(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲؍مئی۲۰۰۳ء) وَ نَزَعۡنَا مَا فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ مِّنۡ غِلٍّ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ ۚ وَ قَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ ہَدٰٮنَا لِہٰذَا ۟ وَمَا کُنَّا لِنَہۡتَدِیَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ہَدٰٮنَا اللّٰہُ ۚ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَقِّؕ وَ نُوۡدُوۡۤا اَنۡ تِلۡکُمُ الۡجَنَّۃُ اُوۡرِثۡتُمُوۡہَا بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ (سورۃ الاعراف:۴۴)اور ہم ان کے سینوں سے کینے کھینچ نکالیں گے ان کے زیر تصرف نہریں بہتی ہوں گی اور وہ کہیں گے کہ تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں یہاں پہنچنے کی راہ دکھائی جبکہ ہم کبھی ہدایت نہ پاسکتے تھے اگر اللہ ہمیں ہدایت نہ دیتا۔یقیناً ہمارے پاس ہمارے ربّ کے رسول حق کے ساتھ آئے تھے اور انہیں آواز دی جائے گی کہ یہ وہ جنت ہے جس کا تمہیں وارث ٹھہرایا گیا ہے بسبب اُس کے جو تم عمل کرتے تھے۔ حضرت اقد س مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’حمد اس تعر یف کو کہتے ہیں جو کسی مستحقِ تعریف کے اچھے فعل پر کی جائے نیز ایسے انعام کنندہ کی مدح کا نام ہے جس نے اپنے ارادہ سے انعام کیا ہو۔ اور اپنی مشیت کے مطابق احسان کیا ہو۔ اور حقیقت حمد کَمَا حَقُّہٗ صرف اسی ذات کے لئے متحقق ہوتی ہے جو تمام فیوض وانوار کا مبدء ہو اور علی وجہ البصیرت کسی پر احسان کرے،نہ کہ غیر شعوری طور پر یا کسی مجبوری سے۔ اور حمد کے یہ معنی صرف خدائے خبیر وبصیر کی ذات میں ہی پائے جاتے ہیں۔ اور وہی محسن ہے اور اول وآخر میں سب احسان اسی کی طرف سے ہیں ۔ اور سب تعریف اسی کے لئے ہے اس دنیا میں بھی، اُس دنیا میں بھی۔ اور ہر حمد جو اس کے غیر وں کے متعلق کی جائے اس کا مرجع بھی وہی ہے۔… اللہ تعالیٰ نے لفظ حمد میں ان صفات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جو اس کے ازلی نور میں پائی جاتی ہیں۔‘‘ (اعجاز المسیح۔ ۱۲۵تا ۱۲۷۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۱۲۹) دعاکے بغیرزندگی گزارنے کاتصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔ دعا کا مضمون ایک ایسا مضمون ہے کہ جس کے بغیر مومن ایک لمحہ کے لئے بھی زندگی گزارنے کا تصور نہیں کرسکتا اور جب مومن کی دعا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کی وجہ سے قبولیت کا درجہ پاتی ہے تو پھر بے اختیار مومن کا دل اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے گانے لگتا ہے۔ گزشتہ دنوں جس طرح پوری جماعت کیا بچہ اور کیا بوڑھا، کیا مرد اور کیا عورت، کیا غریب اور کیا امیر،اللہ کے حضور گریہ و زاری کرتے ہوئے جھکے اور اپنی ذات سے بےخبر ہوئے اس کے حضور اپنا سر رکھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے محض اور محض اپنے فضل سے ہماری خوف کی حالت کو امن میں بدل دیااس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس پیاری جماعت نے جس خوشی اور اللہ تعالیٰ کی حمد کا اظہار کیا ہے وہ اس جماعت کا ہی خاصہ ہے۔آج پوری دنیا میں سوائے اس جماعت کے اور کہیں یہ اظہار نہیں مل سکتا۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کا اس دور میں یہی نشان کافی ہے لیکن ’گردل میں ہو خوفِ کردگار‘۔اللہ تعالیٰ مومنوں کی جماعت کو جب اگلے جہان میں جنت کی بشارت دیتا ہے تو اس کے نظارے صرف بعد میں ہی کروانے کے وعدے نہیں کرتا بلکہ اس دنیا میں بھی اخلاص،وفا اور پیار کے نمونے دکھا کر آئندہ جنتوں کے وعدوں کو مزید تقویت دیتا ہے۔اس کے نظارے روزانہ ڈاک میں آجکل میں دیکھ رہا ہوں ۔دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے کہ کس طرح ایک شخص جو سینکڑوں ہزاروں میل دور ہے صرف اور صرف خدا کی خاطر خلیفۂ وقت سے اظہار محبت و پیار کررہا ہے اور یہی صورت ادھر بھی قائم ہوجاتی ہے۔ایک بجلی کی رَو کی طرح فوری طور پر وہی جذبات جسم میں سرایت کرجاتے ہیں ۔ الحمد للّٰہ، الحمد للّٰہ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام ہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْحَزَن وَ اٰتَانِی مَا لَمْ یُؤْتَ اَحَدٌ مِنَ الْعَالَمِیْن۔اس خدا کی تعریف ہے جس نے میرا غم دور کیا اور مجھ کو وہ چیز دی جو اس زمانہ کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دی۔ (تذکرہ صفحہ ۶۶۴ مطبوعہ ۱۹۶۹ء) لیکن ان جذبات اور احساسات کو ہم نے وقتی نہیں رہنے دینابلکہ دعا اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ اس کی اعلیٰ سے اعلیٰ مثالیں رقم کرنے کا عہد کرنا چاہئے۔ہم اس رسول ﷺ کے ماننے والے ہیں جس نے عُسر اور یُسر میں اللہ تعالیٰ سے وفا اور اس کی حمد کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی۔آپ ابتدائی دور میں بھی اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کرتے رہے۔چنانچہ دیکھو مرادیں بھر آئیں اور آپ فاتحانہ شان سے مکّہ میں داخل ہوئے لیکن کس حالت میں ۔اس بارہ میں ایک روایت ہے: ابن اسحاق روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ابوبکر نے مجھ سے بیان کیا کہ (فتح مکہ کے دن) جب آنحضرتﷺ ’’ذی طوی‘‘ مقام کے پاس پہنچے تو اس وقت آپ نے سرخ رنگ کی دھاری دار چادر کے پہلو سے اپنا چہرہ مبارک قدرے ڈھانکا ہوا تھا۔ اور مکہ کی فتح کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جو آپؐ کو عزت عطا فرمائی تھی، اس کی وجہ سے آپ نے اپنا سرِ مبارک اللہ تعالیٰ کے حضورعاجزی سے اس قدر جھکایا ہوا تھا کہ قریب تھا کہ آپ کی داڑھی مبارک پالان کے اگلے حصہ سے جا چھوئے۔ ( سیرۃ ابن ہشام۔ ذکر فتح مکۃ) اس حالت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’عُلُوّ جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کو دیا جاتا ہے وہ انکسار کے رنگ میں ہوتا ہے۔اور شیطان کا عُلُوّ استکبار سے ملا ہوا تھا۔ دیکھو ہمارے نبی کریم ﷺ نے جب مکہ کو فتح کیا تو آپؐ نے اسی طرح اپنا سر جھکا یا اور سجدہ کیا جس طرح ان مصائب اور مشکلات کے دنوں میں جھکاتے اور سجدے کرتے تھے جب اسی مکہ میں آپؐ کی ہر طرح سے مخالفت کی جاتی اور دکھ دیا جاتا تھا۔ جب آپؐ نے دیکھا کہ میں کس حالت میں یہاں سے گیا تھا اور کس حالت میں اب آیا ہوں تو آپؐ کا دل خدا کے شکر سے بھر گیا اور آپؐ نے سجدہ کیا‘‘۔ (الحکم ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۲،ملفوظات جلددوم صفحہ ۴۰۴حاشیہ) اللہ تعالیٰ ہمیں اس مضمون کو، حمد کے مضمون کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔ مزید پڑھیں: جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے والےبعض مہمانوں کے تاثرات