(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍فروری ۲۰۱۶ء) اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی حقیقی مومنوں کی یہی نشانی بتائی ہے کہ لَایَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ (الفرقان: 73) کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ پھر شرک اور جھوٹ کے بارے میں بتایا کہ ان سے بچو۔ اکٹھا کیا شرک اور جھوٹ کو۔ گویا جھوٹ کا گناہ بھی شرک کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو لفظ استعمال کیا ہے وہ جیسا کہ مَیں نے پڑھا ’’زُور‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی ہیں جھوٹ، غلط بیانی، غلط گواہی، خداتعالیٰ کے شریک ٹھہرانا، ایسی مجلسیں یا جگہیں جہاں جھوٹ عام بولا جاتا ہو۔ اسی طرح گانے بجانے اور فضولیات اور غلط بیانیوں کی مجالس یہ ساری زُور کے معنوں میں آتی ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کے مومن بندے وہ ہیں جو جھوٹ نہیں بولتے۔ جو ایسی جگہوں پر نہیں جاتے جہاں فضولیات اور جھوٹ بولنے والوں کی مجلس جمی ہو۔ وہ اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں بناتے۔ نہ ہی ایسی جگہوں پر جاتے ہیں جہاں مشرکانہ کام ہو رہے ہوں۔ اور پھر کبھی جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے۔ پس اگر ہم میں سے ہر ایک اس طرح جھوٹ سے بچے تو ایک ایسی تبدیلی وہ اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے جو حقیقی مومن بناتی ہے۔ بہرحال اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خطاب کا وہ حصہ پیش کرتا ہوں جس میں جھوٹ کے بارے میں آپ نے فرمایا۔ اس کو غور سے سنیں۔ آج ہم میں سے بھی بہت یا کافی تعداد تو ایسی ہے جس کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے بگڑنے اور ان کے تفرقے کی وجہ بیان فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ’’مسلمانوں میں اندرونی تفرقہ کا موجب بھی یہی حُبِّ دنیا ہی ہوئی ہے‘‘۔ (حُبِّ دنیا کا پیچھے سے ایک ذکر چل رہا ہے۔ اس بارے میں آپ نے فرمایا یہ حُبّ دنیا ہی ہے جو مسلمانوں میں پھاڑ ڈالنے کا موجب ہے) ’’کیونکہ اگر محض اللہ تعالیٰ کی رضا مقدم ہوتی تو آسانی سے سمجھ میں آسکتا تھا کہ فلاں فرقے کے اصول زیادہ صاف ہیں اور وہ انہیں قبول کرکے ایک ہوجاتے۔ اب جبکہ حُبِّ دنیا کی وجہ سے یہ خرابی پیدا ہو رہی ہے تو ایسے لوگوں کو کیسے مسلمان کہا جاسکتا ہے جبکہ ان کا قدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پر نہیں‘‘ ہے۔ فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا تھا(کہ) قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32) یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تعالیٰ تم کو دوست رکھے گا۔ اب اس حُبّ اللہ کی بجائے اور اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حُبّ الدنیا کو مقدم کیا گیا ہے۔‘‘(آپ سوال اٹھاتے ہیں کہ) ’’کیا یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے؟‘‘ (دین کو چھوڑ کر دنیا کی طرف ڈوب جاؤ) ’’کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیادار تھے؟ کیا وہ سُود لیاکرتے تھے؟ یا فرائض اور احکام الٰہی کی بجا آوری میں غفلت کیا کرتے تھے؟ کیا آپ میں معاذ اللہ نفاق تھا؟ مداہنہ تھا؟ دنیا کو دین پر مقدم کرتے تھے؟ غور کرو۔ اِتباع تو یہ ہے کہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے نقش قدم پر چلو‘‘ (آپ تو دین کو دنیا پر مقدم کرتے تھے نہ کہ دنیا کو دین پر) ’’اور پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کیسے کیسے فضل کرتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’آپؐ کے نقش قدم پر چلو پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کیسے کیسے فضل کرتا ہے۔ صحابہؓ نے وہ چلن اختیار کیا تھا۔ پھر دیکھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچایا۔ انہوں نے دنیا پر لات ماردی تھی اور بالکل حُبِّ دنیا سے الگ ہو گئے تھے۔ اپنی خواہشوں پر ایک موت وارد کر لی تھی۔ اب تم اپنی حالت کا ان سے مقابلہ کر کے دیکھ لو۔ کیا انہیں کے قدموں پر ہو؟ افسوس اس وقت لوگ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ ان سے کیا چاہتا ہے؟رَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ نے بہت سے بچے دے دیئے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’کوئی شخص عدالت میں جاتا ہے تو دو آنے لے کر جھوٹی گواہی دے دینے میں ذرا شرم و حیا نہیں کرتا۔ کیا وکلاء قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ سارے کے سارے گواہ سچے پیش کرتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 348-349۔ ایڈیشن1984ء) حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا۔ وہ مجسٹریٹ تھے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ میرے پاس ایک شخص آیا جس کو مَیں جانتا تھا۔ تاریخ تھی گواہوں کی پیشی ہونی تھی۔ اس نے کہا کہ مجھے اگلی تاریخ دے دیں میرے گواہ نہیں حاضر ہوئے۔ تو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے اسے مذاق سے کہا کہ مَیں تو تمہیں بڑا عقل مند سمجھتا تھا تم تو بڑے بیوقوف نکلے۔ گواہ کہاں سے تم نے لانے ہیں۔ باہر جاؤ کسی کو آٹھ آنے روپیہ دو وہ تمہارے گواہ بن کے آ جائیں گے۔ خیر وہ شخص باہر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد دو تین آدمی گواہ لے آیا اور گواہ سے جب حضرت مرزا سلطان احمد صاحب جرح کرتے تھے تو وہ جواب دیتا ہاں مَیں نے دیکھا اس طرح واقعہ ہوا ہے، اس طرح واقعہ ہوا ہے۔ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کہتے ہیں کہ مَیں دل دل میں ہنس رہا تھا بلکہ اس کے سامنے ہی ہنس رہا تھا کہ میرے کہنے پہ یہ باہر گیا ہے، گواہ لے کے آیا ہے اور گواہ کتنی صفائی سے میرے سامنے جھوٹ بول رہے ہیں اور خدا کی قسم کھا کر، قرآن ہاتھ میں پکڑ کر جھوٹ بول رہے ہیں۔ تو اس کے بعد جب انہوں نے گواہی دے دی۔ مَیں نے انہیں کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ قرآن ہاتھ میں پکڑ کر قرآن کے اوپر گواہی دے رہے ہو اور میرے سامنے لے کے آئے ہو۔ (ماخوذ از’اپنے اندر سچائی، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو‘، انوار العلوم جلد 22 صفحہ 291) تو یہ گواہوں کا حال ہے اور آج بھی یہی حال ہے۔ جماعت کے خلاف تو مقدمات میں ہمیں اکثر نظر آتا ہے کہ بہت سارے لوگ جو موجود بھی نہیں ہوتے وہ گواہ بن کے کسی کے مقدمے میں پیش ہو جاتے ہیں۔ تو بہرحال فرماتے ہیں کہ ’’آج دنیا کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے۔ جس پہلو اور رنگ سے دیکھو جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں۔ جھوٹے مقدمہ کرنا توبات ہی کچھ نہیں۔ جھوٹے اسناد بنا لیے جاتے ہیں‘‘۔ (سارے کاغذات documents جھوٹے بنا لئے جاتے ہیں۔ کسی سرکاری افسر کو پیسے دئیے اور جھوٹے بنا لئے) ’’کوئی امر بیان کریں گے تو سچ کا پہلو بچا کر بولیں گے۔‘‘ (یعنی سچ سے دُور ہی رہیں گے اور آجکل تو یہ حالت پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے) ’’اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے؟‘‘ (سلسلے کی ضرورت کے بارے میں آپ نے ان اخلاق کو پیش کیا اور بتایا کہ کیا صرف اتنا ہی کہہ دینا کہ مسیح آسمان پر نہیں ہے اور زمین میں فوت ہوچکے ہیں اور اب جس نے آنا تھا وہ آگیا ہے کافی ہے؟ نہیں۔ بلکہ یہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو قائم کرنے ہوں گے۔ اور اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا) فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیز کرو۔ فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ(الحج: 31) بُت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے‘‘۔ فرمایا ’’جیسااحمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکا تا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لیے جھوٹ کو بُت بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بُت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بت پرست بت سے نجات چاہتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بت بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس بُت کے ذریعہ نجات ہو جاوے گی۔ کیسی خرابی آ کر پڑی ہے۔ اگر کہا جاوے کہ کیوں بُت پرست ہوتے ہو۔ اس نجاست کو چھوڑ دو۔ توکہتے ہیں کیونکر چھوڑ دیں۔ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپنا مدار سمجھتے ہیں۔ مگر مَیں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے۔ بھلائی اور فتح اسی کی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 349-350۔ ایڈیشن1984ء) مزید پڑھیں: تحریک جدید سے متعلق مالی قربانی کے چند واقعات