https://youtu.be/L86MuifKkuE عائلی مسائل اور ان کا حل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےطلاق یا خلع کی صورت میں پردہ پوشی کی نصیحت کرتے ہوئے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’اب میاں بیوی کے بہت سے جھگڑے ہیں جو جماعت میں آتے ہیں، قضا میں آتے ہیں، خلع کے یا طلاق کے جھگڑے ہوتے ہیں اور طلاق ناپسندیدہ فعل ہے۔ بہرحال اگر کسی وجہ سے مرد اور عورت میں نہیں بنی تو مرد کو حق ہے کہ وہ طلاق دے دے اور عورت کو حق ہے کہ وہ خلع لے لےاور بعض دفعہ بعض باتیں صلح کروانے والے کے سامنے بیان کرنی پڑتی ہیں۔ اس حد تک توموٹی موٹی باتیں بیان کرنا جائزہے لیکن بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ مرد اور عورت کے علاوہ دیگر رشتہ دار بھی شامل ہوجاتے ہیں جو ایک دوسرے پر ذاتی قسم کے الزامات لگا رہے ہوتے ہیں۔ جن کو سن کر بھی شرم آتی ہے۔ اب میاں بیوی کے تعلقات تو ایسے ہیں جن میں بعض پوشیدہ باتیں بھی ظاہر ہوجاتی ہیں۔ تو جھگڑا ہونے کے بعد ان کو باہر یا اپنے عزیزوں میں بیان کرنا صرف اس لئے کہ دوسرے فریق کو بدنام کیاجائے تا کہ اس کا دوسری جگہ رشتہ نہ ہو۔ تو فرمایا کہ اگر ایسی حرکتیں کروگے تویہ بہت بڑی بے حیائی اور خیانت شمار ہوگی اور خائن کے بارہ میں انذار آئے ہیں کہ ایک تو خائن مومن نہیں، مسلمان نہیں اور پھر جہنمی بھی ہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ۶؍فروری ۲۰۰۴ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن) (مطبوعہ خطبات مسرور جلد دوم صفحہ ۱۱۱۔ ایڈیشن۲۰۰۵ء) مطلقہ عورتوں کے حقوق حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاپنے ایک خطبہ جمعہ میں اسلام میں مطلقہ عورت کو دیے گئے حقوق کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’جو مطلقہ عورت ہے اس کے حق کے بارے میں ہے کہ اگر طلاق ہوجاتی ہے تو عورت کے لئے مقررہ عدت ہے جو متعین کردہ ہے اس کے بعد وہ آزاد ہے کہ شادی کرے۔ دوسری جگہ حکم ہے کہ تم ان کی شادی میں روک نہ بنو۔ بلکہ شادی میں مدد کرو اور اب وہ خود ہوش والی ہے اس لئے اگر وہ شادی کا فیصلہ کرے تو ٹھیک ہے۔ لیکن عورتوں کو حکم ہے کہ طلاق کے بعد اگر تمہیں پتہ چلے کہ حاملہ ہو تو اپنے خاوندکو بتا دو، چھپانا نہیں چاہئے۔ اگر شادی کے بعد کسی وجہ سے نہیں بنی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انتقام لینے لگ جاؤ اور جو اس بچے کا باپ ہے اس کو نہ بتاؤ کہ تمہارا بچہ پیدا ہونے والاہے۔ اللہ فرماتاہے کہ تمہارے بتانے سے ہوسکتاہے کہ اس کا دل نرم ہو جائے اور وہ رجوع کرے اور گھر آباد ہو جائے۔ فرمایا کہ خاوند زیادہ حق دار ہے کہ انہیں واپس لے لے اور گھر آباد ہو جائیں اور رنجشیں دور ہو جائیں۔ دوسرے قریبیوں اور رشتہ داروں کو بھی حکم ہے کہ اس میں وہ روک نہ بنیں۔ بعض دفعہ قریبی اور رشتہ دار بھی لڑکی کو خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اگر خاموش بھی ہے بلکہ رجوع کرنے پر رضامند بھی ہے تو قریبی شور مچا دیتے ہیں کہ ایک دفعہ طلاق ہو گئی اب ہم لڑکی کو واپس نہیں بھیجیں گے۔ انا اور عزتوں کے معاملے اٹھ جاتے ہیں۔ کئی معاملات میرے پاس بھی آتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے جب بعض دفعہ جھوٹی غیرت دکھاتے ہوئے اپنی بچیوں کے گھر برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض بچیاں پھر خط لکھتی ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی اب بسنا چاہتے ہیں لیکن دونوں طرف کے والدین کی اَناؤں نے یہ مسئلہ بنالیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ رشتہ داروں کو اس تعلق کے دوبارہ قائم ہونے میں روک نہیں بننا چاہئے۔ اگر مرد کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیاہے تو پھرجھوٹی غیرتوں کے نام پر لڑکی کا گھر برباد نہیں کرنا چاہئے۔ پھر اللہ تعالیٰ عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے فرماتاہے کہ عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا عورتوں پر۔ یہ آیت تو میں نے پڑھی تھی۔ اس کا ترجمہ بھی پڑھ دیتاہوں۔ فرمایا کہ اور مطلقہ عورتوں کو تین حیض تک اپنے آپ کو روکنا ہوگااور ان کے لئے جائز نہیں اگر وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتی ہیں کہ وہ اس چیزکو چھپائیں جو اللہ نے ان کے رِحموں میں پیدا کر دی ہےاور اس صورت میں ان کے خاوند زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں واپس لے لیں اگر وہ اصلاح چاہتے ہیں اور ان عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنامردوں کا ان پر ہے حالانکہ مردوں کو ان پر ایک قسم کی فوقیت بھی ہے اور اللہ کامل غلبے والا اور حکمت والاہے‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ۱۶؍نومبر ۲۰۰۷ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۷؍دسمبر۲۰۰۷ء) (ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ ۱۸۴-۱۸۷) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: الفرقان فی جواب البرہان(از حضرت مولوی محمد احسن امروہی صاحب رضی اللہ عنہ )