ارشادِنبوی ﷺ: حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘‘سچائی نیکی کی طرف اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور جو انسان ہمیشہ سچ بولے اللہ کے نزدیک وہ صدیق لکھا جاتا ہے۔’’( مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب قبح الكذب وحسن الصدق وفضله) دوسروں پر عیب نہ لگاؤ: حضرت مسیح پاک علیہ السلام عیب جوئی کے حوالے سے فرماتے ہیں: ‘‘دوسروں پر عیب نہ لگاؤ کیونکہ بعض اوقات انسان دوسرے پر عیب لگا کر خود اس میں گرفتار ہو جاتا ہے۔’’(ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۶۶ و ۶۷، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) قرآن ہمارا ہتھیار ہے: حضرت مصلح موعودؓ ۱۹۵۳ء کی مخالفت کے ذکر میں ایک ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ‘‘گورنمنٹ کی طرف سے ایک افسر ربوہ آیا تا اسلحہ کا کوئی ذخیرہ تلاش کر سکے۔ ربوہ قیام کے دوران اس نے ایک نوجوان کے متعلق سوچا کہ یہ بیوقوف سا ہے، تعلیم بھی نہیں ہے یہ مجھے اسلحہ خانہ کے متعلق بتا دے گا۔ جب اس نے اس نوجوان سے ربوہ میں موجود اسلحہ خانہ کے بارے میں پوچھا تو وہ نوجوان اُسے ایک مسجد میں لے گیا جہاں درس القرآن ہو رہا تھا اور کہا کہ یہ ہماری لڑائی کی تیاری ہے۔’’ آپؓ نے مزید فرمایا: یہ نوجوان بظاہر بیوقوف لگتا تھا مگر ہے بہت ذہین اور عقلمند۔ کیونکہ قرآن ہی ہمارا ہتھیار ہے۔ (ماخوذ از انوارلعلوم جلد۲۶صفحہ۱۹) ریوڑیاں اور کونین: حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ایک دفعہ میں ایک جگہ گیا اس وقت میں چھوٹا بچہ تھا اور مدرسہ میں پڑھتا تھا۔ وہاں میں نے بورڈنگ میں دیکھا کہ ایک لڑکا ریوڑیاں کھا رہا تھا اور ایسی طرز پر کھا رہا تھا کہ اس کی حالت قابل ہنسی تھی۔ یعنی ریوڑیوں کو اس نے چھپایا ہوا تھا جیسے ڈرتا ہے کہ اور کوئی نہ دیکھ لے۔ مجھے ہنسی آگئی اور میں نے پوچھا یہ کیا کرتے ہو؟ کہنے لگا سنا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ریوڑیاں پسند ہیں اس سنت کو پورا کرتا ہوں۔ میں نے کہا آپ تو کونین بھی کھاتے ہیں وہ بھی کھاؤ۔ تو جہاں انسان اپنے آپ کو بچانا چاہتا ہے وہاں ہمیشہ ایسی باتوں کو لے لیتا ہے جو اس کے حق میں مفید ہوں اور دوسری باتوں کو چھوڑ دیتا ہے۔(تقدیرالہٰی، انوار العلوم جلد چہارم صفحہ ۴۷۷) حسنِ عقیدت: حضرت قاضی امیر حسین صاحبؓ جو علمِ حدیث کے ماہر، حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت سے فیض یافتہ اور ابتدائی علماء میں سے تھے ان کا ایک لطیفہ حضرت مصلح موعودؓ بیان کیا کرتے تھے: حضرت مولانا صاحب کے نزدیک جب کوئی مجلس لگی ہوئی ہو اور باہر سے کوئی بھی آجائے تو اس کے استقبال کے لئے کھڑے ہونا نا مناسب ہے۔ حضور فرماتے تھے کہ اس کے باوجود میں جب بھی ان کی مجلس میں آتا تو وہ کھڑے ہو جاتے تھے اور پھر پوچھنے پر کہا کرتے تھے کہ ‘‘کی کراں رہیا نئیں جاندا’’ (کیا کروں رہا نہیں جاتا)۔(سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحہ ۴۳۶) بیماری سے شفا کے لیے: حضرت حافظ نور محمد صاحبؓ آف فیض اللہ چک کا بیان ہے کہ وہ بیمار ہو گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی بیماری کا حال بیان کیا۔ رات کو جب آپ سوئے تو خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ‘‘ آپ توجہ کے ساتھ لاحول ولا قوة إلا باللّٰه العلي العظيم کا وظیفہ کریں۔ اللہ جلد شفا دے گا۔ ’’ چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں روزانہ لاحول پڑھنا شروع کر دیا۔ ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیماری جاتی رہی۔(حیات قدسی جلد چہارم صفحہ ۳۰) حضرت مسیح پاکؑ کا اعجازی نشان: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان فرماتے ہیں: ‘‘ایک دفعہ شیخ حامد علی صاحب جو ابتدا ہی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کی خدمت اقدس میں رہے تھے میری ان سے بڑی محبت تھی، بعض بعض وقت وہ میرے پاس حضور کی ابتدائی باتوں کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ شیخ صاحب فرمانے لگے کہ ایک دفعہ حضور نے ایک ضروری کام کے لئے مجھے افریقہ یا امریکہ، ان دونوں میں سے شیخ صاحب نے کسی کانام لیا جو مجھے اس وقت یا دنہیں ہے، بھیجا۔ جب میں جہاز میں سوا ر ہوا تو وہ جہاز آگے چل کرخطرہ میں ہوگیا۔ یہاں تک کہ لوگ چیخ وپکار کرنے لگ گئے۔حتی کہ میرا دل بھی فکر مند ہوگیا۔ تب فوراً میرے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ میں اللہ تعالیٰ کے فرستادہ کا بھیجا ہوں اور اس کے کام کے واسطے جارہاہوں۔پس یہ جہاز کس طرح ڈوب سکتا ہے۔چنانچہ میں نے بلند آواز سے پکارا۔ کہ اے لوگو! گھبراؤ مت۔ یہ جہاز ہر گز نہیں ڈوبے گا کیونکہ میں ایک نبی کا فرستادہ ہوں اور میں اس جہاز میں سوار ہوں اس واسطے یہ جہاز ہر گز نہیں ڈوبے گا۔چنانچہ میں نے اُن کو بہت تسلی دی اور یہ آگے چلے گئے چنانچہ جہاز اس جگہ پہنچ گیا۔جس جگہ میں نے اترنا تھا۔ اس پر میں اس جگہ اتر گیا اور جس طرف جانا تھا چلا گیا اور وہ جہاز اس جگہ سے آگے نکل گیا اور آگے جاکر غرق ہوگیا۔ جب اس جہاز کے ڈوبنے کی خبر آئی تو میرے گھر والوں نے بھی سنا کہ فلاں جہاز فلاں تاریخ کو غرق ہوگیا تو میرے گھر کے لوگ روتے پیٹتے حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچے اور رو رو کر کہنے لگے کہ فلاں جہاز جس پر حافظ حامد علی صاحب سوار تھے ڈوب گیا ہے۔ حضرت صاحب نے اس کے حال پکار کو سن کر فرمایا۔ہاں میں نے بھی سنا ہے کہ فلاں جہاز فلاں تاریخ کو ڈوب گیا ہے اور اس میں حافظ صاحب بھی تھے۔ اور پھر خاموش ہوگئے اور کچھ جواب نہ دیا۔چند منٹ کے بعد بلند آواز سے فرمایا ‘‘صبر کرو حافظ حامد علی صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں جس کام کے واسطے بھیجے گئے تھے کر رہے ہیں!’’ اور سب کو تسلی دی اور گھر کو روانہ کر دیا۔’’(سیرت المہدی روایت نمبر ۱۵۵۵) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: تنویرِ افکار اور تقویٰ قلب