https://youtu.be/5si444sdZHc ربوہ میں صرف انہی لوگوں کو رہنا چاہیے جو ہر وقت دین کی خدمت کے لیے تیار رہیں (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۴۹ء بمقام ربوہ) ۱۹۴۹ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے ربوہ میں رہنے والوں سے اپنی توقعات اور خدا تعالیٰ پر توکل پیدا کرنے کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ) ہم چاہتے ہیں کہ یہ جگہ ایک مثالی جگہ ہو۔ جس طرح ظاہر میں ہم اسے دین کا مرکز بنا رہے ہیں اس طرح حقیقی طور پر یہاں کے رہنے والے سب کے سب افراد دین کی خدمت کے لیے وقف ہوں۔ وہ بقدرِضرورت دنیا کا کام بھی کرتے ہوںلیکن ان کا اصل مقصد دین کی خدمت اور اس کی اشاعت ہو تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ابھی ہماری نماز اس جگہ پر عارضی طور پر ہے۔ابھی اس مقام پر مسجد کی بنیاد نہیں رکھی گئی۔نہ مسجد کی منظوری حکومت کی طرف سے ابھی ہوئی ہے۔ جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے۔ربوہ مقام کے لیے حکومت نے کچھ قوانین مقرر کیے ہیں۔ گو یہ ایک وادی ٔغیرِذِی زَرع ہے اور ایک غیرآباد علاقہ ہے لیکن اِس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جلد ہی ربوہ کو ایک شہر کی حیثیت دینے کی کوشش کی جائے گی حکومت نے یہ قانون بنادیا تھا کہ یہ زمین اس شرط پر دی جاتی ہے کہ حکومت کے منظور کردہ نقشہ کے مطابق سڑکیں وغیرہ بنائی جائیں اور اُس کے مطابق عمارتیں تعمیر کی جائیں۔ یعنی جو جگہ گورنمنٹ نے رہائش کے لیے تجویز کی ہے اُس میں رہائشی مکانات بنائے جائیں اور اُتنی ہی جگہ میں بنائے جائیں جتنی جگہ اُس نے رہائشی مکانات کے لیے تجویز کی ہے۔ اور جو جگہ اُس نے دکانوں کے لیے تجویز کی ہے اُس میں دکانیں بنائی جائیں۔ جتنی جگہ گورنمنٹ نے مدرسہ، دفاتر یا مسجد کے لیے تجویز کی ہے اُسی جگہ پر مدرسہ، دفاتر اور مسجد وغیرہ کی تعمیر ہو۔ بعض حلقے اس میں ایسے بھی چھوڑے گئے ہیں جیسے یہ حلقہ ہے جس میں مَیں خطبہ پڑھا رہا ہوں۔ جس میں مرکزی ادارہ قائم کرنے کی تجویز ہے۔ جس جگہ ہم اِس وقت اکٹھے ہیں گورنمنٹ کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق قصرِخلافت کی جگہ ہے یعنی اِس میں خلیفۂ وقت کا مکان ہوگا۔ اِسی طرح اِس میں لنگرخانہ خلافت اور مہمان خانہ وغیرہ بنے گا۔ اس کے پہلو میں مشرق کی طرف یا نیم مشرق سمجھ لو کیونکہ یہ جگہ کچھ ٹیڑھی ہے دفاتر وغیرہ بنیں گے۔مغرب اور شمال اور رقبۂ ریل کے پار جتنا علاقہ ہے اس میں مختلف لوگوں کے رہائشی مکانات اور سکول وغیرہ بنیں گے۔ اور جس جگہ پر ہم کھڑے ہیں اس کے مغرب جنوب میں لجنہ اماء اللہ اور لڑکیوں کے سکول وغیرہ کی جگہ ہے۔ ہسپتال بھی اسی کے قریب علاقہ میں تجویز ہوا ہے اور چونکہ ہم پابند ہیں کہ گورنمنٹ نے جو جگہیں تجویز کی ہیں اُنہی جگہوں پر اُس کی تجویز کردہ عمارات بنائیں اس لیے فوری طور پر عمارتیں شروع نہیں کی جا سکتیں۔ اب اُن نقشوں کے مطابق جو گورنمنٹ نے تجویز کیے ہیں داغ بیل لگ رہی ہے۔ جب داغ بیل لگ گئی تو گورنمنٹ کو اطلاع دی جائے گی اور پھر اصل عمارات شروع کی جائیں گی۔ اُس وقت منظوری کے بعد اس جگہ کی تعمیر شروع ہو گی جسے اَور عمارات پر مقدم رکھا جائے گا کیونکہ سب سے پہلے خدا کا گھر بنانا ضروری ہے۔ وہ عارضی مکانات جو بنائے جا چکے ہیں اس لیے بنائے گئے ہیں کہ مستقل مکانات سے پہلے ان عارضی مکانات کا بنانا ہمارے لیے ضروری تھا۔ لیکن مستقل عمارات میں سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی جائے گی اور اس کے بعد اردگرد کے مکانات وغیرہ بنائے جائیں گے۔یہ مسجد وہ مسجد ہے جو خلیفۂ وقت کے مکان کے ساتھ ہو گی۔ میں اپنا مکان اس لیے نہیں کہتا کہ میں الگ چیز ہوں اور خلیفہ الگ چیز ہے۔ میں ایک فرد ہوں جو اِس وقت خلیفہ ہوں لیکن میرے بعد کوئی اَور شخص خلیفہ ہو گا اور وہ لازماً اُس مکان میں رہے گا جو مسجد کے قریب ہو گا تا کہ وہ اس میں امامت کرسکے اور جو لوگ مسجد میں آئیں انہیںدین کی تعلیم اور درس و تدریس وغیرہ دے۔ گویا یہ مسجد، مسجد مبارک کی قائم مقام اور اُس کا ظل اور مثیل ہو گی۔ جامع مسجد جس میں سارے شہر کے لوگ نماز پڑھیں گے وہ ریل کے پار تجویز کی گئی ہے وہ بہت بڑی جگہ میں ہو گی جس میں ہماری عیدگاہ بھی ہو گی۔ اُس میں سارے شہر کے لوگ جمعہ کے لیے بھی اکٹھے ہوں گے اور عید بھی وہیں پڑھیں گے۔ وہ مسجد جہاں تک میرا اندازہ ہے اس مسجد سے بیس پچیس گنے زیادہ ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ اُس کے اندر آئندہ ہمارا جلسہ بھی ہو کیونکہ وہ زمین کافی وسیع اور کھلی ہے۔ اب یہاں ہماری عمارتیں بننی شروع ہو گئی ہیں، لوگ رہنے لگ گئے ہیں، دکانیں کھل گئی ہیں، کچھ کارخانوں کی صورت بھی پیدا ہو رہی ہے کیونکہ چکیاں وغیرہ لگ رہی ہیں، مزدور بھی آگئے ہیں، پیشہ ور بھی آگئے ہیں اور دفتر بھی آ گئے ہیں۔ مگر یہ سب عارضی انتظام ہے۔ مستقل انتظام کے لیے یہ شرط ہو گی کہ صرف ایسے ہی لوگوں کو ربوہ میں رہنے کی اجازت دی جائے گی جو اپنی زندگی عملی طور پر دین کی خدمت کے لیے وقف کرنے والے ہوں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ یہاں رہنے والا کوئی شخص دکان نہیں کر سکتا یا کوئی اَور پیشہ نہیں کر سکتا۔ وہ ایسا کر سکتا ہے مگر عملاً اُسے دین کی خدمت کے لیے وقف رہنا پڑے گا۔ جب بھی سلسلہ کو ضرورت ہو گی وہ بِلاچُون و چَرا اپنا کام بند کر کے سلسلہ کی خدمت کرنے کا پابند ہو گا۔ مثلاً اگر تبلیغ کے لیے وفد جا رہے ہوں یا علاقہ میں کسی اَور کام کے لیے اُس کی خدمات کی ضرورت ہو تو اُس کا فرض ہو گا کہ وہ فوراً اپنا کام بند کر کے باہر چلا جائے۔ انہی شرائط پر لوگوں کو زمین دی جائے گی اور جو لوگ اس کے پابند نہیں ہوں گے اُنہیں یہاں زمین نہیں دی جائے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ جگہ ایک مثالی جگہ ہو۔ جس طرح ظاہر میں ہم اسے دین کا مرکز بنا رہے ہیں اس طرح حقیقی طور پر یہاں کے رہنے والے سب کے سب افراد دین کی خدمت کے لیے وقف ہوں۔ وہ بقدرِضرورت دنیا کا کام بھی کرتے ہوںلیکن ان کا اصل مقصد دین کی خدمت اور اس کی اشاعت ہو۔ یوں تو صحابہؓ بھی دنیا کے کام کرتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر میں کوئی ایک سپاہی بھی ایسا نہیں تھا جو تنخواہ دار ہو۔ کوئی دکاندار تھا، کوئی زمیندار تھا، کوئی مزدور تھا، کوئی لوہا رتھا، کوئی ترکھان تھا۔ غرض سارے کے سارے پیشہ ور تھے۔ جس طرح آپ لوگوں کی دکانیں ہیں اسی طرح اُن کی بھی دکانیں تھیں۔ جس طرح آپ لوگوں کی زمینداریاں ہیں اسی طرح اُن لوگوں کی بھی زمینداریاں تھیں۔ اگر آپ لوگ مختلف پیشوں سے کام لیتے ہیں، مزدوری کرتے ہیں یا بڑھئی اور لوہار کا کام کرتے ہیں تو وہ بھی یہ سب کام کرتے تھے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ کے لیے نکلتے تو وہ سب کے سب آپ کے ساتھ چل پڑتے تھے۔ اُس زمانہ میں جنگ تھی اِس زمانہ میں تبلیغ کا کام ہمارے سپرد ہے۔ آپ صحابہؓ سے فرماتے چلو تو وہ سب چل پڑتے تھے۔ وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہماری دکانیں بند ہو جائیں گی۔ پھر یہ بھی نہیں کہ اُن کے بیوی بچے نہیں تھے۔ آجکل لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر ہم دین کی خدمت کے لیے جائیں تو ہمارے بیوی بچوں کو کون کھلائے گا۔ سوال یہ ہے کہ آیا صحابہؓ کے بیوی بچے تھے یا نہیں؟ اگر تھے تو جنگ پر جانے کے بعد اُنہیں کون کھِلاتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی ترقی قربانی سے وابستہ ہے۔ روپیہ ایک عارضی چیز ہے جیسے تحریک جدید کے ابتدا میں ہی میں نے کہہ دیا تھا کہ روپیہ ایک ضمنی چیز ہو گی۔ تحریک جدید کی اصل بنیاد وقفِ زندگی پر ہوگی مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب واقفین میں سے ایک حصہ کا رجحان روپیہ کی طرف ہو رہا ہے اور وہ یہ سوال کر دیا کرتے ہیں کہ ہم کھائیں گے کہاں سے؟ حالانکہ وقف کی ابتدائی شرطوں میں ہی صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ زندگی وقف کرنے والا ہر قسم کی قربانی سے کام لے گا اور وہ کسی قسم کے مطالبہ کا حقدار نہیں ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص خدا کے لیے قربانی کرتا ہے خدا خود اُس کا مددگار ہو جاتا ہے۔ آخر ہمارے وقف کے دو ہی نتیجے ہو سکتے ہیں۔ یا تو ہمیں ملے یا نہ ملے۔ میں ’’ہمارے‘‘ کا لفظ اس لیے کہتا ہوں کہ میں بھی جوانی سے دین کی خدمت کے لیے وقف ہوں اور میں جب دین کی خدمت کے لیے آیا تھا اُس وقت میں نے خداتعالیٰ سے یا خداتعالیٰ کے نمائندوں سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ میں اور میرے بیوی بچے کہاں سے کھائیں گے۔ مگر اب تم میں سے کئی لوگوں کو یہ نظر آتا ہے کہ میرے پاس روپیہ بھی ہے اور میں کھاتا پیتا بھی بافراغت ہوں۔ مگر سوال یہ ہے کہ میں نے تو کوئی شرط نہیں کی تھی۔ جو کچھ خدا نے مجھے دیا یہ اُس کا احسان ہے۔ میرا حق نہیں کہ میں اُس کی کسی نعمت کو ردّ کروں۔ لیکن جب میں آیا تھا اُس وقت میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ پہلے میرے اور میرے بیوی بچوں کے گزارہ کی کوئی صورت پیدا کی جائے اس کے بعد میں اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کروں گا۔ یہ خدا کا سلوک ہے جس میں کسی بندے کا کوئی اختیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی تھے جنہوں نے روٹی کھانی ہوتی تو وہ کہتے فلاں مرید کو کہہ دو کہ وہ مجھے روٹی بھجوا دے۔ اور اُس کے نبیوں میں حضرت سلیمانؑ بھی تھے جن کے دائیں بائیں دولت گر رہی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی خداتعالیٰ نے اپنے الہامات میں داؤد کہا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ خداتعالیٰ کے اس مختلف سلوک کی وجہ کیا ہے۔ یہ ایک راز ہے جو اُس نے اپنے قبضہ میں رکھا ہوا ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے۔ شاید کوئی شخص اَورلحاظ سے تو کام کا اہل ہوتا ہے مگر اُس کی صحت اور حالات تقاضا کرتے ہیں کہ اُسے روپیہ دیا جائے یا اُس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے وہ دنیا کا امتحان لینا چاہتا ہے۔ بہرحال اس کا سلوک ہے یہی کہ کسی کو وہ بے انتہا دیتا چلا جاتا ہے اور کسی کو اپنی مصلحتوں کے ماتحت مشکلات میں مبتلا رکھتا ہے۔ حضرت خلیفہ اول ہمیشہ دعویٰ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے خداتعالیٰ اپنے پاس سے رزق دیتا ہے۔ ہمارے نانا جان حضرت میرناصرنواب صاحب کو سلسلہ کی خدمت کا شوق تھا اور وہ چندہ کے لیے باہر چلے جاتے تھے۔ اِسی چندہ سے انہوں نے دارالضعفاء بنوایا،مسجد نور بنوائی، اِسی طرح اَور تین چار کام کیے۔ وہ باہر سے چندہ لا لا کر یہ عمارتیں تعمیر کراتے تھے۔ اُن کے بڑھاپے کی عمر میں ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے اُن کو مخاطب کر کے فرمایا میرصاحب! ہمیں خدا نے ایک نسخہ بتایا ہوا ہے کہ جس کے نتیجہ میں ہمیں خودبخود روپیہ مل جاتا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو بھی وہ نسخہ بتا دوں۔ اس کے بعد آپ کو باہر چندہ کے لیے جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ میرصاحب مرحوم نے جواب دیا کہ آپ جو بتائیں گے اُس کے نتیجہ میں مجھے جو کچھ ملا اُسے دیکھ کر میرے دِل میں یہی خیال پیدا ہو گا کہ آپ کے نسخہ کی وجہ سے یہ روپیہ ملا ہے مگر اب تو یہ مزا آتا ہے کہ خدا خود اپنے پاس سے روپیہ دے رہا ہے یہ مزا آپ کے نسخہ سے جاتا رہے گا۔ حضرت خلیفہ اولؓ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے ساری عمر میں صرف ایک شخص کے آگے اس نسخہ کو پیش کیا اور اس نے بھی لینے سے انکار کر دیا۔ حضرت خلیفہ اول نے بارہا میرے سامنے بھی یہ بات بیان کی اور ایسے رنگ میں بیان کی کہ گویا آپ چاہتے تھے کہ میں اس کے متعلق آپ سے سوال کروں۔ میں نے آپ سے کبھی نہیں پوچھا اور نہ میں نے کبھی ایسے علم کے پوچھنے کی ضرورت سمجھی۔ اور واقعہ یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اول کے پاس جتنا روپیہ آتا تھا اُس سے بہت زیادہ روپیہ خداتعالیٰ نے مجھے دیا ہے۔ اس کی وجہ اصل تو فضلِ الٰہی ہے اور ظاہری یہ کہ میں نے خداتعالیٰ سے کبھی ٹھیکہ نہیں کیا۔ ہم جب قادیان سے آئے اُس وقت ہمارے خاندان کی تمام جائدادیں پیچھے رہ گئیں تھیں اور ہمارے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا۔ بعض دوستوں کی امانتوں کا صرف نوسو روپیہ میرے پاس تھا۔ اِدھر ہمارے سارے خاندان کے دو سَو کے قریب افراد تھے اور ان میں سے کسی کے پاس روپیہ نہیں تھا۔ اس حالت میں بھی میں نے یہ نہیں کیا کہ لنگر سے کھانا منگوانا شروع کر دوں بلکہ میں نے سمجھا کہ وہ خدا جو پہلے دیتا رہا ہے اب بھی دے گا۔ چنانچہ میں نے اپنے خاندان کے سب افراد سے کہا کہ تم فکر مت کرو، سب کا کھانا اکٹھا تیار ہوا کرے گا اور ایسا ہی ہوا۔ اپنے خاندان کے تمام افراد کے کھانے کا انتظام میں نے کیا اور برابر کئی ماہ تک اس بوجھ کو اٹھایا۔ آخر کسی نے چھ ماہ کے بعد اور کسی نے نو ماہ کے بعد اپنے اپنے کھانے کا الگ انتظام کیا۔ اس عرصہ میں وہ لوگ جن کا روپیہ میرے پاس امانتاً پڑا ہوا تھا وہ بھی اپنا روپیہ لے گئے اور ہمیں بھی خدا نے اِس طرح دیا کہ ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوا کہ ہم کوئی اَور تدبیر ایسی اختیار کریں جس سے ہماری روٹی کا انتظام ہو۔ میں جب تک لاہور نہیں پہنچا ہمارے خاندان کے لیے لنگر سے کھانا آتا رہا تھا مگر جہاں تک مجھے علم ہے اس کی بھی لنگر کو قیمت ادا کر دی گئی تھی۔اور اس کے بعد اپنے خاندان کے دو سَو افراد کا بوجھ اُٹھایا حالانکہ اُس وقت ماہوار خرچ کھانے کا کئی ہزار روپیہ تھا۔ غرض خدا دیتا چلا گیا اور میں خرچ کرتا چلا گیا۔ اگر میں خداتعالیٰ سے ٹھیکہ کرنے بیٹھ جاتا اور اُس سے کہتا کہ پہلے میری تنخواہ مقرر کی جائے پھر میں کام کروں گا اور خداتعالیٰ خواب یا الہام کے ذریعہ پوچھتا کہ بتا تجھے کتنا روپیہ چاہیے؟ تو اُس زمانہ کے لحاظ سے جب میری ایک بیوی اور دو بچے تھے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا تھا کہ سَو روپیہ بہت ہو گا۔ مجھے ایک سَو روپیہ ماہوار دے دیا جائے۔ لیکن اگر میں ایسا کرتا تو آج کیا کرتا جب کہ میری چار بیویاں اور بائیس بچے ہیں اور بہت سے رشتہ دار ایسے ہیں جو اس بات کے محتاج ہیں کہ میں اُن کی مدد کروں۔ میرے وہ رشتہ دار جن کا اب بھی میرے سر پر بوجھ ہے ساٹھ ستّر کے قریب ہیں۔ اگر سَو روپیہ میں اپنے لیے مانگتا تو ان کو ڈیڑھ روپیہ بھی نہیں آ سکتا تھا۔ پھر میں روٹی کہاں سے کھاتا، کپڑے کہاں سے بنواتا، اپنے بچوں کو تعلیم کس طرح دلاتا اور اپنے خاندان کے افراد کی پرورش کس طرح کرتا۔ بہرحال میں نے خداتعالیٰ سے یہ کبھی سوال نہیں کیا کہ تُو مجھے کیا دے گا اور خداتعالیٰ نے بھی میرے ساتھ کبھی سودا نہیں کیا۔ میں نے خداتعالیٰ سے یہی کہا کہ مجھے ملے نہ ملے میں تیرا بندہ ہوں اور میرا کام یہی ہے کہ میں تیرے دین کی خدمت کروں۔ اور اس کے بعد خداتعالیٰ نے بھی یہی کیا کہ یہ سوال نہیں کہ تیری لیاقت کیا ہے؟ یہ سوال نہیں کہ تیری قابلیت کیا ہے؟ ہم بادشاہ ہیں اور ہم اپنے بادشاہ ہونے کے لحاظ سے تجھے اپنی نعمتوں سے ہمیشہ متمتع کرتے رہیں گے۔ غرض خدا سے سچا تعلق رکھنے والا انسان ہمیشہ آرام میں رہتا ہے۔ لیکن فرض کرو وہ یہی فیصلہ کر دیتا ہے کہ ہم بھوکے مر جائیں تو کم از کم مجھے تو وہ موت نہایت شاندار معلوم ہوتی ہے جو خداتعالیٰ کی راہ میں بھوکے رہ کر حاصل ہو بجائے اس کے ہم پیٹ بھر کر خداتعالیٰ کے راستہ سے الگ ہو جائیں۔ اگر ہم اس کی راہ میں بھوکے مر جائیں تو خداتعالیٰ کے سامنے ہم کتنی شان سے پیش ہوں گے کتنے دعویٰ کے ساتھ پیش ہوں گے کہ ہم نے تیرے لیے بھوکے رہ کر اپنی جان دے دی۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ زندگی وقف کرنے والے نوجوانوں کے جدید حصہ میں اب وہ توکّل نہیں جو ایک سچے مومن کے اندر ہونا چاہیے۔ حالانکہ اگر سلسلہ ان کو ایک پیسہ بھی نہ دے اور وہ توکّل سے کام لیں تو یقیناً زمین ان کے لیے اُگلے گی اور آسمان ان کے لیے اپنی نعمتیں برسائے گا۔ میں نے کئی دفعہ سنایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب زلزلہ کے الہامات کی وجہ سے باغ میں تشریف لے گئے تو ایک دن آپ نے گھر میں حضرت اماں جان سے باتیں کرتے ہوئے فرمایا کہ روپیہ بالکل نہیں رہا۔ ہمارا خیال ہے کہ بعض دوستوں سے قرض لے لیا جائے۔ مگر پھر آپ نے فرمایا کہ یہ بھی توکّل کے خلاف ہے۔ اس کے بعد آپ مسجد میں گئے اور نماز ہوئی۔ جب واپس آئے تو آپ نے ایک پوٹلی نکالی اور اس کو کھولا اور پھر اسے دیکھ کر فرمانے لگے (میں بھی اُس وقت پاس ہی کھڑا تھا) کہ جب میں نماز کے لیے باہر گیا تو ایک غریب آدمی جس کے کپڑے پھٹے پرانے تھے اُس نے یہ پوٹلی ہماری جیب میں ڈال دی۔ اور چونکہ یہ بوجھل تھی میں نے سمجھا کہ اس میں پیسے وغیرہ ہوں گے مگر جب گھر آ کر میں نے اُس پوٹلی کو کھولا تو اُس میں سے روپے اور نوٹ نکلے۔ پھر آپ نے اُن روپوں اور نوٹوں کو گِنا تو وہ چار پانچ سَو کے قریب نکلے۔ آپ نے فرمایا اگر ہم قرض لیتے تو یہ توکّل کے خلاف ہوتا۔ اِدھر ہمیں ضرورت پیش آئی اور اُدھر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے ذریعہ سے روپیہ بہم پہنچا دیا جس کا ہمیں وہم اور خیال بھی نہیں تھا۔ (جاری ہے) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: شیعہ علم الکلام کی رو سے امام مہدی کو ماننا ضروری ہے