٭…آنحضورﷺ نے فرمایا کہ سلام خوب پھیلانا یعنی سلامتی کو رواج دینا، لوگوں کو کھانا کھلانا، الله تعالیٰ سے اِس طرح حیا کرنا جس طرح ایک باوقار آدمی اپنے گھر والوں سے شرماتا ہے۔ جب بھی کوئی غلطی یا گناہ ہو جائے، اُس کے فوراً بعد نیکی کر لیا کرنا، کیونکہ نیکیاں گناہوں کو مٹا ڈالتی ہیں ٭… مکرم ڈاکٹر سیّد شہاب احمد صاحب آف کینیڈا اور مکرم مبارک کھوکھر صاحب آف لاہور کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۲؍ستمبر ۲۰۲۵ء بمطابق ۱۲؍تبوک۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۲؍ستمبر۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمدصاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: غزوۂ حنین کے حوالے سے ذکر کر رہا تھا، اِس کی مزید تفصیل یوں ہے کہ جنگِ حنین میں بھی الله تعالیٰ کی طرف سے ایسے لشکروں کے نازل کیے جانے کا ذکر ملتا ہے، جنہیں فرشتوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔مفسّرین اور سیرت نگاروں نے اِس جنگ میں فرشتوں کے نزول پر مختلف بحثیں کی ہیں۔ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ فرشتے جنگ میں عملاً شریک ہوئے۔ البتہ یہاں یہ ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ نصرت کے لیے تو ایک ہی فرشتہ کافی تھا، تو ہزاروں فرشتے کیوں نازل ہوئے۔ امام ابنِ کثیر رحمہ الله صحیحین میں موجود عرصۂ جنگ میں فرشتوں کے نزول کی احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ الله کی طرف سے فرشتوں کا نزول اور مسلمانوں کو اِس کی اطلاع بطورِ خوشخبری تھی، ورنہ الله اِس کے بغیر بھی اپنے دشمنوں کے خلاف مسلمانوں کی مدد کر سکتا ہے، اِس لیے اُس نے فرمایا ہےکہ مدد صرف الله کی طرف سے ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی یہ بات بیان فرمائی ہے کہ قرآن میں فرشتوں کی مدد کی خوشخبری کا واقعہ ہے تاکہ مومنوں کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچے اور معرکے میں اُنہیں کوئی ڈر نہ ہو۔ پس الله تعالیٰ نے قرآن میں مومنوں سے وعدہ کیا اور اُنہیں خوشخبری دی کہ وہ پانچ ہزار فرشتوں سے اُن کی مدد کو آئے گا۔ اِس عدد کو زیادہ کر کے اِس لیے دکھایا تاکہ اُن کے لیے خوشخبری ہو۔ دشمن کی شکست اور فرار کے بارے میں پہلے یہ تفصیلات بیان ہو چکی ہیں کہ آپؐ نے جب انصار کو پُکارا اور وہ واپس آ گئے اور پھر خوب جوش و خروش سے لڑنے لگے۔ اِس کے ساتھ ہی نبیٔ اکرمؐ نے دعا کی اور اپنے ہاتھ سے کنکریوں کی مُٹھی کفّار کی طرف پھینکی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنو ھوازن، جن کا یہ دعویٰ تھا کہ آج تک محمد (صلی الله علیہ وسلم) کا مقابلہ کسی جنگجو قوم سے ہوا ہی نہیں، ہم سے مقابلہ ہو گا تو ہم بتائیں گے کہ جنگ کیا ہوتی ہے۔ اور جو فی الحقیقت عرب کے طاقتور ترین قبائل میں سے ایک تھا۔ وہ تھوڑی ہی دیر میں شکست کھا کے بھاگنے لگے۔ اپنے بیوی بچوں اور مال مویشی کی کسی کو خبر نہ رہی۔ مسلمانوں کے ہاتھوں بہت سے لوگ قتل ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں قید ہوئے اور بھاگنے والوں کی بھاری تعداد اَوطاس کی طرف بھاگ گئی۔ ھوازن کے راہِ فرار اختیار کرنے کے باوجود ثقیف قبیلہ کےجنگجو ڈٹے رہے اور نہایت دلیری سے لڑتے رہے، یہاں تک کہ اُن کے ستّر لوگ مارے گئے۔ اُن کا سب سے آخری عَلَمبردار عثمان بن عبدالله تھا، جب وہ قتل ہوا، تو پھر ثقیف بھی بھاگ گئے۔ اِس جنگ میں چار صحابہؓ شہید ہوئے۔ اِن کے نام ہیں: حضرت اُمِّ ایمن رضی الله عنہاکے بیٹے ایمن بن عُبَیْدؓ۔ سُراقہ بن حارثؓ، یزید بن زمعہؓ اورچوتھے حضرت ابو عامرؓ تھے۔ ایک راوی بیان کرتے ہیں کہ جب کفّار کو شکست ہو گئی اور مسلمان اپنے اپنے خیموں کی طرف چلے گئے، تو مَیں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپؐ لوگوں کے درمیان چل رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ مجھے خالد بن ولید تک کون پہنچائے گا؟ جب اُن کے پاس پہنچے، تو خالد کجاوے کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے، حضورؐ خالد کے پاس بیٹھ گئےاور زخم دیکھ کر اپنا لُعاب ِ دہن لگایا۔ جس سے اُنہیں شفا ہو گئی۔ اہلِ مکّہ اور مدینہ کو فتح حنین کی بشارت بھیجی گئی۔ ابتدا میں جب حنین کے میدان سے کچھ مسلمان بھاگے، تو اِن میں سے کچھ تو مکّہ چلے گئے اور وہاں یہ بتایا کہ مسلمانوں کو شکست ہو چکی ہے اور محمدؐ نعوذبالله قتل ہو گئے ہیں۔ اِس خبر سے مکّے میں موجود منافقین اور جن کے دلوں میں بغض تھا، وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ اب عرب اپنے آبائی دین پر واپس آ جائیں گے۔ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ حنین سے یہ خوشخبری بھی آ گئی کہ مسلمانوں کو فتح ہوئی ہے اور بنو ھوازن بہت بُری طرح شکست کھا کر بھاگ گئے ہیں۔ فتح مکّہ کے ذکر سے معاً قبل خطبہ میں سریّہ اِضم کی تفصیل میں یہ ذکر ہوا تھا کہ ایک صحابی مَحلِّمْ بن جثامہ نے ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا کہ جس نے گزرتے ہوئے السلام علیکم کہا تھا، لیکن اِس کے باوجود اُنہوں نے اِس کو قتل کیا۔ اِس واقعے کی کچھ مزید تفصیل بھی بیان کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ غزوۂ حنین کے بعد جب آنحضرتؐ غزوۂ طائف کے لیے روانہ ہو رہے تھے کہ ایک دن نمازِ ظہر کے بعد آپؐ ایک درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے، عُیَیْنَہ بن حِصن اُٹھا، اِس نے مقتول عامر بن اَضبط اشجعی کے خون کا مطالبہ کیا۔ اِس کے ساتھ ہی اقرع بن حابس اُٹھا، وہ مَحلِّمْ بن جثامہ کو بچانا چاہتا تھا، اِن دونوں نے آپؐ کے سامنے بحث شروع کر دی۔ آنحضرتؐ نے عُیَیْنَہ کو فرمایا کہ دیّت لے لو، پچاس اونٹ ابھی لے لو اور پچاس اونٹ مدینے پہنچ کر لے لینا۔ لیکن اُس نے دیّت لینے سے انکار کر دیا۔ بہرحال کچھ گفت و شنید کے بعد آخر اُن لوگوں نے دیّت قبول کر لی۔ قاتل مَحلِّمْ ایک طرف کھڑا تھا، وہ قصاص کے لیے تیار ہو کر آیا تھا کہ اب تو میری موت آئی۔ دیّت وغیرہ کا فیصلہ ہونے کے بعد مَحلِّمْ اُٹھ کر آنحضرتؐ کے پاس بیٹھ گیا، اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، اُس نے عرض کیا کہ جو بات آپؐ تک پہنچی ہے ، مَیں اِس سے الله کے حضور توبہ کرتا ہوں۔ آپؐ بھی میرے لیے بخشش کی دعا فرمائیں۔ آپؐ نے پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے؟ اُس نے کہا کہ مَحلِّمْ بن جثامہ۔ آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم نے شروع اسلام میں اُس کو قتل کر دیا اور آپؐ نے بلند آواز سے کہا کہ اَے الله! مَحلِّمْ کو نہ بخشنا! یہ جملہ سب نے سنا۔ اُس نے دوبارہ کہا کہ یا رسول اللهؐ! مَیں معافی مانگتا ہوں۔ آپؐ بھی میرے لیے معافی طلب کریں۔ آپؐ نے پھر بلند آواز سے کہا تاکہ لوگ سن لیں کہ اے الله! مَحلِّمْ بن جثامہ کو معاف نہ کرنا۔ اور اُس نے تیسری بار پھر کہااور آپؐ نے تیسری بار بھی وہی کہا، پھر رسول اللهؐ نے اُسے فرمایا کہ میرے سامنے سے اُٹھ کر چلے جاؤ ۔ ابنِ اسحٰقؒ کی بھی ایک روایت ہے کہ اِس کی قوم کے لوگ بیان کرتے ہیں کہ بعد میں آنحضرتؐ نے اِس کی بخشش کی دعا بھی کی تھی۔ سریّہ اَوطاس کی تفصیل یوں ہے کہ حنین کے میدان سے بُری طرح شکست کھانے کے بعد بنو ھوازن کا لشکر، جدھر اُن کا منہ اُٹھا، اُس طرف بھاگ گئے۔ اِس کا ایک حصّہ، جس میں بنو ھوازن کا سپہ سالار مالک بن عوف بھی تھا، وہ طائف کی طرف بھاگا اور طائف کے قلعے میں پناہ لے لی اور ایک حصّہ اَوطاس کی وادی میں جمع ہو گیا اور ایک نخلہ یعنی نخیلہ کی طرف بھاگ گیا۔ بنو ھوازن چونکہ اپنے بیوی بچے اور سارے مال مویشی اپنے ساتھ لے کر حملہ آور ہوئے تھے۔ اور خود تو وہ بھاگ گئے اور اب یہ سب کچھ مالِ غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ آ گیا تھا۔ پھر سریّہ طفیل بن عَمرو دوسی، جو ذو الکفین کی طرف ہے، اِس کا ذکر ہے۔ یہ شوّال آٹھ ہجری میں ہوا۔آنحضرتؐ جب حنین سے طائف کی طرف چلنے لگے تو آپؐ نے طفیل دوسی کو ذو الکفین نامی بُت گرانے کے لیے بھیجا۔آنحضرتؐ نے اُن کو اِس مہم کا امیر مقرر فرمایا اور یہ نصائح فرمائیں کہ سلام خوب پھیلانا یعنی سلامتی کو رواج دینا، لوگوں کو کھانا کھلانا، الله تعالیٰ سے اِس طرح حیا کرنا جس طرح ایک باوقار آدمی اپنے گھر والوں سے شرماتا ہے۔ جب بھی کوئی غلطی یا گناہ ہو جائے، اُس کے فوراً بعد نیکی کر لیا کرنا، کیونکہ نیکیاں گناہوں کو مٹا ڈالتی ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ اپنی قوم کے لوگوں کو ساتھ لینا اور یہ کام مکمل کر کے واپس طائف چلے آنا۔چنانچہ آپؓ نے اپنی قوم کے چار سو افراد کو ساتھ لیا اور لکڑی کے بنے ہوئے اُس بُت کو آگ لگا کر جلا دیا۔ غزوۂ طائف، یہ بھی شوّال آٹھ ہجری میں ہوا اور طائف مکّہ سے مشرق کی جانب تقریباً نوّے کلومیٹر پر ایک مشہور شہر ہے۔ طائف نہایت مضبوط مقام تھا۔آپؐ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی سرکردگی میں ایک ہزار فوج کا ہراول دستہ روانہ کیا، اُنہوں نے وہاں پہنچ کر قلعہ یعنی طائف والوں سے مذاکرات کی کوشش کی، مگر وہ آمادہ نہ ہوئے۔حضرت خالد بن ولیدؓ کو روانہ کرنے کے بعد آنحضرتؐ نے خود بھی طائف کا رُخ فرمایا۔ اہلِ طائف ایک عرصہ سے اِس جنگ کے لیے تیاری کر رہے تھے۔نبیٔ اکرمؐ نے ابتدا میں طائف کے بہت قریب ایک کھلی جگہ پر پڑاؤ کیا۔ ابھی لشکر نے پوری طرح قیام بھی نہ کیا تھا کہ قلعے سے تیر اندازوں نے سخت تیر اندازی کر کے بہت سے مسلمانوں کو زخمی کر دیا۔ دورانِ محاصرہ دونوں طرف سے تیر اندازی اور پتھراؤ کے واقعات بھی پیش آتے رہے۔ اِس صورتحال سے نمٹنے کے لیےآنحضرتؐ نے منجنیق لگا کر اہلِ طائف پر بڑے بڑے پتھر پھینکے۔ اِسی دوران آنحضرتؐ نے ایک مرتبہ طائف والوں کے انگوروں کے باغات کاٹنے کا بھی حکم دیا، میرا خیال ہے کہ یہ آخری حربہ تھا ، جو ڈرانے کے لیے عام طور پر استعمال کیا ہو گا۔ کیونکہ بعد میں منسوخ بھی کر دیا تھا۔ آنحضرتؐ اور صحابہؓ نصف ماہ یا اِس سے بھی زائد عرصہ تک اہلِ طائف سے جنگ میں مصروف رہے۔ لیکن حنین کی شکست کا ایسا خوف اور رعب ان کے دلوں پر طاری ہو چکا تھا کہ وہ قلعے کے اندر سے لڑتے رہے اور باہر نہیں نکلے۔ ایک مرتبہ خالد بن ولیدؓ نے میدان میں نکل کر ثقیف کے بہادروں کو چیلنج کیا اور مبارزت کی دعوت دی ، لیکن بار بار کی پکار پر کوئی بھی باہر نہ نکلا، یہاں تک کہ ثقیف کے سردار عبد یالیل نے حضرت خالدؓ کو بلند آواز سے پکار کر کہا کہ ہم میں کوئی بھی تمہارے ساتھ مقابلہ پر نہیں آئے گا۔ ہم اپنے قلعے میں محفوظ ہیں اور سال بھر کے لیے ہمارے پاس کھانا اور خوراک ہیں۔ ہمیں کوئی فکر نہیں۔ خطبہ ثانیہ سے قبل ارشاد فرمایا کہ نماز کے بعد مَیں دو جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا ہے مکرم ڈاکٹر سیّد شہاب احمد صاحب جو آجکل کینیڈا میں تھے، بنیادی طور پر انڈیا کے تھے۔ گذشتہ دنوں چھیانوے سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔مرحوم موصی تھے۔ اِن کا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ آپ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت سیّد اِرادت حسین صاحبؓ آف صوبہ بہار کے نواسے تھے۔ آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے نفسیات میں ایم ایس سی کی، پھر بہار یونیورسٹی مظفر پور سے ایم اے کیا، بعد ازاں گلاسگو یونیورسٹی سکاٹ لینڈ سے اِسی مضمون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔مرحوم کو مختلف وقتوں میں ہندوستان اور کینیڈا میں جماعتی خدمت کی بھی توفیق ملی۔اِن کا ایک اہم کارنامہ صوبہ بہار انڈیا کی تاریخِ احمدیت کو مرتّب کرنا بھی ہے۔ دوسرا ذکر ہے، مبارک کھوکھر صاحب لاہور کا، جو ان شاء الله کھوکھر صاحب کے بیٹے تھے۔ یہ بھی گذشتہ دنوں اِکاسی سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ کے ساتھ خاص تعلق تھا، اُنہوں نے ہی اِن کا رشتہ اور شادی کروائی اورخلافت سے پہلے بھی اُن کے ساتھ بہت قریبی تعلق تھا۔جماعتی لحاظ سے کوئی ایسی اہم خدمت تو اِن کے سپرد نہیں ہوئی لیکن جماعتی خدمت کے لیے جب بھی اِن کو بلایا جاتا، یہ فوراً حاضر ہو جاتے۔ ٭…٭…٭