https://youtu.be/BKSx8bQ_Al4 میں وہ نور ہوں اور وہ مجدّد ہوں کہ جو خدا تعالیٰ کے حکم سے آیا ہے اور بندہ مدد یافتہ ہوں اور وہ مہدی ہوں جس کا آنا مقرر ہو چکا ہے اور وہ مسیح ہوں جس کے آنے کا وعدہ تھا۔(حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام) جیسے ہی ماہ محرم سے اسلامی کیلنڈرکا آغاز ہوتا ہے،بالعموم مذہبی گفتگو کا ایک اہم موضوع واقعات کربلا اور اہل تشیع فرقہ کے عقائد و نظریات بن جاتا ہے۔شیعہ فرقہ کے اصول دین میں سے ایک اہم رکن ’’امامت پر ایمان‘‘ بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب اِسی سال ماہ فروری میں اسماعیلی فرقہ کے روحانی پیشوا کی وفات ہوئی،تو دنیا بھر کی توجہ بھر پور طریق پر،نئے امام کے نام کے اعلان کی طرف تھی۔ جبکہ اہل تشیع میں سب سے اہم فرقہ ’’اثناعشریہ‘‘ جن کا امام مہدی کے متعلق عقیدہ یہ ہے کہ ان کے بارھویں امام حضرت محمد علیہ السلام جو حضرت حسن عسکری علیہ السلام (متوفی ۲۶۰ھ) گیارھویں امام کے صاحبزادے تھے اور نو سال کی عمر میں دشمنوں کے خوف سے عراق کے علاقہ سامرہ کے شہر ’’سُرَّ مَنْ رَأَی‘‘ کے غار میں غائب ہوگئے ساڑھے گیارہ سو سال سے ابھی تک زندہ ہیں وہی امام مہدی بن کر آئیں گے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی آپ کے زمانہ میں اُتریں گے اور آپ کی قیادت میں اسلام کی خدمت کریں گے۔ (تحفۃ العوام مع توثیقات علمائے کرام صفحہ۴ مطبوعہ لاہور) شیعہ نقطہ نظر کا پس منظر دراصل اہل بیت اور غیراہل بیت کے مابین خلافت اور امامت کانزاع ہے جس نے خلافت بنی امیہ کے زمانہ میں زور پکڑا۔ عباسی دور میں یہ اختلاف اَور بڑھا۔ جب گیارھویں شیعہ امام حضرت امام حسن عسکری کو حکومت کے خلاف سازش کے الزام میں گرفتار کیا اور زہر دلوا کر شہید کر دیا گیا۔(بحارالانوار اُردو ترجمہ سید حسن امداد صاحب جلد۹ صفحہ۳۳۰تا ۳۳۱۔مطبوعہ محفوظ بُک ایجنسی کراچی،بار چہارم ۲۰۰۶ء) حضرت امام حسن عسکری فرماتے تھے کہ میرا ایک بیٹا ہوگا جو زمین کو عدل سے بھر دے گا۔ (بحارالانوار اُردو جلد۹ صفحہ۲۴۴ مطبوعہ کراچی)چنانچہ جب آپ کے ہاں امام محمد پیدا ہوئے تو ان کے بارے میں حضرت امام حسن عسکری نے اپنے خاص مریدوں مثلاً علامہ ابوسہل نوبختی وغیرہ کے سامنے یہ توقع ظاہر کی کہ آپ کا یہ بیٹا مہدی ہوگا۔(بحارالانوار جلد١٣ فارسی صفحہ ٧۴٠ باب ٢٣ مطبوعہ تہران) حکومتِ وقت کی عداوت کے پیش نظر امام حسن عسکری کی زندگی میں ہی اس بچے کی حفاظت کی خاطر انہیں روپوش کردیا گیا۔ البتہ والد کی وفات پر وہ ان کا جنازہ پڑھانے کے لیے ظاہر ہو کر پھر روپوش ہو گئے۔ چنانچہ عباسی خلیفہ معتمد نے امام محمد کی تلاش کا حکم دیا اور دو سال تک ان کے والد کی میراث کی تقسیم کو بھی ملتوی رکھا مگر ان کا کوئی پتہ نہ مل سکا۔ (بحارالانوار اُردو جلد۹ صفحہ۳۳۴ تا ۳۳۷ مطبوعہ کراچی) لیکن امام موصوف سے شیعہ ارباب اختیار کارابطہ رہا۔ روپوشی کے اس زمانہ کو جو چالیس سے ستر سال بیان کیا جاتا ہے غیبوبت صغریٰ سے موسوم کیا جاتا ہے جس میں ان کے مریدان خاص ان سے ملاقات کر کے تحریری احکامات حاصل کرتے رہے۔(اکمال الدین صفحہ۴١٨۔۴١٩مطبوعہ نجف) امام غائب کی وفات یہ سلسلہ ۳۲۹ھ میں اختتام کو پہنچا جب امام صاحب کا یہ رابطہ بھی مریدوں سے منقطع ہو گیا جسے بعض شیعہ علماء موت کا نام دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک مشہور شیعہ فاضل علامہ ابوسہل نوبختی اور آپ کے ہم مسلک بعض لوگوں کاعقیدہ ہے کہ غیبوبت صغریٰ میں بارھویں امام، حضرت امام حسن عسکری کے صاحبزادے وفات پا چکے ہیں۔(فہرست ابن الندیم اُردو صفحہ ۴۲۸۔ مقالہ پنجم۔زیر عنوان ابوسہل نوبختی مطبوعہ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور۔سنہ اشاعت ۲۰۱۱ء) گویا علامہ نوبختی کے نزدیک غیبوبت صغریٰ کے انقطاع یا خاتمہ سے مراد ’’امام غائب‘‘ کی طبعی موت ہے۔ مگر چونکہ امام غائب سے غیبوبت صغریٰ یا روپوشی کے اس زمانے میں مہدی ہونے کا کوئی دعویٰ ظہور میں نہ آیا جس کی شیعہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے تو ان کی وفات کے بعد آپ کے ماننے والوں میں یہ عقیدہ مشہور ہو گیا کہ وہ فوت نہیں ہوئے بلکہ پہلے سے بڑی غیبوبت میں چلے گئے جسے غیبوبت کبریٰ کا نام دیا جاتا ہے اور جس کے بارے میں شیعہ عقیدہ ہے کہ ’’یَرَی النَّاسَ وَ لَا یَرَوْنَہُ ‘‘اس میں امام غائب تو ’’لوگوں کو دیکھیں گے، مگر لوگ ان کو نہ دیکھیں گے‘‘۔(کتاب مستطاب الشافی ترجمہ اصول کافی جلد۲ صفحہ۲۹۶،مطبوعہ ظفر شمیم پبلیکیشنز ٹرسٹ کراچی۔ سنہ اشاعت۲۰۰۴ء)اور وہ غار میں زندہ موجود ہیں اور پیش گوئیوں کے مطابق مہدی بن کر لمبی غیبوبت کے بعد ظاہر ہوں گے۔ (اکمال الدین صفحہ ۴۴٨ نجف) حقیقت یہ ہے کہ لمبی غیبوبت کے بعد امام غائب کے ظاہر ہونے سے مراد دراصل فیج اعوج کے لمبے وقفہ اور دورِ ضلالت کے بعد ان کا ظہور تھا ورنہ امام غائب کے اپنے زمانے کی طبعی عمر پانے کے بعد زندہ موجود ہونے کا عقیدہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر زندہ موجود ہونے کی طرح کا عقیدہ ہے اور یہ دونوں عقیدے دراصل تیسری صدی کے بعد کے اس تاریک دور کی پیداوار ہیں جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ فتنہ و فساد کا دور ہے اور اس زمانے کے لوگوں کا میرے ساتھ اور میرا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔(اکمال الدین صفحہ٢۶۴مطبع حیدریہ نجف) امرِ واقعہ یہ ہے کہ ساڑھے گیارہ سو سال سے امام غائب کے غار میں زندہ موجود ہونے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انیس سو سال سے آسمان پر زندہ موجود ہونے کا عقیدہ نہ صرف خلاف سنت الٰہی اور خلاف عقل ہے بلکہ خلاف قرآن بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں نبی کریمﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے : وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ ۔ (الانبیاء: ٩) ہم نے آپ سے پہلے کسی انسان کو ہمیشگی اور غیر طبعی عمر نہیں بخشی پھر آپ فوت ہو جائیں تو دوسرے کیسے غیر طبعی عمر پا سکتے ہیں۔ اور پھر قرآن شریف یہ فیصلہ بھی سناتا ہے کہ جو مر جائیں وہ کبھی دنیا میں واپس نہیں آتے: وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَٓا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ۔(الانبیاء: ۹۶) اور قطعاً لازم ہے کسى بستى کے لئے جسے ہم نے ہلاک کر دىا ہو کہ وہ لوگ پھر لَوٹ کر نہىں آئىں گے۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں یا امام غائب ان کی جسمانی واپسی کا عقیدہ خلاف قرآن بھی ہے اور خلاف عقل بھی۔ قرآن شریف سے ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ نبی اور امام کا کام خدا کے حکم سے ہدایت دینا ہوتا ہے۔ (الانبیاء: ٧۴) اور خدا کا پیغام پہنچانے میں وہ ہرگز خوف نہیں کھاتے۔(الاحزاب: ۴٠) اس کے باوجود اگر کوئی امام زندہ ہوتے ہوئے غائب ہے اور اپنی قوم میں ہدایت اور امامت کا کام انجام نہیں دے رہا اور دشمن کے خوف سے روپوش ہے تو وہ قطعاً امام کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ دراصل ائمہ اہلِ بیت نے بھی جو بارھویں امام کی شکل میں امام مہدی کی خبر دی تو ان سے مراد، اُن جیسے ایک وجود کی آمد تھی۔ چنانچہ امام جعفر صادقؒ فرماتے ہیں کہ’’سُمِّیَ القائم، لِأَنَّہٗ یَقُوْمُ بَعْدَ مَا یَمُوْتُ،إنّہ یقوم بأمر عظیم‘‘اِسی طرح یہ بھی لکھا ہے کہ’’سُمِّیَ القائم علیہ السلام قائمًا لأنّہ یقوم بعد موتہ‘‘ یعنی مہدی کو قائم اس لیے کہتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد کھڑا ہوگا۔ (بحار الانوار جلد۵۱۔ صفحہ۲۶۔ باب أسمائہ و ألقابہ و کناہ و عللھا۔از منشورات مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات بیروت۔الطبعۃ الأولیٰ ۲۰۰۷ء) اس پیشگوئی کا مطلب یہ تھا کہ اس امام کے ہمرنگ ایک اَور امام آئے گا جو روحانی لحاظ سے اس کا ہم نام اور ہم خاصیت ہوگا۔ لیکن پیشگوئی میں مخفی یہ نکتہ عوام نے نہ سمجھا اور امام کے ظاہراً غار میں صد ہا برس سے زندہ موجود ہونے کا اعتقاد کر لیا۔ یہ لوگ آج بھی غار کے دھانے پر جا کر ’’اُخْرُجْ یَامَوْلانَا‘‘ کی بے قرار التجائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے آقا! تشریف لائیے مگر گذشتہ ساڑھے گیارہ سو برس میں انہیں کوئی جواب نہیں آیا سوائے مایوسی کے اس جواب کے جو وہ غار گیارہ صدیوں سے بزبان حال کہہ رہا ہے کہ اس غار سے اب کوئی نہیں آئے گا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر غار والا غائب مہدی نہیں تو پھر وہ کون ہے؟ اور کب آئے گا؟ اس کا جواب سورت جمعہ کی آیت وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ ۔(الجمعة :۴) کی تفسیر کرتے ہوئے ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے فرمایا تھا جب آپ سے سوال کیا گیا تھا کہ یا رسول اللہؐ! یہ آخرین کون ہیں جن میں آپ کی دوسری بعثت ہوگی۔ آپؐ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ جب ایمان ثریا پر چلا جائے گا تو سلمان کی قوم میں سے بنو فارس اسے واپس لائیں گے۔’’ھم الأعاجم،و من لایتکلَّم بلغۃ العرب…عن أبی جعفر علیہ السلام و روی أن النبی قرأ ھذہٖ الاْیۃ،فقیل لہ مَن ھولآء؟ فوضع یدہ علٰی کتفِ سلمان،و قال لوکان الإیمان فی الثریا لنالتہ رجالٌ من ھولآء (تفسیر مجمع البیان از علامہ طبری: الجمعہ: ۴)اور یہ عجمی لوگ ہیں جن میں اللہ تعالیٰ امام مہدی کو دین کے زندہ کرنے اور ایمان قائم کرنے کے لیے بھیجے گا۔ اس کافی و شافی جواب نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا کہ امام مہدی کے اہل بیت ہونے سے محض ظاہری اور خونی رشتہ مراد تھا یا روحانی اور دینی رشتہ و تعلق مقصود تھا۔ کیونکہ ایک طرف نبی کریم ﷺنے ثریا سے ایمان لانے والے کو سلمان کی قوم میں سے قرار دیا تو دوسری طرف فرمایا کہ سلمان منّا أھل البیتِسلمان اہل بیت میں سے ہے۔(تفسیر مجمع البیان از علامہ طبری زیر آیت انہ لیس من اھلک۔ ھود: ۴٧) بلاشبہ اس ارشاد رسولؐ میں اس دینی و روحانی تعلق ہی کی طرف اشارہ ہے جس کے بارے میں حضرت امام جعفر صادقؒ فرماتے ہیں کہ مَنِ اتَّقَی اللّٰہ مِنْکُمْ وَاَصْلَحَ فَھُوَ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ تم میں سے جو شخص بھی تقویٰ اختیار کرے اور اصلاح کرے وہ اہل بیت میں سے ہے اور امام محمد باقرؒ فرماتے ہیں کہ’’وَمَنْ أَحبّنا فھو منّا أھل البیتِ‘‘جو ہم سے محبت کرے وہ اہل بیت میں سے ہے۔(تفسیر صافی جلد ۲۔صفحہ ۲۸۱۔زیر آیت فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي (إِبراهيم ۳۷)۔مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات۔بیروت۔الطبعۃ الأولیٰ۔۲۰۰۷ء) اِسی طرح حضرت امام علی ؓفرماتے ہیں کہ ’’وَقَالَ عَلَيْهِالسَّلَامُ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِالأَنْبِيَاءِ أَعْلَمُهُمْ بِمَا جَاءُوا بِه،ثُمَّ تَلَا(إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوه وهذَا النَّبِيُّ والَّذِينَ آمَنُوا)ثُمَّ قَالَ إِنَّ وَلِيَّ مُحَمَّدٍ مَنْ أَطَاعَ اللَّه وَ إِنْ بَعُدَتْ لُحْمَتُه، وَ إِنَّ عَدُوَّ مُحَمَّدٍ مَنْ عَصَى اللَّه وَإِنْ قَرُبَتْ قَرَابَتُه۔ ترجمہ: انبیاء سے قریب کا تعلق حقیقی معنوں میں اُن لوگوں کو ہے جو اُن کی لائی ہوئی باتوں کا سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ساتھ ہی آپؑ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (حقیقی معنوں میں ابراہیمؑ سے قریب کا تعلق اُنہی لوگوں کو ہے جنہوں نے اُن کا اتّباع کیا،اور اِس نبیؐ(محمدؐ) کا اور (نبیؐ پر) ایمان رکھنے والوں کو)پھر فرمایا:محمد(ﷺ) کا پیارا[ولی۔ناقل] وہ ہے جس نے اللہ کی اطاعت کی،اگرچہ خونی اعتبار سے وہ دور ہی کیوں نہ ہو۔اور محمد(ﷺ) کا دشمن وہ ہے جس نے اللہ کی نافرمانی کی،اگرچہ آپؐ سے قریب کا خونی تعلق رکھتا ہو۔‘‘(نہج البلاغہ،ترجمہ علامہ مرزا یوسف حسین لکھنوی۔[نہج البلاغۃ۔ترجمہ و حواشی جامع نھج البلاغۃ علامہ سید شریف ] صفحہ ۸۳۹-۸۴۰۔ بابُ المُخْتَارِ مِنْ حِکَمِ أَمِیْرِ الْمُؤمِنِیْنَ ؑزیر نمبر ۹۶۔اشاعت جولائی ۱۹۷۶ء۔مطبوعہ حیدری پریس لاہور۔بار سوئم۔ناشر شیعہ جنرل بُک ایجنسی اِنصاف پریس لاہور) پس آنحضرت ﷺ کا ولی وہی ہے جو خواہ ظاہری رشتہ داری میں دُور سے ہو،مگر اللہ تعالیٰ کا مطیع ہو۔اور یہی آیت قرآنی کا مفہوم اور منشا مبارک ہے جو خود شیعہ احباب کے نزدیک بھی مسلّم ہے۔ پس قرآن شریف کی زبان اور روحانی اصطلاح میں اہل بیت کا محاورہ تمام مومنوں اور امتیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے چنانچہ حضرت امام باقرؒ اور امام جعفر صادقؒ نے سورۂ احزاب کی آیت وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ (الاحزاب: ۷) کی یہی تشریح کی ہے کہ أزواجہ أمّھاتھم و ھو أبٌ لھم ازواجِ رسول مومنوں کی مائیں اور نبی مومنوں کا باپ ہے۔(تفسیر صافی جلد۳۔صفحہ ۱۲۶۔ الاحزاب: ٧) گویا تمام مومن اور متقی آل رسول میں شامل ہیں۔ جب کہ غیر صالح لوگ ظاہراً اہل بیت ہو کر بھی حقیقی اہل بیت نہیں رہتے۔ جیسے پسرِ نوح کو اس کی بدعملی کی وجہ سے اپنے اہل بیت سے خارج کر دیا گیا: إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ (هود: ۴۷) اس ساری بحث سے دو باتیں واضح ہیں۔ اوّل یہ کہ آخرین میں ایمان قائم کرنے والا وجود عربی نہیں ہوگا عجمی ہوگا۔فوضع یدہ علٰی کتفِ سلمان،و قال لوکان الإیمان فی الثریا لنالتہ رجالٌ من ھولآء (تفسیر مجمع البیان از علامہ طبری: الجمعہ: ۴)لہذا محمد بن حسن عسکری وہ مہدی نہیں ہو سکتے۔ دوسرے آنے والے مہدی کے لیے ظاہراً اہل بیت میں ہونا ضروری نہیں امتی ہونا کافی ہے۔ہاں سیرت و اخلاق میں رسول کریمؐ کی پیروی کی وجہ سے روحانی لحاظ سے وہی حقیقی اہل بیت میں شمار ہوگا’’ کذا مَن کان منّا لم یطع اللہعزّوجلّفلیس منّا وأنت إِذا أطعت اللّٰہ فأنت منّا أھل البیتِ‘‘(بحار الانوار جلد۴۳۔ صفحہ۱۷۳۔از منشورات مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات بیروت۔ الطبعۃ الأولیٰ ۲۰۰۷ء۔باب أولادھا و ذرّیتھا و أحوالھم و فضلھم و أنھم من أولاد الرسول حقیقۃ) وقت ظہور امام مہدی قرآن شریف اور احادیث سے امام مہدی کی آمد کے زمانے پر یہ روشنی پڑتی ہے کہ وہ ایمان کے اُٹھ جانے اور فتنہ و فساد کے زمانے میں آکر امن اور ایمان قائم کرے گا۔اور اُس فساد کے وقت علماء کی حالت کا تذکرہ روایات میں موجود ہے۔چنانچہ حضرت جعفر صادق حضرت علیؓ سے روایت بیان فرماتے ہیں:قال رسول اللّٰہ سَیأتِی زَمانٌ علٰی أُمّتِی لایَبْقیٰ من القرآنِ إِلا رَسمُہُ،ولا من الإسلامِ إِلاّ اِسمُہُ،یُسَمُّونَ بِہٖ وَ ھُمْ أَبْعَدُ النَّاس مِنْہُ،مَسَاجِدھُمْ عَامِرَۃٌ،وَ ھِیَ خَرَابٌ مِّنَ الھُدٰی،فُقَھَاءُ ذٰلِکَ الزَّمَان شرُّ فُقَھَاءِ تَحتُ ظِلِّ السّمآءِ،مِنْھُمْ خَرَجَتِ الْفِتْنَۃِ وَ إِلَیْھِمْ تَعُودُ (الکافی کتاب الروضۃ صفحہ۱۴۴ زیر عنوان حدیث: الفقہاء والعلماء)(تفسیر صافی زیر آیت استخلاف)(بحارالانوار۔باب ۲۵علامات ظہورہ من السفیانی والدجال۔ جلد ۵۲صفحہ ۴۱۳۔شائع کردہ منشورات مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات۔بیروت لبنان)آپؐ نے فرمایا: میری امت پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ جس میں قرآن بطور رسم رہ جائےگا۔اسلام کا صرف نام رہ جائے گا،کہنے کو مسلمان ہوں گے،مگر اسلام سے بہت دُور ہوں گے،اُن کی مسجدیں آباد نظر آئیں گی مگر ہدایت سے خالی ہوں گی، اُس زمانے کے (عالمانِ دین و)فقہاء زیر آسمان بدترین فقیہ ہوں گے،فتنے اُن ہی کی طرف سے شروع ہوں گے اور پھر اُن ہی کی طرف پلٹ کر جائیں گے۔(بحار الانوار۔از محمد باقر مجلسی۔مترجم جلد ۱۲،صفحہ۷۶۔ترجمہ:سید حسن امداد۔ محفوظ بُک ایجنسی کراچی) اسی طرح اسلام کے زوال کی پیشگوئیاں ان الفاظ میں بھی ملتی ہیں۔’’قال لَمْ يَجْرِ فی بني إسرائيل شئ إلا ويكون فِيْ اُمَّتِيْ مِثْلُهُ حَتَّى الْخَسْفِ وَ الْمسْخِ والقذف وَ قَالَ حُذَيْفَةُ وَاللّٰهِ مَا أَبْعَدُ أَنْ يَمْسَخُ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ كثِيْرًا مِّنْ هذِهِ الْاُمّةُ قِرَدَةً وَّ خَنَازِيْرَ‘‘ یعنی کوئی ایسی بات بنی اسرائیل میں نہیں ہوئی جو اسی طرح میری امت میں نہ ہو گی یہاں تک کہ زمین کا دھنسایا جانا اور روحانی صورتوں کا بگڑنا اور جھوٹی صورتوں کا بگڑنا اور جھوٹی تہمتیں لگانا۔ حذیفہ نے کہا اللہ کی قسم یہ بات بعید نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت میں بہت سے لوگوں کو بندر اور خنزیر بنادے۔(بحارالانوار۔باب الرجعۃ۔ جلد ۵۳صفحہ ۸۸۔روایت نمبر ۱۶۱شائع کردہ منشورات مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات۔بیروت لبنان) اسی طرح حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا:جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو انہیں جاہلوں کی طرف سے اس سے بھی زیادہ شدید مزاحمتوں کا سامنا ہو گا جن مزاحمتوں سے رسول اللہﷺ کو دورِ جاہلیت کے جاہلوں کے ہاتھوں سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ اس طرح کہ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تھے تو وہ لوگ پتھروں، چٹانوں، کھجور کے اونچے اونچے درختوں اور لکڑی کے تراشے ہوئے بتوں کی پرستش کرتے تھے اور ہمارا قائم اس وقت آئے گا جب لوگ اللہ کی کتاب سے غلط تاویلیں اخذ کرکے آپ کے سامنے دلیلیں پیش کریں گے۔ مگر خدا کی قسم! امام قائم ان لوگوں کے گھروں میں اپنا عدل اس انداز سے قائم کریں گے جس طرح ان کے گھروں میں سردی اور گرمی داخل ہو کر اپنا نفاذ قائم کر لیتی ہے۔(بحار الانوار۔از ملاباقر مجلسی۔مترجم سید حسن امداد۔جلد۱۲ صفحہ۳۹۹۔محفوظ بُک ایجنسی کراچی۔ایڈیشن سوئم) اِسی طرح امیرالمومنین حضرت علیؓ فرماتے ہیں امام مہدی لوگوں کی غفلت کے وقت ظاہر ہوگا اور حق کے مٹ جانے اور ظلم کے غالب آ جانے کے وقت ظاہر ہوگا۔ (بحارالانوار جلد١٣ صفحہ٣٠) جب کہ بارہ اماموں کے بارے میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ان کے وقت میں اسلام غالب رہے گا۔’’لَایزَالُ أَمْرُ أُمَّتِی ظَاہِرًا حَتّٰی یَمْضِیَ اثْنَتَیْ عَشَرَ خَلِیْفَۃً‘‘(کمالُ الدّین و تمامُ النعمۃ۔تألیف الشیخ الصدوق محمد بن علی بن الحسین بن باوبویہ۔المتوفی ۳۸۱۔الجزء الأوّل۔باب ۲۴ ما روی عن النبیﷺ فی النصّ علی القائم علیہ السلام۔صفحہ نمبر ۲۶۰۔ از منشورات مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات بیروت۔ الطبعۃ الأولیٰ ۱۹۹۱ء)گویا بارہ اماموں کے گزر جانے کے بعد امت پر زوال شروع ہوگا۔ پس بارھویں امام کا تو غلبہ اسلام کے دور میں آنا مقدر ہے جب کہ امام مہدی نے اسلام کے تنزل کے وقت اسے غالب کرنے کے لیے آنا تھا۔ اس لیے شیعہ کا بارہواں امام مہدی نہیں ہو سکتا۔ تیرھویں امام کے بارہ میں یہ امید کی جا سکتی ہے۔ مزید برآں اہل شیعہ آخری زمانے میں امام مہدی کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا بھی تسلیم کرتے ہیں حالانکہ قرآن شریف صاف طور پر تمام انبیاء بشمول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا اعلان کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ (آل عمران: ١۴۵)حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ایک رسول ہیں اور آپ سے پہلے تمام رسول وفات پا چکے ہیں۔ پس کیا اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو کیا (اے مسلمانو!) تم دین سے پھر جاؤ گے؟ امام مہدی کا اصل نام اور عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہت دراصل ایک ہی امام ہے جس کا آخری زمانے میں اقوام عالم میں انتظار ہونا تھا اور اسے مسیح ابن مریم اور مہدی کے القاب سے نوازا جانا تھا۔ مہدی کے جتنے نام شیعہ روایات میں بیان ہوئے ہیں وہ سب صفاتی ہیں کیونکہ ذاتی نام بیان کرنے سے ممانعت فرما دی گئی۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’أمّا اسمہ فإنَّ حبیبی وخلیلی عھد إِلیَّ أن لا أُحدّث باسمہ حتّی یبعثہ اللّٰہ،قال فأَخْبِرْنِی عن صفتہ،قال هو شابٌّ مَرْبُوعٌ،حَسَنُ الوَجْهِ،حسن الشّعر، یَسِیْلُ شَعْرُہ عَلَى مِنْكَبَيْهِ،و نُورُ وَجْھِہِ يَعْلُو سَوادَ لِحْيَتِهِ وَ رَأْسِه۔‘‘(بحار الأنوار جلد۵۱۔ صفحہ۳۱۔از منشورات مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات بیروت۔الطبعۃ الأولیٰ ۲۰۰۷ء۔باب صفاتہ صلوات اللہ علیہ و علاماتہ و نسبہ) نام کے متعلق مجھ سے میرے حبیب (حضرت رسول اللہؐ)نے عہد لیا ہے کہ میں کسی کو ان کا نام نہ بتاؤں یہاںتک کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ظاہر کردے۔(بحار الانوار۔از محمد باقر مجلسی۔ مترجم جلد ۱۱،صفحہ ۷۸۔زیر عنوان امام قائم کا حلیہ مبارک) گویا مہدی کے روایات میں صفاتی نام ہیں ذاتی نہیں ہیں۔ پس یاد رہے کہ جو شخص مہدی نہ ہو وہ حقیقی امام ہی نہیں ہو سکتا۔ امام کا مہدی ہونا از بس ضروری ہے کیونکہ ’’مہدی‘‘ عربی زبان کے لفظ ہدایت مصدر سے ماخوذ ہے اور ’’اسم مفعول‘‘ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں ہدایت دیا ہوا اور امام چونکہ ہادی ہوتا ہے۔ اور ہادی کوئی بن نہیں سکتا جب تک مہدی نہ ہو۔ لہٰذااحادیث میں مذکور ’’امام‘‘ کا ’’مہدی ‘‘ ہونا از بس ضروری ہے۔چنانچہ گیارھویں صدی کے مشہور شیعہ مجتہد علامہ باقر مجلسی کی کتاب ’’بحار الانوار‘‘ میں امام مہدی کے متعلق مروی ہے:’’ اِنَّ القائم المھدیَّ من نسل علیّ،اَشْبَہُ النَّاسُ بِعِیْسٰی بْنِ مَرْیَمَ،خَلقاً وخُلقًا و سیماءً و ھیئۃً،یعطیہ اللّٰہ جلَّ عزَّ ما أعطی الأنبیاء، ویزیدہ ویفضّلہ‘‘کہ مہدی سب لوگوں سے بڑھ کر عیسیٰ ابن مریم کے مشابہ ہوگا۔(بحارالانوار۔باب ۲۵۔ علامات ظہورہ علیہ السلام من السّفیانی والدّجال۔ جلد ۵۲صفحہ ۴۳۶۔شائع کردہ منشورات مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات۔ بیروت لبنان) جبکہ بعض روایات میں لکھا ہے کہ’’المھدیُّ من ولدی اسمہ اسمی و کنیتہ کنیتی،أشبہ النّاس بی خُلقًا و خَلقًا …یأتی بذخیرۃ الأنیباء‘‘(بحار الأنوار جلد۵۱۔ صفحہ۵۸۔ باب ما ورد من إخبار اللہ و إخبار النبی۔روایت نمبر ۱۶نیز روایت نمبر ۱۷۔از منشورات مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات بیروت۔الطبعۃ الأولیٰ ۲۰۰۷ء۔)مہدی میری اولاد میں سے ہوں گے،اُن کا نام وہی ہوگا،جو میرا نام ہے اور اُن کی کنیت بھی وہی ہوگی جو میری کنیت ہے،وہ سیرت و صورت میں تمام انسانوں میں سب سے زیادہ مجھ سے مشابہ ہوں گے۔(بحار الانوار۔از محمد باقر مجلسی۔ مترجم جلد۱۱،صفحہ۱۳۹۔ ترجمہ:سید حسن امداد۔ محفوظ بُک ایجنسی کراچی)نیز یہ بھی لکھا ہے کہ ’’عن ابی جعفر قال سمَّیَ اللّٰہُ المَھْدِیُّ الْمَنْصُوْرَ کَمَا سَمَّی أَحْمَدَ وَ مُحَمَّداً وَ مَحْمُودٌ کَمَا سَمَّی عِیْسٰی الْمَسِیْحَ علیہ السلام ‘‘ (بحار الأنوار جلد۵۱۔ صفحہ۲۷۔از منشورات مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات بیروت۔الطبعۃ الأولیٰ ۲۰۰۷ء۔باب أسمائہ و ألقابہ و کناہ و عللھا)یعنی حضرت ابو جعفر سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مہدی کا نام منصور رکھا جیسا کہ احمد، محمد، محمود اور جیسا کہ (اس کا نام) عیسیٰ مسیح بھی رکھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مہدی کا نام منصوربھی رکھا ہے۔ جیساکہ اس نے اس کا نام احمد اور محمد اور محمود رکھا ہے، جیسا کہ اس نے اُس مہدی کا نام عیسیٰ المسیح بھی رکھا ہے۔یعنی (۱) مہدی کانام ہی مسیح ہے۔(۲) مہدی کے کئی نام اور دعاوی ہوں گے۔ (۳) مہدی کانام محمد اور احمد بھی ہو گا۔ (۴)گویا مہدی کے سب نام صفاتی ہوں گے ذاتی نام نہیں بتایا۔( گویا آنے والا مہدی حضرت عیسیٰ بھی ہے،حضرت محمد ؐکا بھی ظل ہے۔)گویا سب نام صفاتی ہیں۔ پس ان تمام علامات کے حضرت مرزا صاحبؑ کے وجود میں پورا ہو جانے کے بعد شیعہ بھائیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کہیں وہ اس مسیح و مہدی کا انکار تو نہیں کر رہے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’مَنْ عَصَاہُ عَصَانِیْ و من أنکرہ فی غیبتہ فقد أنکرنی و من کذَّبہ فقد کذَّبنی و من صدَّقہ فقد صدَّقنی إلی اللّٰہ ‘‘(بحار الانوار جلد۵۱۔ صفحہ۵۹۔ از منشورات مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات بیروت۔الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۷ء۔ ما ورد من إخبار اللہ و إخبار النبیﷺ) گویااس کا انکار میرا انکار اور اس کی تصدیق میری تصدیق ہے۔ پس گذشتہ زمانے میں جہاں تک ممکن ہے نظر ڈال کر دیکھیں ایسا کوئی دعویدار نظر نہیں آتا جس نے زمانے کی ضرورت کے وقت مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ بھی کیا اور نبی کریم ؐکی بیان فرمودہ تمام علامات اس کے وجود میں پوری ہوتی نظر آتی ہوں۔ قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (الانبياء ۸)پس اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہىں جانتے۔ اس قسم کی پیشگوئیوں کو سمجھنے کے لیے بائبل میں مندرج واقعات بھی کلید کی حیثیت رکھتے ہیں۔جب اہل کتاب کے پاس جاتے ہیں تو وہاں بھی ایک پرانے نبی کے دوبارہ نزول کا عقیدہ ملتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہاں پرانے نبی کے دوبارہ نزول کے عقیدہ کو کس طرح لیا گیا اور اس پر کیا بحث ہوئی اورکس طرح اس مسئلہ کو حل کیا گیا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ یہودی ایلیا کے آسمان پر جانے اور مسیح کی آمد سے پہلے ایلیا کے آسمان سے نازل ہونے کے قائل تھے۔چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت ایلیا بگولے میں سوار ہو کر آسمان پر چلا گیا اور وہ اب تک زندہ بیٹھا ہوا ہے۔ (سلاطین ۲ باب ۲، آیت ۱۲) اور پھر موعود مسیح کی آمد سے قبل ایلیا کا دوبارہ آسمان سے نازل ہونا بھی لکھا ہے’’دیکھو خدا وند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیا نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا۔‘‘( ملا کی باب ۴، آیت ۵) اب بنی اسرائیل میں اپنی مذہبی کتاب کی روشنی میں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ ایلیا نبی آسمان پر گیا ہوا ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد سے قبل اسی ایلیا نے واپس آنا ہے۔ اس حوالے سے جب یہودی علماء نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو ایلیا کہا ں ہے ؟ تو مسیح ؑ نے یوحنا کو ایلیا قرار دیتے ہوئے جواب دیا:’’سب نبیوں اور توریت نے یوحنا تک نبوت کی اور چاہو تو مانو۔ ایلیا جو آنے والا تھا یہی ہے۔ جس کے سننے کے کان ہوں وہ سن لے۔‘‘(متی باب ۱۱ آیت ۱۳تا۱۵) پھر لکھا ہے کہ’’شاگردوں نے اس سے پوچھا کہ پھر فقیہ کیوں کہتے ہیں کہ ایلیا کا پہلے آنا ضرورہے اس نے جواب میں کہا ایلیا البتہ آئےگا اور سب کچھ بحال کر ےگا۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیا تو آچکا اور انہوں نے اسے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کےساتھ کیا۔ اسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دکھ اٹھائےگا۔ تب شاگرد سمجھ گئے کہ اس نے ان سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی بابت کہا ہے۔‘‘(متی باب۱۷آیت ۱۰تا۱۳) شاگردسمجھ گئے کہ پرانے نبی ایلیا کے دوبار ہ نزول کی حقیقت یہی ہے کہ نیا نبی یوحنا اس پرانے نبی ایلیا کے نام پر آئے گا لیکن یہودی علماء نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نزول ایلیا کی اس وضاحت اور حقیقت کو قبول نہ کیا اور آپ علیہ السلام کا انکار کر دیا اور آج تک اس انکار پر قائم ہیں۔ انہوں نے کسی پرانے نبی کے دوبارہ نزول کی اس حقیقت کو تسلیم نہ کرکے ایک سچے نبی کا انکار کر دیا۔ یاد رہے کہ وہ امام جس کے بارے میں آپﷺنے فرمایا کہ جب اسے دیکھو تو اس کی بیعت کرنا خواہ برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل چل کر اس کے پاس جانا پڑے کیونکہ وہ اللہ کا خلیفہ مہدی ہے۔ بلکہ آنحضرتﷺ نےا مام آخر الزمان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:لا تقوم الساعۃ حتی یقوم القائم الحق منّا و ذالک حین یأذن اللّٰہ عزوجل لہ۔ و من تبعہ نجا،و من تخلف عنہ ھلک۔اللّٰہ اللّٰہ عباداللّٰہ فاتوہ ولو علی الثلج فانہ خلیفۃ اللّٰہ عزوجل و خلیفتی۔ یعنی قیامت نہ آئے گی جب تک ہم میں سے امام قائم کا ظہور نہ ہوگا۔اور ظہور اُس وقت ہوگا جب اللہ عزّوجل کا اذن ہوگا۔اور جس نے اس کی اطاعت و اتباع کی اُس نے نجات پائی،جس نے انہیں چھوڑا وہ ہلاک ہوا۔خدا کے بندو!تمہیں اللہ کا واسطہ،اُس کے پاس آنا خواہ تمہیں برف پر چل کر کیوں نہ آنا پڑے۔اِس لیے کہ وہ اللہ کا بھی خلیفہ ہے اور میرا بھی خلیفہ ہے۔(بحارالانوار از علامہ باقر مجلسی۔مترجم۔سید حسن امداد۔جلد ۱۱۔صفحہ ۱۲۸۔محفوظ بُک ایجنسی کراچی) پس اٹھو اور سلام کہو اس مہدیٔ دوراں کو اور فدا کر دو اپنے جان و مال اس مسیح زماں پر جس کا سب کچھ اپنے آقا و مولا محمد مصطفیٰؐ پر قربان ہے۔چنانچہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’مَاتَتِ الْقُلُوبُ۔وَکَثُرَتِ الْذُّنُوبُ۔وَاشْتَدَّتِ الْکُرُوْبُ۔فَعِنْدَ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ الَّیْلَاءِوَظُلُمَاتِ الْھوجاء،اقتضٰی رَحمُ اللّٰہِ نُوْرُالسَّمَآء۔فَانَا ذٰالِکَ النُّورُوالْمُجَدِّد الْمَأمُورُ وَالْعَبدُ المَنصُورُ والمَھدِی المَعْھُودُ وَالْمَسیحُ المَوعُودُ۔‘‘(الخطبہ الالہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۴۹تا ۵۱) ترجمہ: دل مرگئے اور گناہ بہت ہوگئے اور بے قراریاں بڑھ گئیں پس اس اندھیری رات کے وقت اور تند ہوا کی تاریکی کے وقت،خدا کے رحم نے تقاضا کیا کہ آسمان سے نور نازل ہو۔ سو میں وہ نور ہوں اور وہ مجدّد ہوں کہ جو خدا تعالیٰ کے حکم سے آیا ہے اور بندہ مدد یافتہ ہوں اور وہ مہدی ہوں جس کا آنا مقرر ہو چکا ہے اور وہ مسیح ہوں جس کے آنے کا وعدہ تھا۔ وہ مسیح و مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ جن کے نزدیک حضرت علیؓ رحمان خدا کے سب سے زیادہ محبوب بندوں میں سے تھے۔(ماخوذ از سرّالخلافہ روحانی خزائن جلد٨ صفحہ٣۵٨)جو حضرت امام حسین ؓکو سرداران بہشت میں سے سمجھتا ہے اور حضرت امام کے تقویٰ اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت کو اپنے اور اپنی جماعت کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیتا ہے۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ ۳۷۵۔ ایڈیشن۲۰۱۸ء) جس کے نزدیک ’’ائمہ اثنا عشر نہایت درجہ کے مقدس اور راستباز اور اُن لوگوں میں سے تھے جن پر کشف صحیح کے دروازے کھولے جاتے ہیں‘‘۔ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد٣ صفحہ٣۴۴) اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو پہچاننے کی توفیق بخشے۔ آمین ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: منزلِ عشق