ٹیٹو بنانا اور بنوانا تو جائز نہیں ہے۔ احادیث میں بھی اس کی ممانعت آئی ہےکہ اللہ تعالیٰ نے حسن کے حصول کی خاطرجسموں کو گودنے والیوں، گدھوانے والیوں، چہرے کے بال نوچنے والیوں، سامنے کے دانتوں میں خلا پیدا کرنے والیوں اور بالوں میں پیوند لگانے اور لگوانے والیوں پر لعنت کی ہے جو خدا کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں۔ (صحیح بخاری کتاب اللباس) اسلام کا ہر حکم اپنے اندر کوئی نہ کوئی حکمت رکھتا ہے۔ اسی طرح بعض اسلامی احکامات کا ایک خاص پس منظر ہوتا ہے، اگر اس پس منظر سے ہٹ کر ان احکامات کو دیکھا جائے تو حکم کی شکل بدل جاتی ہے۔ آنحضورﷺ کی جب بعثت ہوئی تو دنیا میں اور خاص طور پر جزیرۂ عرب میں جہاں مختلف قسم کے شرک کا زہر ہر طرف پھیلا ہوا تھا وہاں مختلف قسم کی بے راہ رویوں نے بھی انسانیت کو اپنے پنجہ میں جکڑا ہوا تھا اور عورتیں اور مرد مختلف قسم کی مشرکانہ رسوم اور معاشرتی برائیوں میں مبتلا تھے۔ مذکورہ بالا امور کی ممانعت پر مبنی احادیث میں دو چیزوں کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے۔ ایک یہ کہ ان کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی مقصود ہو اور دوسرا حسن کا حصول پیش نظر ہو۔ … جہاں تک ٹیٹو بنوانے کا تعلق ہے تو مرد ہو یا عورت اس کے پیچھے صرف یہی ایک مقصد ہوتا ہے کہ اس کی نمائش ہو اور اپنی مخالف جنس کا ناجائز طور پر اپنی طرف میلان پید اکیا جائے۔ اسی لیے لوگ عموماً ٹیٹو جسم کے ایسے حصوں پر بنواتے ہیں جنہیں وہ عام لوگوں میں کھلا رکھ کر اس کی نمائش کر سکیں۔ لیکن اگر کوئی ٹیٹو جسم کے ستر والے حصہ پر بنواتا ہے تو اس کے پیچھے بھی یہی سوچ ہوتی ہے کہ تا بُرائی اور افعال بد کے ارتکاب کے وقت اپنی مخالف جنس کے سامنے ان پوشیدہ اعضاء پر بنے ٹیٹو کی نمائش کی جا سکے۔ یہ دونوں طریق ہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں۔ علاوہ ازیں ٹیٹو کے کئی ظاہری اور میڈیکل نقصانات بھی ہیں۔ چنانچہ جسم کے جن حصوں پر ٹیٹو بنوایا جاتا ہے، اس جگہ جلد کے نیچے پسینہ لانے والے گلینڈ بُری طرح متاثر ہوتے ہیں اور ٹیٹو بنوانے کے بعد جسم کے ان حصوں پر پسینہ آنا کم ہو جاتا ہے، جو طبی لحاظ سے نقصان دہ ہے۔ اسی طرح بعض قسم کے ٹیٹو چونکہ مستقل طور پر جسم کا حصہ بن جاتے ہیں، اس لیے جسم کے بڑھنے یا سکڑنے کے ساتھ ٹیٹو کی شکل میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے، جس سے ٹیٹوبظاہر اچھا لگنے کی بجائے بد صورت لگنے لگتا ہے اور کئی لوگ پھر اسے وبال جان سمجھنے لگتے ہیں لیکن اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ لہٰذا ان وجوہ کی بنا پر بھی ٹیٹو بنوانا ایک لغو کام ہے۔ (بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۳۶، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۷؍جون۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: خدا تعالیٰ کی صفت عزیز