سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۰؍اپریل ۱۹۹۳ء کے موقع پر نصیحت کرتے ہوئے تحریک فرمائی تھی کہ قرآن کریم نے ہمیں زندگی کا جو راز سمجھایا ہے اس کی رُو سے آپ کو اپنے آباؤ اجداد کے ذکر کو لازماً زندہ رکھنا ہوگا۔فرمایا: ’’وہ سارے خاندان جن کے آباء و اجداد میں صحابہ یا بزرگ تابعین تھے اُن کو چاہیے کہ اپنے خاندان کا ذکر خیر اپنی آئندہ نسلوں میں جاری کریں۔‘‘ خاکسار اپنے تایا جان رائے محمد امیر صاحب کا ذکر خیر کرنا چاہتا ہے جن کو ہمارے خاندان میں سب سے پہلے احمدیت کو قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا اور یوں آپ اپنے نام کی طرح اپنے خاندان کے لیے بھی امیر ثابت ہوئے اور خاندان کی نئی احمدی شاخ کے مورث اعلیٰ قرار پائے۔ ابتدائی حالات: ایک اندازے کے مطابق آپ ۱۹۰۸ء میں پنجاب کے ایک قصبہ دوہٹہ عظمت میں پیدا ہوئے اور یہیں پر پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔ آپ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ۱۹۲۰ء میں آپ اپنے خاندان کے ہمراہ میرا ں پور ضلع شیخوپورہ نقل مکانی کر گئے۔ یہاں پر آپ کی تعلیم کے لیے ایک پرائیویٹ معلم مولوی فضل الدین صاحب کی خدمات حاصل کیں جن سے آپ نے عربی، فارسی، قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھی۔ آپ کے یہ استاد حاذق طبیب بھی تھے۔ ان سے آپ کو کچھ طب پڑھنے کا بھی موقع ملا۔ یہاں پر ہی آپ کی پہلی شادی اپنے چچا کی بیٹی کے ساتھ ہوئی۔ احمدیت سے تعارف: عین نوجوانی کی عمر میں آپ کو علاقے کے ایک احمدی بزرگ سید لال شاہ صاحب کے ذریعہ احمدیت کا تعارف حاصل ہوا۔ محترم شاہ صاحب کے ساتھ تحقیقِ حق کے لیے آپ کی گفتگو کئی سال تک چلتی رہی۔ اس دوران آپ مشہور اہل حدیث عالم ثنا ءاللہ صاحب امرتسری اور مولوی شیر محمد شرق پوری( اہل سنت) اور بعض دیگر علماء کے پاس اپنے سوالوں کا جواب حاصل کرنے کے لیے بار بار سفر کرتے رہے لیکن کوئی بھی آپ کو مطمئن نہ کر سکا۔ شرفِ بیعت: ۱۹۲۸ءمیں خلافت ثانیہ کے دور میں آپ نے جماعت احمدیہ شاہ مسکین ضلع شیخوپورہ کے سالانہ جلسہ سیرت النبیؐ کے موقع پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت کا اعلان کیا،الحمدللہ علیٰ ذالک۔ بیعت کے وقت آپ کی عمر تقریباً بیس سال تھی۔ بیعت سے قبل آپ اپنے گاؤں کی مسجد کے امام تھے۔ بیعت کرنے پر خاندان کی مخالفت کا سامنا: آپ کے بیعت کر کے اسلام احمدیت میں شمولیت کے اعلان پر خاندان میں احمدیت کی مخالفت کے تاریک دَور کا آغاز ہوا۔ آپ کی اہلیہ دو کم سن بچیوں کو لے کر میکے چلی گئیں۔ آپ اہلیہ کو واپس گھر آنے کے لیے پیغام بھجواتے رہے لیکن اپنے خاندان کے دباؤ کی وجہ سے وہ واپس گھر نہ آسکیں۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے پہلےدونوں بچیوں کی وفات ہوئی اور چند سال بعد آپ کی اہلیہ بھی وفات پا گئیں۔ آپ کے بہنوئی نے آپ کی بہن سے علیحدگی اختیار کرلی جو بعد ازاں ساری زندگی مطلقہ ہی رہیں۔ آپ کو مارا پیٹا گیا، گلے میں پھندا ڈال کر جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی گئیں، مختلف قسم کے لالچ دیے گئے۔ جب کوئی بھی تدبیر کارگر نہ ہوئی تو یہ کہا گیا کہ بے شک دل سے احمدی رہو لیکن ظاہری طور پر احمدیت سے تائب ہونے کا اعلان کر دو تاکہ برادری میں ہماری لاج رہ جائے۔ غرض ہر قسم کی مخالفت کے باوجود آپ اپنے ایمان و یقین پر نہ صرف قائم رہے بلکہ خاندان اور دیگر متعلقین کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ سرورِ کونین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک قول ہے کہ جو اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے اس کی موت گویا جہالت کی موت ہوگی۔ آپ کے چھوٹے بھائی رائے ظہور احمد ناصر صاحب (خاکسار کے والد) بیان کرتے تھے کہ میں ان دنوں بہت چھوٹا تھا لیکن یہ سب واقعات میری آنکھوں کے سامنے ہورہے تھے۔ بھائی جان مار اس لیے نہیں کھاتے تھے کہ آپ کمزور تھے یا جواب نہیں دے سکتے تھے بلکہ محض اس بنا پر کہ اب میں نے جس کی بیعت کر لی ہے اس کی تعلیم یہ ہے کہ گالیاں سُن کر دعا دو پا کے دُکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ اِنکسار قادیان ہجرت: خاندان نے جب مخالفت کا ہر حربہ آزما لیا تو بالآخر آپ کو عاق کرنے کا فیصلہ ہوا۔ آپ نے اس فیصلہ کی کوئی پروا نہ کی اور والدہ محترمہ اور چھوٹے بہن بھائیوں کو روتا چھوڑ کر کچھ عرصہ آنبہ میں رہے اور پھر قادیان دارالامان ہجرت کر گئے جہاں آپ کو حکیم نظام جان صاحب کی شاگردی میں کچھ طب پڑھنے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلند اور سریلی آواز سے نوازا تھا۔ آپ کو منارۃ المسیح پر اذان دینے کا بکثرت موقع ملتا رہا۔ قادیان سے گھر واپسی: تین سال تک آپ قادیان میں رہے اور خطوط کے ذریعہ اپنی والدہ محترمہ سے رابطہ رکھا۔ آپ کے جانے کے بعد گھر کے معاشی حالات دن بدن خراب ہوتے گئے جس کی وجہ سے آپ کے والد صاحب کی ضد میں کچھ کمی آئی اور آپ کو واپس گھر آنے کی اجازت دے دی۔ آپ واپس گھر آگئے لیکن خاندان میں بدستور شدید مخالفت کی وجہ سے آپ کا اس علاقے میں رہنا مشکل ہو گیا۔ بھاکا بھٹیاں ہجرت: ان حالات میں بھاکا بھٹیاں ضلع شیخوپورہ کے ایک مخلص احمدی رئیس میاں سردار خاں بھٹی صاحب کی دعوت پر آپ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ بھاکا بھٹیاں ہجرت کر گئے اور یہاں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ اللہ کے فضل سے آپ بہت باہمت اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔ زمین ٹھیکہ پر حاصل کر کے آپ والد صاحب کے ہمراہ کاشتکاری میں مشغول ہو گئے۔ آپ کے گھر واپس آنے سے معاشی حالات بہت بہتر ہو گئے اور ایک ویران گھرگویا پھر سے آباد ہو گیا۔ گھر میں والد صاحب کی غیر موجودگی میں آپ اپنی والدہ محترمہ مراد بی بی صاحبہ اور دیگر بہن بھائیوں کو احمدیت کے عقائد کے بارے میں سمجھاتے رہے جس کے نتیجے میں آپ کی والدہ اور چھوٹے بھائی (خاکسار کے والد) نے آٹھ سال کی عمر میں بیعت کر لی تاہم گھر میں فساد سے بچنے کے لیے اس بیعت کو کچھ عرصہ خفیہ رکھا گیا۔ والدہ صاحبہ کی وفات: آپ کے قادیان ہجرت کے دنوں میں پیچھے والدہ صاحبہ گھر کے حالات اور بڑے بیٹے کی جدائی میں بہت بیمار رہنے لگی تھیں۔ قادیان سے واپسی پر آپ نے اپنی والدہ کی بہت خدمت کی اور ان کا علاج بھی کرتے رہے جس سے آپ کی صحت کافی حد تک بہتر ہو گئی تھی لیکن ۱۹۳۴ء کے آخر میںپچاس سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوگئی۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ کی والدہ کی وفات پر گھر میں ایک دفعہ پھر ہنگامہ کھڑا ہو گیا جب آپ کے والد صاحب بیٹے کو جنازہ اٹھانے نہ دیتے تھے۔ چنانچہ احمدیوں اور غیر احمدیوں نے الگ الگ نماز جنازہ ادا کی۔ آپ کے والد رائے میاں محمد مراد صاحب کی بیعت: آپ کی شدید خواہش تھی اور اس کے لیے آپ دعا بھی کر رہے تھے کہ کسی طرح والدمحترم رائے میاں محمد مراد صاحب بیعت کے لیے راضی ہو جائیں۔ تا ہم گھر میں والد صاحب سے عقائد کے اختلاف کا سلسلہ ایک طویل دور تک چلتا رہا۔ خاکسار کے والد جو گھر میں سب سے چھوٹے تھے بیان کرتے ہیں کہ مارچ ۱۹۴۷ء کی مجلس مشاورت کے موقع پر میں والد صاحب کو بصد منت اپنے ساتھ قادیان لے گیا۔ قادیان کے پاکیزہ ماحول کا والد صاحب پر کچھ اثر تو تھا تاہم آپ خاموش تھے۔ مجلس مشاورت کے اختتام پر ہم دونوں باپ بیٹا قصرِ خلافت میں بغرض زیارت و ملاقات حاضر ہوئے۔ حضور (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ) نے اٹھ کر بلکہ چند قدم چل کر ہمارا استقبال کیا۔ جیسے ہی والد صاحب کی نظر حضورؓ کے چہرۂ مبارک پر پڑی تو آپ بڑی بے تابی سے روتے بلکہ چیختے ہوئے حضورؓ سے لپٹ گئے۔ بار بار یہ کہتے تھے کہ یا حضرت! میں بھولا رہا اور آپ کے خلاف برا بھلا بھی کہتا رہا ہوں مجھے معاف فرمائیں اور میری بیعت قبول فرمائیں۔ حضورؓ نے آپ کو سینے سے لگایا اور دل جوئی فرماتے ہوئے دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ جب والد صاحب کی بیعت کی خبر بھائی جان کو ملی تو آپ کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ آپ نے فرمایا کہ تم اس معاملہ میں مجھ سے نمبر لے گئے ہو۔ بیعت کرنے کے تقریباً ایک سال بعد آپ کے والد صاحب بعمر چونسٹھ سال وفات پا گئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ جذبۂ تبلیغ: جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے احمدی ہونے سے پہلے تلاشِ حق کی جستجو میں آپ نے کئی سال خرچ کیے اور پوری تحقیق اور تسلی کے بعد بیعت کرنے کا فیصلہ کیا۔ بیعت کرنے کے بعد آپ کو تین سال تک قادیان میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دروس میں شمولیت اور بعض دیگر بزرگان جن میں نمایاں نام حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ عنہ کا ہے (جن کے ساتھ آپ کا بڑا دوستانہ تعلق تھا) کی صحبت میں رہنے کا موقع ملا جس سے آپ کے علم و معرفت میں اضافہ ہوا اور اختلافی مسائل میں آپ کو کافی حد تک دسترس حاصل ہو گئی۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح کے خطابات کو پوری توجہ سے سنتے اور نوٹس لیتےتھے۔ حوالہ جات کے لیے احمدیہ پاکٹ بک مصنفہ ملک عبدالرحمٰن خادم صاحب سفر و حضر میں ساتھ رکھتے تھے۔ قادیان سے واپسی پر گھر کو چلانے کے لیے آپ کا اصل پیشہ تو کاشتکاری تھا لیکن آپ کا دل تبلیغِ احمدیت کے لیے ہروقت بے تاب رہتا تھا۔ چنانچہ اپنے علاقے میں تقریباً ہر فرقے کے لوگوں کے ساتھ آپ نے تبلیغی پروگرام اور مناظروں کا اہتمام کیا جس کے لیے مرکز سے نمائندے بھی تشریف لاتے رہے۔ خانقاہ ڈوگراں کے دو پادری صاحبان کو تبلیغ کی غرض سے تقریباً ہر اتوار کو گھوڑے پر جاتے اور یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا۔آخر ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام سچا اور برحق ہے لیکن ہم نے اپنا گھر بھی چلانا ہے ہم عیسائیت کو چھوڑ نہیں سکتے۔ ان کے اس اعتراف کے بعد آپ نے وہاں جانا چھوڑ دیا۔ دیہاتی تقریبات اور میلوں میں ٹریکٹس تقسیم کرتے اور احمدی شعراء کے پنجابی کے تبلیغی ڈھولے بلند آواز اور ترنم سے پڑھا کرتے تھے۔ بڑی باقاعدگی سے جلسہ سالانہ قادیان پر جاتے اور زیر تبلیغ دوستوں کو اپنے خرچ پر ساتھ لے جاتے تھے۔ جلسہ پر بلند اور پرجوش نعرے لگوانے والوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ آپ نہایت بہادر اور نڈر انسان تھے۔ خاکسار کے قبلہ والد صاحب آپ کی بہادری اور جوشِ ایمانی کے بہت سے واقعات سنایا کرتے تھے۔ مضمون کی طوالت کے پیش نظر سب کا بیان کرنا ممکن نہیں۔ ایک واقعہ عرض کرتا ہوں جو تقسیم ہند سے پہلے کا ہے۔ علاقے میں آپ کی تبلیغی اور مناظرانہ سرگرمیوں کی بنا پر شیعہ حضرات کے ساتھ خانقاہ ڈوگراں میں مناظرہ ہونا طے پایا۔ مخالفین نے اپنی طرف سے چالاکی سے یہ شرط رکھی کہ آپ نے قادیان سے کوئی مناظر نہیں منگوانا۔ آپ نے ان کی یہ شرط بھی تسلیم کر لی۔مقامی احمدی دوستوں نے یہ کہہ کر شمولیت سے انکار کر دیا کہ مرکز سے مناظر نہ منگوانے کی شرط نامناسب ہے۔ چونکہ آپ وعدہ کر چکے تھے اور مناظرہ طے پا چکا تھا آپ نے کہا کہ مومن وعدہ خلافی نہیں کرتا اگر ایک بھی ساتھی نہ ملا تو میں اکیلا مناظرہ کروں گا۔ شہر میں اس مناظرے کی خوب تشہیر کی گئی۔ دو معزز تاجر (ایک ہندو اور ایک اہلِ سنت) مناظرے کے صدر قرار پائے۔ والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ بھائی جان اپنے ساتھ ایک احمدی دوست ماسٹر غلام احمد صاحب (سکول ٹیچر) اور مجھے لے گئے جبکہ میں اس وقت پرائمری سکول کا طالب علم تھا۔سینکڑوں افراد اور پولیس کی موجودگی میں مناظرہ شروع ہوا۔ ہماری طرف سے ماسٹر غلام احمد صاحب مقرر تھے اور بھائی جان کتب سے حوالے نکال کر معاونت کر رہے تھے۔ ہر مقرر کے لیے دس منٹ وقت رکھا گیا تھا۔ شیعہ مقرر ہمارے دلائل کی تاب نہ لا کر پانچ منٹ تقریر کر کے بیٹھ جاتا تھا۔اس طرح ہمارے مقرر کو پندرہ منٹ مل جاتے۔ ایسا تقریباً ہر بار ہوا اور اس طرح ہمارے مقرر کو حاضرین کی طرف سے خوب داد ملتی رہی۔ مناظرہ دو اڑھائی گھنٹے تک جاری رہا۔ اس وقت کے پنجاب کے اخبارات میں مناظرہ کا تذکرہ ہوا خصوصاًاخبار زمیندار نے اسے جماعت احمدیہ کی اہل تشیع کے بالمقابل ایک عظیم فتح قرار دیا۔ جماعتی خدمات: مقامی جماعت میں آپ ایک لمبا عرصہ بطور امام الصلوٰۃ،سیکرٹری تبلیغ اور سیکرٹری مال خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ قرآن کریم کی خوش الحانی سے تلاوت کرتے اور نماز فجر کے بعد تفسیر کبیر سے درس دیا کرتے تھے۔ خدمتِ خلق: خدمت خلق کا کوئی موقع آپ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔بہت مہمان نواز تھے خصوصاً مرکز سے آنے والے مہمانوں کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے۔ طب سے بھی آپ کو شغف تھا۔ روز مرہ استعمال ہونے والی ادویات ہمیشہ گھر میں رکھتے۔ غریب اور نادار مریضوں کو مفت یا معمولی قیمت پر دے دیتے تھے۔ تعلقاتِ عامہ: آپ کا حلقہ ٔاحباب بہت وسیع تھا۔اپنوں اور غیروں کے ساتھ تعلقات بنا کر رکھتے تھے۔ بہادری اور حق گوئی کی وجہ سے علاقے میں آپ کی ایک پہچان تھی۔ غیرازجماعت بھی اپنے جھگڑوں کے فیصلے آپ سے کرواتے تھے۔ کلائی پکڑنے میں ماہر اور اپنے علاقہ میں چیمپین سمجھے جاتے تھے۔ مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع قادیان کے موقع پر ایک سال اوّل پوزیشن حاصل کرنے پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ) جو خود بھی کلائی پکڑنے کے ماہر تھے نے آپ کے ساتھ کلائی پکڑنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے پیغام بھجوایا۔ آپ نے جواب دیا کہ محترم میاں صاحب کے ساتھ میرا عقیدت اور احترام کا تعلق ہے میں ان کے ساتھ کلائی نہیں پکڑ سکتا۔ ان کے علاوہ جس کو مرضی لے آئیں۔ حضور نے آپ کی اس بات کو یاد رکھا اور خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد ایک ملاقات میں والد صاحب سے اس کا ذکر فرمایا۔ بھائیوں میں محبت: خاکسار کے والد صاحب اپنے مرحوم بھائی سے تقریباً ۱۷؍سال چھوٹے تھے۔ ایک بات جس کو ہم سب بہن بھائیوں نے محسوس کیا وہ والد صاحب کی اپنے مرحوم بھائی سے عشق کی حد تک محبت تھی۔آپ گھر میں اکثر اپنے بھائی جان کی زندگی کے حالات و واقعات سنایا کرتے تھے اور ہر بار آپ کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔ یہ محبت یقیناً دو طرفہ تھی۔والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں میری صحت اچھی نہ رہتی تھی جس کی بھائی جان کو بہت فکر تھی۔ آپ میرا ہر طرح سے خیال رکھتے اور اپنی نگرانی میں بعض ورزشیں کرواتے تھے۔ نیز بھائی جان کے کہنے پر ہی مجھے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے پہلے فوج میں بھرتی ہونے اور تقسیمِ ملک کے بعد حفاظت مرکز کے لیے قادیان میں تین سال تک رہنے کا موقع ملا۔ آپ کی دوسری شادی: بیعت کرنے کے تقریباً دس سال بعد آپ کی دوسری شادی ایک مخلص احمدی گھرانے میں ہوئی۔اس شادی سے آپ کے ہاں چار بچے پیدا ہوئے جن میں سے دو کم سنی میں وفات پا گئے جبکہ دیگر دو بچے محمد جلال شمس اور ذوالفقار قمر کی عمریں بالترتیب ساڑھے تین سال اور نو ماہ کی ہی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بلاوا آگیا۔ باوجود بہت اچھی صحت ہونے کے ۱۹۴۸ء میں چالیس سال کی عمر میں آپ اپنے مولیٰ حقیقی سے جا ملے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ بھاکا بھٹیاں میں اپنے والدین کے پہلو میں آپ کی تدفین عمل میں لائی گئی۔ آپ کے بڑے بیٹے ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب کو اللہ تعالیٰ نے زندگی وقف کرنے کی توفیق دی۔ جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ نے ترکی زبان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔بطور مربی سلسلہ آپ کو لمبا عرصہ جرمنی اور بعد ازاں انگلستان میں خدمت کی توفیق ملی۔ ۲۰۰۷ء سے تا دم آخر آپ ٹرکش ڈیسک کے انچارج رہے۔ ۱۹؍دسمبر ۲۰۲۳ء کو اناسی سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔ انا للہ ونا الیہ راجعون۔سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کا خطبہ جمعہ میں ذکر خیر فرمایا اور نماز جنازہ پڑھائی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے اپنے تایا جان رائے محمد امیر صاحب کو اپنی ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن وہ تمام بزرگان جنہوں نے آپ کو قریب سے دیکھا ہمیشہ آپ کو آہ بھر کر یاد کرتے اور گواہی دیتے تھے کہ وہ شخص بہت سی خوبیوں کا مالک اور ایک مردِ مجاہد تھا جس نے نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پورے علاقہ کی مخالفت کے باوجود بیعت کرنے کے بعد بیعت کا حق ادا کر دیا۔خلافت اور احمدیت سے آپ کو والہانہ محبت تھی اورخلیفۂ وقت کے ہر حکم پر فوری عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ محترم سید لال شاہ صاحب مرحوم جن کے ذریعہ سے آپ نے بیعت کی توفیق پائی تھی نے ایک مجلس میں آپ کے بیٹے محمد جلال شمس (جبکہ آپ جامعہ احمدیہ کے طالب علم تھے)کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم بہت چھوٹے تھے جب تمہارا باپ اس فانی دنیا سے رخصت ہوا اور تم اپنے باپ کے حالات سے واقف نہیں لیکن میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے ذریعہ سینکڑوں احمدی ہونے والوں میں تمہارا باپ ایک نمبر کا فدائی احمدی تھا۔ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ عنہ نے آپ کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اپنے مخصوص پنجابی لہجے میں آہ بھرتے ہوئے فرمایا کہ ’’محمد امیر تاں میرا یار سی۔‘‘ قارئین الفضل کی خدمت میں دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے اور آپ کی قربانیوں کی وجہ سے آپ کا خاندان جو آج دنیا کے مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہے کویہ توفیق دے کہ اپنے اس محسن بزرگ کو نہ صرف اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں بلکہ آپ کے حسین اسوہ کو اپنانے کی کوشش کرتے رہیں۔ اللہ کرے کہ آپ جیسے فدائی اور جان نثار احمدی آئندہ نسلوں میں بھی ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں۔ آمین یا رب العالمین (رائے مظہر احمد۔ بیلجیم) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مکرم رشید احمد کاہلوں صاحب