اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کا صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء (قسط۱۰۔گذشتہ سے پیوستہ) مدیر کے نام خطوط روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر الفضل ربوہ کے نام حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے چند خطوط سے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: ٭… ’’مَیں بڑی باریکی سے الفضل کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ جو باتیں بھی قابل توجہ میرے ذہن میں آتی رہیں گی وہ آپ کو لکھتا رہوں گا۔ اگر کوئی تنقید بھی ہو تو رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ … اس وقت تو الفضل کو زندہ رکھنا ہی بڑا جہاد ہے۔ جو منہ پھاڑے اژدہا ہے اس سے الفضل کو بچائے رکھنا زبردست جہاد اور تاریخی جدوجہد ہے۔‘‘ ٭…’’یہ پرچہ نہیں بلکہ پرچم ہے جو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ نہ یہ (ہاتھ) سرنگوں ہونا جانتا ہے نہ یہ پرچم (الفضل)۔ خدا اِس ہاتھ کو بھی مضبوط اور توانا اور محفوظ رکھے اور اُس قلم کو بھی جو صبح و مساء ہر میدانِ کارزار میں احمدیت کی صداقت کے پھریرے اڑا رہا ہے۔ الفضل باقاعدگی سے پڑھتا ہوں۔ اس کے ہر صفحے اور ہر مضمون پر میری نظر ہوتی ہے۔‘‘ ٭…’’کارکنانِ الفضل جس بلندہمّتی کے ساتھ سینہ تانے بےخوف اور بےدھڑک، دشمن کے ہر ظالمانہ حملے کا مقابلہ کررہے ہیں ہر احمدی کو اس کا شدّت سے احساس ہے اور ہر احمدی کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔‘‘ ………٭………٭………٭……… الفضل اخبار ’’المصلح‘‘کے پیرہن میں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل کے کراچی ایڈیشن یعنی ’’المصلح‘‘ کے اجرا اور خدمات نیز لاہور سے دوبارہ اجرا سے متعلق ایک تاریخی مضمون شامل اشاعت ہے۔ مجلس خدام الاحمدیہ کرا چی نے ۱۵؍جولائی ۱۹۵۰ء کو اپنا پہلا پندرہ روزہ اخبار ’’المصلح ‘‘جاری کیا جس کے پہلے اعزازی مدیر مکرم تاثیر احمدی صاحب مقرر کیے گئے۔سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اخبار کے لیے بھجوائے گئے اپنے پیغام میں فرمایا: ’’تمہارا جینا اور مرنا خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہو۔خدا پر تمہیں کامل توکل ہو اور ماسوا اللہ کے سب تمہاری نظروں میں ہیچ ہو تم عزم صمیم کے ساتھ مشکلات کی پر خار وادیوں میں سے گزرتے ہوئے کامیابی کی چوٹی پر پہنچ جائو اور ہر بلندی پر اسلام کا جھنڈا گاڑ دو۔ ‘‘ جولائی۱۹۵۱ء تک المصلح پندرہ روزہ شائع ہوتا رہا پھر یکم اگست۱۹۵۱ء سے ہفتہ وار شائع ہونے لگا۔ ۱۹۵۳ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف پورے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے تو صوبہ پنجاب کی مسلم لیگی حکومت نے ۲۷؍فروری۱۹۵۳ء کو روزنامہ الفضل ربوہ کی اشاعت ایک سال کے لیے جبراً بند کردی تاکہ بیرونی احمدی جماعتوں کا رابطہ اپنے مرکز سے معطل کردیا جائے۔ان حالات میں اخبار المصلح کراچی نے الفضل ربوہ کی جگہ لے لی۔ چنانچہ المصلح کو روزنامہ بنانے کی کوشش شروع ہوئی جو ۲۹؍مارچ ۱۹۵۳ء کو کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور۳۰؍مارچ۱۹۵۳ء سے اس کی روزانہ اشاعت کا آغاز ہوگیا۔ اب کراچی سے شائع ہونے والا المصلح عملاً الفضل کا ہی ایڈیشن تھا۔اس کی اشاعت اور ادارت کے جملہ انتظامات بھی الفضل کا سٹاف ہی انجام دیتا تھا۔ ۳۱؍مارچ ۱۹۵۴ء تک یعنی الفضل کے دوبارہ اجراء تک نہایت باقاعدگی سے روزنامہ کی شکل میں شائع ہوتا رہا۔ کراچی سے اشاعت کے دَور میں اس کا دفتر ’’احمدیہ ہال‘‘ میگزین لین کراچی میں تھا۔ جبری تعطل کا عرصہ ختم ہونے کے بعد ۱۵؍مارچ ۱۹۵۴ء کو لاہور سے اخبار الفضل کا دوبارہ اجرا عمل میں آیا تو سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے مولوی محمد شفیع صاحب اشرف سابق مدیر ’’فاروق‘‘ لاہور کو اس نئے دَور کا قائم مقام ایڈیٹر نامزد فرمایا۔ چند روز بعد کراچی سے الفضل کا سارا عملہ اور کاتب لاہور پہنچ گئے اور۲۶؍مارچ ۱۹۵۴ء سے الفضل اخبار دوبارہ مکرم شیخ روشن دین صاحب تنویر کی ادارت میں لاہور سے شائع ہونا شروع ہوا۔ محترم مولوی محمد شفیع اشرف صاحب اپنی یادیں بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ جس وقت ’’فاروق‘‘ کا پہلا پرچہ شائع ہوا تو روزنامہ ’’الفضل‘‘ کا سارا سٹاف اُس وقت لاہور ہی میں تھا۔ لیکن انہی دنوں کراچی کی جماعت کی کوشش سے خدام کا پندرہ روزہ اخبار ’’المصلح‘‘ روزنامہ کردیا گیا چنانچہ ۱۲؍مارچ کو جب کہ لاہور میں مارشل لاء لگا ہوا تھا، بذریعہ فون ہم سب کو فوری طور پر ربوہ پہنچنے کی ہدایت ہوئی۔الفضل کا سارا(سٹاف)جس میں ادارتی عملہ اور انتظامی کارکنان شامل تھے مع ضروری ریکارڈ کے ربوہ پہنچے۔ ربوہ پہنچ کر ہدایت ملی کہ الفضل کا عملہ فوراً کراچی کے لیے روانہ ہو جائے اور خاکسار حسب سابق لاہور جا کر ’’فاروق‘‘ جاری رکھے۔نیز یہ کہ اخویم مکرم شیخ محمد احمد صاحب پانی پتی جو ادارہ الفضل کے رُکن تھے میرے ساتھ کام کریں گے۔ ’’فاروق‘‘کے دوسرے پرچہ کی اشاعت کے وقت تک مارشل لاء لگ چکاتھا اور تیسرے پرچہ کی نوبت آئی تو سنسر شپ کی پابندی بھی لگ چکی تھی۔کاپیاں لے کر خاکسار تعلقات عامہ کے دفتر میں گیا جس کے ناظم اُس وقت جناب یوسف العزیز صاحب تھے۔انہوں نے کاپیاں رکھ لیں اور کہا کہ کل آکر لے جائیں۔ دوسرے روز گیا تو انہوں نے پھر ٹال مٹول سے کام لیا اور فرمانے لگے کہ کچھ دیر اَور انتظار کریں۔ مجھے صورت حال کا اندازہ ہو چکا تھاچنانچہ حضرت مرزا عزیز احمد صاحبؓ جو رتن باغ میں قیام فرما تھے، اُن کی خدمت میں ساری تفصیل بتائی۔ وہ فوراً صوبائی وزیر اطلاعات عبدالحمید دستی صاحب کے ہاں گئے۔دستی صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ اصل حالات معلوم کر کے اطلاع دیں گے۔ان کی طرف سے اطلاع کیاآنی تھی شام پانچ بجے کی خبروں میں ریڈیو سے یہ اعلان ہوگیا کہ فاروق بند کردیا گیا ہے۔ اس پر خاکسار کو ربوہ آنے کا ارشاد ہوا۔ ربوہ پہنچ کر اطلاع کی تو حضورؓ نے وکالت تبشیر کو میرے بارے میں ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ اِس وقت سلسلہ کو جرنلسٹوں کی ضرورت ہے۔ اسے کراچی بھجوادیا جائے وہاں المصلح میں کام کا تجربہ حاصل کرے اور مجھے رپورٹ دیا کرے۔چنانچہ حضورؓ سے مل کر خاکسار کراچی چلاگیا جہاں اس وقت اخبار کے انچارج محترم شیخ روشن دین تنویر صاحب تھے۔اسی دوران الفضل کی بندش کا عرصہ ختم ہوگیا تو۱۱؍مارچ۱۹۵۴ء کو مجھے ربوہ پہنچنےکی ہدایت ملی۔ ۱۳؍مارچ کی شام کو خاکسار ربوہ پہنچا۔ ۱۰؍مارچ کو حضور پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور خاکسار نے حضور پُر نور کی زیارت اور ملاقات کا شرف حاصل کیا تو زخم کی وجہ سے حضور لیٹے ہوئے تھے۔ فرمایا: ابھی جا کر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے ملو اور ان سے ہدایات لے کر لاہور جا کر فوراً الفضل جاری کردو، اس کی پابندی کا عرصہ ختم ہوگیا ہے۔ چنانچہ اسی وقت میاں صاحب کے دولت کدہ پر حاضر ہوا تو آپؓ نے فرمایا: تم کل صبح ہی لاہور چلے جائو اور اللہ کانام لے کر جیسے بھی ہو الفضل جاری کردو خواہ دو صفحہ کاہی کیوں نہ ہو۔حضرت صاحب کی صحت کی خبر جماعت کو جلدجلد پہنچتی رہنی چاہیے۔ الفضل کے خریداروں اور ایجنسیوں کو اخبار بھجوانا شروع کردیں۔ کراچی سے دوسرا عملہ بھی جلد آجائے گا۔ اس پر خاکسار نے عرض کیا کہ حضور کی صحت کے پیش نظر اب حضور سے تو عرض نہیں کیا جاسکتا۔اگر آپ ہی ایک مختصر سا پیغام مجھے لکھ دیں تو مَیں الفضل کے نئے دَور کے پہلے پرچے میں اسے شائع کردوں۔فرمانے لگے: بہت اچھا۔کل صبح لاہور جاتے وقت مجھ سے لیتے جائیں۔ چنانچہ۱۴؍مارچ کی صبح حضرت میاں صاحب نے مجھے دعا سے رخصت فرمایا اور اپنا تحریری پیغام بھی عطا فرمایاجو الفضل کے نئے دَور کے پہلے پرچے میں شائع ہوا۔یہ ۱۵؍مارچ تھی اور دوشنبہ کا مبارک دن۔ صرف دو صفحہ کا پرچہ تھا وہ بھی نہایت جلدی اور افراتفری میں مرتب کیا گیا۔ نہ کوئی کاتب تھا اور نہ کوئی دوسرا معاون۔ بڑی مشکل سے اخویم شیخ محمد احمد صاحب پانی پتی کے ذریعے ایک بزرگ اور معمر کاتب مکرم سلطان احمد صاحب کو تلاش کیا گیا۔وہ بہت کمزور اور ضعیف ہوچکے تھے۔لیکن بہرحال ہنگامی ضرورت تھی جیسے بھی ہوا انہوں نے دو صفحے لکھ دیے۔اگلے روز ذرا سکون ہوا تو ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ کے دفتر میں گیا جہاں لاہور کے کاتب مکرم منشی لعل دین صاحب سے استعانت لی۔ انہوں نے دو صفحات لکھ کر دیے اور یوں دوسرا شمارہ نکلا۔ کتابت کا مسئلہ تو کسی نہ کسی طرح حل کر لیا گیا مگرجلد ہی اخبار کو طباعت کی شدید مشکلات سے دو چار ہونا پڑا کیونکہ بوجہ مخالفت کوئی پریس الفضل چھاپنے کو تیا رنہ تھا۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جو اس وقت ناظر دعوت الی اللہ تھے محترمہ بیگم شفیع ایڈیٹر ’’دستکاری‘‘ کے پاس ان کے فلیٹ نمبر۸میکلیگن روڈ لاہور تشریف لائے۔ اسی فلیٹ کے نیچے محترمہ بیگم شفیع کا دستکاری پریس تھا جس میں انگریزی اور اردو چھپائی کا انتظام تھا۔الفضل کا دفتر بھی اسی بلڈنگ کے نمبر۳ فلیٹ میں تھا۔ حضرت شاہ صاحبؓ نے محترمہ بیگم شفیع کو تمام حالات سے آگاہ کیا تو بیگم شفیع نے بلا توقف ایمانی جرأت سے جواب دیا کہ ’’احمدیت کے لئے میرا پریس کیا میری جان بھی حاضر ہے۔ میں ہرقیمت پر الفضل کو چھاپوں گی اور اس خدمت کو عین سعادت سمجھوں گی۔‘‘ چنانچہ الفضل اخبار ۳۰؍مارچ سے ۱۵؍اپریل ۱۹۵۴ء تک دستکاری پریس میں اس طرح شائع ہوتا رہا کہ بیگم شفیع کے صاحبزادے مبشرات احمد صاحب جو پریس کے مینیجر تھے اپنی نگرانی میں رات بھر اخبار چھپواتے اور بیگم شفیع اس عرصہ میں الفضل کے خیریت سے چھپنے کے لیے نوافل پڑھتیں اور دعائیں کرتیں۔ کچھ عرصے بعد محترمہ بیگم شفیع جب حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکی خدمت میں دعا کے لیے حاضر ہوئیں تو حضورؓ نے بڑے اچھے الفاظ کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ اس کے بعد اخبار الفضل پہلے انصاف پریس میں اور پھر پاکستان ٹائمز پریس میں طبع ہوتا رہا۔بعد ازاں جلسہ سالانہ ۱۹۵۴ء کے ایام میں لاہور سے ربوہ منتقل کر دیا گیا اور ۳۱؍دسمبر۱۹۵۴ء سے ضیاءالاسلام پریس ربوہ میں چھپنے لگا۔ اس طرح قریباً سات برس کے بعد دوبارہ مرکز احمدیت سے نکلنا شروع ہوا۔ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں الفضل اخبار کے حوالے سے مکرم نسیم سیفی صاحب کا منظوم کلام شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیہ قارئین ہے: خدا کے فضل و کرم کا نشان ہے الفضلہمارے قلب و نظر کی کمان ہے الفضلبرس رہی ہیں خدا کی عنائتیں ہم پرہمارے دامنِ دل کا بیان ہے الفضلامام وقت سے ہے رابطہ کی ایک دلیلہمارے حُسنِ عقیدت کی جان ہے الفضلہے دینِ حق کے لیے وقف اس کی ہر اِک سطرہر ایک طرح ارادت کی جان ہے الفضلہے اس سے روح کی بالیدگی کا ہر امکانخدا کے قرب کے نغمہ کی تان ہے الفضلہمارے عشقِ رسولِ خدا کا ہے پیمانہماری حُبِّ عقیدت کی جان ہے الفضل مزید پڑھیں: ۵؍ستمبر: عالمی یومِ سموسہ۔ لذت اور ذائقے کا جشن