https://youtu.be/Om1pCqMzXcI (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۱؍ستمبر۲۰۱۸ء) جارجیا سے اڑتیس افراد پر مشتمل وفد جرمنی کے جلسہ میں شامل ہوا۔ دو پادری صاحبان تھے۔ دو مفتی صاحبان تھے۔ شیعہ و سنی لیڈر تھے اور دیگر تیس غیر احمدی افراد تھے۔ اس وفد میں ایک غیر احمدی مسجد کے امام جمبول(Jambul) صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں جارجیا کی مسجد کا امام ہوں اور میں احمدیہ جماعت کی دعوت پر جرمنی آیا ہوں ۔ میں نے اسلام کے بارے میں بہت سی نئی باتیں سیکھی ہیں جو میں پہلے نہیں جانتا تھا۔ اور پھر میرے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کا ایک جملہ مجھے یاد رہے گا کہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم انسانیت کی مدد کریں ۔ اسلام کا مذہب صرف اور صرف امن کا مذہب ہے۔ یہاں آکر ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم معلوم ہوئی۔ اور ایک اور خاتون ہیں لیکو(Lako) صاحبہ۔ وہ کہتی ہیں جلسہ کے انتظامات کی وجہ سے ہر کارکن کا میں شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں ۔ پھر ایک اور ہیں ارما(Irma) صاحبہ یہ کہتی ہیں کہ آج عورتوں کے پروگرام میں شامل ہوئی ہوں اور مجھے حیرت تھی کہ عورتیں تمام پروگرام کیسے Manage کریں گی۔ یہ بہت حیران کُن تھا کہ سیکیورٹی چَیک بھی عورتیں خود کر رہی تھیں اور مجھے یہ سب کچھ بہت اچھا لگا۔ میں آپ کی شکرگزار ہوں ۔ اور پھر یہ کہتی ہیں مَیں نے عورتوں کا پروگرام بھی آج دیکھا اور یہ بڑی حیرت کی بات تھی کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ خلیفہ وقت اپنے ہاتھوں سے تعلیمی ایوارڈ عورتوں کو بھی دے رہے تھے۔ پھر جارجیا سے ایک اور صاحب بیان کرتے ہیں یہ بھی مسلمان ہیں کہ ایک مسلمان تنظیم کا چیئرمین ہوں ۔ اس جلسہ میں شمولیت ہمارے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ میں نے یہاں پر روحانیت اور بھائی چارے کا مشاہدہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت اچھا موقع تھا کہ ہم یہاں آئے اور مستفیض ہوئے۔ ایک اور دوست تھے محمد اکبر صاحب۔ یہ کہتے ہیں کہ بچپن سے سن رہے ہیں کہ کوئی مہدی آئے گا جو دنیا کو تبدیل کرے گا اور ہم اسی کے انتظار میں رہے۔ اب پہلی مرتبہ میں سن رہا ہوں کہ وہ مہدی جس کے ہم منتظر تھے وہ گزر بھی گیا اور اب اس کے خلفاء کا سلسلہ جاری ہے۔ مَیں اب جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ کروں گا اور مجھے امید ہے کہ مجھے اطمینان حاصل ہو گا۔ پھر بشپ صاحب ہیں وہ یہاں بھی آئے تھے انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اس جلسہ کو دیکھ کر بڑے متاثر ہوئے۔ وہی نیلے لباس میں جو بشپ صاحب تھے۔ ہنگری سے ایک پروٹسٹنٹ چرچ کے پادری جلسے پہ آئے تھے۔ یہ مذہبی کاموں کے علاوہ فلاحی کاموں میں بھی بڑے متحرک ہیں ۔ یہ کہتے ہیں کہ میں تو عیسائی ہوں مگر آپ کے جلسہ پر جا کر مجھے ایمانی تازگی ملتی ہے اور میں تازہ دم ہوکر لوٹتا ہوں ۔ یہ چارجنگ (Charging) سارا سال کے کام میں میری مددگار ہوتی ہے۔ پہلے بھی آ چکے ہیں ۔ کہتے ہیں چارج ہو کر جاتا ہوں پھر سارا سال میرے کاموں میں مددگار ہوتی ہے۔ مربی صاحب کہتے ہیں موصوف کی وجہ سے نہ صرف ان کے گاؤں بلکہ ان کے تمام حلقہ احباب میں واقفیت ہوئی ہے اور جماعت کا پیغام پہنچانے کے ان کے ذریعہ سے بھی نئے رستے وہاں کھل رہے ہیں ۔ ہنگری سے ایک صاحب وارگا(Varga) صاحب ریفیوجی کیمپ کے دفترمیں کام کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جلسہ ایسا موقع ہے جیسا کہ انسان کسی عظیم الشان چیز کو دیکھے تو حیرانگی کے ساتھ ساتھ اندر سے کپکپی بھی طاری ہو جاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جب آپ لوگ نعرے لگاتے تھے تو ایسالگتا تھا کہ ابھی امام حکم دے گا اور آپ لبیک کہتے ہوئے کچھ کر گزریں گے جیسا کہ حکم کے منتظر بیٹھے ہیں ۔ شروع شروع میں تو مجھے بڑا خوف محسوس ہوا۔ ہنگری میں ایسا مجمع تو دُور کی بات سو لوگ بھی ہوں توایک گھنٹے میں ہی کوئی لڑائی ہو جاتی ہے لیکن ہزاروں افراد کا ایسا پُرامن مجمع میں نے آ ج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ہنگری سے ایک ریفیوجی کیمپ کے مالی امور کی نگرانی کرنے والی ایلونہ(Illona) صاحبہ ہیں ۔ کہتی ہیں کہ انہوں نے جلسہ کے انتظامات وغیرہ دیکھنے کے بعد سوال کیا کہ جلسہ کا اتنا زیادہ خرچ کس طرح چلایا جاتا ہے؟ ان کو جماعتی خدمت اور چندوں کے نظام کا بتایا گیا۔ اس بات پہ بڑی حیران ہوئیں۔ پھر کہتی ہیں کہ جلسہ ایک ایسی تقریب ہے جو انسان کو اندر سے دھو کر ہلکا پھلکا بنا دیتا ہے۔ اب یہ احمدی نہیں ، مسلمان نہیں ، کہہ رہی ہیں کہ اس تقریب میں شامل ہو کر لگتا ہے انسان اندر سے دھل گیا اور بڑا ہلکا پھلکا ہو گیا۔ جیسے شروع میں بچے کو نہانے سے خوف آتا ہے مگر وہ اس کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے ایسا ہی حال انسان کا جلسہ دیکھ کر ہوتا ہے۔ تو یہ میں نے کہا ناں کہ جلسہ غیروں پر بھی بڑا اثر ڈال رہا ہوتا ہے۔ ہنگری کے وفد میں یمن سے تعلق رکھنے والی ایک میڈیکل ڈاکٹر وفا صاحبہ ہیں ۔ جلسہ میں شامل ہوئیں تو یہ بڑی پرجوش تھیں ۔ دوسرے دن لجنہ سے جو خطاب تھا انہوں نے خواتین کی مارکی میں سنا۔ اس کے بعد مہمانوں سے جو میرا خطاب تھا وہ مردانہ ہال میں آ کر سنا تو کہنے لگی کہ میں لجنہ مارکی میں ہی خوش تھی مجھے واپس لجنہ کی طرف چھوڑنے کا انتظام کر دیں۔ جامعہ کے وزٹ کے دوران بڑے شوق سے لائبریری دیکھی، بنیادی اسلامی کتب دیکھیں ۔ باہر آ کر کہنے لگی کہ ہر آیت برموقع اور برمحل ہے اور ساتھ ہی جامعہ کی عمارت پر تحریر آیت کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ دیکھیں کیسے بالکل صحیح جگہ پر لکھی ہوئی ہے۔ وہ آیت ہے ۔وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا۔ پھر مقدونیہ کا وفد کا ہے۔ جرمنی کے جلسہ میں مقدونیہ کے تراسی (83) افراد نے شرکت کی اور پچاس افراد ایک بس کے ذریعہ دو ہزار کلو میٹر کا سفر چونتیس گھنٹوں میں طے کر کے آئے جبکہ دیگر افراد دوسرے ذرائع استعمال کر کے شامل ہوئے۔ ان شامل ہونے والوں میں اکیس (21) احمدی تھے۔ انتیس (29) غیراحمدی مسلمان تھے۔ چودہ (14) عیسائی تھے۔ ان مہمانوں میں ایک بڑے شہر کے میئر بھی تھے۔ چار ٹی وی چینل کے چھ صحافی بھی شامل ہوئے۔ جلسہ کے تینوں دن جلسہ کے مناظر کی ریکارڈنگ کی۔ مختلف مہمانوں کے انٹرویو لئے اور انہوں نے کہا ہے اپنے اپنے ٹیلی ویژن کے لئے وہ ڈاکیومنٹری تیار کریں گے۔ جلسہ میں تین مسلمان پروفیسر بھی شامل ہوئے جو آپس میں دوست ہیں ۔ ان میں سے ایک پروفیسر جو آئی ٹی کے پروفیسر ہیں جن کا نام جلادینی(Djeladini) صاحب ہے کہتے ہیں مَیں جلسہ سالانہ کی انتظامیہ اور مقدونیہ میں احمدی افراد کا ممنون ہوں جن کی دعوت پر میں جلسہ میں شامل ہوا۔ اس جگہ پر صحیح اسلامی تعلیمات کا ظہور ہو رہا تھا۔ اگرچہ اس سے قبل میں نے جماعت احمدیہ اور ان کے خلفاء کے بارے میں پڑھ اور سن رکھا تھا اور بہت سی باتیں جماعت کے خلاف سنی تھیں لیکن یہاں آ کر ان سب کا جواب مل گیا۔ میں نے جماعت کے خلیفہ کو دیکھا۔ ان کی باتیں سنیں ۔ ان سے بہت علم حاصل کیا۔ جو باتیں جماعت کے خلیفہ نے بیان کیں ان سے بہت زیادہ متاثر ہوں ۔ پھر کہتے ہیں کہ خلیفہ کی باتیں سن کر میرا پختہ ایمان ہے کہ تمام دنیا کے افراد اس پیغام اور راستے کو اختیار کر لیں گے جو اللہ جل شانہٗ کی طرف سے شروع ہوا ہے۔ میری طرف سے آپ کو سلام اور امن ملے۔ لتھوینیا سے پچاس افراد پر مشتمل وفد شامل ہوا۔ ان میں چالیس غیر از جماعت دوست تھے اور دس احمدی احباب تھے۔ ایک صاحبہ کہتی ہیں کہ جلسہ کے دوران ایسا محسوس ہوا جیسے میں جماعت کا ہی حصہ ہوں ۔ یہ جلسہ ہمیں برابری، محبت اور دوسروں کی خدمت کرنے کا سبق دیتا ہے جس کا عملی مظاہرہ اس جلسہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔