مجھے تعجب ہوتا ہے کہ علماء میں سے ہمارے دشمن یہود جیسا وطیرہ کیوں اختیارکئے ہوئے ہیں۔ ہر وہ شخص جونزول مسیح اورنزول الیاس کی خبرکا موازنہ کرے گا تواس کے لئے اس بات میں کوئی شک وشبہ نہ رہے گا کہ دونوں پیشگوئیوں کاایک ہی مفہوم ہے۔ ظہورِآدم سے آج تک کوئی شخص بھی آسمان سے نازل نہیں ہوا۔ اگرہم اِس نزول اوراُس نزول کے درمیان تفریق کریں اورایک جگہ تواستعارہ کامسلک اختیار کریں اوردوسری(جگہ)عدمِ قبولِ استعارہ کا طریق اختیارکریں تویہ ایک ایسا ظلم ہے جس پر کوئی عقلِ سلیم راضی نہیں ہوتی۔ ’’پس افسوس ان لوگوں پرکہ تازہ کھجوروں کے بدلے ایندھن کی لکڑی خریدتے ہیں وہ ان باتوں کو گھروں میں بھول جاتے ہیں جو وہ واعظ بن کر اپنے خطبات میں پڑھتے ہیں اوروہ کچھ کہتے ہیں جو وہ کرتے نہیں۔اورجولوگوں کو (تعلیم) دیتے ہیں اُسے خودچھوتے تک نہیں۔اورایسے راستوں کی طرف راہنمائی کرتے ہیں جن پرخود نہیں چلتے اورایسی راہوں کی طرف راہنمائی کرتے ہیں جنہیں وہ جانتے نہیں۔اورحق کومقدّم کرنے کی نصیحت کرتے ہیں اورخود اُسے مقدّم نہیں کرتے۔ وہ دنیا پر اِس طرح گرتے ہیں جس طرح کُتّے مردار پر۔اوراپنی کمینی خواہشات کی بناء پر چاہتے ہیں کہ اُن کی تعریف اُن کاموں پرکی جائے جو انہوں نے نہیں کئے۔اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ اُنہیں ابدال،اہل تقویٰ اورپاک دامنوں میں شمار کیا جائے حالانکہ دنیا کو دین کے ساتھ اکٹھا نہیں کیا جاسکتااورفرشتوں کوشیطان کے ساتھ۔ اورآخری وصیّت جومیں نے مخالفوں کوکرنی چاہی اورمیں نے منکرین کوبلانے کے لئے جس کا قصد کیاوہ اس امرکااِظہارہے جس کے ذریعہ سے اللہ نے اس سے پہلے یہودیوں کوآزمائش میں ڈالا تھا۔پس وہ بھٹک گئے اورانہوں نے مردوددِل کو سیاہ کر دیا۔کیونکہ اللہ نے ان سے الیاس کے آسمان سے واپس بھیجنے کاوعدہ کیا تھا،لیکن وہ ان کے پاس عیسیٰ سے پہلے نہ آیاتو انہوں نے اس ابتلا کے باعث عیسیٰ کی تکذیب کی۔اگرہم فرض کریں کہ آسمان سے اُترنے کے معنی حقیقی طور پراُترنا ہے تو اس صورت میں عیسیٰ کاذب ہی ٹھہرے گا اورہم اِس تہمت سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ پس مجھے تعجب ہوتا ہے کہ علماء میں سے ہمارے دشمن یہود جیسا وطیرہ کیوں اختیارکئے ہوئے ہیں اورانہوں نے اِس (یہودی)قوم کے قصّے اور نہایت پیارکرنے والے اللہ کے غضب کوجسے اس نے اُن پرنازل کیا کیسے فراموش کردیا۔کیاوہ چاہتے ہیں کہ اُن پر میری زبان سے اُسی طرح لعنت کی جائے،جس طرح عیسیٰ کی زبان سے یہودپرلعنت کی گئی۔کیا ان کے نزدیک عیسیٰ کا نزول حقیقتاًواجب ہے جبکہ الیاس کانزول زمانۂ گزشتہ میں واجب نہ تھا،یہ تو ایک بڑی ناقص تقسیم ہے۔ کیاوہ قرآن نہیں پڑھتے کہ کس طرح اس نے ہمارے نبی مصطفی ؐ کی طرف سے بطورحکایت فرمایا ہے’’اے محمد!(صلی اللہ علیہ وسلم)تُو کہہ دے، میرا ربّ پاک ہے۔مَیں تومحض ایک بشر رسول ہوں ‘‘ تمہاراکیاخیال ہے کیا عیسیٰ بشرنہ تھاپس وہ آسمان پرچڑھ گیااورہمارے نبی مجتبیٰؐ روک دئیے گئے۔ ہر وہ شخص جونزول مسیح اورنزول الیاس کی خبرکا موازنہ کرے گا تواس کے لئے اس بات میں کوئی شک وشبہ نہ رہے گا کہ دونوں پیشگوئیوں کاایک ہی مفہوم ہے۔ اہل کتاب سے پوچھ دیکھو کیاالیاس مسیح کے زمانہ میں اتارا گیاتھا؟اللہ سے ڈرو! اور صریح جھوٹ پراصرار نہ کرو۔سنّت الٰہی میں کبھی اختلاف نہیں ہوا،پس مطلب واضح ہے۔ اس میں کوئی تضاد نہیں۔ ظہورِآدم سے آج تک کوئی شخص بھی آسمان سے نازل نہیں ہوا اورباوجود اس کے کہ شک اورافترا کے ظن کودورکرنے کے لئے الیاس کے نزول کی اشد ضرورت تھی لیکن پھر بھی وہ نازل نہ ہوا۔ اگرہم اِس نزول اوراُس نزول کے درمیان تفریق کریں اورایک جگہ تواستعارہ کامسلک اختیار کریں اوردوسری(جگہ)عدمِ قبولِ استعارہ کا طریق اختیارکریں تویہ ایک ایسا ظلم ہے جس پر کوئی عقلِ سلیم راضی نہیں ہوتی اورنہ ہی معتدل مزاج اس کی تصدیق کرتاہے۔اوریہ بات اللہ کی طرف کس طرح منسوب کی جاسکتی ہے کہ اس نے لوگوں کومختلف افعال سے گمراہ کیا۔اورایک جگہ ایک طریق اختیار کیااوردوسری جگہ دوسرا۔ اگر تُوطالب حق ہے تواچھی طرح سے غورکر۔اگر تُو د شمن ہے تومیرا خیال ہے کہ تُوغوروفکر نہیں کرے گا۔اور تجھے کیا (ہوگیا)ہے کہ تُوبغیرکسی علم کے خدا اور اس کے رسول کے سامنے بڑھ بڑھ کرباتیں کرتا ہے۔ یا تیرے پاس کوئی واضح یقین موجود ہے؟کیا یہ تقویٰ کاطریق ہے؟اگر تُو اہلِ تقویٰ میں سے ہے توشکست تیرے لئے زیادہ بہترہے اس فتح سے جس کا تُومتمنّی ہے۔ تیرے پاس چندروایات کے سوا جن پر اللہ اوراُس کے رسول کی مُہرِتصدیق ثبت نہیں کچھ بھی نہیں اوریہ صرف ایسے اوراق ہیں جنہیں سیّدالوریٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کئی صدیوں بعد لکھا گیا۔اورہم اُن قصّوں پرایمان نہیں لاتے جوہمارے بزرگ وبرترخدا کی کتاب کے قصّوں سے مطابقت نہیں رکھتے،اس سے پہلے ایسا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے یہودی گمراہ ہوئے اس لئے تم اُن کے قدموں پراپنے قدم نہ مارواوراُن خواہشات کی راہوں کی اتباع نہ کرو۔اوراس سے ڈرو کہ اللہ کاغضب تم پر نازل ہو، اورجس پر اللہ کا غضب نازل ہواوہ یقیناہلاک ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہودیوں کے پاس ربّ العزّت کی کتاب موجود تھی اوراُنہوں نے اپنے خیال کے مطابق اُس کی پیروی کی۔اور انہوں نے اس آیت کاجو مفہوم سمجھااُس کی اتباع کی اورکہا کہ ہم بغیر کسی قرینہ کے اللہ کی آیات کو ظاہری مفہوم سے نہیں پھیریں گے۔پس انہوں نے اپنے لئے ایک عُذر گھڑ لیا جو بالبداہت تمہارے عُذروں سے کہیں بہترہے،انہوں نے جو کچھ بھی پایاوہ سب کتاب اللہ میں بالصراحت موجود پایااورتمہارے پاس کوئی کتاب نہیں بلکہ اللہ کی کتاب تومخالفت کی وجہ سے تمہیں جھٹلارہی ہے اور تمہارے منہ پر طمانچہ ماررہی ہے۔ اسی وجہ سے تم کتاب اللہ کو ایک شيئِ متروک بنا رہے ہو اور بدبختی کی راہ سے اُسے پسِ پُشت پھینک رہے ہو۔ یہودیوں نے تواپنی کتاب کوپسِ پُشت نہیں ڈالا تھا اورنہ ہی انہوں نے اپنی تألیفات میں کوئی مَنۡ گھڑت بات لکھی۔اسی لئے عیسیٰ نے ان کے قول کی تصدیق کی باوجود اس کے یہ ان کاپہلا قول تھامگر اس کی تأویل کی اور کہا کہ نازل ہونے والانازل ہو چکااوروہ یحيٰ ہے لیکن تم ہوکہ اُس قول پراصرار کررہے جوانتہائی محبت کرنے والے اللہ کی کتاب کے مخالف ہے۔پس بلاشبہ تم مقام کے لحاظ سے یہود سے بدتر ہو۔اِس قصّہ سے جو کم ازکم استفادہ کیاجاسکتاہے وہ اِن اختلافی امورمیں سنت اللہ کی معرفت ہے، تمہیں کیا ہوگیاہے کہ تم ربّ جلیل سے نہیں ڈرتے۔ کیا تمہیں سُنّۃاللّٰہ میں کوئی تبدیلی نظرآتی ہے؟ اورکیاوجہ ہے کہ تم اپنے حجروں میں جا کر نہیں روتے اور کثرت سے آہ وزاری نہیں کرتے تاکہ اللہ تم پر رحم فرمائے اورتمہاری راہبری کرے۔اللہ بالضرور میرے اورتمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ پس اس بارہ میں جلدی نہ کرواور صبرجمیل سے کام لو۔اے لوگو!تمہیں کیاہوگیا ہے کہ تقویٰ سے کام نہیں لیتے اوراپنے باطنی مرض کا علاج نہیں کرتے۔کیا تم سمجھتے ہوکہ مَیں اللہ پر افترا کررہا ہوں ؟کیاوجہ ہے کہ تم انتہائی بھاری دن سے نہیں ڈرتے۔‘‘ (تذکرۃالشہادتین، عربی حصّہ کا اردو ترجمہ۔ صفحہ 29 تا 35)