تُو میرِ کارواں ہی نہیں ، کارواں تھا تُو ہر مقصدِ حیات کا زندہ نشاں تھا تُو ہر لمحہ تیری زیست کا تعبیرِ زندگی اپنے ہر ایک کام میں یُوں کامراں تھا تُو ہم جانتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کی ولادت با سعادت اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے نتیجے میں ہوئی جس میں خود اللہ تعالیٰ نے آپ کی باون صفات کا ذکر فرمایا ہے۔ دراصل پیشگوئی مصلح موعود میں کسی انفرادی عظمت کے حامِل شخص کی پیدا ئش کا ذکر نہیں بلکہ اس میں ایک ایسے مذہبی رہنما کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی جسے ایک مذہبی اور رُوحانی تحریک کا رُوحِ رواں بننا تھا اور جس کی تمام قوتیں اور فطری استعدادیں اُس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے وقف ہو جانی تھیں اور جس نے اپنی ہم عصر دنیا میں ہی نہیں بلکہ بعد کی دنیا میں بھی ایک بلند اور درخشندہ نام اور وسعت پذیر کام اپنے پیچھے چھوڑنا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیئے جو رہتی دنیا تک مشعلِ راہ کا کام دیں گے۔ حضرت مصلح موعود ؓ اپنے خدا داد علم اور فہم و فراست سے بخوبی جانتے تھے کہ الٰہی کام کس طرح مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں ، نیکیوں کا تسلسل نسلاً بعد نسلٍ کس طرح قائم رکھا جا سکتا ہے اور غلبۂ اسلام کی مہم میں کس طرح تیزی پیدا کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ آپؓ نے پہلے مرکزی نظام کو مستحکم بنیادوں پر اُستوار کیا۔پھر جماعتی عمارت کی چار دیواری بناتے ہوئے جماعت میں تربیت کی غرض سے نیکی، تقویٰ اور ایثارو قربانی کی رُوح قائم کرنے کے لئے ذیلی تنظیموں کے قیام کی طرف توجہ فرمائی۔ پہلے لجنہ اماء اللہ کا قیام عمل میں آیا۔پھر نوجوانوں اور بچوں کی اصلاح کے لئے خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کی تنظیمیں قائم ہوئیں اور سب سے آخر میں 1940 میں مجلس انصاراللہ کی تنظیم قائم فرمائی جو آپ کے کارہائے نما یاں میں سے ایک عظیم الشان کارنا مہ اور ہم سب پر بلا شبہ احسانِ عظیم ہے۔اس طرح حضور نے جماعت کی چار دیواری مکمل فرما دی۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے 26؍جولائی 1940ء کو مجلس کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: ’’چالیس سال سے اوپر عمر والے جس قدرآدمی ہیں وہ انصاراللہ کے نام سے اپنی ایک انجمن بنائیں اورقادیان کے وہ تمام لوگ جو چالیس سال سے اُوپر ہیں ، اِس میں شریک ہوں ۔ اِن کے لئے یہ بھی لازمی ہوگا کہ وہ روزانہ آدھا گھنٹہ خدمت دین کے لئے وقف کریں ، اگر مناسب سمجھا گیا تو بعض لوگوں سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں تین دن یا کم وبیش اکٹھے بھی لئے جا سکتے ہیں ۔ مگر بہرحال تمام بچوں ، بوڑھوں اورنوجوانوں کا بغیرا ستثناء کے قادیان میں منظم ہوجانا لازمی ہے۔ ‘‘ حضرت مصلح موعود ؓ کے ارشادات کے مطابق انصاراللہ کی تنظیم خاص طور پر ان ا غراض کے لیے قائم کی گئی کہ وہ : 1: جماعت میں نیکی و تقویٰ پیداکرے ، دینی عقائد کو ذہن نشین کرائے ، اعمالِ خیر کی ترویج میں کوشاں ہوکر اچھی تربیت کے سامان پیداکرے۔…2: نمازوں کے قیام کی طرف خصوصی توجہ کرے۔…3: قرآن کریم کے سیکھنے اورسکھانے کا اہتمام کرے اوراحکامِ شریعت کی حکمتیں لوگوں پر واضح کرے۔… 4: اجتماعی اورانفرادی دعوت الی اﷲ بالخصوص رشتہ داروں کو دعوت الی اﷲ کرنے کی طرف متوجہ ہو۔…5: خدمت خلق کے کاموں میں حصّہ لے۔… 6: قوم کی دنیوی کمزوریوں کو دُور کر کے اسے ترقی کے میدان میں آگے بڑھائے۔… 7: جماعت میں بیداری پیداکرنے اور اسے قائم رکھنے کی کوشش کرے۔اور اس غرض کیلئے دوسری تنظیموں سے تعاون کرے تاکہ جماعتی اتحاد میں کوئی رَخنہ واقع نہ ہو۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے اس موقع پر یہ بھی فرمایا کہ: ’’ اگر کوئی شخص ایسا ہے جو چالیس سال سے اوپر کی عمر رکھتا ہے مگر وہ انصاراللہ کی مجلس میں شامل نہیں ہوا تو اس نے بھی ایک قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔‘‘ (سبیل الرشاد جلد اوّل صفحہ نمبر 26 ) چنانچہ اس تنظیم میں چالیس سال سے زائد عمر کے ہر مبائع احمدی مرد کا شامل ہونا لازمی ہے۔ انسانی زندگی میں چالیس سال کے بعد کا عرصہ بالعموم اگلے جہان کی فکر او ر اس کے لئے زادِ راہ جمع کرنے کا وقت شمار ہوتا ہے اور یہ زمانہ بجا طور پر پختگی عمر اور نئے رُوحانی سفر کے آغاز کا دَور بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس عمر میں انسان اپنے کاموں میں استحکام پیدا کر لیتا ہے۔اگر وہ کہیں ملازم ہو تو اپنی ملازمت میں ترقی کرلیتا ہے اور وہ اس قابل ہو جا تا ہے کہ اپنے سرمایہ سے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکے۔یہ توجہ مالی لحاظ سے بھی ہوتی ہے اور دینی لحاظ سے بھی ہوتی ہے۔ جسے دیکھ کر اولادوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ تاہم عمر کے اس حصہ میں طبعی طور پر انسان کی عملی قوتوں میں کمزوری واقع ہونے لگتی ہے جس کا اثر دینی جوش اور اعمال پر بھی پڑتا ہے اور بسا اوقات انسان خود کو بیکار اور عضوِ معطل خیال کرسکتا ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓ چونکہ انسانی فطرت پر گہری نظر رکھتے تھے اس لئے آپ نے اس عمر کے افراد کو ایک تنظیم میں پرو نے کا انتظام فرمایا تا کہ تنظیم میں شمولیت اراکینِ مجلس کو اس امر کا احساس دلاتی رہے کہ وہ اس عمر میں بھی کام کرنے کے اہل ہیں اور جوانوں کے جوان ہیں ۔ اور عمر میں بڑا ہونے کی بِنا پر اُن کی ذمہ داریوں میں دراصل اب کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اور یوں اِن افراد کو اپنی علمی، ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کے اظہار اور نشو ونما کے لئے حضور نے ایک نیا میدان مہیا فرمادیا۔ جس میں ایک طرف اپنی عمر کے افراد کو نیک کاموں میں شریک دیکھ کر مسابقت کی رُوح اُجا گر ہو اور کام کرنے کے لئے ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہو وہاں ایک دوسر ے کی نگرانی بھی بہتر طور پر ہم عمر افراد کر سکیں اور علمی ، اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے تنظیمی سطح پرباقاعدہ رہنمائی بھی میسر آتی رہے اور ان کی اولادیں بھی انہیں دیکھتے ہوئے نیکیوں کے میدان میں آگے سے آگے بڑھیں ۔ اِن سب امور کے ساتھ ساتھ انصار کی تنظیم کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ انصار اللہ کی ذیلی تنظیم میں کام کرنے کی وجہ سے انصار کو جو ٹریننگ حاصل ہوتی ہے اُس کے نتیجے میں وہ ضرورت پیش آنے پر جماعتی سطح پر بھی گراں قدر خدمات کی توفیق پاتے ہیں ۔ ہم بیج ہیں بویا ہوا اِک فضلِ عمر کا ہر سمت گھنا سایہ ہے اِس پاک شجر کا ہر شاخ ہے اِس پیڑ کی سر سبز و ثمر بار ہم خدمتِ دیں کے لئے ہر آن ہیں تیار انصار ہیں انصار ہیں اللہ کے انصار جماعت احمدیہ کا حقیقی مرکز خلافت ہے۔ یہ جماعت کا دل اور دماغ ہے اور جماعت احمدیہ کی تمام ذیلی تنظیمیں خلیفۂ وقت کے دست وبازو ہیں ۔ آنکھیں اور کان ہیں ۔ اُس کی روحانی فوج کے سپاہی اور سلطانِ نصیر ہیں ۔ اِن کا کام خلیفۂ وقت کی آسمانی آواز کو سننا ، پوری رُوح کے ساتھ عمل کرنا اور پوری شدت کے ساتھ اپنے ممبران سے اس کی تعمیل کرانا ہے۔ اِن تنظیموں کا ایجنڈا ایک اور صرف ایک ہے۔ اطاعت، اطاعت اور اطاعت۔ اور اِن کی حیثیت محض چٹھی رسانوں اور قاصدوں کی نہیں بلکہ اُن رگوں کی سی ہے جنہوں نے انسانی جسم کے پور پور اور بال بال تک اپنا جال بچھایا ہوتاہے۔ اِنہی رگوں اور ذیلی تنظیموں سے جماعت احمدیہ کو حیاتِ نَو ملتی ہے۔ ان میں سے سب سے بڑی اور اہم تنظیم انصار اللہ ہے جو عمر اور تجربہ کی وجہ سے دیگر افرادِ جماعت کی بھی نگران ہے۔ 1940ء میں اس کے قیام کے بعد سے تمام خلفائے احمدیت کے وجود نے اِس تنظیم کو برکت بخشی ہے اور اِسے یہ اعزاز بھی ملا کہ 3خلفاء خلافت سے پہلے یا دوران اِس کے صدر بھی رہے ہیں ۔حضرت مصلح موعودؓ نے تمام تنظیموں کے عہد میں خلافت سے وفاداری ، اِس کی اطاعت اور اِس کو قائم رکھنے کی کوششوں کو شامل فرمایا ہے اور ہر تنظیم ایک دوسرے سے بڑھ کر اُسے پورا کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ لیکن بالعموم گھر کے سربراہ ہونے کی وجہ سے انصار اللہ کی ذمہ داریاں دیگر تنظیموں سے بڑھ کر ہیں ۔ اسی لئے ان کے عہد میں اپنی اولاد کو خلافت سے وابستہ رکھنے کا عہد بھی شامل ہے۔ دیکھنے والی آنکھ یہ گواہی دے رہی ہے کہ یہ مجلس بڑے نامساعد حالات میں خلافتِ احمدیہ سے وفا داری اور اِس کی اطاعت کے نتیجے میں قدم بقدم ترقی کرتی رہی اور 75 سال پورے کرتے ہوئے آج ایک تناور درخت بن چکی ہے جس پر حُبِ رسول ؐ، اتباعِ محمدی ؐ اور عشقِ مسیحِ موعود کے پھول مہکتے ہیں ۔ جسے خلافتِ احمدیہ کی بارش نشو ونما دیتی ہے، جس پر رضائے الٰہی اور انجام بخیر کے پھل لگتے ہیں اور یہ سب بانیٔ تنظیم حضرت مصلح موعود ؓکے اِس عظیم احسان کی وجہ سے ہے۔ اس پر شمال جنوب اور مشرق و مغرب کی گواہی درج ہے۔ اس پر ہر کالے ، گورے ، سرخ اور گندمی رنگ و نسل نے اپنے کردار سے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ بے شک ہماری منزل ابھی بہت دُور ہے بلکہ حقیقت میں کوئی آخری منزل ہے ہی نہیں ۔ ابھی بہت کمزوریاں ہیں ، اور بہت کچھ کرنا اور پانا باقی ہے۔ مگر مسیح موعودؑ کے جامِ محبت کو خلافت کی مَے نے دو آتشہ کرکے انصار کو وہ مستی عطا کی ہے کہ وہ اپنا تن من دھن اس راہ میں قربان کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں ۔ حضرت مصلح موعودؓ نے انصار کی تنظیم کو اَبدی زندگی کی نوید اس طرح سنائی کہ: ’’یاد رکھو تمہارا نام انصار اللہ ہے۔ یعنی اللہ کے مدد گار۔ گو یاتمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ ازلی اورابدی ہے۔ اس لئے تم کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ابدیت کے مظہر ہو جائو۔ تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لئے قائم رکھتے چلے جائواور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاً بعد نسل ٍچلتا چلا جاوے‘‘۔ (الفضل 31؍جولائی 1945ء ) انصار اللہ نے اس نصیحت کو اپنے پلّے خوب باندھا اور خلافت کے قیام واستحکام کے لئے ہر ذریعہ اور ہرحربہ اختیار کیا۔ آئیے اس کی کچھ جھلکیاں دیکھنے کی کوشش کریں ۔ اطاعتِ خلافت کا سب سے پہلا مرحلہ تو خلیفۂ وقت کی آواز سننا اور اُسے اپنے تمام ممبران تک پہنچانا ہے۔ خلافت کا سب سے پُرزور اور جامع پیغام کا ذریعہ خطبہ جمعہ ہے۔ اس لئے مجلس انصاراللہ کوشش کرتی ہے کہ اِس کے تمام ممبران امام وقت کے خطبات سے وابستہ ہو جائیں ۔ شروع میں تو الفضل میں شائع شدہ خطبات سے مدد لی جاتی تھی ، سرکلر تیار کئے جاتے تھے۔ 1960ء میں ماہنامہ انصاراللہ کا آغاز ہوا تو اس کا ماحصل بھی خلیفۂ وقت کے ارشادات کی ترسیل تھی۔ اسی طرح دنیا کے دیگر متعدد مما لک سے شائع ہونے والے انصار اللہ کے ترجمان رسائل کا بڑا مقصد بھی یہی ہے۔ اس ضمن میں انصار اللہ نے ایک ایسا تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ہے جو بالآخر ایم ٹی اے پرمنتج ہوا۔ سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب جب صدر مجلس انصار اللہ تھے تو انہوں نے 1980ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے خطبات جمعہ آڈیو ریکارڈ کرکے جماعتوں کوبھجوانے کا سلسلہ شروع فرمایا اور یہ جدید ایجاد ات سے کام لینے کی ایک بہت منظم سکیم کا آغاز تھا۔ یہ نظام 1984ء تک ترقی کرتے کرتے اس مرحلہ تک پہنچ گیا کہ خلیفہ ٔوقت کے خطبات کاترجمہ دوسری زبانوں میں بھی ہونے لگا۔ (تاریخ انصار اللہ جلد 2صفحہ 160) حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی لنڈن ہجرت کے بعد 1984ء میں اس کیسٹ سسٹم نے جماعت کو بہت سہارا دیا اور نظام جماعت کے ساتھ ساتھ انصاراللہ نے بھی انصار ہونے کاحق ادا کیا۔ گھر گھر ہر خطبہ جمعہ اور ضروری خطابات اور مجالس سوال وجواب کی کیسٹس پہنچائی جاتی رہیں ۔ خداتعالیٰ نے 1994ء میں جب سے ایم ٹی اے کا نظام جاری فرمایا تب سے انصار اللہ اس کے لئے دل و جان سے کوشش کرتی رہتی ہے کہ اس کے تمام ممبر ز سوفیصدبراہ راست خطبہ سنیں یا پھر نشرمکرر میں سنیں ۔ حضور کا ہرنیا پیغام تمام متعلقہ قیادتوں کی طرف سے تمام انصار کو بھجوایا جاتاہے۔ اسی کو مجلس شوریٰ کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ اسی کے گرد انصار اللہ کی تمام سرگرمیاں گھومتی ہیں اور پھر تمام نتائج اکٹھے کرکے ہر ماہ حضور انور کی خدمت میں معین رپورٹ بھی پیش کی جاتی ہے۔ خلیفۂ وقت کے سلطان نصیر ہونے کے سلسلہ میں ایک اور کارنامہ بھی مجلس انصار اللہ کے سرہے۔ مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے 23ویں سالانہ اجتماع بمقام ربوہ کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے افتتاحی خطاب کا انگریزی ترجمہ سامعین تک پہنچانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ اور 18مہمانوں نے استفادہ کیا۔ اسی سال جلسہ سالانہ پر 220مردو زن کے لئے انگریزی اور انڈونیشین ترجمہ کا انتظام بھی کیاگیا۔ (الفضل 5؍نومبر 1980ء) انصار اللہ کا یہ اجتماع چودھویں صدی ہجری کا آخری اجتماع اور یہ جلسہ سالانہ 15ویں صدی ہجری کا پہلا جلسہ سالانہ تھا۔ اور خدا تعالیٰ کی تقدیر نے انصار اللہ اور اس کے سربراہ سے وہ تاریخی کا م کرایا کہ آج خلیفۂ وقت کی تقریر کا رواں ترجمہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں کئے جانے والے تراجم سے بھی زیادہ زبانوں میں ہوتاہے۔ آ ج وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ امام مہدی ایک جگہ خطاب کرے گا اور سب دنیا کے لوگ اپنی اپنی جگہ پر اپنی اپنی زبانوں میں اس کی آواز سنیں گے۔ انصاراللہ کو یہ پیشگوئی پوری کرنے میں پہلی اینٹ لگانے کی بھی خدا نے توفیق دی۔ خطبات جمعہ اور جلسہ سالانہ کے بعد انصار اللہ کے لئے صحبت امام کا ایک بہت ایمان افروز موقع سالانہ اجتماع کا ہوتا ہے۔ آغاز میں تو یہ اجتماع مرکز سلسلہ قادیان اور پھر ربوہ میں ہوتا تھا جس کے رُوح رواں خلیفۂ وقت ہوتے تھے۔ اب یہ اجتماع کئی ملکوں میں الگ الگ منعقد ہوتا ہے جو امام وقت کی راہنمائی میں تشکیل پاتا ہے۔ اس کا مرکزی نکتہ خلیفۂ وقت کا خطاب یا ان کی ہدایات ہوتی ہیں ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز یوکے اورحسبِ حالات بعض دوسرے ممالک کے اجتماعات کو رونق بخشتے ہیں ۔یہ اجتماعات تزکیۂ قلوب کے خاص مواقع فراہم کرتے ہیں ۔ جب 1981ء میں حضورؒ کے ایک ارشاد کے مطابق پہلی بار انصار کو سائیکلوں پر اجتماع میں آنے کی باضابطہ تحریک کی گئی تو 25مجالس کے 92انصار سائیکلوں پر آئے۔ سب سے طویل فاصلہ تھرپارکرکے 12انصار نے طے کیا۔ انہوں نے 800 میل کا سفر 6روز میں طے کیا۔ ان میں سب سے زیادہ بزرگ ناصر کی عمر 66سال تھی۔ (الفضل 4؍نومبر 1981ء ) اگلے سال 1982ء کے اجتماع میں 196سائیکل سوار انصار آئے اور معمّر ترین بزرگ شیخوپورہ سے آئے جن کی عمر 80سال تھی۔ (تاریخ انصاراللہ جلد3صفحہ 46) پھر خلفاء سلسلہ نے خصوصا ً انصار اللہ کو مخاطب کرکے جو ہدایات دی ہیں یا خطابات کئے ہیں ’’ سبیل الرشاد ‘‘کے نام سے اس کی 4جلدوں کی اشاعت کی توفیق مجلس انصاراللہ کو حاصل ہو چکی ہے جس سے عہدیداران اور اراکینِ مجلس سبھی استفادہ کرتے ہیں ۔ حضرت مصلح موعود ؓنے 1942ء میں مجلس کو اپنا دفترتعمیر کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ پہلے پہل محلہ دارالانوار قادیان کے گیسٹ ہاؤس میں دفتر قائم ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد حضور نے 1956ء میں مرکزی دفتر ربوہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ مالی تنگی کے اس زمانہ میں انصار نے بہت قربانی کی اور اپنے امام کے حکم کو پورا کرکے دکھایا۔ یہ دفاتر اب ملکی سطح کے علاوہ متعدد ممالک میں علاقائی ،ضلعی اور مقامی مجالس میں بھی قائم ہیں ۔ 1973ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے انصار کو گیسٹ ہاؤس کی تحریک فرمائی۔صدر مجلس نے اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے پوری رقم کے جمع ہونے کا انتظار کئے بغیر کام شروع کروا دیا۔ پھر روپیہ آتا چلا گیا اور دیکھتے دیکھتے ایک خوبصورت عمارت معرض و جود میں آگئی۔ (تاریخ انصاراللہ۔ جلد اول صفحہ 289) اور یہی نہیں بلکہ اس کے بعد سرائے ناصر نمبر 2 اور پھر سرائے ناصر نمبر 3 بھی مجلس انصاراللہ کو تعمیر کروانے کی توفیق ملی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے: ’’جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے‘‘۔ قرآن کریم جماعت احمدیہ کی زندگی اور جان ہے۔ قرآنی تعلیم کی ترویج کے لئے مجلس انصاراللہ میں قیادت تعلیم القرآن کا قیام عمل میں آیا۔ قرآن فہمی کے لئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احباب جماعت کو اپنی کتب پڑھنے کی بار بار تلقین فرمائی اور اس ضمن میں ایک امتحان کی تجویز بھی فرمائی۔آغاز ہی سے تعلیم القرآن اور کتب حضرت مسیح موعودؑ کے مطالعہ کا کام انصاراللہ کے پروگرام کا بنیادی حصہ ہے۔ انصار کو قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ سکھانے ، اس کے معارف سے آگاہ کرنے اور تلاوت کی تلقین کرنے کا عمل مسلسل جاری ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کی آڈیوز تیار کرنے کی سعادت بھی مجلس کو حاصل ہوئی جس سے اراکینِ مجلس کے علاوہ دیگر افرادِ جماعت بھی مستفید ہوتے ہیں ۔ مجلس انصار اللہ میں دینی تعلیم کا جائزہ لینے کے لئے امتحانات کاسلسلہ بھی مختلف مقامات پر مختلف طرز پر سارا سال جاری رہتاہے۔ حضرت مصلح موعود ؓنے آغاز میں ہی ہدایت دی تھی کہ انصار اپنے پروگراموں کے لئے روپیہ خود جمع کریں ۔ (خطبہ جمعہ 22؍اکتوبر 1943ء )۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انصار اللہ کا ایک مستحکم مالی نظام قائم ہے جو صرف انصار کے چندوں سے تشکیل پاتا ہے۔ مجلس انصار اللہ کا پہلا بجٹ صرف 1800 روپے تھا جو اَب ترقی کرتے کرتے صرف ایک ملک کا ہی کروڑوں میں داخل ہوچکا ہے۔ صدسالہ جوبلی کے شکرانہ کے طور پر مجلس انصار اللہ پاکستان نے تھر پارکر سندھ میں المہدی ہسپتال بنانے کی توفیق پائی۔ اسی طرح گزشتہ کچھ سالوں میں مجلس انصاراللہ برطانیہ کو افریقہ میں 10,000سے زائدمستحقین کی آنکھوں کے مفت آپریشنز کروانے کی توفیق حاصل ہو چکی ہے۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے 1970ء میں نصرت جہاں سکیم جاری فرمائی اور جماعت کے ڈاکٹر ز اور ٹیچرز کو افریقہ میں خدمت کے لئے آواز دی۔ اللہ کے فضل سے انصار نے والہانہ لبیک کہا۔ اپنی جوانیاں بھی گزاردیں اور بڑھاپا بھی تج دیا اور خلیفۃ المسیح کے مشن کو پورا کرکے دکھایا۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے احمدی انجینئرز کی تنظیم کو افریقہ کے دکھی لوگوں کی مدد کے لئے پکارا تو اِس تنظیم نے بھی خدمت کا خوب حق ادا کیا اور مسلسل قربانیاں پیش کرتے ہوئے اُن لوگوں کو سکھ پہنچانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں ۔ زلزلوں ، طوفانوں ، آسمانی آفات اور دیگر ہر ایسے موقع پر جب خلیفۃالمسیح اپنے خدام و انصار کو طلب فرمائیں ، انصار اللہ ہمیشہ لبّیک کہنے کی سعادت پاتے ہیں ۔ متعدد ممالک میں مجلس کے زیرِ انتظام چیریٹی واکس کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اِن سے حاصل شدہ رقوم سے مختلف فلاحی تنظیموں کے ذریعہ ضرورتمندوں کی مدد کی جاتی ہے۔چیریٹی واکس کے ذریعہ صرف برطانیہ میں 1999ء میں 2000 پاؤنڈ سے شروع ہونے والی آمد گزشتہ سال 2014 ء میں 3,60,000 پاؤنڈز تک پہنچ چکی ہے۔ دعوت الی اللہ انصار اللہ کی ایک بہت اہم ذمہ داری ہے۔ چنانچہ اس کے لئے مرکزی طور پر لٹریچر اور لیف لیٹس کی تیاری اور ترسیل ، مجالس سوا ل و جواب ، دورہ جات ، قرآن نمائشوں اور بُک سٹالز کا نظام قائم ہے۔ خلفائے سلسلہ کی ہدایات کی روشنی میں انصار اللہ کی صحت کے قیام کیلئے قیادت ذہانت وصحتِ جسمانی نیز قیادت صفِ دوم کے ذریعہ مسلسل جدوجہد کی جاتی ہے۔ اس مقصد کیلئے عمومی صفائی کی تحریک کے ساتھ ساتھ سیر، تفریح ، پکنک، چیریٹی واکس ،میراتھن اور مختلف سطح پرورزشی مقابلہ جات منعقد کئے جاتے ہیں ۔ الغرض وہ روحانی مائدہ جو آسمان سے اترتا ہے اور خلافت احمدیہ کے ذریعہ سارے جہان میں تقسیم ہوتا ہے۔ اس کی تقسیمِ کا رمیں انصاراللہ خلافت کی سلطانِ نصیر ہے اورہر آسمانی آواز پر، خدا کی تحریک پر لبّیک کہنے والوں میں صفِ اوّل میں شامل ہے۔ اس کے کارکنان پوری دلجمعی اور تن من دھن کی قربانی سے خلافت کا پیغام ہر فرد تک پہنچانے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ ہر ہاتھ ہے تھامے ہوئے دامانِ خلافت اپنے تو رگ و پے میں اطاعت ہی اطاعت کافی ہے ہمیں چشمِ خلیفہ کا اشارہ رہبر بھی وہی ہے وہی دلدار ہمارا ہر حال میں دربارِ خلافت کے وفادار ہم خدمتِ دین کے لئے ہر آن ہیں تیار حضرت مصلح موعودؓ کی قائم کردہ مجلس انصار اللہ کی اجتماعی کارکردگی اور تنظیمی پروگرام یقینا بے مثال ہیں ۔مگر انفرادی طور پر اس مجلس کے اراکین نے جو نیک نمونے اور دلکش اخلاق دکھائے وہ بھی نا قابلِ فراموش اور خلافتِ احمدیہ کی قوتِ قدسیہ کی روشن دلیل ہیں ۔ آئیے ذرا اس کی بھی چندجھلکیاں دیکھتے چلیں ۔ یہاں برطانیہ میں ایک دفعہ ایک نوجوان نے حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب ؓ سے کہا کہ یورپ میں فجر کی نماز اپنے وقت پر اد ا کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ نے فرمایا اگرچہ مجھے اپنی مثال پیش کرتے ہوئے سخت حجاب ہوتا ہے لیکن آپ کی تربیت کے لئے بتا تا ہوں کہ خدا کے فضل سے نصف صدی کا عرصہ یورپ میں گزارنے کے باوجود فجر تو فجر مَیں نے کبھی نمازِ تہجد بھی قضا نہیں کی۔یہی حال باقی پانچ نمازوں کا ہے۔ مکرم غلام محمد لون صاحب کاٹھ پوری کشمیر کے رہنے والے تھے۔ 1954ء سے 1994 ء میں اپنی وفات تک جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کی توفیق پائی۔ آپ کا جوان بیٹا محمد اقبال دسمبر 1988ء میں کار کے حادثہ میں وفات پاگیا۔ اُس وقت بھی آپ یہ کہتے ہوئے جلسے پر جانے کی تیاری میں لگ گئے کہ میرا بیٹا ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ، مَیں جلسہ سالانہ کی برکات کیوں چھوڑ دوں ؟ ڈاکٹر عبدالقدوس جدران صاحب کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر عبد القدیر جدران صاحب کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید کر دیا گیا تو اُنہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الرابعؒ کی خدمت میں لکھا کہ میرا بھائی اللہ کی راہ میں شہید ہوا ہے مگر مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس کے نتیجہ میں ڈرے نہیں ،کمزور نہیں پڑے۔میں آپ کو یقین دلا تا ہوں کہ میرے دل میں شہادت کا جذبہ پہلے سے کئی گنا بڑھ گیا ہے،اِنہوں نے میرا ایک بھائی شہید کیا ہے مگر میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میری ساری اولاد بھی اس راہ میں شہید ہوتی چلی جائے تو مجھے اس کا دُکھ نہیں ہو گا۔ خدا نے اُن کی یہ آرزو سُن لی اور اُنہیں بھی جلد ہی شہادت کا رُتبہ عطا فرمایا اور یہ خط حضور کی خدمت میں پہنچنے سے پہلے ہی وہ شہید ہو چکے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز فرماتے ہیں : ’’پس ہر ایک کو ہم میں سے اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ کا نعرہ لگانے سے پہلے غور بھی کیا ہے کہ یہ کتنا گہرا اور وسیع نعرہ ہے؟ کیا کیا قربانیاں دینی پڑیں گی اس کے لئے ؟ اور قربانیاں ہیں کیا ؟ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کوئی جنگ ،توپ،گولہ نہیں ہے، کسی گولے کے آگے کھڑا ہونا نہیں ہے،کسی توپ کے منہ کے سامنے کھڑے ہونا نہیں ہے ،تیروں کی بوچھاڑ کے آگے کھڑے ہونا نہیں ہے۔ صحابہ کرام ،جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ تھے اُن کی طرح گردنیں کٹوانا نہیں ہے۔ ہاں یہ قربانیاں بھی اللہ تعالیٰ کبھی کبھار اِکّا دُکّا لے لیتا ہے۔ نمونے قائم رکھنے کے لئے اس طرح کرتا ہے۔ لیکن قربانی جو اِس زمانے میں کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں ، اپنے معاشرہ کے حقوق ادا کرنے ہیں ، اپنے مالوں کی قربانیاں دینی ہیں ۔ پس انصار اللہ کا فرض بنتا ہے اور مَیں بار بار کہتا ہوں کہ اپنی عبادتوں کو زندہ کریں ، اپنے لئے ،اپنی اولادوں کے لئے، اپنے معاشرہ کے لئے ، دکھی انسانیت کے لئے، غلبۂ اسلام کے لئے ایک تڑپ سے دعا مانگیں ۔ آخرت کی فکر اپنے دلوں میں پیدا کریں ۔ جب آخرت کی فکر زیادہ ہو گی تو معاشرہ کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ زیادہ ہوگی۔ قرآن کریم کے پڑھنے، پڑھانے کی طرف بھی توجہ کریں ۔ اس بارہ میں انصار اللہ نے پروگرام بھی بنالیا ہے اور میرا خطبہ بھی سن لیا ہے۔ قربانی کرتے ہوئے ہرایک کا حق ادا کریں ،اُس کا حق اُس کو دینے کی کوشش کریں ۔ … دوسروں کی برائیوں پر نظر رکھنے کی بجائے اپنی برائیوں کو دیکھیں تو پھر اصلاح بھی ہو گی اور اصلاح کی طرف توجہ بھی پیدا ہوگی۔ پھر مالی قربانیوں کی طرف توجہ کریں ، اپنے عَہدوں کو پورا کریں ۔ آپ نے عہد کیا ہے کہ احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت کے لئے قربانی کرتا رہوں گا، یہ جو ابھی عہد دہرایا ہے۔پس اس بارہ میں سوچیں ، غور کریں کہ کہاں تک اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہاں تک اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کیا ہے‘‘۔ (سبیل الرشاد۔ جلد چہارم صفحہ53-52) ذرا غور فرمائیے۔یہ عہد صرف اپنی ذات کی حد تک نہیں بلکہ اس بات کا اقرار بھی اس میں شامل ہے کہ اپنی اولادوں کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا۔ ایک بہت بڑی ذمّہ داری ہے جو ہم انصار پر عائد ہوتی ہے۔ ہم نے اپنا 75 سالہ دَور تو کامیابی سے گزار لیا لیکن فکر آئندہ آنے والے دَور کی ہونی چاہیے۔اور اُس کی کامیابیاں تبھی ممکن ہیں جب خلافت سے وابستہ رہتے ہوئے خود بھی اور اپنی اولادوں کو بھی اِس پر قائم رکھتے ہوئے ہم اُسی طرح اپنی جان ، مال، وقت اور عزت کی قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں جس طرح گزشتہ 75 سالہ دَور میں ہمارے آباؤ اجداد نے اِن عہدوں کو نبھایا اور قربانیوں کے عظیم الشان نمونے پیش فرمائے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی کماحقّہٗ توفیق عطا فرمائے اور ملّت کے فدائی بانیٔ مجلس انصاراللہ حضرت مصلح موعود ؓ کے اس عظیم احسان کو یاد رکھتے ہوئے اُن کے لئے رحمتِ خداوندی کی دعا کرتے ہوئے ہم میں سے ہر ایک کے دل سے یہ صدا بلند ہو کہ لگے قدغن ، کٹے گردن ، کہ زندانوں میں گزرے عمر رُکیں گے ہم ، نہ ہاریں گے کہ ہم انصار ہیں تیرے مِرے مُرشد ، مِرے دلبر تُو جاں مانگے وفا مانگے حواری ہم پکاریں گے کہ ہم انصار ہیں تیرے ( انشاء اللہ العزیز) ………………………… (ڈاکٹر محمد احمد اشرف صاحب نے یہ تقریر سالانہ اجتماع انصار اللہ یوکے 2015ء کے موقع پر کی۔)