قرآن کریم میں قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے تمام حقائق کا علم جمع کردیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی زمانے کا انسان جب اس کتاب کو کھولتا ہے تو اسے نہ صرف ماضی کے حالات کا علم حاصل ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے زمانے کے مطابق ہدایت اور مستقبل کا علم بھی پاتا ہے۔ جوں جوں سائنس نے ترقی کی اور نئی نئی دریافتیں کیں ہم نے دیکھا کہ کس طرح قرآن کریم کے بیان کردہ تمام حقائق سچ ثابت ہوئے۔ ایسی ہی ایک حقیقت کائنات کی وسعت پذیری کا اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں نہ صرف کائنات کے آغازاور اختتام کے بارے میں بیان کرتا ہے بلکہ یہ بھی بیان کرتا ہے کہ ہماری یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ جیسا کہ فرمایا: وَالسَّمَآءَ بَنَیۡنٰھَا بِاَیۡٮدٍ وَّاِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ(الذاریات:۴۸)اور ہم نے آسمان کو ایک خاص قدرت سے بنایا اور یقیناً ہم وسعت دینے والے ہیں۔قرآن کریم ’ لَمُوۡسِعُوۡنَ ‘کے لفظ سے وُسعت پذیری کے عمل کو تخلیقِ کائنات کا تسلسل قرار دیتا ہے۔یہ اصول قرآن نے آج سے ۱۵۰۰ سال قبل بیان کیا جب تمام عالم میں نہ صرف کائنات کے مجرد اور غیرمتحرک ہونے کا نظریہ مستحکم تھا بلکہ خوردبین بھی ایجاد نہ ہوئی تھی کہ اس نظریہ کی سچائی ثابت کی جاسکتی۔مگر اب کائنات کے متعلق ہمارا علم کافی ترقی کر چکا ہے اورتخلیق کائنات کے متعلق بعض نظریات کی تصدیق ہو چکی ہے۔ آج کے جدید فلکیات کے مطابق، ہماری کائنات مستقل حرکت میں ہے اور اس کی وسعت بڑھتی جا رہی ہے۔ سائنسدانوں کے مطالعے اور جدید دور کی دوربینوں کی مدد سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ کائنات کی ہر شے، چاہے وہ کہکشائیں ہوں یا ستارے، ایک دوسرے سے دور ہورہی ہیں۔اس مظہر کو ’کائناتی توسیع ‘یا Cosmic Expansionکہاجاتاہے۔اس نظریہ کی بنیاد ۱۹۲۰ء کی دہائی میں امریکی فلکیاتی ماہر ، ایڈون ہبل نے رکھی۔ مختلف کہکشاؤں سے خارج ہونے والی روشنی کا مطالعہ کرتے ہوئے، ہبل نے دریافت کیا کہ یہ روشنی سپیکٹرم کے سرخ (ریڈ) کنارے کی طرف منتقل ہوئی نظر آتی ہے۔ اس نے واضح کیا کہ ہماری کائنات مسلسل باہر کی طرف پھیل رہی ہے اور اس میں موجود تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہورہی ہیں۔ اس مظہر کو ریڈ شفٹ کہا جاتا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ جتنی کہکشاں ہم سے زیادہ دور ہوگی، اس کی روشنی اتنی ہی زیادہ سرخ نظر آئے گی۔ہبل نے یہ بھی دکھایا کہ ہم سے دور کی کہکشائیں نزدیک کی کہکشاؤں کے مقابلے میں تیز رفتاری سے دور ہورہی ہیں ۔اس مشاہدہ کو آج’ ہبل کا قانون ‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔https://science.nasa.gov/people/edwin-hubbleکائنات کے پھیلاؤ کی اس حقیقت نے سائنسدانوں کو اس بات پر غور کرنےپر مجبور کیا کہ اگر کہکشائیں مسلسل دور ہو رہی ہیں تو یقیناً کسی وقت وہ ایک مقام پر موجود رہی ہوں گی۔ یہی وہ خیال تھا جو بعد میں ’بگ بینگ تھیوری‘ کی بنیاد بنا۔ اس نظریے کے مطابق کائنات کا آغازتقریباً۸.۱۳ ارب سال قبل، ایک دھماکے کے نتیجے میں ہوا جس میں خلا، مادہ اور توانائی معرض وجود میں آئے۔اس کےبعد سے یہ خلا مسلسل پھیل رہا ہے جس کے نتیجے میں تمام اجرام فلکی اور کہکشائیں دورہوتے جارہے ہیں ۔https://www.space.com/25126-big-bang-theory.htmlاس نظریہ کی تصدیق قرآن بھی ان الفاظ میں کرتا ہے: کیا انہوں نے دیکھا نہیں جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان اور زمین دونوں مضبوطی سے بند تھے پھر ہم نے اُن کو پھاڑ کر الگ کر دیا اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ تو کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟ (الانبیاء:۳۱)کائنات کے وسعت پذیری کے نظریہ کو تقویت ۱۹۹۸ء میں ملی جب ایک غیر مرئی اور پراسرار توانائی، ’ڈارک انرجی‘ یعنی’ تاریک توانائی ‘کی دریافت ہوئی ۔ ڈارک انرجی نہ صرف کائنات کے پھیلاؤ کو تیز کرتی ہے بلکہ یہ مستقبل میں کائنات کی ساخت اور کہکشاؤں کی حرکت پر بھی اثر ڈالے گی۔ یہ توانائی آج بھی سائنسدانوں کے لیے ایک معمہ ہےاورہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہماری کائنات کے راز ابھی بھی مکمل طور پر انسان کے علم میں نہیں آئے اور سائنس مسلسل ان اسرار کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔https://science.nasa.gov/dark-energyاب سوال یہ ہے کہ کیا کائنات ایسے ہی مسلسل پھیلتی جائے گی یا پھر یہ سلسلہ کہیں پر جا کر اختتام پذیر ہو گا؟ اس حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اپنی کتاب ،الہام، عقل، علم، اور سچائی ،میں بیان فرماتے ہیں:’’ رہا اس سوال کا جواب کہ یہ کائنات کس طرح پیدا ہوئی تھی۔تواس کے متعلق دو تازہ ترین نظریات بگ بینگ کے نظریہ کی ہی تائید کرتے ہیں۔ ان نظریات کے مطابق یہ کائنات ایک ایسی سینگولیریٹی یا وحدت سے جاری ہوئی جس میں مقیّد مادہ اچانک ایک زبردست دھماکہ سے پھٹ کر بکھرنا شروع ہو گیا اور اس طریق پر ایونٹ ہورائزن یا واقعاتی افق کے ذریعہ ایک نئی کائنات کا آغاز ہو۔ جس مرحلہ پر بلیک ہول کی حد سے روشنی پھوٹنا شروع ہوئی اسے وائٹ ہول کہاجاتا ہے۔ ان دونوں میں سے ایک نظریہ کے مطابق یہ کائنات ہمیشہ پھیلتی چلی جائے گی جبکہ دوسرے نظریہ کے مطابق ایک مرحلہ پر پہنچ کر کائنات کا پھیلاؤرک جائےگا اور کشش ثقل اسے اندر کی طرف کھینچنا شروع کردے گی۔ آخرکار تمام مادہ واپس کھینچ لیا جائےگااور غالباًایک اور عظیم الشان ’بلیک ہول ‘جنم لے گا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم مؤخرالذکر نظریہ کی تائیدکرتاہے۔ کائنات کی تخلیق اول کے ضمن میں قرآن کریم بڑی وضاحت سے بیان کرتا ہےکہ اس کائنات کا خاتمہ ایک اور بلیک ہول کی صورت میں ہوگا۔ اس طرح کائنات کی ابتدا اور اس کا اختتام ایک ہی طرز پر ہوگا اور یوں کائنات کا دائرہ مکمل ہوجائے گا۔ ‘‘(الہام، عقل، علم اور سچائی، صفحہ ۲۶۳-۲۶۴)اسی مضمون کو جاری رکھتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سورۃ الانبیاء کی آیت ۱۰۵ کا حوالہ دے کر یہ واضح کرتے فرمایا کہ کائنات کے ایک بلیک ہول میں گم ہوجانے پر اللہ تعالیٰ کائنات کی ازسر نو تخلیق کرے گا ۔ گویا قرآن کریم کائنات کے سکڑنے اور پھیلنے کے عمل کو ایک جاری عمل قرار دیتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنی آیات فلکی طبیعیات یعنی اسٹروفزکس سے گہری مطابقت رکھتی ہیں۔ تخلیق ِ کائنات کے نظریات ہوں ، وسعتِ کائنات کا خاکہ یا انہدام ِ کائنات کا تصور، قرآن کریم ہر دور کے انسانوں کو کائنات کے تمام علوم و معارف کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان قرآنی علوم کا شعور حاصل کیا جائے۔ 1 مزید پڑھیں: کیا کائنات ایک حادثہ ہے یا اس کی فائن ٹیوننگ کی گئی ہے؟