https://youtu.be/RTz1WqjNBKw سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشے محض سمجھے اور آستانۂ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے۔ اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لئے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اور بھی ترقی ہو۔ کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے۔ اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی۔ دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے۔ پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے(حضرت اقدس مسیح موعودؑ) جلسہ سالانہ برطانیہ۲۰۲۵ء اپنی تمام تر شان اور کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ الحمد للہ۔ دنیا بھر سے آنے والے مسیح موعود علیہ السلام کےمہمان اس جلسے میں شامل ہوئے اور اپنی اپنی قلبی وسعت و کیفیت کی مناسبت سے برکات کو سمیٹتے نظر آئے۔ دوران جلسہ جہاں عقیدت و سرشاری کے بے شمار مناظر نظر سے گزرے، کچھ مناظر نے سوچ کا ایک ایسا در وا کیا جو قارئین الفضل کی خدمت میں پیش ہیں۔ ایک خادم کو دیکھا جو جلسہ سالانہ کی گہما گہمی سے دُور ایسٹ ورلڈ ہیم کی ایک نیم تاریک و غیر آباد سڑک کے کنارے ڈیوٹی پر متعین تھا۔ ایک اَورخادم کو دیکھا جو عین جلسے کی گہما گہمی کے درمیان کوڑے کے تھیلے کو خالی کر رہا تھا۔ پھر کچھ احباب کو دیکھا جن کے ذمہ نظافت کی ڈیوٹی تھی۔ پھر پارکنگ کے اس احاطے میں کچھ خدام رات گئے مستعد نظر آئے جہاں اپنی گاڑیوں میں بیٹھنے کے بعدشاملین جلسہ نےجلد سے جلد گاڑیوں کی اس لمبی قطار سے نکل کر اپنی اپنی منزل مقصود پہ جانا ہوتا ہے۔ پھر رات کی خنکی میں ہیمپشائر کی اس خیمہ بستی پہ حفاظت کی ڈیوٹی پر معمور وہ نوجوان جو میری نظروں سے اوجھل رہے اور ایسے بے شمار خدمت گار جو نظروں سے اوجھل ہی رہتے ہیں۔ آئیں ایک اور منظر دیکھتے ہیں۔ قادیان دارلامان۔ دسمبر کی اُس خنک شام مسیحؑ کی اِس مقدّس بستی کی جانب قافلہ رواں دوا ں تھا۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اور جیسے جیسے منزل قریب آتی جارہی تھی مسافروں کے چہرے فرطِ اشتیاق سے مغلوب ہوتے جا رہے تھے۔ مغرب کا وقت قریب تھا جب نعرہ ہائے تکبیر کی صداؤں سے فضا گونج اٹھی۔ یہ احساس کہ ہم اس بستی میں پہنچ چکے ہیں جہاں خدا کے فرستادہ نے زندگی گزاری تھی ایک عجیب کیفیت پیدا کر رہا تھا۔ جلسہ کے ان مبارک دنوں میں قادیان میں ایک چہل پہل کا الگ ہی عالم تھا۔ اذان کی آواز سنی تو قدم کشاں کشاں دارالمسیح کی جانب اٹھنے لگے۔ مسجد مبارک میں نماز پڑھتے ہوئے بس ایک دعا تھی جو دل سے نکلتی اور لفظوں کا روپ دھار کر ہونٹوں تک پہنچتی اور وہ یہ تھی کے یا اللہ ! مسیح کے اس گھر جو’’امن است درمکان محبت سرائے ما‘‘ کا زندہ ثبوت ہےمیں کسی خدمت کی سعادت و توفیق عطا فرما۔ یہ دُعا کُچھ اس طرح قبول ہوئی کہ نماز کے بعد سیڑھیاں اتر ہی رہا تھا کہ دُور سے ایک شناسا آواز سنائی دی۔ کوئی میرا نام لے کر پوچھ رہا تھا دارالمسیح میں ڈیوٹی کرنی ہے؟ خدا کی حمد اور شکر گزاری سے دل بھر گیا۔ اس کے بعد کا وقت دن و رات کی تفریق بھلا گیا۔ نمازوں کے اوقات میں دارالمسیح کے مرکزی دروازے سے جوق در جوق نمازی داخل ہوتے۔ مختلف ملکوں، علاقوں اور شہروں سے آنے والے احباب سے صدر دروازے پر ڈیوٹی دیتے ہوئے ملاقات ہوتی۔ کبھی بیت الدعا میں خدمت کا موقع ملتا تو کبھی بیت الفکر میں، صبح دالان حضرت امّاں جان میں وقت گزرتا تو شام بیت الریاضت کے باہر گزرتی اور رات کسی راہداری میں کٹتی۔ خدا شاہد ہے کہ اس دوران کبھی تھکن کا شائبہ تک نہ ہوا اور ہمہ وقت دل میں ایک ایسا سرور بھرا رہتا کہ جس سے زندگی بھر اس سے قبل آشنائی نہ تھی۔ قادیان میں کوئی تیسرا دن تھا کہ دوپہر کے وقت ایک شفٹ کی مسجد اقصیٰ میں تعمیر شدہ بیت الخلا کی چھت پر ڈیوٹی آن لگی۔ اس جانب کسی کا آنا جانا نہ تھا۔ کہاں گذشتہ تین روز تھے کہ وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوتا تھا اور کہاں یہ کیفیت کہ وقت جیسے ٹھہر گیا ہو۔ ایک ایک منٹ یوں گزر رہا تھا جیسے گھنٹہ۔ وقت کاٹے نہیں کٹ رہا تھا۔ ایک ایسی ڈیوٹی جسے دیکھنے والا خدا کے سوا اور کوئی بھی نہ تھا۔ یہ کایا کلپ کا دن تھا۔ ایک ایسی حقیقت کو پانے کا دن تھا جس کو سمجھنا میرے لیے کسی اور صورت شائد ممکن ہی نہ ہوتا۔ تو کیا وہ سرور جو میں تین دن سے محسوس کر رہا تھا محض اس لیے تھا کہ میرا نفس مجھے دھوکا دے رہا تھا؟ یہ سرور ان ستائشی نظروں کا تھا جو آتے جاتے مجھ پر پڑتیں اور وجود میں کسی چور کی طرح داخل ہو کر تفاخر کا احساس پیدا کر تیں۔ مجھے معلوم تو تھا لیکن اس بات کا تجربہ نہ تھا ۔انسانی فطرت کس طرح کسی ایسے عمل کے نتیجے میں انسان کو تکبّر کاشکار کر دیتی ہے جسے اس کا نفس خوبصورت کرکے دکھائے۔ تکبّر تو ہر طرح کا بُرا ہے لیکن نیکی کی بنیاد پر تکبّر تو انسان کو برباد کردیتاہے۔ میں نے اپنی اس حالت پر غور کیا،دو مضامین ایک دوجے سے متصل معلوم ہوئے۔ ایک تو اپنی کسی صلاحیت، رتبے، نیکی یا اچھائی کے بارے میں یہ خواہش کہ دوسرے لوگ اس کو جانیں اور دُوجا یہ کہ کسی صلاحیت، رتبے، نیکی یا اچھائی کے نہ ہوتے ہوئے بھی انسان اس بات کی تمنا کرے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ وہ ان خوبیوں سے آراستہ ہے۔ اس احساس کے تابع جب اس مضمون پہ غور کیا تو معلوم ہوا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰٮہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلۡمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمۡعِہٖ وَقَلۡبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً (الجاثیہ :۲۴)کیا تُو نے اسے دیکھا ہے جو اپنی خواہش کو ہی معبود بنائے بیٹھا ہو اور اللہ نے اسے کسی علم کی بِنا پر گمراہ قرار دیا ہو اور اس کی شنوائی پر اور اس کے دل پر مہر لگادی ہو اور اسکی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہو؟ پھر ایک دوسری جگہ اس مضمون کو کچھ اس طرح بیان کیا کہ وَ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ وَ مَنۡ یَّکُنِ الشَّیۡطٰنُ لَہٗ قَرِیۡنًا فَسَآءَ قَرِیۡنًا۔ (النساء: ۳۹)اور وہ لوگ جو اپنے اموال لوگوں کے سامنے دکھاوے کی خاطر خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور نہ یومِ آخر پر۔ اور وہ جس کا شیطان ساتھی ہو تو وہ بہت ہی برا ساتھی ہے۔ سنن ابن ماجہ میں ایک حدیث ہے کہ حضرت جندبؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو ریاکاری کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی ریاکاری لوگوں کے سامنے نمایاں اور ظاہر کرے گا، اور جو شہرت کے لیے کوئی عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو رسوا اور ذلیل کرے گا۔ پھر حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بیٹھے مسیح دجال کا تذکرہ کررہے تھے،اس دوران رسول اﷲﷺ تشریف لائے اور فرمایا: کیا تمہیں وہ چیز نہ بتادوں جو میرے نزدیک تمہارے لیے دجال سے (یعنی دجال کے فتنہ سے ) بھی زیادہ خطرناک ہے ؟ ہم نے عرض کیا یارسول اﷲﷺ! ضرور بتلائیں، آپﷺنے ارشاد فرمایا: شرک ِخفی ( یعنی پوشیدہ شرک اس کی ایک صورت ) یہ کہ آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا ہو، پھر اس بناپر اپنی نمازکو مزین کردے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔(ابن ماجہ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بانیٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے احمدی کے لیے جو دس شرائط بیعت مقرر فرمائی ہیں اس میں ساتویں شرط تکبّر کو چھوڑنے اور عاجزی اور انکساری کے اختیار کرنے کے متعلق ہے چنانچہ فرمایا:’’یہ کہ تکبّر اور نخوت کو بکلّی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۶۰) ہمارے پیارے امام سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزشرائط بیعت کی شرط ہفتم کی تشریح میں فرماتے ہیں:’’پھر دوسری بات جو اس شرط میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ فروتنی اور عاجزی اورخوش خلقی اورحلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کروں گا۔ جیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ جب آپ اپنے دل ودماغ کو تکبّر سے خالی کرنے کی کوشش کریں گے، خالی کریں گے تو پھر لازماً ایک اعلیٰ وصف،ایک اعلیٰ صفت،ایک اعلیٰ خُلق اپنے اندرپیداکرنا ہوگا ورنہ پھر شیطان حملہ کرے گا کیونکہ وہ اسی کام کے لئے بیٹھا ہے کہ آپ کا پیچھا نہ چھوڑے۔ وہ خُلق ہے عاجزی اورمسکینی۔ اور یہ ہونہیں سکتاکہ عاجز اورمتکبر اکٹھے رہ سکیں۔ متکبر لوگ ہمیشہ ایسے عاجز لوگوں پر جو عبادالرحمٰن ہوں طعنہ زنیاں کرتے رہتے ہیں، فقرے کستے رہتے ہیں تو ایسے لوگوں کے مقابل پر آپ نے ان جیسا رویہ نہیں اپنانا۔بلکہ خداتعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا ہے فرمایا:وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا(الفرقان:۶۴) اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) کہتے ہیں ’’سلام‘‘۔(خطبہ جمعہ ۲۹؍اگست ۲۰۰۸ء) شیطان نے تخلیقِ آدم کے وقت سے ہی ٹھان لی تھی کہ وہ انسان کو عباد الرحمٰن نہیں بننے دے گا ۔ اپنے جال میں پھنسا کر رکھے گا کہ اس سے نیکیاں سر زد نہ ہوں اور اگر ہو بھی جائیں تو ان پر گھمنڈ کرنے لگے جو انسان کو آہستہ آہستہ تکبّر کی طرف لے جائے اور آخر کار وہ اس نیکی سے بھی محروم ہو جائے۔ حضور علیہ السلام کے دیگر ارشادات اس مضمون پر مزید روشنی ڈالتے ہیں جن سے تکبّر و خود نمائی سے بیزاری اور انکساری کی اہمیت عیاں ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’تکبّر بہت خطرناک بیماری ہے جس انسان میں یہ پیدا ہوجائے اس کے لئے رُوحانی موت ہے۔ میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ بیماری قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ متکبر شیطان کا بھائی ہوجاتا ہے۔ اس لئے کہ تکبّر ہی نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا۔ اس لئے مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبّر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے معموروں کا خاصہ ہوتا ہے ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ میں یہ وصف تھا ۔‘‘(ملفوظات جلد ۷ صفحہ ۳۱۲، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) پھر فرمایا:’’یہ سچی بات ہے کہ نفس امارہ کی تاروں میں جو…جکڑا ہوا ہے اس سے رہائی بغیر موت کے ممکن ہی نہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد۵ صفحہ ۲۳۹، ۲۴۰، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’جب تک انسان سچا مومن نہیں بنتا اس کے نیکی کے کام خواہ کیسے ہی عظیم الشان ہوں لیکن وہ ریا کاری کے ملمع سے خالی نہیں ہوتے۔… خواجہ صاحب نے ایک نقل بیان کی تھی اور خود میں نے بھی اس قصہ کو پڑھا ہے کہ سر فلپ سڈنی ملکہ الزبتھ کے زمانہ میں قلعہ زلفن ملک ہالینڈ کے محاصرہ میں جب زخمی ہوا تو اس وقت عین نزع کی تلخی اور شدت پیاس کے وقت جب اس کے لئے ایک پیالہ پانی کا جو وہاں بہت کمیاب تھا مہیا کیا گیا۔ تو اس کے پاس ایک اور زخمی سپاہی تھا۔ جو نہایت پیاسا تھا وہ سرفلپ سڈنی کی طرف حسرت اور طمع کے ساتھ دیکھنے لگا۔ سڈنی نے اس کی یہ خواہش دیکھ کر پانی کا وہ پیالہ خود نہ پیا بلکہ بطور ایثار یہ کہہ کر اس سپاہی کو دے دیا کہ ’’ تیری ضرورت مجھ سے زیادہ ہے ‘‘مرنے کے وقت بھی لوگ ریاکاری سے نہیں رکتے۔ ایسے کام اکثر ریاکاروں سے ہو جاتے ہیں، جو اپنے آپ کو اخلاق فاضلہ والے انسان ثابت کرنا یا دکھانا چاہتے ہیں‘‘۔ (تقریر حضرت مسیح موعود ۳۱؍جنوری ۱۸۹۸،ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۱۹۷، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) پھر فرمایا:’’پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشے محض سمجھے اور آستانۂ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے۔ اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لئے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبّر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اور بھی ترقی ہو۔ کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے۔ اگر انسان یہ عقیدہ رکھے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی۔ دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبّر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے۔ پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اسے حقیر سمجھتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد۷صفحہ ۱۹ و ۲۰ایڈیشن ۲۰۲۲ء)ایک اَور موقع پر یوں فرمایا کہ’’جس کے اعمال میں کچھ بھی ریاکاری ہوخدا اس کے عمل کو واپس الٹاکر اس کے منہ پر مارتا ہے۔‘‘(ملفوظات، جلد۲، صفحہ۳۰۱ و ۳۰۲، ایڈیشن ۱۹۸۴ء) حاجی حرمین شریفین حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ یہ نکتہ خوب سمجھتے تھے۔ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی ؓکا بیان ہے کہ ’’ ایک مرتبہ ایک ہندو بٹالہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا کہ میری اہلیہ سخت بیمار ہے۔ ازراہ نوازش بٹالہ چل کر اسے دیکھ لیں۔ آپؓ نے فرمایا حضرت مرزا صاحب سے اجازت حاصل کرو۔ اس نے حضرت کی خدمت میں درخواست کی۔ حضور نے اجازت دی۔ بعد نماز عصر جب حضرت مولوی صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے فرمایا کہ ’امید ہے آپ آج ہی واپس آ جائیں گے‘۔عرض کی بہت اچھا۔ بٹالہ پہنچے۔ مریضہ کو دیکھا۔ واپسی کا ارادہ کیا مگر بارش اس قدر ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گئے۔ ان لوگوں نے عرض کی کہ حضرت!راستے میں چوروں اور ڈاکوؤں کا بھی خطرہ ہے۔ پھر بارش اس قدر زور سے ہوئی ہے کہ واپس پہنچنا مشکل ہے کئی مقامات پر پیدل پانی میں سے گزرنا پڑے گا۔ مگر آپ نے فرمایا خواہ کچھ ہو۔ سواری کا انتظام بھی ہو یا نہ ہو۔ میں پیدل چل کر بھی قادیان ضرور پہنچوں گاکیونکہ میرے آقا کا ارشاد یہی ہے کہ آج ہی مجھے واپس قادیان پہنچنا ہے۔ خیر یکہ کا انتظام ہو گیا اور آپ چل پڑے۔ مگر بارش کی وجہ سے راستہ میں کئی مقامات پر اس قدر پانی جمع ہو چکا تھا کہ آپ کو پیدل وہ پانی عبور کرنا پڑا۔ کانٹوں سے آپ کے پاؤں زخمی ہو گئے مگر قادیان پہنچ گئے۔ اور فجر کی نماز کے وقت مسجد مبارک میں حاضرہوگئے۔ حضرت اقدس نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ کیا مولوی صاحب رات بٹالہ سے واپس تشریف لے آئے تھے۔ قبل اس کے کہ کوئی اور جواب دیتا آپ فوراً آگے بڑھے اور عرض کی حضور!واپس آگیا تھا۔ یہ بالکل نہیں کہا کہ حضور ! رات شدت کی بارش تھی، اکثر جگہ پیدل چلنے کی وجہ سے میرے پاؤں زخمی ہو چکے ہیں اور میں سخت تکلیف اٹھا کر واپس پہنچا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ بلکہ اپنی تکالیف کا ذکر تک نہیں کیا۔ ‘‘(حیات نور، صفحہ ۱۸۹، مؤلفہ حضرت شیخ عبدالقادر، سابق سوداگرمل) کس قدر لطیف بات ہے کہ محبوب کی خاطر جو تکلیف اٹھائی جائے اس کا ذکر تک محبوب سے نہ کیا جائے۔ کون بہادر ہے جو اس سے غنی ہو اور ایسا دل رکھتا ہو جو ایسی خواہش نہ کرے کہ تھوڑی تکلیف کو بھی التفات حاصل کرنے کی خاطر بڑھا چڑھا کر بیان کرے، جہاں جہاں نیکی کا حکم ہے وہاں ریاکاری سے بچنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل ؓایک بزرگ کا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ انہوں نے کئی سال تک باقاعدہ مسجد میں نمازیں پڑھیں تا کہ لوگ ان کی تعریف کریں لیکن خدا تعالیٰ نے ان کی کسی گزشتہ نیکی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ان کے متعلق یہ بات ڈال دی کہ سب لوگ انہیں منافق کہتے تھے۔(خواہش ان کی یہ تھی کہ لوگ تعریف کریں لیکن لوگ انہیں منافق کہتے تھے۔) آخر ایک دن ان بزرگ کو خیال آیا کہ اتنی عمر ضائع ہوگئی۔ کسی نے بھی مجھے نیک نہیں کہا۔ اگر خدا کے لئے عبادت کرتا تو خدا تعالیٰ تو راضی ہو جاتا۔ یہ خیال ان کے دل میں اتنے زور سے آیا کہ وہ اسی وقت جنگل میں چلے گئے۔ روئے اور دعائیں کیں اور توبہ کی اور عہد کیا کہ خدایا اب میں صرف تیری رضا کے لئے عبادت کیا کروں گا۔ جب واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ یہ شخص ہے تو بہت ہی نیک مگر معلوم نہیں لوگوں نے اسے کیوں بدنام کر رکھا ہے اور بچے اور بوڑھے سب اس کی تعریف کرنے لگے۔ اس بزرگ نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ خدایا صرف ایک دن میں نے تیری رضا کی خاطر نماز پڑھی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے میری تعریف شروع کر دی۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد ۱۷ صفحہ ۷۰۵) قبولیت اصل میں آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ اولیا اور نیک لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ وہ اپنے اعمال کو پوشیدہ رکھا کرتے ہیں اور اپنے صدق و صفا کو دوسروں پر ظاہر کرنا عیب جانتے ہیں۔ ہاں بعض ضروری امور کو جن کی اجازت شریعت نے دی ہے یا دوسروں کو تعلیم دنیے کے لیے اظہار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس بات کا فیصلہ انسان کا دل کر سکتا ہے کہ اصل میں اس کی نیت دنیا کو دکھانے کی ہے یا کسی کی اصلاح کی۔ پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍اپریل ۲۰۱۵ء میں عاجزی کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’عاجزی تو بعض دنیادار بھی بعض دفعہ دکھا دیتے ہیں بلکہ صرف اگر گریہ و زاری کا سوال ہے تو بعض دنیا دار ذرا ذرا سی بات پر ایسی گریہ و زاری کرتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ایسی جگہوں پر جہاں ان کے دنیاوی مفاد متاثر ہو رہے ہوں وہ ذلیل ترین ہونے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ یا عارضی طور پر جذبات کا اظہار بھی بعضوں سے ہوتا ہے۔ بعض حالات دیکھ کر، بعض لوگوں کی حالتیں دیکھ کر رحم بھی پیدا ہو جاتا ہے اور دردناک حالت دیکھ کر ان میں انتہائی جذباتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ سب یا تو اپنے مفادات کے لئے یا دنیا دکھاوے کے لئے یا ایک عارضی اور وقتی جذبے کے تحت ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا تو ان ظاہری باتوں سے بہت دُور ہوتا ہے۔‘‘ قیامت کے دن ایک شخص کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرکے پوچھا جائے گا کہ تم نے کون سی عبادت کی ہے؟ وہ جواب دے گا کہ میں نے اپنی جان راہ حق میں قربان کردی اور میدان جنگ میں مجھے شہید کر دیاگیا۔ اللہ تعالی فرمائے گا کہ تُو جھوٹا ہے کیونکہ تیرا جہاد اس غرض سے تھا کہ لوگ تجھے بہادری اورہمت مردانہ کا ایک نمونہ تصور کریں۔ اور اسے جہنم کے سپرد کر دیا جائے گا۔ پھر ایک اَور شخص کو حضور حق میں پیش کرکے پوچھا جائے گا کہ تم نے کون سی عبادت کی ہے؟ وہ عرض کرے گا کہ الٰہی ! میرے پاس جو کچھ تھا وہ میں نے تیری راہ میں صدقہ کردیا اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تیرا کہنا بالکل غلط ہے کیونکہ تیرا یہ فعل اس غرض سے تھا کہ لوگ تجھے بہت بڑا سخی سمجھیں اورا سے بھی جہنم کے حوالے کردیا جائے گا۔ پھر ایک اَور شخص کو حاضر کیا جائے گا اور اس سے بھی وہی سوال کیا جائے گا اور وہ جواب دے گا کہ میں نے علم قرآن حاصل کیا اور اس کے حصول میں بڑی تکالیف برداشت کیں۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو سراسر جھوٹا ہے کیونکہ علم قرآن سیکھنے سے تیرا مدعا یہ تھا کہ لوگ تیرے علم و فضل کے معتقد ہو جائیں اور کہا کریں کہ فلاں آدمی بڑا زبردست عالم ہے اور پھر اسے بھی دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم ) حضرت ابو امامہؓ نے ایک شخص کو مسجد میں بحالت سجدہ روتے اور گڑگڑاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:’’اے نیک بخت! یہ جو کچھ تو لوگوں کے سامنے مسجد میں کر رہا ہے اگر اپنے گھر میں علیحدہ ہو کر کرتا تو تیرا جواب نہ تھا۔(مجموعہ رسائل عقیدہ ، جلد اول صفحہ ۵۹۰ جامع الكتب الاسلاميۃ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص جب اپنے اسلام کو عمدہ بنا لے ( یعنی نفاق اور ریا سے پاک کر لے ) تو ہر نیک کام جو وہ کرتا ہے اس کے عوض دس سے لے کر سات سو گنا تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ہر برا کام جو کرتا ہے تو وہ اتنا ہی لکھا جاتا ہے ( جتنا کہ اس نے کیا ہے )۔(صحیح بخاری) ہمارے ایسے عمل جن کو کرتے ہوئے نیت خالص اللہ کی رضا نہ ہو بلکہ دکھاوا مقصد ہو یا پھر ہم کوئی بھی کام کسی کی دیکھا دیکھی شروع کریں تو وہ بھی دکھاوا یا ریاکاری ہے۔ روزمرہ کے معاملات میں ایسا ہوتا ہے کہ انسان خود کو ہر ایک کے سامنے اچھا اچھا پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے لیکن حقیقتاً وہ ایسا ہوتا نہیں جیسا نظر آنے کی کوشش کر رہاہوتا ہے۔ خود کو نیک پاک دکھانے کےلیے اور لوگوں کی واہ واہ سمیٹنے کی خاطر بھی یہ عمل کیا جاتا ہے جو کہ ریاکاری کے زمرے میں آتا ہے۔ ریاکاری اللہ کو پسند نہیں۔ ہم لوگوں کی نظروں میں اچھا بننے کےلیے خود کو اللہ کی نظروں میں گرا کر اللہ سے دور ہو جاتے ہیں۔ ریاکاری ہم اپنی ذات کی تسکین کےلیے کرتے ہیں کہ مجھے کوئی غلط نہ کہے۔ صدقہ خیرات کرتے ہیں تو اس لیے کہ لوگ سخی کہیں۔ اسطرح ریاکاری عمل کے خالص پن کو ختم کردیتی ہے۔ ہمارا عمل اللہ کی رضا کے حصول کے لیے نہیں ہوتا۔ ہماری نظر وقتی اور عارضی واہ واہ پر ہوتی ہے جو دنیاداری میں پھنسا ہونے اور آخرت کو بھول جانے کی نشانیاں ہیں، دنیا میں واہ واہ کی چاہ ہمیں اپنے اصل سے دور کر دیتی ہے۔ ہماری عبادت میں ریاکاری، دل میں اللہ کا احساس نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اللہ کے احساس سے غافل دل اللہ کی قربت میں کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟اس طرح ریاکاری ایسا عمل ہے جس سے ہم خسارے ہی خسارے میں ہیں۔ ریاکاری سے ہم اپنے ایمان کو کمزور بنالیتے ہیں۔ہم اپنے عمل کا بدلہ یہیں لوگوں سے ہی چاہتے ہیں جبکہ عمل کا بدلہ تو اللہ سے ہی ملے گا۔ اس طرح ہم اللہ پر یقین میں کمی کر کے اپنا نقصان کرتے ہیں۔ نیکیوں کا دکھاوا اور نمودو نمائش اللہ کے قرب سے دور کر دیتا ہے۔ریاکار میں اخلاص کی کمی ہوتی ہے جو اللہ کی آشنائی میں آگے بڑھنے نہیں دیتی کیونکہ اس کا نفس اس جھوٹے دکھاوے والے عمل کو اچھا کر کے دکھاتا ہے اور حق کی راہ سے دور کر دیتاہے۔ ریاکاری سے دل دنیاوی عزت اور چاہتوں میں ڈوبتا جاتا ہے جس کی وجہ سے دل دنیا کے جال میں پھنس کر رہ جاتاہے۔ دوسروں کے سامنے دکھاوا کرنا اور دنیا کے سامنے عزت بنانے کی چاہ میں ہم خود کو اللہ کی نظروں میں گرا لیتے ہیں۔ ریاکاری میں دل بہت زیادہ دنیا کی فانی چیزوں میں پھنسا ہوتا ہے اور ان کے ذریعے اپنی عزت بنانے میں لگا ہوتا ہے۔جس سے دل اللہ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے جو حقیقی عزت دینے والاہے۔ ریاکاری دکھاوے کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور دکھاوا اللہ سے دور کرتا ہے۔ریاکارکے کسی عمل کو بھی کوئی بھی سچا نہیں جانتا، سب اس ریا کاری کی وجہ سے اس کو فریبی سمجھ کر اس سے دور ہو جاتے ہیں۔ اور وہ سچے احساسات اور جذبے سے محروم ہوجاتا ہے کیونکہ وہ دکھاوے کے پیچھے بھاگتا ہے۔ اگر انسان کے اندر عاجزی کا احساس ہی ختم ہونے لگے تو اس کی انا کا وار ایسا گہرا ہوتا ہے جو اللہ کی آشنائی سے دوری کا باعث ہوتاہے۔ اللہ سے دل کا مضبوط رابطہ رکھ کر احساس، سوچ، عمل میں خالص نیت سے چلیں تو ریاکاری جیسی برائی سے بچ سکتے ہیں۔ دنیا وی واہ واہ، جھوٹی شان اور اپنے نفس پر گہری نظر رکھ کر اپنا محاسبہ کیا جائے جیسے ہی ریاکاری سر اٹھائے خود کو اس موذی سے بچایاجا سکتا ہے۔ پیارے آقاﷺ نے ریاکاری کو چھپا شرک قرار دیا ہے۔ یہ احساس ہو کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے تو ریاکاری سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہالریاءُ طلبُ المنزلةِ في قلوبِ الناسِ بإظهارِ العبادةِ۔ریایہ ہے کہ خود کو لوگوں کے سامنے پارسا ظاہر کیا جائے تاکہ لوگ اُسے پارسا سمجھ کر اس کے گرویدہ ہو جائیں، اُسے عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھیں، اُس کی تعظیم و احترام کریں اور اُسے اخلاق حسنہ کا نمونہ خیال کریں۔اس غرض سے وہ ایسی باتیں اختیار کرتا ہے جو بظاہر پارسائی اور دینی بزرگی کی دلیل ہوتی ہے۔(احیاء علوم الدین، جلد ۳، کتاب ریاء) حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’نیکی جو صرف دکھانے کی غرض سے کی جاتی ہے وہ ایک لعنت ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ کے وجود کے ساتھ دوسروں کا وجود بالکل ہیچ جاننا چاہئے۔ دوسروں کے وجود کو ایک مردہ کیڑا کی طرح خیال کرنا چاہئے کیونکہ وہ کچھ کسی کا بگاڑ نہیں سکتے اور نہ سنوار سکتے ہیں۔ نیکی کو نیک لوگ اگر ہزار پردوں کے اندر بھی کریں تو خدا تعالیٰ نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ اسے ظاہر کر دے گا اور اسی طرح بدی کا حال ہے۔ بلکہ لکھا ہے کہ اگر کوئی عابد زاہد خدا تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو اور اس صدق اور جوش کا جو اس کے دل میں ہے انتہا کے نقطہ تک اظہار کر رہا ہو اور اتفاقاً کنڈی لگانا بھول گیا ہو تو کوئی اجنبی باہر سے آکر اس کا دروازہ کھول دے تو اس کی حالت بالکل وہی ہوتی ہے جو ایک زانی کی عین زنا کے وقت پکڑا جانے سے۔ کیونکہ اصل غرض تو دونوں کی ایک ہی ہے یعنی اخفائے راز۔ اگرچہ رنگ الگ الگ ہیں۔ ایک نیکی کو اور دوسرا بدی کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے۔ غرض خدا کے بندوں کی حالت تو اس نقطہ تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے۔ نیک بھی چاہتے ہیں کہ ہماری نیکی پوشیدہ رہے اور بد بھی اپنی بدی پوشیدہ رکھنے کی دعا کرتا ہے مگر اس امر میں دونوں نیک و بد کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قانون بنا رکھا ہے کہ وَ اللّٰہُ مُخۡرِجٌ مَّا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ۔ (البقرہ: ۷۳) خدا کی رضا میں فنا لوگ نہیں چاہتے کہ ان کو کوئی درجہ اورامامت دی جاوے۔ وہ ان درجات کی نسبت گوشہ نشینی اور تنہا عبادت کے مزے لینے کو زیادہ پسند کرتے ہیں مگر ان کو خدا تعالیٰ کشاں کشاں خلق کی بہتری کے لیے ظاہر کرتا اور مبعوث فرماتا ہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ بھی تو غار میں ہی رہا کرتے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ ان کا کسی کو پتہ بھی ہو۔ آخر خدا تعالیٰ نے ان کو باہر نکالا اور دنیا کی ہدایت کا بار ان کے سپرد کیا۔(ملفوظات جلد۳ صفحہ ۱۸۶-۱۸۷، ایڈیشن ۱۹۸۸ء) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکے بارے میں مرزا فرید احمد صاحب لکھتے ہیں : ’’میری جب شادی ہوئی تو ایک روز میری بیگم پوچھنے لگیں کہ حضورؒ تہجد بھی پڑھتے ہیں؟ میں خاموش ہو گیا۔ ایک دفعہ میں پاکستان سے باہر تھا اور وہ حضورؒ کے ساتھ والے کمرے میں رہائش پذیر تھیں۔ کہتی ہیں کہ رات آنکھ کھلی تو دیکھا حضورؒ خاموشی سے اُٹھے ہیں۔ تہجد کی نماز ادا کر رہے ہیں۔ میں جب پاکستان واپس آیا تو انہوں نے یہ واقعہ مجھے بتایا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو جواب مل گیا۔ کہنے لگیں ہاں، میں نے ایسا شخص نہیں دیکھا جو کبھی بھی اپنی گفتگو میں اپنی عبادات کا ذکر تک نہیں کرتا‘‘۔ (ماہنامہ خالد سیّدنا ناصر نمبر، صفحہ ۳۱-۳۲) حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کاعبادات میں دکھاوے کے معاملے میں احتیاط کا یہ عالم تھا کہ آپؒ کی صاحبزادی امۃ الشکور بیگم صاحبہ بھی اسی طرح کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ ایک روز میں نے ابا کے کمرے کا دروازہ کھولا تو ابا نماز پڑھ رہے تھے اور شائد توقع نہیں کر رہے تھے کہ کوئی بغیر اجازت اندر داخل ہو گا۔ چنانچہ یہ دیکھ کر کہ میں نے آپ کو عبادت کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے آپ کی حالت کچھ یوں تھی گویا کسی کی چوری پکڑی گئی ہو۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکے بارے میں لکھتے ہوئے آپ کی حرم ثانی سیّدہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ لکھتی ہیں کہ ’’عبادت میں دکھاوا نہ تھا۔ ایک روز اسلام آباد میں ہم حضور کے ایک غیر از جماعت عزیز کے ہاں گئے ہوئے تھے۔ مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا۔ کچھ مہمانوں نے نماز کے لئے جگہ پوچھی اور اٹھ کر نماز پڑھنے چلے گئے۔ حضور اپنی جگہ پر تشریف فرما رہے۔ میں بھی نہ اٹھی۔ گھر آ کر حضور نے نماز ادا فرمائی اور مجھ سے فرمانے لگے نماز اس وقت ادا کرنی چاہیئے جب اس کی طرف پوری توجہ ہو۔‘‘ (حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث ؒ از سیّدہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ، صفحہ ۱۰۳) حضرت علی بن ابی طالب ؓ فرماتے ہیں کہ ریا کاری کی تین علامات ہیں :جب تنہائی میں ہوتا ہے تو (عبادت میں )سستی کرتا ہے،جب مجمع میں ہوتا ہے تو چست ہوتا ہے، جب اس کی تعریف کی جائے تو زیادہ عمل کرتا ہے اور جب مذمت کی جائے تو کم عمل کرتا ہے۔(احیاء العلوم ) حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں :ماضی کے ریاکار اس عمل کا دکھاوا کرتے تھے جو وہ کرتے تھے اور آج کے ریا کار ایسے اعمال کا دکھاوا کرتے ہیں جو کرتے ہی نہیں۔ (احیاء العلوم) ابنِ عربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’سب سے زیادہ خسارے میں وہ شخص ہے جو لوگوں کے سامنے اپنے نیک اعمال ظاہر کرتا ہے اور وہ ذات جو رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے اس کے سامنے برے اعمال کرتاہے۔‘‘ (شعب الایمان) بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اِسی سے دخل ہو دار الوِصال میں (براہین احمدیہ حصّہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۱۸) یہ عادت کہ لوگوں کو آپ کی اچھائیاں معلوم ہوں بسااوقات کس قدر نقصان کا باعث بنتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک عورت نے انگوٹھی بنوائی لیکن کسی نے اس کی طرف توجہ نہ کی۔ سونے کی بڑی خوبصورت انگوٹھی تھی۔ اس نے تنگ آ کر اپنے گھر کو آگ لگا دی۔ لوگوں نے پوچھا کچھ بچا بھی؟ اس نے کہا سوائے اس انگوٹھی کے کچھ نہیں بچا۔ (ماخوذ از مستورات سے خطاب، انوار العلوم جلد ۱۵ صفحہ ۳۹۷) (خطبہ جمعہ ۲۶فرمودہ؍فروری ۲۰۱۶ء) تحریر و تقریر میں تشبیہ و تمثیل کا اسلوب ناصرف یہ کہ بات کو دلنشین اور یقین آفرین بنا دیتا ہے بلکہ اس کا مطلب بھی عمدگی سے واضح ہو جاتا ہے۔ انگوٹھی کی تمثیل اصل میں انسان کا اپنا مرتبہ دکھانے کی وہ خواہش ہے جس سے اس کی نیکیوں کا سارا گھر راکھ ہو جاتا ہے۔ بے نفسی اور اپنی ذاتی نمود و رتبےسے بے نیاز ہو کر قومی خدمت سرانجام دینے کی تاریخ میں حضرت خالد بن ولیدؓ کا واقعہ حیران کُن حد تک ممتاز ہے۔ حضرت خالدبن ولید ؓکی جنگی خدمات، بہادری، جرأت، تدبر اورمعاملہ فہمی کے واقعات سے تاریخ اسلام کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ یہ انہی کی جانبازانہ مساعی کا نتیجہ تھا کہ جنگ یرموک میں رومی امپریلزم کی کمر ہمت ٹوٹ گئی۔ اور قیصر کا ایوان مسلمانوں کے رعب سے کانپنے لگا۔ بعض وجوہ کی بنا پر حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت کی ابتداء میں ہی ان کو لشکر اسلامی کی سپہ سالاری کے عہدہ جلیلہ سے معزول کر دیا اور حضرت ابوعبیدہ ؓکے ماتحت کردیا۔ حضرت خالدبن ولیدؓ نے ایسی کشادہ پیشانی کے ساتھ خلیفۂ وقت کے احکام کی تعمیل کی کہ عقل حیران ہوتی ہے۔ دل میں کوئی انقباض پیدا نہیں ہونے دیا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جرّاح ؓکے ماتحت ہو کر بھی وہ اسی جانبازی اور سرفروشی کے ساتھ میدان جہاد میں دادِ شجاعت دیتے نظر آتے ہیں۔ جس طرح اپنے سپہ سالار ہونے کے وقت میں تھے۔ دراصل یہی جذبہ ہے جس کے ماتحت قومی خدمات کوئی نتیجہ پیدا کرسکتی ہیں۔ جو لوگ معمولی اور برائے نام عہدوں کی وجہ سے قومی و ملی کاموں میں رکاوٹیں ڈالتے اور ایسے بگڑ جاتے ہیں کہ بجائے کسی امداد کے تخریبی مساعی میں حصہ لینے لگتے ہیں۔ و ہ قوم کے لیے ایک لعنت ہیں۔ قومی خدمت میں خلوص، بے نفسی اور شہرت سے بُعد ہونا چاہیے۔ اور جو قومی کام کسی کے سپردہو اسے نفسانی جذبات سے بلند و بالا رہ کر ادا کرنا چاہیے۔ اور یہی و ہ روح ہے جو کسی قوم کی کامیابی کی ضامن ہوسکتی ہے۔ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اسی مضمون پہ روشنی ڈ التے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہاں میں عہدیداروں کو بھی کہوں گا کہ اگر جماعتی ترقی میں ممد و معاون بننا ہے اور عہدے صرف بڑائی کی خاطر نہیں لیے گئے۔ اپنی انا کی تسکین کی خاطر نہیں لیے گئے تو اطاعت کے مضمون کو سمجھنے کی سب سے سے زیادہ ضرورت ہر سطح کے عہدیداروں کو ہے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ ۱۰؍جنوری ۲۰۱۴ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل ۳۱؍جنوری۲۰۱۴ء) انسان کا نفس اسے دھوکے میں مبتلا کر کے خسار ے کا باعث بنتا ہے۔ وَمَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔(الحشر:۱۰)پس جو کوئی بھی نفس کی خساست سے بچایا جائے تو یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ اور اصل بات بھی یہی ہے کہ ’’تزکیہٴ نفس بھی ایک موت ہے جب تک کُل اخلاق رزیلہ کو ترک نہ کیا جاوے تزکیہٴ نفس کہاں حاصل ہوتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۹، صفحہ ۲۸۱) دنیا کی تاریخ میں ایسے کئی کردار ملتے ہیں جن کی مثال اس حوالے سے پیش کی جا سکتی ہے لیکن یہاں مذہبی تاریخ کے تین کرداروں بلعم باعور، ابو جہل اور لیکھرام پشاوری کا ذکر کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف میں ’’بلعم بن باعور‘‘ کا قصہ مختصراً بیان کیا ہے: وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ الَّذِیۡۤ اٰتَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانۡسَلَخَ مِنۡہَا فَاَتۡبَعَہُ الشَّیۡطٰنُ فَکَانَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ۔ وَ لَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰہُ بِہَا وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ وَ اتَّبَعَ ہَوٰٮہُ ۚ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الۡکَلۡبِ ۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَیۡہِ یَلۡہَثۡ اَوۡ تَتۡرُکۡہُ یَلۡہَثۡ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاقۡصُصِ الۡقَصَصَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ (الاعراف: ۱۶۶، ۱۶۷)اور تُو اُن پر اس شخص کا ماجرا پڑھ جسے ہم نے اپنی آیات عطا کی تھیں پس وہ ان سے باہر نکل گیا۔ پس شیطان نے اس کا تعاقب کیا اور وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔اور اگر ہم چاہتے تو اُن (آیات) کے ذریعہ ضرور اس کا رفع کرتے لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا اور اپنی ہوس کی پیروی کی۔ پس اس کی مثال کُتّے کی سی ہے کہ اگر تو اس پر ہاتھ اٹھائے تو ہانپتے ہوئے زبان نکال دے گا اور اگر اسے چھوڑ دے تب بھی ہانپتے ہوئے زبان نکال دے گا۔ یہ اس قوم کی مثال ہے جس نے ہمارے نشانات کو جھٹلایا۔ پس تُو (اِن کے سامنے) یہ (تاریخی) واقعات پڑھ کر سنا تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ بلعم بن باعور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا ایک مشہور عبادت گزار اور بنی اسرائیل کا ایک عالم تھا جو کنعان یا شہر جبارین کا رہنے والا تھا۔(مثنوی مولانا روم دفتر اوّل صفحہ ۳۶۶)۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ اپنے تفسیری نوٹس میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک ایسا شخص تھا جسے اللہ تعالیٰ نے وہ روحانی صفات عطا فرمائی تھیں جن کے ذریعے وہ خدا کے نزدیک ہو سکتا تھا لیکن بدنصیبی سے اس نے دنیا کی طرف جھکنا اپنے لئے قبول کر لیا۔ بلعم کا یہ مقام تھا کہ لوگ اس سے دم کرایا کرتے تھےاور پھر تکبّر نے شیطان کی طرح اسے بھی تباہ کر دیا۔ ابو جہل کا نام عمرو بن ہشام المغیرہ تھا اور قریش میں ابوالحکم یعنی دانش کا باپ کی کنیت سے مشہور تھا۔ اس کی حیثیت کا سوچیں تو ترمذی کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ !تُو عمر بن الخطاب اور ابو جہل میں سے کسی ایک کو ایمان کی دولت سے نواز دے۔ لیکن اپنی کور چشمی، تکبّر، گستاخی اور ڈھٹائی کے باعث ابوجہل کہلایا۔ جہلا ء کو اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کی سمجھ نہیں آ سکتی۔ پس یہ بھی ابوالحکم کہلاتا تھاجس کا نام قرآن نہ سمجھنے کی وجہ سے ابو جہل رکھا گیا۔ وہ اپنی پوری زندگی خود سے بہتر کسی کو ماننے پر تیار نہ ہوا۔ ابو الحکم پہلے ابو جہل بنا اور پھر ذلّت کی موت ملی۔ ایسا ضدی انسان تھا کہ مرتے مرتے بھی کہہ مرا کہ میرا سر گردن سمیت کاٹنا تاکہ دیگر سروں کے درمیان ممتاز رہے۔ اَن پڑھ، لاعلم ہوتا ہے مگر حصولِ علم سے لاعلمی کا مداوا کرلیتا ہے۔ جاہل باعلم ہوتا ہے مگر اس کا باعلم ہونا اس سمیت کسی کے کام نہیں آتا۔ان پڑھ جانتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔جاہل سمجھتا ہے کہ وہ سب جانتا ہے۔علم حلم پیدا کرتا ہے جبکہ جہل غرورِ علم پیدا کرتا ہے۔جاہل بصارت کو بصیرت سمجھتا ہے اور عالم بصیرت کو بصارت بنا دیتا ہے۔ اسی طرح پنڈت لیکھرام پشاوری بھی اپنے علمی زعم کے ہاتھوں ہلاک ہوا۔ یہ آریہ سماج کاایک بہت بدزبان اورشوخ طبیعت پنڈت تھا جوآنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اوربدگوئی میں سب سے بڑھاہواتھا۔ قرآن کریم کی آیات کے ایسے ایسے گندے ترجمے شائع کرتاتھاجس کوپڑھنا کسی بھی شریف آدمی کے لیے مشکل ہے۔لیکھرام نے براہین احمدیہ کے جواب میں ’تکذیب براہین احمدیہ ‘ لکھی۔ آنحضرتﷺ کی مقدس ذات کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اولاً اسُے اس مکروہ عمل سے منع فرمایا لیکن جب وہ اپنی بدزبانی میں تمام حدود پار کرچکا تو خدا کی پکڑ اور اُس کے عذاب کا مورَد بن کر رہتی دنیا تک عبرت کا ایک نشان بن گیا۔ انسانی نفس رومی کی حکایت کے اژدھے جیسا ہے جو بظاہر تو مردہ نظر آتا ہے لیکن خود پسندی اور ریا کاری کی تپش سے یہ موذی جان پکڑتا ہے اور انسان کی روحانی حالت کو جکڑ کر فنا کر دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑنے عاجزی، فروتنی اور بے نفسی پر بے حد زور دیا ہے اور بار بار نصیحت فرمائی کہ مقبول اعمال اور عبادات کے لیے بے ریائی اوّلین شرط ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک مثال بیان فرمائی کہ ایک حاجی نے تین حج کیے تھے۔ اس نے ایک درویش صفت بزرگ کو دعوت پر بلایا۔ جب امیر کبیر حاجی کے ملازم نے دستر خوان پر پُر تکلف کھانا چن دیا تو میزبان حاجی نے اس بزرگ پر اپنی نیکی کا اثر بٹھانے کے لیے ملازم سے کہا کہ اس برتن میں تو کچھ ڈال کر لاؤ جو میں پہلے حج کے موقع پر خرید کر لایا تھا۔ ملازم وہ برتن لے آیا لیکن اس بزرگ نے کوئی تعریف نہ کی تو تھوڑی دیر بعد ظاہر پرست حاجی نے ملازم سے کہا کہ اس برتن میں تو کچھ ڈال کر لاؤ جو میں دوسرے حج کے موقع پر خرید کر لایا تھا۔ ملازم نے اس کے حکم کی تعمیل کی لیکن اس مہمان بزرگ نے پھر بھی تعریف کی کوئی بات نہ کہی۔ تھوڑی دیر بعد وہ حاجی صاحب ملازم سے مخاطب ہو کر بولے وہ برتن بھی لے آؤ جو میں تیسرے حج کے موقع پر لایا تھا۔ اس پر اس اللہ کے نیک بندے یعنی مہمان نے دنیا دار حاجی سے کہا کہ آپ نے اتنی مشقت اور خرچ اٹھا کر تین حج کیے لیکن تین متکبرانہ اور تصنع پر مبنی جملوں سے تینوں حجوں کا ثواب ضائع کر دیا۔ (ماخوذ از ماہنامہ انصار اللہ دسمبر ۲۰۱۴ء صفحہ ۳۰) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں خالص اور مقبول نیکی اور عمل کا راز سمجھا دیا ہے کہ ہماری ہر سوچ اور ہر عمل اور ہر قدم تقویٰ کی بنیاد پر ہونا چاہئے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اطاعت کے لیے ہو نہ کہ نفس پرستی اور دکھاوے کے لیے۔ ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:عہدیداران کے لئے بڑے خوف کا مقام ہے۔ جماعت کے عہدے دنیا وی مقاصد کے لئے نہیں ہوتے بلکہ اس جذبے کے تحت ہونے چاہئیں کہ ہم نے ایک پوزیشن میں آکر پہلے سے بڑھ کر افراد جماعت کی خدمت کرنی ہے اور ان سے ہمدردی کرنی ہے، اور ان کی بہتری کی راہیں تلاش کرنی ہیں اور انہیں اپنے ساتھ لیکر چلنا ہے تاکہ جماعت کے مظبوط بندھن قائم ہوں اور جماعت کی ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر ہو۔ (خطبہ جمعہ یکم جون ۲۰۱۲ء خطبات مسرور جلد دہم، صفحہ ۳۴۴) بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنے سے کم درجہ والوں کے سامنے اکڑ دکھا رہے ہوتے ہیں اور اپنے سے اوپر والے کے سامنے بچھتے چلے جاتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں میں منافقت کی برائی بھی ظاہر ہو رہی ہوتی ہے۔تو یہ تکبّر جوہے بہت سی اخلاقی برائیوں کا باعث بن جاتاہے اورنیکی میں ترقی کے راستے آہستہ آہستہ بالکل بند ہو جاتے ہیں۔ اورپھر دین سے بھی دورہوجاتے ہیں، نظام جماعت سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔اور جیسے جیسے ان کا تکبّر بڑھتاہے ویسے ویسے وہ اللہ اور رسول کے قرب سے، اس کے فضلوں سے بھی دور چلے جاتے ہیں۔(خطبہ جمعہ ۲۹؍ اگست ۲۰۰۳ء، فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نیکیاں چھپانے کا مقصد ان کو ضائع ہونے سے بچانا ہے کیونکہ نفس و شیطان انسان کے کُھلے دُشمن ہیں جو انسان کو نیکیاں کرنے نہیں دیتے اور اگر ہمت کر کے کوئی نیکی کر بھی لی تو یہ اسے پوشیدہ نہیں رہنے دیتے۔ شیطان کے بہکاوے میں آکر انسان کے دل میں اپنی نیکیوں کے اِظہار کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ لوگوں کو اپنے نیک اَعمال بتا کر، نیک نامی کی داد پا کر تکبّر، حُبِّ جاہ اور رِیاکاری کی تباہ کاری میں جا گرتا ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی نیک عمل کرنے کی سعادت نصیب ہو تو اس نیک عمل کو کر لینے کے بعد پوشیدہ رکھنے ہی میں عافیت ہے کہ دِکھاوے وغیرہ کی نحوست سے نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے اپنے نیک اَعمال کو پوشیدہ رکھنا اَعمال بجا لانے سے زیادہ مشکل ہے جیسا کہ حضرت ابودَرداءؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : بے شک عمل کر کے اسے ریاکاری سے بچانا عمل کرنے سے زیادہ مشکل ہے اور آدمی کوئی عمل کرتا ہے تو اس کے لیے ایسا نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے جو تنہائی ميں کيا گيا ہوتا ہے اور اس کے لیے ستّر گنا ثواب بڑھا ديا جاتا ہے۔ پھر شيطان اس کے ساتھ لگا رہتاہےاوراسے اُکساتا رہتا ہے يہاں تک کہ آدمی اس عمل کا لوگوں کے سامنے ذِکر کر کے اسے ظاہر کر دیتا ہے تو اَب اس کے لیے یہ عمل مخفی کےبجائےعَلانیہ لکھ ديا جاتا ہے اور اَجر میں ستّر گنا اضافہ مٹا دیا جاتا ہے۔(الترغیب والترہیب از ابو محمد عبد العظیم بن عبد القوی بن عبد اﷲ بن سلامہ بن سعد منذری مطبوعہ مکتبہ دار الکتب العلمیہ،بیروت، لبنان) پس ہر دنیوی و دینی معاملے میں انکساری سے کام لینا وہ عظیم راہنما اصول ہے جس پر عمل کرتے ہوئے ہم نہ صرف اپنی زندگیاں بلکہ اعلیٰ اخلاق پر مشتمل معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ کیونکہ خداتعالیٰ کو بھی یہی ادا پسند ہے جس کااظہار اس نے پیارے مسیح سے بذریعہ الہام فرمایا کہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں۔‘‘ رومی ؒکہتے ہیں کہ نیکی اور بدی کے تصور سے نکل کر اگلے مقام تک آ جاؤ !میں تمہیں وہیں ملوں گا۔ خدا تعالیٰ ایک بیش بہا خزانہ ہے جو دنیا کی دولتوں سے انسان کو بے نیاز کر دیتا ہے۔ خدا کرے ہم اپنی زندگیوں میں اپنے اس خدمت دین کے کاموں میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے خدا کو پالیں اور اس دنیا سے نفس مطمٔنہ لے لر دوسری دنیا میں داخل ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر کما حقہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین (احسان اللہ قمر۔ یوکے)