https://youtu.be/387C4RbXWqw منظر نامہ جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۵ء جلسہ سالانہ جرمنی سے چند دن قبل جلسہ گاہ پہنچا تو دیوانے ویرانے کو چمن میں بدل چکے تھے۔ سارے خیمے لگ چکے تھے۔ تیاریاں مکمل تھیں، کچھ تیاری باقی تھی ۔کہیں موتی پرونے کا خیال تھا تو کہیں لالے کی حنا بندی کا ،کہیں چاندی بچھانے کا خیال تھا تو کہیں چار چاند لگانے کا۔ اپنے شعبے میں گیا تو یہاں بھی تیاریاں مکمل تھیں۔ دل نے پنجابی میں خود سے ہی سرگوشی کی کہ ’’اسی تے ایویں ای لگےودے آں‘‘۔وائنڈ اپ پر بھی کوئی خاص خدمت انجام دینے کی توفیق نہ مل سکی اور جلسہ کے کاموں میں میرا عمل دخل’’ لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا‘‘ جتنا تھا۔ یہ دیوانوں کی بلند ہمتی ہے کہ چند دنوں میں ایسی چمن کاری و مصوری دکھاتے ہیں کہ مانی و بہزاد بھی دیکھتے تو حیران رہ جاتے۔ جمعہ کے وقت سب کچھ تیار تھا۔ مقامی طور پر جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد حضور انور کا خطبہ جمعہ ایم ٹی اے کے ذریعے براہ راست سنا گیا۔ حضور انور نے جلسہ سالانہ جرمنی کا ذکر کرتے ہوئے شاملین جلسہ کو دعا کرنے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج سے جرمنی کا جلسہ شروع ہو رہا ہے دعا کریں کہ آپ کو جلسہ کے مقاصد پورا کرنے کی توفیق ملے۔آمین سب تقاریر نہایت عمدہ اور علم و عرفان کی ایزادی کا باعث تھیں۔ مگر نیشنل امیر صاحب جماعت احمدیہ جرمنی کی تقریر جو فلسطین کی تاریخ اور دنیا کے موجودہ حالات پر مشتمل تھی، تاریخی اور علمی تقریر ہونے کے ساتھ ساتھ سخت تکلیف دہ حقیقت کی طرح بھی تھی۔ دل کو سخت تکلیف پہنچی کہ خلفائے احمدیت کی آواز حق کو نظر انداز کرکے مسلمانوں نے کتنا نقصان اٹھایا اور اب بھی سخت تکلیف اور اذیت سے گزر رہے ہیں۔ ساتھ یہ خیال بھی گزرا کہ تب بھی احمدی ہی مسئلہ فلسطین کو دنیا میں اجاگر کر رہے تھے اور اب بھی احمدی ہی ہیں جو مسلمانوں کی حالت پر بےقرار اور مضطرب ہیں اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں اور دنیا کے سیاست دانوں کے ضمیر کو جگا رہے ہیں۔ اے کاش! سب مسلمان اس آواز میں اپنی آواز ملائیں کہ یہ آسمانی آواز ہے۔ تم بھی اے کاش کبھی دیکھتے سنتے اس کو آسماں کی ہے زباں یار طرح دار کے پاس میرے لیے اس جلسہ کی خصوصیت اس جلسہ کی رات کا منظر نامہ تھا یعنی ’’ شب شبستان ‘‘ کا ذکر۔اس مقصد کے لیے الفضل انٹر نیشنل کے سوشل میڈیا کے ایڈیٹر مکرم جواد احمدقمر صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ یو کے سے تشریف لائے تھے۔ میں بھی ان کی ٹیم میں بطور نمائندہ الفضل جرمنی شامل تھا۔ شب بیداری تو مسئلہ نہیں تھا ؛فکریہ تھی کہ مجھےرواں تبصرہ کا تجربہ نہیں تھا۔اس معاملے میں نا بلد اور نا آشنا تھا۔ جواد احمدقمر صاحب کی رفاقت سے تسلی تھی کہ وہ اس کام کا تجربہ رکھتے ہیں لیکن پھر بھی دل یہی چاہ رہا تھا کہ یہ پیا لہ سر سے ٹل جائے۔؎ اے رات آ بھی جا کہ رہا ہوں طیورِ شب اس ٹیم نے اس عمدگی سے یہ کام انجام دیا کہ مجھے اُن کا خادم ہونے پر فخر ہوا۔ جلسہ گاہ سے کافی دُور جا کر ڈرون پائلٹ مکرم طہٰ شکیل صاحب نے ڈرون اڑایا جو دو تین سیکنڈ میں نظروں سے اوجھل ہو گیا پھر تصاویر بھیجنے لگا۔ رات کو جلسہ کے مقامات جھلمل کرتے جگمگاتے ستاروں کی طرح نظر آ رہے تھے یعنی زمین آسمان نظر آ رہی تھی اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آسمانی وجود یہاں خیمہ زن تھے۔ ؎ جب جگمگا رہا تھا برق تجلی سے طور شب https://www.youtube.com/watch?v=1JgQ-yXLWQU یہ ایک ناقابلِ بیان تجربہ ہے۔ اس منظر کی تصویرکشی الفاظ میں ممکن نہیں۔ بہتر ہو گا کہ آپ اس ویڈیو کو ہی دیکھیں۔ مکرم شہزاد احمد شیخ صاحب جن کی عمر ۱۸؍سال ہے وہ ریکارڈنگ میں مصروف تھے۔ فضائی منظر بندی کے بعد مختلف شعبہ جات میں پہنچے جہاں آدھی رات کو کارکنان جوش وجذبہ سے دل چراغاں کیے ڈیوٹی پر مستعد تھے۔جواد احمدقمر صاحب نے ان سے ہلکی پھلکی گفتگو بھی کی اور ان کے جذبے کو سراہاجس پر کارکنان کاجوش و خروش مزید بڑھ گیا۔رات کو لنگر کا منظر دیکھ کر مجھے اس بزرگ کی مثال یاد آگئی جو لڈو کو کھانے سے قبل ہاتھ میں لیے دیر تک سوچ میں رہے۔ پوچھنے پر کہا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیسے کیسے ادوار سے گزر کر یہ ایسا لذیذ بنا اور ہم ایک دو لقموں میں نگل جاتے ہیں۔ جلسہ کے موقع پر چوبیس گھنٹے اور شب و روز کی سخت محنت کے بعد ایسا لذیذ کھانا میز پر آتا ہے اور اکثریت کو علم ہی نہیں کہ کتنے لوگوں کی محنت اور قربانی کے بعد یہ کھانا تیار ہوتا ہے۔ صرف پیاز ، لہسن ، ادرک اور آلو چھیلنا ہی مشکل کام ہےاور پھر گرمی میں چولہے پر کھڑے ہو کر پکانا کارے دارد ہے۔ یہاں ایک دیوانے امتیاز راجیکی مرحوم کا ایک فقرہ یاد آگیا کہ’’ لنگر کی آگ میں جھلسنے کا مزہ ہی ایسا ہےجو ایک بار اسے چکھ لیتا ہے وہ کہیں اور جانے کا نام نہیں لیتا۔‘‘ ایک طرف کھانا پکانے والے آگ میں جھلس رہے تھے تو دیگوں کی صفائی کرنے والے سر سےپائوں تک پانی میں شرابور تھے۔گووہ برساتی لباس میں ملبوس تھے لیکن جس طرح وہ بھیگے ہوئے تھے نمی تو جلد تک بھی پہنچتی ہو گی۔اللہ ان شیروں کو سلامت رکھے اور خدمت قبول فرمائے۔آمین مختلف شعبوں اور جلسہ کے علاقے کی گشت کرتے پتا بھی نہ چلا اور رات کے پچھلے پہر صلّ علٰی کی دلکش اور دلربا آواز کانوں میں رس گھولنے لگی۔ صلّ علٰی کی ٹیم مکرم مولانا محمود ملہی صاحب کی سرکردگی میں نماز تہجد کی ادائیگی کے لیے لوگوں کو اٹھا رہی تھی۔ ان کی ٹیم کے ایک فرد نے بتایا کہ وہ جب خیمہ جات کے علاقے سے صلّ علٰیکرتے گزرے تو ایک بزرگ خاتون نے کہا کہ میں تو اس آواز کے انتظار میں جاگ رہی تھی۔ اس خاتون کے کان بھی شاید ربوہ کے پرانے باسیوں کی طرح اس روح پرور درود کے جاں افزا کلمات سننے کو ترس رہے تھے۔اللّٰھم صلّ علی محمد اب صبح ہو چکی تھی اور جلسہ کا آخری روز آپہنچا جس کا انتظار بھی تھا اور ساتھ دل کو یہ دھڑکا بھی لگا تھا کہ آج جلسہ ختم ہو جائے گا۔ ’’ پر دل کو پہنچے غم ،جب یاد آئے وقت رخصت ‘‘ عشاقان خلافت اس درد اور تکلیف سے بےقرار تھے کہ وہ جان بہار ہمارے درمیان نہیں لیکن خطبہ جمعہ ،لجنہ سے خطاب کے بعد جب وہ جان آرزو اختتامی تقریب کے وقت سکرین پر جلوہ افروز ہواتو گلستان آرزو کھل اٹھا،دوری کا احساس کم ہوا اور گلشن و میکدہ اور نشہ وجلوہ گل یک موج خیال میں باہم ہو گئے اور کاسۂ دل دیدار سے بھر گیا۔ اللہ اللہ! جہان محبت کا، دوریوں میں ہیں قربتیں کیسی۔ اس روح پرور خطاب کی تفصیل الفضل انٹر نیشنل میں بھی شائع ہو چکی ہے۔ بہت سے مقامی جرمن سیاستدان بھی اس بابرکت تقریب میں شامل تھے۔ حضور انور کی آمد پر وہ بھی بے اختیار کھڑے ہو گئے اور غیر مسلم جرمن خواتین نے احترامًا سرپر سکارف اوڑھ لیے ،بقول غالب ’’کعبہ و بت کدہ ایک ہی محمل میں تھے‘‘ دعا کے بعد ترانے پیش کیے گئے اور پھر دیوانوں نے جی بھر کے فلک بوس نعرہ ہائے تکبیر بلند کیے۔ ٭…٭…٭