https://youtu.be/pq3zt6SDFLc شہید ایک سبق دے کے جاتے ہیں کہ ہم نے دین کی خاطر قربانی کی، تو آپ لوگ بھی قربانی کرنے والے ہوں، یہ اس کا جسم، اس کی یاد اور اس کا خون تازہ ہونا ہے۔اس کا خون آپ کو یاد دلاتا رہے کہ مَیں شہید ہوا تھا ، مَیں نے ایک مقصد کے لیے اپنا خون بہایا تھا ، اس مقصد کو تم نہ بھولنا مورخہ۶؍ستمبر ۲۰۲۵ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے نارتھ ایسٹ ریجن کے ایک پندرہ (۱۵)رکنی وفد کو بالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر محض حضور انور کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے اور آپ کی بابرکت صحبت سے روحانی فیض حاصل کرنے کی غرض سے امریکہ سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔ جب حضور انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السّلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔آغاز میں امیرِِقافلہ نے وفد کا تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ریجن پانچ مجالس پر مشتمل ہے، جو بوسٹن (Boston)سے لے کر بفیلو (Buffalo)تک پھیلا ہوا ہے۔ بعد ازاں ہر خادم کو فرداً فرداً اپنا تعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ، جس میں اپنے نام، خاندانی پسِ منظر، تعلیمی مصروفیات اور جماعتی خدمات کا ذکر کیا گیا۔ تعارف کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس وفد میں شامل کئی خدام طب کے میدان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور مستقبل میں اسی شعبے میں خدمات بجا لانے کا عزم رکھتے ہیں۔ دورانِ تعارف حضور انور نے ایک خادم سے دریافت فرمایا کہ آپ کی شادی ہو گئی ہے؟خادم کے اثبات میں جواب عرض کرنے پر حضورانور نے مزید دریافت فرمایا کہ کتنے بچے ہیں؟اس پر خادم نے عرض کیا کہ حضور انورنے میرا نکاح ۲٠٢٢ء میں پڑھایا تھا ، جب آپ امریکہ تشریف لائےتھے۔اس پر حضورانور نے مسکراتے ہوئے دوبارہ استفسار فرمایا کہ نکاح پڑھانے کے بعد پھر بچے کتنے ہوئے؟خادم نے بھرپورطمانیت سے عرض کیا کہ ایک بیٹا ہے، الحمدللہ! اور وہ بھی وقفِ نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہے، نیز بتایا کہ ڈاکٹر محمد احمد اشرف صاحب جو فضلِ عمر ہسپتال میں ہیں، وہ میرے خسر ہیں۔ ایک خادم نے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ وہ حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کا پڑنواسہ اور مرزا فضل الرحمٰن صاحب مر حوم آف کینیڈا کا پوتا ہے۔یہ سماعت فرما کر حضور انور نے استفسار فرمایا کہ مرزا مبشر تمہارے چچا ہیں؟اس پر خادم نے وضاحت عرض کی کہ وہ میرے سب سے بڑے تایا ہیں۔ حضورانور نے ذکر فرمایا کہ وہ میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ حضور انور نے پھر دریافت فرمایا کہ بڈّھے ہو گئے ہیں؟خادم نے عرض کیا کہ وہ اس لحاظ سے ویسے ابھی کافی جوان ہی ہیں اور بہت فعّال ہیں۔ تعارف کے دوران ایک نوجوان امریکی خادم ٹم ڈومینو(Tim Domino)نے بتایا کہ وہ ایک سال قبل مسیحیت سے اسلام احمدیت میں داخل ہوا تھا۔ حضورِانور نے ازراہِ شفقت اُس کے نام کے معنی دریافت فرمائے۔ خادم نے عرض کیا کہ مسیحی مذہب میں ٹموتھی کا مطلب ’’خدا کی نظر میں معزز‘‘ہے اور درمیانی نام مائیکل ہے، جس کے معنی ’’خدا کی تعظیم کرنے والا‘‘ ہیں۔ یہ سُن کر حضور انور نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ اسلام احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ نہ صرف خدا کے نزدیک معزز ہوئے ہیں بلکہ اس کا فضل بھی آپ پر ہوا ہے۔ یہ ایک بڑا اعزاز ہے۔ آپ صرف نام کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ اعمال کے لحاظ سے بھی معزز ہیں۔ بعد ازاں حضورِ انور نے دریافت فرمایا کہ آپ نے احمدیت کب قبول کی؟ خادم نے عرض کیا کہ ایک سال قبل اکتوبر میں۔ پھر حضور انور نے دریافت فرمایا کہ جماعت احمدیہ کی حقانیت کو تسلیم کرنے کا ذریعہ کیا بنا؟ خادم نےعرض کیا کہ تلاش کا آغاز ایک آن لائن کورس (Islam 101)سے ہوا، جس کے نتیجے میں مقامی جماعت سے تعلق قائم ہوا۔ اسی تعلق نے مسجد کے وِزٹ اور رمضان المبارک کی عبادات میں شمولیت تک پہنچایا اور بالآخر اسلام احمدیت کو قبول کرنے کی سعادت ملی۔ حضورِانور نےاستفسار فرمایا کہ کیا اب اسلام کے بارے میں زیادہ سیکھنا شروع کیا ہے؟ خادم نے اثبات میں جواب دیتے ہوئےعرض کیا کہ جی ہاں! روزانہ سیکھ رہا ہوں اور یہ خوش قسمتی ہے کہ دیگر تمام بھائی بھی میری راہنمائی کررہے ہیں۔ اس کے بعد حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا آپ نے قرآنِ کریم کی پہلی سورت سورۃ الفاتحہ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ زبانی یاد کر لی ہے اور کیا اسے نماز میں پڑھتے ہیں؟ خادم نے عرض کیا کہ ابھی زبانی یاد نہیں کی۔ اس موقع پر حضور انور نے نصیحت فرمائی کہ اسے حفظ بھی کریں اور ترجمہ بھی یاد کرنے کی کوشش کریںکیونکہ پانچ وقت کی نماز میں ہر رکعت میں یہ دعا پڑھی جاتی ہے۔ اس طرح یاد کرنا آسان ہو جائے گا۔ اس پر خادم نے عرض کیا کہ انگریزی ترجمہ تو آتا ہے لیکن عربی سیکھنے کی کوشش بھی کر رہا ہوں۔ آخر میں حضورانور نے دوبارہ اس بات پر زور دیا کہ عربی سیکھنے کی باقاعدہ کوشش کرنی چاہیے۔ ایک گھانین خادم سے بات کرتے ہوئے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ اس کا تعلق گھانا کے کس حصّے سے ہے؟ خادم نے عرض کیا کہ وہ ‘‘Wa’’ سے ہے، جو شمال مغربی خطّہ ہے۔ یہ سن کر حضورانور مسکرا دیے اور محبت بھرے انداز میں فرمایا کہ اچھا! ‘‘Wa’’، تو آپ ‘‘Wala’’ ہیں۔ اس کے بعد حضور انور نےاستفسار فرمایا کہ کیا آپ سب وہاں امریکہ میں رہتے ہیں؟ خادم نے وضاحت کی کہ وہ اکیلا یہاں مقیم ہے جبکہ والدین گھانا میں ہیں۔ پھر دریافت فرمایا کہ کیا اب آپ امریکی شہری ہیں؟ خادم نے عرض کیا کہ ان کے پاس صرف سٹوڈنٹ ویزا ہے۔ حضور انور نے مزید دلچسپی کا اظہار فرماتے ہوئے سوال کیا کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ خادم نے عرض کیا کہ وہ فزکس میں پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ پھر بات چیت کا رخ وطن کی خدمت کی جانب مڑ گیا۔ اسی تناظر میں حضورانور نے استفسار فرمایا کہ کیا آپ واپس اپنے ملک جا کر قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تاکہ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس میں پھیلی ہوئی کرپشن کو ختم کیا جا سکے اور روکا جا سکے؟ اس پر خادم نے اثبات میں جواب دیا اور پُرعزم لہجے میں اظہار کیا کہ ان شاء اللہ۔ ایک خوش نصیب خادم کو یہ شرف حاصل ہوا کہ حضورِانور کی خدمت میں اپنے ساتھ ساتھ اپنے آباء و اجداد کا بھی تعارف پیش کرے۔حضورانور کے استفسار پر اس نے عرض کیا کہ وہ خود پاکستان سے نہیں، البتہ دادا دادی وہاں کے تھے اور اس کی پیدائش یہیں ہوئی ہے۔ یہ سُن کر حضور انور نے اظہارِ خوشنودی فرمایا کہ ماشاء اللہ! کمال ہے، تم نے بڑی اچھی اردو سیکھ لی۔ خادم نے انتہائی ادب سے عرض کیا کہ جزاک اللہ! دادی جان نے اردو سکھائی تھی۔ مصروفیات کے حوالے سے دریافت فرمانے پر خادم نے عرض کیا کہ وہ کریمنل جسٹس میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ حضورانور نے فرمایا کہ اچھا! لاء پڑھ رہے ہو۔ خادم نے اثبات میں عرض کیا کہ جی ہاں، لیکن ابھی کچھ اور سوچ رہا ہوں۔ حضور انور نے دریافت فرمایا کہ switch overکر جانا ہے؟ خادم نے عرض کیا کہ جی! میرا ارادہ ہے کہ Forensicsکے شعبے میں جاؤں۔ یہ سماعت فرما کر حضورانور نے تبسم کے ساتھ فرمایا کہ اس کا بھی کرائم سے ہی تعلق ہے۔ پھر مسکراتے ہوئے نہایت شفقت سے تبصرہ فرمایا کہ ٹھیک ہے، مگر تم چھوٹے سے ہو، کہیں تمہیں اُٹھا کے ہی نہ لے جائیں۔جس پر تمام شاملینِ مجلس بھی مسکرا دیے اور خوب محظوظ ہوئے۔ دوران تعارف ایک خادم نے عرض کیا کہ مَیں بھی بوسٹن سے ہوں اور اس وقت ہارورڈ میڈیکل سکول میں بطورNeuroscientist تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ یہ سماعت فرما کر حضورانور نے تحقیق کے حالات کے متعلق دریافت فرمایا کہ سنا ہے وہاں کی حکومت نے توریسرچ میں دی جانے والیaid بند کر دی ہے، فنڈنگ کہاں سے لو گے؟ نیز استفسار فرمایا کہ ریسرچ میں فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے؟ جس پر خادم نے عرض کیا کہ وہی این آئی ایچ (National Institutes for Health) کے ذریعے گورنمنٹ سے فنڈنگ ہوتی ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ دونوں نےکیس کیا تھا اورکورٹ نے فیصلہ ان کے حق میں دے دیا ہے۔ خادم نے تصدیق کرتے ہوئے عرض کیا کہ جی بالکل! لیکن ابھی بھی کچھ بے یقینی سی پائی جاتی ہے۔ حضور انور نے موجودہ سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اختلاف کرو گے تو بس پھر سول وار شروع ہو جائے گی، جیسا کہ مَیں نے کہا تھااور وہاں اتنی جرأت نہیں ہے، اب وہ نئی نئی باتیں بتاتا ہے۔ پینٹاگون کو ڈیپارٹمنٹ آف وار بنا دیا ہے۔ مزید برآں دورانِ ملاقات شاملینِ مجلس کو حضور انور کی خدمت میں مختلف نوعیت کے متفرق سوالات پیش کرنے نیز ان کے جواب کی روشنی میں حضورانور کی زبانِ مبارک سے نہایت پُرمعارف، بصیرت افروز اور قیمتی نصائح پر مشتمل راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ ایک نَو مبائع نے راہنمائی کی درخواست کی کہ میرے جیسے نَومبائع کے لیے حضور کیا نصیحت فرمائیں گے تا کہ مَیں اس راہ پر ثابت قدم رہتے ہوئے دن بہ دن ایک بہتر احمدی مسلمان بن سکوں؟ اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ سب سے پہلی بات جیسا کہ مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ پانچ وقت کی نمازیں ادا کریں۔ اسی طرح حضورانور نے نصیحت فرمائی کہ سورة الفاتحہ سیکھیں، اسے عربی میں یاد کریں، اس سے آپ کو زیادہ فیض ملے گا اور پھر اس کا مطلب سیکھیں۔ اس کے معانی پر غور کریں کہ اس کے کیا معانی ہیں اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ حضورانور نے دینی علم میں اضافے کے حوالے سے جماعتی لٹریچر کے مطالعہ کی طرف بھی توجہ دلائی اور فرمایا کہ احمدی لٹریچر پڑھنے کی کوشش کریں۔ پہلی کتاب جو میرا خیال ہے آپ کو پڑھنی چاہیے وہ ’’ اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ہے اور پھر ’’کشتی نوح‘‘ہے ۔ یہ دونوں کتابیں آپ کے دینی علم اور اسلام احمدیت کے بارے میں فہم کو بڑھانے میں مدد کریں گی۔ جب آپ یہ کتب ختم کر لیں، تو پھر آپ مجھ سے دوبارہ پوچھ سکتے ہیں اور مَیں آپ کو بتا دوں گا۔ اس پر خادم نے انتہائی ادب سے عرض کیا کہ جی! مَیں آپ کی خدمت میں لکھوں گا۔ ایک گھانین نژاد خادم، جو اس وقت پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، انہوں نے عرض کیا کہ میرا سوال یہ ہے کہ والدین کے ساتھ شفقت اور عزت کے ساتھ پیش آنے کے بارے میں حضور کی کیا نصیحت ہے، اس صورت میں کہ جب بعض اوقات ان کی خواہشات غیر دانشمندانہ معلوم ہوں؟ اس کے جواب میں حضور انور نے قرآن کریم کی اس اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ دلائی کہ ہمیشہ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور ان کی ہر معاملے میں اطاعت کرو، سوائے اس کے جب وہ اللہ کے خلاف بات کریں یا اس کے احکامات کے خلاف یا تمہارے دین کے خلاف یعنی سچے مذہب اسلام کے خلاف، ایسی صورت میں ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے، ورنہ کوشش کرو کہ ان کا احترام کرو ، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ اور اس کے نتیجے میں اللہ آپ پر فضل کرے گا۔ حضورِ انور نے اس اہم نکتے کی بھی وضاحت فرمائی کہ جب بسا اوقات آپ کو لگتا ہے کہ ان کی نصیحت غیر دانشمندانہ ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ چونکہ آپ پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں اور پی ایچ ڈی مکمل کر لی ہے، اس لیے اب آپ اپنے والدین سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ انہوں نے تو زیادہ سے زیادہ سیکنڈری سکول تک تعلیم حاصل کی ہے ، لیکن آپ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ آپ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، اس لیے ان سے زیادہ عقلمند ہیں۔ ہرگز نہیں! حضور انور نے اس سوچ سے بچنے کی نصیحت فرمائی کہ اگر آپ واقعی اپنے والدین سے زیادہ عقلمند ہیں، اس صورت میں بھی آپ کو ان کی اطاعت کرنی چاہیے، ان کا احترام کرنا چاہیے اور آپ کا تو رواج بھی ہے کہ اپنے بڑوں کا احترام کرنا لازم ہے۔ اس ضمن میں مزید تلقین فرمائی کہ اور افریقہ والے اس معاملے میں بہت خاص خیال رکھتے ہیں اس لیے آپ کو اپنے اس رواج پر بھی عمل کرنا چاہیے۔کچھ اچھے رواج ہیں جو ہمیشہ اسلام کی تعلیم سے مطابقت رکھتے ہیں، اس لیے آپ کو ان پر عمل کرنا چاہیے ۔سوائے اس کے کہ وہ آپ کو اسلام کی تعلیم کے خلاف یا قرآن کے خلاف یا اللہ کے خلاف کوئی بات کہیں تو پھر آپ کو کہنا چاہیے کہ نہیں مَیں اسے قبول نہیں کروں گا، ورنہ آپ کو ان کی بات ماننی چاہیے یا اگر آپ ان کی پیروی نہ بھی کرو تو پھر بھی ان کے ساتھ نرمی اور عزت کے ساتھ پیش آؤ اور حکمتِ عملی سے ان کے حکم یا ان کی بات کو مؤدبانہ انداز میں ردّ کر دو۔ کبھی بھی ان کے ساتھ سختی سے نہ پیش آؤ۔ ایک خادم نے حضور انور سے سوال کیا کہ کیا ایک احمدی مسلمان قرآنِ کریم پر غور و تدبّر کے دوران نئے تفسیری معانی اخذ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے؟ اس کے جواب میں حضورانور نے ارشاد فرمایا کہ یہ جائز ہے، لیکن اس کے لیے ایک نہایت اہم اصول کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے، اگر کسی کی نئی تفسیر جماعت کی مروجہ اور تسلیم شدہ تشریحات کے خلاف ہو تو ایسی صورت میں خلیفۃالمسیح کو لکھنا چاہیے، اپنی تشریح پیش کرنی چاہیے اور راہنمائی طلب کرنی چاہیے۔ اگر خلیفہ وقت اس کی توثیق کر دے تو وہ تفسیر قابلِ قبول ہے۔ حضورانور نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے قرآنِ کریم کی سینکڑوں آیات کے سائنسی پہلوؤں پر اپنی تفسیریں پیش کیں، جو عام مفسرین کے لیے ممکن نہ تھا۔ حضور انور نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض آیات کی تشریحات بیان فرمائیں اور بعد کے خلفاء نے وقتاً فوقتاً ان پر مزید روشنی ڈالی، بظاہر یہ توضیحات مختلف محسوس ہو سکتی ہیں ، مگر حقیقت میں وہ باہم متضاد نہیں ہوتیں۔ چنانچہ حضورانور نے فرمایا کہ نئی تفسیریں اخذ کی جا سکتی ہیں، لیکن انہیں شائع کرنے یا عام کرنے سے پہلے خلیفۃ المسیح کی منظوری لازمی ہے۔ البتہ ذاتی فہم و تدبّر کے لیے ایسی منظوری ضروری نہیں۔ حضور انور نے مزید بیان فرمایا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قرآنِ کریم کے کئی بُطون ہیں، جو اپنے اپنے وقت پر منکشف کیے جاتے ہیں۔ مقامی مربی سلسلہ نے حضور انور کی خدمت اقدس میں اس تشویش کا اظہار کیا کہ آج کے دَور میں خاص طور پر مغربی معاشرے میں یہ فکر کی بات سامنے آتی ہے کہ نوجوانوں کا خدا، دین اور مسجد سے تعلق کم ہوتا جا رہا ہے، لیکن جب غیر نصابی سرگرمیوں اور پروگراموں کی بات آتی ہے تو نوجوان اس میں دلچسپی دکھاتے ہیں اور شامل بھی ہوتے ہیں۔ نیز عرض کیا کہ پیارے حضور کی کیا راہنمائی ہے کہ ہم ان سرگرمیوں کو جیسے کھیل، سیر یا تفریحی پروگرام کس حد تک استعمال کریں تاکہ نوجوانوں کو آہستہ آہستہ دین اور مسجد کی طرف متوجہ کیا جا سکے؟ حضور انور نے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، کس طرح ہونا چاہیے؟ اس پر خادم نے عرض کیا کہ جو بھی ذریعہ میسر ہو اسے کافی حد تک استعمال کرنا چاہیے۔ حضور انور نے فرمایا کہ سوال یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی اس کے لیے attraction تو آنی چاہیے، ان کو اپنے قریب لاؤ، تو attach ہوں گے۔ جب قریب آئیں گے تو کچھ نہ کچھ تمہارے سے بھی سیکھیں گے ۔ حضورانور نے مربیان اور دیگر عہدیداران کو توجہ دلائی کہ اگر آپ لوگ مربی صاحبان اور جو آپ کی عاملہ کے ایگزیکٹو ممبر ہیں، وہ سارے نفل پڑھنے والے ہیں، تہجد پڑھنے والے ہیں، نمازیں باقاعدہ پڑھنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ پر بڑا پکا ایمان ہے اور اس پر کچھ experience بھی ہے، تو جب ان کے ساتھ باتیں کرو گے، بتاؤ گے، تو ان میں بھی یہ روح پیدا ہوگی ۔ تو آہستہ آہستہ وہ قریب آتے جائیں گے، لیکن اسے ایک دم کہہ دینا کہ تم نماز نہیں پڑھتے، تم بڑے بدمعاش ہو ، چلو یہاں سے دوڑ جاؤ، تو پھر وہ دوڑ جائیں گے، پہلے ہی دوڑے ہوئے ہیں اَور دوڑ جائیں گے۔ اس لیے ان کو قریب لانے کے لیے جو کر سکتے ہو کرو۔ حضور انور نے سختی اور درشت رویے سے منع فرماتے ہوئے قرآن کریم کی اس تعلیم کا حوالہ دیا کہ قرآن شریف میں تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ اگر تُوان پر سختی کرے گا تو یہ تیرے پاس سے دوڑ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ان کے دلوں میں اُلفت اور محبّت پیدا کی ہے، دین سے محبّت پیدا کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو پہلے ہی قرآن شریف میں کہہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے، اس کو صرف اُبھارنا اورنکالنا تمہارا کام ہے۔ حضور انور نے مربی صاحب کو ہدایت فرمائی کہ ان کے لیے دعا کرو۔ مربی کی حیثیت سے روزانہ ان کے لیے دو نفل پڑھا کرو۔اپنی نمازوں کی طرف توجہ دو۔ ان کو پتا ہو کہ اس مربی کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے، اللہ کے فضل ہیں، تو پھر وہ تمہارے سے خود تعلق رکھیں گے اور قریب آتے جائیں گے ، لیکن اگر وہ کھیل کے ذریعے سے یا ایکسٹرا دوسری activities ہیں، ان کے ذریعے سے بھی قریب آتے ہیں، تو کم از کم اس بہانے آتے تو ہیں ۔ مغرب کی نماز ہی پڑھ لیتے ہیں یا عصر کی نماز پڑھ لیتے ہیں یا دو دن تمہاری صحبت میں رہ لیتے ہیں، کچھ نہ کچھ تو اللہ رسول کی بات ان کے کان میں پڑتی ہے ۔ تو ان کو قریب لانے کے لیے دوسرا یہ ہے کہ نئے نئے راستے بھیexploreکرنے چاہئیں ، صرف یہ نہیں ہے کہ ہماری traditional جو چیزیں چل رہی ہیں، انہی کو ہم نے لینا ہے۔ حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جو ایسے لوگ ہیں ان سے پوچھو کہ اسلام یہ کہتا ہے اورتمہارے یہ عمل ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت اس طرح بنے۔ خلیفہ وقت اس بات پر بار بار تلقین کرتا رہتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس لیے آئے تھے۔ اب بتاؤ اس کو حاصل کرنے کے لیے ہم کیا طریقہ اختیار کر سکتے ہیں؟ یہ نہ کہنا کہ تم ایسے ہو جاؤ،بلکہ ہم سب اس کو عملی زندگی میں حصہ بنانے والے ہوں اور ان باتوں کو practice کرنے والے ہوں ۔ کوئی اپنی تجویزیں دو، تو وہ بھی کچھ تجویزیں دیں گے، باتیں کریں گے۔ وہ سمجھیں گے ہماری اس میں involvementہے ۔ آخر میں حضور انور نے فرمایا کہ یہ جو interaction ہے اس سے بھی بڑا فرق پڑتا ہے۔ تو ان کوباتوں میں بھی involveکرو اور ان سے مشورے بھی لو۔ یہ نہیں ہے کہ تم دین سے پرے ہٹے ہوئے ہو، اس لیے تم کوئی کام کا مشورہ نہیں دے سکتے، ان میںconfidence پیدا کرو تو وہ پھر قریب آئیں گے۔ تم لوگ پہلے ہی انہیں مولویوں والی باتیں کرکے ڈرا دیتے ہو ۔ نوجوانوں کو قریب لاؤ۔اسی طرح new converts کو بھی آہستہ آہستہ قریب لاؤ۔ ایک خادم نے سوال کیا کہ جب ہم کسی کو معاف کرتے ہیں تو اپنےدل کو مکمل طور پر کیسے صاف کر سکتے ہیں؟ اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئےفرمایا کہ اگر دل صاف نہیں ہے تو معاف ہی نہ کریں، معاف کرنے کا فائدہ کیا ہے ؟ معاف کیوں کرتے ہیں؟ مَیں نے تمہیں معاف کیا ، میری جان چھوڑو ، معاف کرنے کے بعد پھر محبت ہی بڑھانی چاہیے ۔ حضور انور نے قرآنی تعلیم اور اُسوۂ رسول صلی الله علیہ وسلم کی روشنی میں اس بات کی اہمیت کو اُجاگر فرمایا کہ قرآن شریف میں آتا ہے کہ معاف کرنا اور پھر اس کے اوپر احسان کرنا ۔ وہ احسان یہ ہے کہ پھر اس کوکوئی تحفہ دے دو، ان سے اچھے تعلق رکھو، ان کے لیے دعا کرو۔ اپنے لیے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دل کو بھی صاف کرے۔ ان کے لیے بھی دعا کرو کہ ان کے دل بھی صاف ہوں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تحفوں سے محبّت بڑھتی ہے تو تھوڑا سا تحفہ بھی ان کو دے دیا۔اس کو احساس پیدا ہو کہ ہاں! واقعی اس نے دل سے معاف کیا تھا اور جب آپ تحفہ دیں گے تو آپ کو بھی خیال ہوگا کہ ہاں! جب مَیں نے تحفہ دے دیا ہے تو اب میرے دل میں منافقت نہ ہو۔ یہ توhypocrisyہے کہ معاف بھی کر دیا، لیکن اندر دل میں کینہ اور vindictiveness (بُغض) ہو، وہ نہیں ہونی چاہیے۔ حضور انور نے اس امر کا بھی اظہار فرمایا کہ دعا بھی ہو اور ساتھ عمل بھی ہو ، پھر ہی معاف کر سکتے ہیں، معاف کرنا بہت مشکل کام ہے ۔ اس حوالے سے مزید وضاحت کرتے ہوئے حضور انور نے ایک واقعہ بیان فرمایا جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ کس طرح حضرت امام حسن رضی الله عنہ نے سورہ آل عمران کی آیت ۱۳۵ کی تفسیر کی روشنی میں ایک غلام کو معاف فرما دیا۔ حضور انور نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن شریف کی ایک آیت کی تشریح کرتے ہوئے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک ملازم تھا ، اس نے ان پرگرم پانی گرا دیا ۔ کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں، آپ کو پتا بھی ہوگا ، تو آپ نے اسے گھور کے دیکھا ۔ تو اس نے آیت پڑھی کہ اللہ میاں کہتا ہے کہ غصّے کو دباؤ۔ انہوں نے کہا اچھا غصّہ دبا لیا۔پھر اس نے کہا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ معاف بھی کرو۔ انہوں نے کہا کہ معاف بھی کر دیا۔ پھر اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو یہ بھی کہتا ہے احسان بھی کرنا چاہیے۔ اچھا کرتا ہوں، احسان کیا، تمہیں آزاد کیا ۔ حضور انور نے تصریح فرمائی کہ اس زمانے میں توslaveryتھی، جس کو کہہ سکتے ہیں کہ slavesرکھے ہوتے تھے یا وہ غلام رکھے ہوتے تھے ۔ اسلام میںslave اس طرح تو نہیں تھے ،جس طرح اِنہوں نے بنائے ہوئے ہیں، غلاموں کے بھی حق تھے، وہ غلام تھا۔ وہ ان کے کام کرنے والے نوکر تھے ۔ مؤخر الذکر مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے حضور انور نے مزید بیان کیا کہ انہوں نے کہا تم آزاد ہو، تم جو مرضی کرو، یہ احسان کیا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ دیکھو !ایک بندے نے اپنے مالک پرپانی گرا کراس کو نقصان پہنچایا ، لیکن آزادی حاصل کر لی، یہ معاف کرنے کاstandard ہے۔ ایک خادم نے دریافت کیا کہ شہید کا جسم شہادت کے بعد خراب نہ ہونا اور اس کا خون تازہ رہنا اور اس سے خوشبو آنا حقیقت سے کس طرح تعلق رکھتا ہے؟ اس کے جواب میں حضور انور نے اس مسلمہ حقیقت کی جانب توجہ دلائی کہ یہ تو لاء آف نیچر کے خلاف ہے کہ بندہ دفنایا ہو اور زمین میں چلا جائے جو نیچرل پراسس ہے، اس کی ہڈیوں، گوشت کا گل سڑ جانا یا وہ ہونا ، وہ تو ہوتا ہی ہے، ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ دو ، چار سال بعد شہید کی قبر کھودیں گے، تو وہاں اس کا تازہ جسم ہوگا ، وہ تو انبیاء کا بھی نہیں ہوتا ، تو شہیدوں کا کس طرح ہو گا؟ انبیاء کا تو اونچا مقام ہے ۔ حضورِانور نے فرمایا کہ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ اُن کا جو رتبہ ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایسا ہے کہ وہ ہمیشہ یاد رکھتے ہیں اور دوسرے جو اس کے رشتہ دار ہیں، دعا کرنے جب جاتے ہیں، تو اس کی یاد تازہ رہتی ہے اور اس کی یادوں کی وجہ سے وہ اپنے آپ میں بھی انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شہید ایک سبق دے کے جاتے ہیں کہ ہم نے دین کی خاطر قربانی کی، تو آپ لوگ بھی قربانی کرنے والے ہوں، یہ اس کا جسم، اس کی یاد اور اس کا خون تازہ ہونا ہے۔ اس کا خون آپ کو یاد دلاتا رہے کہ مَیں شہید ہوا تھا ، مَیں نے ایک مقصد کے لیے اپنا خون بہایا تھا ، اس مقصد کو تم نہ بھولنا۔ تو یہ یاد تازہ کرنا ہے ، یہ تازہ رکھنا ہے اور شہداء کی خوشبو ، ایک استعارہ ہے۔تمثیلی باتیں ہیں کہ اس طرح خوشبو پھیلتی ہے کہ ان کی نیکیاں جاری رہتی ہیں۔ حضور انور نے اس پہلو کی جانب بھی توجہ مبذول کروائی کہ ہاں! اللہ تعالیٰ کے ہاں اگلے جہان میں جا کے اللہ تعالیٰ ان کی روح کو ایک نیا جسم دیتا ہے۔ پھر ان کو جنّت میں بھیجتا ہے اور وہاں ان کے ہر طرف خوشبو ہی خوشبو ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی کہا ہے کہ ان کو مردہ نہ کہو یہ زندہ ہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یادیں ہمیشہ زندہ رکھیں اور اپنے نزدیک بھی ان کو ایک مقام دے دیا۔باقی یہ نہیں ہو سکتا کہ جو لاء آف نیچر ہے اس کے خلاف کچھ ہو جائے ۔ہاں! preserve کرتے ہیں ، بعض باکسز میں چالیس پچاس سال باڈیpreserve رہتی ہے، ہو سکتا ہے کہ باڈیز کے اندر جو پراسس ہے ، وہ تو ہوتا ہوگا ، گوشت بھی چھوڑتا ہوگا، ایک حد تک ہی ہڈیوں کے ساتھ گوشت رہتا ہے، لیکن اس میں بُو نہیں آتی یاتابوت خراب نہیں ہوتا۔ تو اس کو اسی طرح دفنایا جا سکتا ہے ، لیکن بعض دفعہ جو تابوت ٹوٹ جائے ، تو اس میں سے جس طرح مردے میں یا مرے ہوئے انسان کی smell آتی ہے ، پھراس میں سے بھی آتی ہے ۔ حضور انور نے قدیم تہذیبوں کے طریقِ کار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پرانے زمانے میں مصر میں جو ٹیکنالوجی تھی، اس زمانے کی کہ وہ mummiesبناتے تھے، وہ ان کے ساتھ کچھ کیمیکل لگاتے تھے اور preserve کر کے رکھتےتھے۔ تو اس زمانے کےجو جو فرعون تھے یا بڑے لوگ تھے، ان کو ممیز بنا کے preserve کر لیا کرتے تھے، یہاں ابھی بھی میوزیم میں ممیز رکھی ہوئی ہیں ۔ حضور انور نے فرمایا کہ کبھی دیکھو جا کے تو پتا لگے گا ، مَیں گیا تھا ،یہاںTurin میں بھی ان کا ایک میوزیم ہے۔ وہاں بھی انہوں نے ممیزرکھی ہوئی ہیں، تو وہ preserve ہیں۔ لیکن وہ preserve اسی طرح ہیں کہ چہرے سے نظر آتے ہیںباقی تو انہوں نے لپیٹا ہوا ہے، ان کے گرد کیمیکل لگا کے پتا نہیں کیا کچھ لگا کے کیا ہوا ہے، اندر سے پتانہیں کیا ہے، کیا نہیں۔ لیکن بہرحال انہوں نےpreserveکر دیا۔ اسی طرح فرعون کو اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ اب تم بچ تو نہیں سکتے، ہاں! تمہارے جسم کو مَیں محفوظ کر لوں گا اور وہ اللہ تعالیٰ نے ممی بنا کے محفوظ کر لیا ۔ اور وہ اس زمانے کے فرعون، موسیٰؑ کے زمانے کےفرعون کی ممی اب بھی باقی ہے۔ تو قرآن شریف کی یہ پیشگوئی اس طرح بھی پوری ہوئی، لیکن وہ ایک ٹیکنالوجی ہے، اس کے تحت وہ ہوا تھا۔ اب وہ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن یہ کہنا کہ صرف شہید ہو گئے تو محفوظ ہو گیا اس طرح نہیں ہوتا۔ نبی نہیں محفوظ ہوتے تو باقی کس طرح ہوں گے۔ آخر پر حضور انور نے از راہِ شفقت فرمایا کہ چلو اب تم نے تصویر کھنچوانی ہے تو کھنچوا لو۔ باقی کسی کے پاس سوال ہیں تو ان کو لکھ کے دے دینا اور پھر آپ کو لکھے ہوئے جواب پہنچ جائیں گے ۔ پھر وہاں اپنی جو میٹنگ ہوتی ہے اس میں وہ پڑھ کے سنا دیں۔ ملاقات کے اختتام پر تمام شاملینِ مجلس کو حضور انور کے ساتھ گروپ تصویر بنوانے اور بطورِ تبرک حضور انور کے دستِ مبارک سے قلم وصول کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔ روانگی سے قبل حضور انور نے نہایت شفقت سےوفد کے قیام و طعام کے انتظامات کے بارے میں بھی دریافت فرمایا نیز استفسار فرمایا کہ آیا کھانے انہیں پسند آئے، جس پر اثبات میں جواب عرض کیا گیا۔اور یوں یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ہمت کے پہاڑ، محنت کے سمندر