہی سہی، انصار کثرت سے باہم ملاقات کریں۔ انصار کے لیے حضرت مسیح موعود ؑاور حضرت خلیفہ اوّل ؓاور علمائے سلسلہ کی بعض خاص کتابوں کا پڑھنا لازمی قرار دیا گیا جومختلف مذاہب کی تردید یا اسلام کی حمایت میں لکھی گئی تھیں۔ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی سرپرستی اور حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی قیادت دونوں نے اس انجمن کے ممبروں میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دی اور اسلام و احمدیت کی تبلیغ کا کام جو بہت پیچھے جارہا تھا پھر سے تیز رفتاری کے ساتھ شروع ہوگیا۔ جولائی ۱۹۱۳ء تک اس کے ممبروں کے ذریعہ دو تین سو آدمی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ انجمن نے مبلغین اسلام کی ایک جمعیت تیار کر دی جس نے آئندہ چل کر جماعت احمدیہ کی ترقی و اشاعت میں بڑا بھاری حصہ لیا۔ انجمن نے اپنے خرچ پر ایک ممبر چودھری فتح محمدصاحب سیال کو انگلستان میں خواجہ کمال الدین صاحب کی مدد کے لیے بھجوایا ۔ علاوہ ازیں شیخ عبدالرحمٰن صاحب نو مسلم اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب انصار اللہ کی طرف سے تعلیم و تبلیغ کی خاطر مصر بھیجے گئے۔ مگر اس کے لیے کوئی عام چندہ نہیں کیا گیا۔(تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحہ ۳۶۲) بابت استخارہ انصار اللہ میں شمولیت کے لیے آپؓ نے سات مرتبہ استخارہ کی شرط لازمی قرار دی - بعض احمدیوں کو تو استخارہ کرنے سے پہلے ہی اس میں شمولیت کی الہاماً تحریک ہوئی۔ چنانچہ خان محمد عجب خاں ( ہری پور ضلع ہزارہ) نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں لکھا۔ ‘‘دربارہ انجمن انصار اللہ عرض ہے کہ میں نے وحی اللہ سے اس انجمن کی برکات معلوم کرلی ہیں استخارہ کی حاجت نہیں اور خصوصاً جبکہ حضرت خلیفة المسیح نے بھی اس کو منظور اور پسند فرمایا ہے پھر تو نور علی نور ہے۔اور اس کی ہر وقت اور بڑی ضرورت ہے بلکہ میں تو خود اس میں یہاں کو شاں رہا اور میری رائے میں احمدی جماعت کی علت غائی یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر و اجر عظیم عطا فرماوے کہ ہمارے ارادوں کی تکمیل کے اسباب آپ نے بہم پہنچائے۔ کیونکہ احمدی جماعت کے اغراض کی تکمیل و تشہیر میں سستی تباہی کی علامت ہے۔ (تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ ۸۷-۸۸) انصار اللہ نام کی توجیہ اس مبارک انجمن پر کئی اعتراضات اٹھا ئے گئے۔ مثلاً اس کا نام انصار اللہ کیوں رکھا گیا۔ کیا دوسرے احمدی انصار اللہ نہیں ؟ یہ انجمن خواجہ کمال الدین صاحب کے بالمقابل کھڑی کی گئی ہے ؟ اس جماعت کے اندر ایک الگ جماعت بنا دی گئی ہے اور جماعت میں تفرقہ ڈال دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے اپنے ایک مضمون کے ذریعہ سے ان تمام اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ۱۔ انصار الله کا نام تو محض تفاؤل کے طور پر رکھا گیا ہے جس طرح لوگ اپنے بیٹوں کا نام مختلف انبیاء کے نام پر محمد احمد، موسیٰ، عیسیٰ، حسن، حسین رکھتے ہیں۔ جب یہ نہیں سمجھا جاتا کہ وہ اپنے بیٹوں کے علاوہ دوسروں کو معاذ اللہ ابو جہل یا فرعون یا یزید کی اولاد قرار دے رہے ہیں اسی طرح انجمن کا نام ‘انصار اللہ’ رکھنے سے یہ کیسے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ دوسرے ہماری نگاہ میں عدو اللہ ہیں۔ ۲۔ تبلیغ فرض عین ہے فرض کفایہ نہیں اس لیے خواجہ صاحب کی تبلیغ اسلام کے باوجود ہمارا فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ احمدی یہ کام کریں، تا قوم کی زندگی اور ایثار کا نشان ہو۔ ۳۔ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی موجودگی میں ایک مجلس ‘مجمع احباب’ کے نام سے بنائی تھی۔ بالکل یہی پوزیشن انجمن انصار اللہ کی ہے۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد چار صفحہ ۳۶۳-۳۶۶) یہاں مجمع احباب سے مجمع الاخوان مراد ہے۔ ۱۹۱۴ء: انجمن ترقی اسلام ۱۲؍ اپریل ۱۹۱۴ء کی شوریٰ میں زیر غور آنے والی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حضور نے ایک انجمن کی بنیاد رکھی جس کانا کا نام اپنے ایک رؤیا کی بناء پر ‘‘ انجمن ترقی اسلام’’ رکھا اور اس کے لیے یہ ممبر نامزد فرمائے۔ قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ، حضرت مولوی سید محمد احسن صاحبؓ، حجۃاللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب،ؓ حضرت سید حامد شاہ صاحب،ؓ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ ،حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ اسٹنٹ سرجن ، حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ، حضرت سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب مدراسی ؓ۔ اس انجمن کے سیکرٹری حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ تھے۔ دعوت الی الخیر فنڈ کا روپیہ بھی اس انجمن کے نام منتقل کردیا گیا۔ یہ انجمن اپنے نام کی طرح خدا کے فضل سے اسلام کی ترقی و اشاعت کا نہایت موثر ذریعہ ثابت ہوئی بر صغیر پاک و ہند کی اسلامی تاریخ میں اس انجمن کا نام ہمیشہ قائم رہے گا۔ یہی وہ بابرکت ادارہ تھا جس نے ایک عرصہ تک دنیا میں تبلیغ اسلام کی ذمہ داری نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالے رکھی۔ یہاں تک کہ پہلے صدر انجمن احمد یہ اور پھر ۱۹۴۵ء میں تحریک جدید نے بین الاقوامی سطح پر تبلیغ کا یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔(تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ۱۴۳) ۱۹۱۷ء : انجمن ارشاد و انجمن شبان الاسلام جنوری میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی اجازت اور حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی نگرانی میں ‘‘انجمن ارشاد’’ قائم ہوئی جس کا مقصد نوجوانوں کو تبلیغٰ کی ٹریننگ دینا تھا۔ ( الفضل ۲۷؍جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۱) ستمبر میں حضورؓ کی تحریک تبلیغ ولایت کو کامیاب بنانے کے لیے مدرسہ احمدیہ کے طلبہ نے انجمن شبّان الاسلام کی بنیاد رکھی۔(فاروق ۶؍ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۳)(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ ۲۰۵) ۱۹۲۲ء: انجمن ارشاد ۲؍جون ۱۹۲۲ء کو حضورؓ نے نوجوانوں کو تقریر کرنے کی مشق کرانے کے لیے ایک ‘‘انجمن ارشاد’’ بنانے کا ارشاد فرمایا جس میں اردو، انگریزی، اور عربی میں تقریریں ہوا کریں گی۔حضورؓ خود بھی شامل ہوتے رہے اور ریویو دیتے رہے۔ (الفضل۵؍جون۱۹۲۲ء، الفضل۱۰؍جولائی۱۹۲۲ء، الفضل ۷؍ستمبر ۱۹۲۲ء) اس انجمن کے صدر حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ اور سیکرٹری حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ مقرر ہوئے۔(تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ ۳۱۱) (باقی آئندہ ہفتہ کو ان شاء اللہ) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ہمت کے پہاڑ، محنت کے سمندر