(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود؈ او رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات، گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ) جلسہ سالانہ قادیان2015ء میں عربوں کی شرکت(1) قادیان دارالامان،خوابوں کی بستی،’ کرموں والی اُچّی بستی‘ کی زیارت کا شرف کسی غیر معمولی نعمت سے کم نہیں ہے۔یہ بستی جو نبی ٔپاکؐ کے خادمِ صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا مسکن ہے، جس کی گلیوں اور درودیوار میں ایک ایسی کشش اور ایسی مسحور کردینے والی خوشبوہے جو ہر زائر کے لئے وجہِ راحتِ جاں بن کر اس کے شعور اور فہم وادراک کو معطر کردیتی ہے۔ دنیا داری کے آگ برساتے صحراؤں میں ننگے پاؤں بھٹکنے والا انسان جیسے ہی اس بستیٔ نور میں قدم رکھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے جیسے وہ کسی نخلستان میں آگیا ہوجہاں چاروں طرف سکون،طمانیت، محبت، اور ممتا بھری آسودگی کے جھکتے بادلوں سے ایک معطر پھوار ہمہ وقت دل ودماغ اور روح کے عمیق ترین حصوں کو شاداب کرتی جاتی ہے۔اس بستی میں قدم قدم پر انسان رک کر سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ان گلیوں میں مسیح الزمان پتہ نہیں کہاں رکتے ہوں گے، کس دیوار یا پتھر پر نظر مبارک پڑی ہوگی، کس جگہ بیٹھے ہوں گے، کونسی چیزکو دیکھ کر مسکرائے ہوں گے، آسمان اور بادلوں نے کیا کیا نظارہ دیکھا ہوگا۔الغرض انسان وہاں پر دن رات انہی مشک بُو خیالوں میں گم رہتا ہے۔ اس بستی میں کچھ ایسا سحر ہے، کچھ ایسی مقناطیسی جاذبیت ہے کہ جو اخلاص ِنیت سے وہاں جانے والے کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے اورپھر اسے عالم روحانی کی ایسی لذات سے آشناکراتی ہے کہ وہاں سے واپسی پروہ اپنا دل وہیں چھوڑ آتا ہے۔شاید یہی حالت قادیان جانے والے ہر احمدی کی ہوتی ہے، یہی حالت وہاں جانے والے عربوں کی بھی تھی اور یہی حالت اس عاجز کی ہے۔عربوں کے حوالے سے جلسہ سالانہ قادیان2015ء کے روحانی سفر کی کسی قدر روداد قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ لائیو عربی پروگرام امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے زیر ہدایت گزشتہ تین سال سے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر وہاں سے لائیو عربی پروگرام پیش کیا جاتاہے جو اَب ایک مستقل حیثیت اختیار کرگیاہے۔گزشتہ سالوں میں پیش کئے جانے والے پروگرامز کا ایک خاص مزاج سامنے آیا ہے کہ سیرت کے کسی پہلوپر کچھ علمی مواد کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ، اخلاق حسنہ اور شمائل حمیدہ کے واقعات بیان کئے جاتے ہیں جس سے جلسہ کے ماحول میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک و مطہر شخصیت اپنی روحانی تاثیرات کے ساتھ جلوہ گر ہوتی نظر آتی ہے اور دلوں میں گھر کرتی جاتی ہے۔ ہر سال کی طرح اس بار بھی پروگرام کی مناسب تشہیر کے لئے ایک پرومو (promo) بنایا گیاجسے فیس بُک (Facebook) اور سوشل میڈیا کے بعض دیگر پروگرامز کے ذریعہ لاکھوں لوگوں تک پہنچایا گیا۔ پروگرام کا موضوع ’خلق اللہ سے ہمدردی‘ تھا۔ اس موضوع کے بارہ میں قرآن وحدیث کی تاکید کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے اقتباسات اور آپؑ کی سیرت کے واقعات بیان کئے گئے۔جسے قادیان میں موجود عرب احباب کے علاوہ دنیا بھرکے عرب احمدیوں اور غیر احمدیوں نے دیکھا اور بہت سراہا۔ علاوہ ازیں اس پروگرام کے دوران دنیا بھر میں جماعت کے انسانی ہمدردی کے کاموں کی تفصیل پر مشتمل بعض ڈاکومینٹریز بھی پیش کی گئیں۔ نیز حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی اجازت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اُس بکس(box) کی تصاویر پر مبنی ویڈیو بھی پیش کی گئی جس میں حضورؑ دوائیں رکھتے تھے اورہمدردیٔ خلق کے جذبہ کے تحت غرباء کا علاج فرمایا کرتے تھے۔ پروگرام کے شرکاء میں مکرم محمد شریف عودہ صاحب، مکرم ڈاکٹر حاتم الشافعی صاحب ، مکرم تمیم ابو دقہ صاحب اور خاکسار(محمد طاہر ندیم) شامل تھے۔ علاوہ ازیں مکرم محمد شریف عودہ صاحب نے قادیان کی پہلی دفعہ زیارت کرنے والے عرب نو مبائعین کے ساتھ ان کے احمدیت کی طرف سفر کی کہانی پر مشتمل پروگرامز بھی قادیان کے مختلف مقامات پر ریکارڈ کئے جو کسی وقت ایم ٹی اے العربیہ پر پیش کئے جائیں گے۔ امن ورحمت کا احساس گزشتہ سال سے شرکائے پروگرام کا یہ طریق رہا ہے کہ ہر روز رات کو پروگرام ختم ہونے کے بعد اپنی قیامگاہ کی طرف جانے کی بجائے سیدھا بہشتی مقبرہ جاتے ہیں۔ اس وقت سنّاٹے اور دودھیا روشنیوں میں وہاں پرایک عجیب پُرکیف ماحول ہوتا ہے اور جو خدا تعالیٰ نے اپنے مسیح کو بہشتی مقبرہ کے بارہ میں فرمایا تھا کہ اُنْزِلَ فِیْہَا کُلُّ رَحْمَۃٍ۔ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس میں اتاری گئی ہے، ایسا ہی کچھ احساس وہاں جا کر ہوتا ہے۔ عرب احباب کی حاضری امسال بفضلہ تعالیٰ آٹھ عرب ممالک اور لندن سے ٹوٹل 27 عرب احباب نے جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کی۔اسکی تفصیل یوں ہے: (متحدہ عرب امارات 1، اردن 5، مصر 2، کبابیروفلسطین10 (3بچے)، سعودیہ1، شام4، مراکش1 ، عراق2، لندن1)۔ 2005ء کے بعد جلسہ سالانہ قادیان پرحاضر ہونے والے عربوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد تھی۔اس تعداد کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ پہلی بار آٹھ عرب ممالک سے نمائندگی ہوئی، نیزجلسہ سالانہ قادیان کے موقعہ پرپہلی بار چار عرب ممالک کے امراء یا صدران جماعت بھی حاضر تھے اور مَردوں کے علاوہ عورتوں کی بھی معقول نمائندگی تھی۔اسی طرح سعودی عرب،مراکش اور عراق سے شاید اس عہد میں پہلی بار کوئی عرب جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہوا تھا۔ جلسہ سالانہ کے ماحول میں عربی لباس میں ملبوس یہ قافلہ جب مختلف علاقوں سے آئے ہوئے مختلف رنگوں کے لباس پہنے ہوئے محبّان کے درمیان چلتا تو عشاق کے قافلے میں ایک دلفریب اور جاذب نظر رنگ کا اضافہ کرتا۔چلتے پھرتے ان سے ملنے والے اور تصاویر اتروانے والے احباب شاید ان تصاویر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی ایک دلیل کے طورپراپنے پاس رکھنے کے خواہشمند تھے۔ کیونکہ جن کی آمد کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو جماعت بنانے سے قبل خبر دی تھی اس وعدہ کا پورا ہونا آج وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ عرب احباب کی زیارتیں جلسہ سالانہ پر آنے والے عربوں کی اکثریت کو پہلی بار قادیان آنے کا موقع ملا تھا۔اس لئے مقامات مقدّسہ کی زیارت کے دوران ان کے جذبات غیر معمولی تھے۔وہ مقامات جن کا ذکر انہوں نے سنا، یا کتابوں میں پڑھا تھا وہ اب ان کے سامنے تھے اور ان مقامات پر پیش آنے والے مختلف واقعات بھی ذہنوں میں تازہ ہو رہے تھے۔ خاکسار کو متعدد بار ان عرب احباب کے ساتھ مختلف مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے جانے کی توفیق ملی۔ علاوہ ازیں عربوں کے دو گروپس کے ساتھ دو بار ہوشیار پور اور لدھیانہ میں موجودمقاماتِ مقدسہ کی زیارت کے لئے جانے کا بھی موقع ملا۔ان مقامات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدم مبارک پڑے تھے ،یہاں آپ نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ قیام فرمایا تھا، یہاں آپ نے اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھ کرعلم وعرفان کی مجالس لگائی تھیں ، یہاں پر آپ نے سجدے کئے تھے اور بے شمار دعائیں کی تھیں۔یہی وہ مقامات ہیں جہاں بیٹھ کر آپ نے تجدید اسلام کا عظیم الشان کام کیا تھا۔ ان مقدس مقامات کی زیارت کے دوران جب ان کے بارہ میں تاریخی حوالے سے کچھ بتایا جاتایا ان مقامات سے جڑے بعض واقعات کا تذکرہ کیا جاتا تو اکثر عرب احباب وخواتین کی حالت جذباتی ہو جاتی تھی۔بعض کی تو آنکھوں سے اشکوں کی برسات شروع ہو جاتی اور عشق ومحبت کی سراپا تصویر بنے ان میں سے بعض کہتے کہ کاش ہم بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ہوتے تویہاں آتے اورحضو رعلیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرتے۔بعض بیعت کے بعد گزارے ہوئے عرصہ کے بارہ میں حسرت سے کہتے کہ ہم نے یہاں آنے میں بہت دیر کردی۔بعض کی ان مقامات پرایسی روحانی تسکین ہوئی کہ انہو ں نے عزم کیا کہ نہ صرف ہم ہر سال آنے کی کوشش کریں گے بلکہ دوسروں کو بھی یہاں آنے کی افادیت کے بارہ میں بتائیں گے۔ دارالمسیح کی زیات کے بارہ میں جذبات ایک فلسطینی بہن نے مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کے بارہ میں لکھا کہ جب میں دار المسیح میں داخل ہوئی تواپنی قسمت پر ناز تھا اورفرط مسرت سے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں مسیح الزمانؑ کے مقدس گھر میں داخل ہورہی ہوں۔ مَیں نے بھی انہی جذبات کے ساتھ آپ کے گھر کی زیارت کی جن کے ساتھ حضرت خلیفہ اولؓ نے کی تھی، لیکن وہ تو پھر کبھی وہاں سے نہیں نکلے۔ کاش میں حضرت خلیفہ اولؓ کی آپ علیہ السلام سے محبت کا عشر عشیر بھی حاصل کرسکتی۔میں نے وہ مقامات دیکھے جہاں حضور علیہ السلام عبادتیں اور ریاضتیں کیا کرتے تھے۔ چشم تصور میں مَیں نے وہ جگہ بھی دیکھی جہاں آپ اپنے حصہ کا معمولی کھانا بھی یتیم بچوں میں تقسیم فرمادیا کرتے تھے۔ کاش میں بھی انہی بچوں میں شامل ہوتی اور آپ کے بابرکت کھانے سے کچھ حاصل کر سکتی۔ بیت الدعا دیکھا اور وفور جذبات سے دل سے آواز اٹھی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور عاشق: جِسْمِیْ یَطِیْرُ اِلَیْکَ مِنْ شَوْقٍ عَلاَ یَالَیْتَ کَانَتْ قُوَّۃُ الطَّیْرَانٖ اردن کے ایک دوست نے لکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر اور آپ کی عبادتگاہوں کی زیارت کے دوران ایک بار جب مکرم حمید کوثر صاحب نے کہا کہ یہ وہ مقامات ہیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہامات ہوئے، یہیں بشارات ملیں اور یہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی جس کے بارہ میں آپ نے اپنے عربی قصیدہ میں لکھا ہے کہ: وَاللّٰہِ إِنِّیْ قَدْ رَأَیْتُ جَمَالَہٗ بِعُیُوْنِ جِسْمِیْ قَاعِدًا بِمَکَانِیْ (یعنی بخدا! میں نے آپ کے جمال کو اپنی جسمانی آنکھوں سے اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔) اس پر مکرم کوثر صاحب کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور باقی حاضرین کی آنکھیں بھی نمناک ہو گئیں۔ اسی طرح ایک اور بہن نے لکھا کہ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کی زیارت کر کے یہ حسرت اور خواہش بھی جوش مارنے لگی ہے کہ کاش حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر بھی محفوظ ہوتااور مجھے آپؐ کے گھر کی بھی زیارت نصیب ہوتی۔ دارالبیعت کے بارہ میں جذبات لدھیانہ میں دارالبیعت کی زیارت کے وقت کئی عرب احباب اس مقام پر بیٹھ گئے جہاں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 40صحابہ کرام سے باری باری بیعت لی تھی۔ بعض نے اس جگہ پر بیٹھ کر شرائط بیعت کا مطالعہ کیا اور ایک نئے جوش کے ساتھ ان پر عمل کرنے کا عہد کیا۔ ایک بہن نے وہاں رکھی ہوئی وزیٹر بک میں لکھا کہ کاش میں بھی ان 40بیعت کرنے والوں میں ہوتی اوراس مقام پر حضو رعلیہ السلام کی بیعت کرنے کا شرف حاصل کرتی۔ جب عرب احباب وہاں گئے تو اس وقت کچھ انڈونیشین، افریقی اور شاید بعض رشین ممالک کے احباب جماعت بھی وہاں تشریف لائے ہوئے تھے۔ شاید ان سب کو دیکھ کر ہی بعض عرب احباب نے وزیٹر بک میں لکھا کہ آج مسیح الزمان علیہ السلام کا الہام یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍ عَمِیْقٍ کس شان سے پورا ہورہاہے۔ چنانچہ آج دور دراز کے ممالک کے باسی لمبے سفروں کے بعد ان تنگ اور خستہ حال گلیوں سے گزرنے کے بعد یہاں پہنچے ہیں۔ ایک اور فلسطینی بہن نے لکھا: میں اسی جگہ بیٹھی ہوں جہاں حضور علیہ السلام نے بیٹھ کر بیعت لی تھی۔اس موقعہ پر مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ السلام کی مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کے بارہ میں وصیت یاد آگئی کہ برف پر سے گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے تو جا کر اس کی بیعت کرنا،اور میں نے کہا: اے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق! میں اس وصیت پر عمل کرتے ہوئے آپ کی بیعت کرتی ہوں۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ اس زمانہ کے مسیح ہیں اور آپ کی برکت سے ہم پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ومرتبہ واضح ہوا اور آپؐ کی محبت ہمارے دلوں میں راسخ ہو گئی۔ میں نے یہاں اپنے بچوں کیلئے بھی بہت دعا کی ہے کہ وہ بھی یہاں آئیں اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کی توفیق پائیں۔ آمین۔ اس روحانی سفر کے باقی واقعات اگلی قسط میں ملاحظہ ہوں۔ ……………… (باقی آئندہ)