(تقریر: حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمودہ 2جون 1929ء برموقع جلسہ سیرۃالنبیؐ بمقام قادیان) توحید کے قیام کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پہلی چیز جو توحید کے قیام کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمائی، وہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کے متعلق دنیا نے اب بھی نہیں سمجھا کہ اس کا توحید سے کیا تعلق ہے وہ نکتہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے علم پاکر اعلان کیا کہ ساری دنیا میں نبی آتے رہے ہیں۔ بظاہر اس امر کا توحید سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا مگر حقیقت یہ ہے کہ بغیر اس امر کو تسلیم کرنے کے توحید ثابت ہی نہیں ہوسکتی۔ بغیر یہ ماننے کے کہ مصر، ایران، ہندوستان، چین، جاپان، یورپ، امریکہ میں خدا نے نبی پیدا کئے، توحید کامل نہیں ہوسکتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر اس پر بڑا زور دیا ہے۔ چنانچہ قرآن میں آتا ہے اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ (فاطر:25) کہ کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں خدا کا کوئی نبی نہ آیا ہو۔ پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا (النحل:37) کہ ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجا اس کے ساتھ ہی توحید کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ہم نے رسول اس لئے بھیجے کہ وہ لوگوں کو سکھائیں اللہ کی عبادت کرو اور غیراللہ سے بچو۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں یہ نظریہ پیش کیا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ہم میں ہی صداقت آئی، باقی ساری دنیاکو خدا نے چھوڑے رکھا تھا۔ حق یہ ہے کہ کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں نبی اور رسول نہ آئے ہوں۔ اب مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کس طرح اس بات کا توحید سے تعلق ہے۔ جب کوئی قوم یہ خیال رکھے کہ ہمارے اندر ہی خدا نے نبی یا اوتار بھیجے، دوسری اقوام میں نہیں بھیجے تو اس سے یہ بھی خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا خاص خدا ہے جو دوسروں کا خدا نہیں ا ور یہ خیال جب ہر ایک قوم میں پیدا ہوجائے گا تو دنیا میں قومی خداؤں کا احساس پایا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے متعلق یہ وسیع نظریہ کہ ایک ہی خدا سب کا خالق ہے پیدا نہ ہوگا۔ ہر قوم یہ محدود خیال رکھے گی کہ ایک ایسا خدا ہے جو ہماری قوم کا خدا ہے، باقیوں کو اس نے چھوڑ رکھا ہے۔ اس طرح خدا تعالیٰ کے متعلق محدود خیال پیدا ہوتا ہے۔ حالانکہ جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر قوم میں مصلح آئے۔ ہندوؤں میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے دوسروں کی بھلائی اور بہتری کی خاطر اپنے آپ پر مصائب کے پہاڑ گرالئے، تکالیف کے بھنور میں پڑ کر ڈوبتی ہوئی دنیا کو ترالیا۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی ایسے انسان پیدا ہوئے جن کی زندگیاں خلق خدا کی خدمت کے لئے وقف تھیں۔ دنیا کی اور اقوام میں بھی یہی بات نظر آتی ہے کہ جب جب ان کی دینی اور روحانی حالت خراب ہوئی خدا کی طرف سے ان میں ایسے انسان پیدا کئے گئے جنہوں نے ان کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ پس جب سب اقوام میں ایک ہی قسم کے فساد کے وقت ایک ہی قسم کا علاج کیا گیا تو کیوں نہ مانا جائے کہ ایک ہستی کی طرف سے یہ سارے انسان بھیجے گئے تھے اور جب یہ خیال کیا جائے تو کسی انسان کے ذہن میں قومی خدا کا تصوّر نہیں پیدا ہوتا بلکہ ربّ العالمین کا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ یہ سمجھنا کہ خدا کا ہماری قوم کے ساتھ ہی تعلق رہا ہے کسی اَور کے ساتھ نہیں رہا۔ ہم میں جب خرابی پیدا ہوئی اس وقت اس نے اپنا کوئی پیارا بھیج دیا۔ مگر کسی اَور قوم میں نہ بھیجا اس سے ایک قومی خدا کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف اقوام اپنا اپنا خدا الگ سمجھتی اور کہتی ہیں ہمارا خدا ایسا ہے اور فلاں قوم کا خدا ایسا۔ حتیٰ کہ یہاں تک بھی لکھ دیا گیا کہ ہمارے خدا نے فلاں قوم کے خدا پر فتح پائی۔ گویا اپنے جیتنے کو انہوں نے اپنے خدا کا دوسروں کے خدا پر جیتنا قرار دیا۔ اس کی وجہ یہی ہے انہوں نے سمجھا نہیں کہ ہر قوم میں مصلح آتے رہے ہیں اور ہر قوم کی ہدایت کے سامان خدا تعالیٰ کرتا رہا ہے۔ اس بات کے نہ سمجھنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی توحید کے خلاف سخت جھگڑا کرتے رہے ہیں۔ لیکن اگر یہ سمجھ لیں کہ ہر قوم میں نبی اور مصلح آتے رہے ہیں تو ان میں یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ سب کا ایک ہی خدا ہے گو اس کے نام مختلف رکھ لئے گئے ہیں۔ اب تو ناموں کی وجہ سے بھی الگ الگ خدا سمجھے جاتے ہیں۔ بچپن کا ایک واقعہ ابھی تک مجھے یاد ہے۔ ایک لڑکے نے مجھ سے باتیں کرتے کرتے کہا ہندوؤں کا خدا کیسا خدا ہے۔ مَیں نے کہا جو ہمارا خدا ہے وہی ان کا خدا ہے۔ کہنے لگا یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ ان کا خدا تو پرمیشور ہے۔ مَیں نے کہا خدا تو وہی ہے، ہندوؤں نے نام اَور رکھا ہوا ہے۔ یہ سن کر وہ بڑا حیران ہوا۔ دراصل بات وہی ہے جو مثنوی والے نے لکھی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے چار فقیر تھے جو مانگتے پھرتے تھے۔ کسی نے انہیں ایک سکّہ دے کر کہا جاؤ جو چیز کھانے کو جی چاہے جاکر خریدلو۔ ایک نے کہا ہم انگور لیں گے۔ دوسرے نے کہا انگور نہیں عِنَب لیں گے۔ تیسرے نے کہا داکھ لیں گے۔ چوتھے نے ترکی زبان کا ایک لفظ استعمال کیا کہ وہ لیں گے۔ اس پر ان کا جھگڑا ہوگیا۔ ہر ایک کہنے لگا جو چیز مَیں کہتا ہوں وہ خریدو۔ وہ جھگڑ ہی رہے تھے کہ ایک شخص پاس سے گزرا۔ اس نے پوچھا کیوں لڑتے ہو؟ ہر ایک نے اپنا قصہ سنایا۔ وہ چاروں زبانیں جانتا تھا، بات سمجھ گیا۔ اس نے کہا آؤ مَیں سب کو اس کی پسند کی چیز خرید دیتا ہوں۔ اس نے جاکر انگور خرید دیئے اور انہیں دیکھ کر سب خوش ہوگئے۔ اسی طرح قوموں نے ایک ہی خدا کے نام تو اپنی اپنی زبان میں رکھے تھے۔ لیکن حالت یہ ہوگئی کہ مختلف ناموں سے مختلف خدا سمجھے جانے لگے اور ہر قوم نے اپنا خدا علیحدہ قرار دے لیا اور یہ سمجھ لیا کہ خدا نے ہمارے لئے فلاں نبی یا رِشی بھیجا اور باقی سب لوگوں کو چھوڑ دیا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب کے لئے خدا نے نبی بھیجے۔ ان کے مختلف نام رکھ ھنے سے ان میں فرق نہیں پڑ سکتا۔ وہ سب سچے اور خدا کے پیارے تھے۔ غرض اس مسئلہ کو دنیا میں قائم کرکے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کو مضبوط بنیاد پر قائم کردیا۔ دوسرا مسئلہ جس کا تعلق لوگوں نے مسئلہ توحید سے نہیں سمجھا لیکن وہ بھی نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے وہ عالمگیر مذہب پیش کرنا ہے۔ جب مختلف مذاہب کے لوگوں میں خرابیاں پیدا ہوگئیں اور وہ اپنے اپنے مذہب کی اصل تعلیم کو چھوڑ چلے تو ان میں سے ہر ایک نے یہ خیال کرلیا کہ ہماری قوم ہی ہدایت پاسکتی ہے اور کوئی قوم اس نعمت سے مستفیض نہیں ہوسکتی۔ جب سب قومیں اپنی اپنی جگہ یہ سمجھی بیٹھی تھیں اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا کہ ساری دنیا کے لئے ہدایت پانے کا رستہ خدا تعالیٰ نے کھلا رکھا ہے۔ چنانچہ اپنے مشن کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے علم پاکر آپؐ نے علان فرمایا کہ یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّیْ رسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا (الاعراف:159) یہ نہیں کہ ہدایت کا دروازہ صرف عربوں کے لئے کھلا ہے باقی اقوام کے لئے نہیں۔ مجھے خدا نے رسول بناکر ساری دنیا کے لئے بھیجا ہے اور سب اقوام ہدایت پاسکتی ہیں۔ اب غور کرو جب یہ خیال پیدا کیا جائے گا کہ سب کے لئے ہدایت کا دروازہ کھلا ہے تو سب کے دلوں میں خداتعالیٰ کی توحید کا عقیدہ جاگزیں ہوجائے گا۔ لیکن اگر یہ خیال پیدا کیا جائے کہ صرف عربوں کے لئے ہدایت کا دروازہ کھلا ہے، ہندوستانیوں کے لئے یا ایرانیوں کے لئے یا چینیوں کے لئے نہیں تو پھر یہ خیال پیدا ہوگا کہ ان کا خدا کوئی اَور ہے وہ خدا نہیں جو عربوں کا ہے۔ پس عالمگیر مذہب پیش کرنے سے توحید کا بہت بڑا خیال پیدا ہوجاتا ہے اور یہ خیال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر پیدا کیا ہے۔ آپؐ نے اعلان فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے ساری دنیا کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ کسی قوم کا انسان ہو، وہ میرے ذریعہ ہدایت پاسکتا ہے، روحانی مدارج طے کرسکتا ہے اور خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے۔ اس طرح آپ نے قومی خدا کا خیال مٹادیا اور اس کی بجائے عالمگیر خدا پیش کیا جس سے اصل توحید قائم ہوئی۔ چنانچہ آپ کی بعثت کے بعد تمام دنیا کے ادیان میں پھر توحید کی طرف رغبت پیدا ہوگئی اور پیدا ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ تو مذہبی نقطۂ نگاہ تھا ان دو اصول کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے مسئلہ کو مضبوط کیا۔ یوں کہنے سے کہ خدا ایک ہے، لوگ نہ مان سکتے تھے جب تک ان کے دماغ میں ایسے احساسات نہ پیدا کئے جاتے کہ خداتعالیٰ سب کا ہے اور سب کے لئے اس کی رحمت کا دروازہ کھلا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی احساس پیدا کئے یہ تو مذہبی نقطۂ نگاہ تھا۔ ایک دنیوی نقطۂ نگاہ سے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ کو پیش فرمایا ہے۔ اور وہ اس طرح کے کمپیریٹو ریلیجن (Comparative Religion) (یہ ایک نیا علم نکلا ہے کہ سب مذاہب کے اصول کو جمع کردیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ مذاہب میں کتنی باتیں مشترک ہیں۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ سب مذاہب میں خدا کا خیال مشترک ہے) والوں نے یہ خیال پیش کیا ہے کہ مذہب میں بھی اسی طرح ارتقاء ہوتا چلا آیا ہے جس طرح دنیا میں۔ وہ کہتے ہیں ہر چیز میں آہستہ آہستہ ترقی ہوتی ہے۔ مذہب نے بھی آہستہ آہستہ ترقی کی ہے۔ جسے وہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پہلے انسان خدا کو نہ مانتے تھے بلکہ عناصر کی پرستش کرتے تھے اور عناصر کو خدا کا ظلّ قرار دیتے تھے۔ جب انسانوں نے ترقی کی تو عناصر کی بجائے ارواح کو خدا کا ظلّ ماننے لگے اور اس طرح ترقی کرتے کرتے ایک خدا کے خیال پر قائم ہوئے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے اپنے آپ کو نہیں منوایا بلکہ دنیا نے آہستہ آہستہ خدا کا کھوج نکال لیا۔ یہ ان میں سے ان لوگوں کا قول ہے جو خداتعالیٰ کی ہستی کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں جس طرح مٹی کا تیل انسانوں نے کوشش کرتے کرتے نکال لیا، وہ خودبخود نہ نکلا تھا۔ اسی طرح خدا تو موجود تھا مگر کسی کو معلوم نہ تھا۔ آخر ترقی کرتے کرتے اس کا پتہ لگالیا گیا، وہ خود ظاہر نہ ہوا۔ لیکن جو خدا تعالیٰ کے قائل ہی نہیں وہ کہتے ہیں خدا کوئی نہیں۔ دنیا نے اپنی عقل سے ایک نقشہ تجویز کرلیا ہے جسے خدا کہا جاتا ہے۔ اس خیال کے لوگ یہ نہیں مانتے کہ کسی انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوسکتا ہے۔ ان کے نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے متعلق عظیم الشان تغیّر پیدا کیا ہے۔ کیونکہ ارتقاء کے مسئلہ کے رُو سے ماننا پڑتا ہے کہ دنیا نے آہستہ آہستہ ترقی کی لیکن توحید کے متعلق ساری ترقی آپ کے زمانہ میں مکمل ہوچکی تھی۔ آپ نے توحید کی جو تشریح فرمائی اس کے بعد کوئی نئی تشریح آپ کے زمانہ میں یا آپ کے بعد نہیں نکلی۔ اس لئے ماننا پڑے گا کہ خیال انسانی ا رتقاء آپ کی ذات میں آکر مکمل ہوا اور دنیا کے لئے آپ ہی مقصد اعظم تھے۔ جب آپ مبعوث ہوگئے تو پھر توحید مکمل ہوگئی اور آپ نے توحید کی وہ تشریح پیش کردی کہ اس کے بعد کسی اَور تشریح کی ضرورت نہ رہی۔ میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے رِشی، مُنی اور رسول گزرے، انہوں نے توحید کو ناقص طور پر پیش کیا۔ کیونکہ توحید کو ناقص رنگ میں پیش کرنے والا نبی ہی نہیں ہوسکتا۔ جو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی ہوکر آیا، اس نے مکمل توحید پیش کی۔ مگر اپنے زمانہ کے لحاظ سے مکمل پیش کی۔ اگر مسئلہ ارتقاء کو تسلیم کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت توحید کا نقطۂ کمال کو پہنچ گیا اور ہمیشہ کے لئے مکمل ہوگیا۔ (باقی آئندہ) ٭…٭…٭