(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۶؍جنوری ۲۰۰۴ء) ماں باپ کے حقوق اور ان سے سلوک کے بارہ میں چند روایات پیش کرتاہوں۔ نبی اکرمﷺ کے پاس ایک آدمی آیا۔ اس نے کہاکہ اے اللہ کے رسول ؐ ! مَیں نے اپنی ماں کو یمن سے اپنی پیٹھ پر اٹھا کرحج کرایاہے، اسے اپنی پیٹھ پر لئے ہوئے بیت اللہ کا طواف کیا، صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، اسے لئے ہوئے عرفات گیا، پھر اسی حالت میں اسے لئے ہوئے مزدلفہ آیا اور منیٰ میں کنکریاں ماریں۔ و ہ نہایت بوڑھی ہے ذرابھی حرکت نہیں کر سکتی۔ مَیں نے یہ سارے کام اُسے اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے سرانجام دئے ہیں تو کیا مَیں نے اس کاحق ادا کر دیاہے؟۔ آپﷺ نے فرمایا :’’نہیں، اس کا حق ادا نہیں ہوا‘‘۔ اس آدمی نے پوچھا: ’’کیوں ‘‘۔ آ پؐ نے فرمایا :’’اس لئے کہ اس نے تمہارے بچپن میں تمہارے لئے ساری مصیبتیں اس تمنا کے ساتھ جھیلی ہیں کہ تم زندہ رہومگرتم نے جو کچھ اس کے ساتھ کیا وہ اس حال میں کیا کہ تم اس کے مرنے کی تمنا رکھتے ہو۔ تمہیں پتہ ہے کہ وہ چند دن کی مہمان ہے۔ (الوعی، العدد ۵۸، السنۃ الخامسۃ) اب عام آدمی خیال کرتاہے کہ اتنی تکلیف اٹھاکر مَیں نے جو سب کچھ کیا تو مَیں نے بہت بڑی قربانی کی ہے۔ لیکن آپؐ فرماتے ہیں کہ نہیں۔ حق تو یہ ہے کہ حق اد انہ ہوا۔ پھر ایک روایت میں آتاہے کہ ہمیں ہشام بن عُروہ نے بتایا کہ مجھے میرے والد نے بتایا کہ مجھے اسماء بنت ابی بکرؓ نے بتایا میری والدہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں میرے پاس صلہ رحمی کا تقاضا کرتے ہوئے آئی تو میں نے نبیﷺ سے اس کے بارہ میں دریافت کیا کہ کیا میں اپنی مشرک والدہ سے صلہ رحمی کروں ؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا ’’ہاں ‘‘۔ (بخاری۔ کتاب الھبۃ۔ باب الھدیۃ المشرکین) تو جہاں تک انسانیت کا سوال ہے، صرف والدہ کا سوال نہیں، اس کے ساتھ تو صلہ رحمی کا سلوک کرنا ہی ہے، حسن سلوک کرناہی ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اگر انسانیت کا سوال آئے، کسی سے صلہ رحمی کا سوال آئے یا مدد کا سوال آئے تواپنے دوسرے عزیزوں رشتہ داروں سے بھی بلکہ غیروں سے بھی حسن سلوک کا حکم ہے۔ پھرایک روایت ہے حضرت اَبُو اُسَید السَّاعِدِیؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ یارسول اللہ ! والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے لئے کر سکوں ؟ آپؐ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں۔ تم ان کے لئے دعائیں کرو۔ ان کے لئے بخشش طلب کرو، انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو۔ ان کے عزیز و اقارب سے اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و اکرام کے ساتھ پیش آؤ۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی بر الوالدین) تو یہ ہے ماں باپ سے حسن سلوک کہ زندگی میں تو جو کرناہے وہ توکرناہی ہے، مرنے کے بعد بھی ان کے لئے دعائیں کرو، ان کے لئے مغفرت طلب کرو اور اس کے علاوہ ان کے وعدوں کو بھی پوراکرو، ان کے قرضوں کو بھی اتارو۔ بعض دفعہ بعض موصی وفات پاجاتے ہیں۔ وہ تو بے چارے فوت ہوگئے انہوں نے اپنی جائیداد کا ۱۰/۱ حصہ وصیت کی ہوتی ہے لیکن سالہا سال تک ان کے بچے، ان کے لواحقین ان کاحصہ وصیت ادا نہیں کرتے بلکہ بعض دفعہ انکار ہی کر دیتے ہیں، ہمیں اس کی توفیق نہیں۔ گویا ماں باپ کے وعدوں کا پاس نہیں کر رہے، ان کی کی ہوئی وصیت کا کوئی احترام نہیں کر رہے۔ والدین سے ملی ہوئی جائیدادوں سے فائدہ تو اٹھا رہے ہیں لیکن ان کے جووعدے ان ہی کی جائیدادوں سے ادا ہونے والے ہیں وہ ادا کرنے کی طرف توجہ کوئی نہیں۔ جبکہ اس جائیداد کا جو دسواں حصہ ہے وہ تو بچوں کا ہے ہی نہیں۔ وہ تواس کی پہلے ہی وصیت کرچکے ہیں۔ تو وہ جو ان کی اپنی چیز نہیں ہے وہ بھی نہیں دے رہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے بچوں کو عقل اور سمجھ دے کہ وہ اپنے والدین کے وعدوں کو پورا کرنے والے بنیں۔ یہاں تو یہ حکم ہے کہ صر ف ان کے وعدو ں کو ہی پورا نہیں کرنا بلکہ ان کے دوستوں کا بھی احترام کرناہے، ان کوبھی عزت دینی ہے اور ان کے ساتھ جو سلوک والدین کا تھا اس سلوک کو جاری رکھناہے۔ پھرایک روایت ہے آنحضرتﷺ کی رضاعی والدہ حلیمہ مکہ آئیں اور حضوؐر سے مل کر قحط اور مویشیوں کی ہلاکت کا ذکر کیا۔ حضورﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے مشورہ کیا اور رضاعی ماں کو چالیس بکریاں اور ایک اونٹ مال سے لدا ہوا دیا۔ (طبقات ابن سعد جلد اول صفحہ ۱۱۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۰ء) اب خدمت صرف حقیقی والدین کی نہیں ہے بلکہ ہمارے آقا حضرت محمدﷺ کا اسؤہ حسنہ تو یہ ہے کہ اپنی رضاعی والدہ کی بھی ضرورت کے وقت زیادہ سے زیادہ خدمت کرنی ہے۔ اور اس کوشش میں لگے رہناہے کہ کسی طرح مَیں حق اداکروں۔ اور یہاں اس روایت میں ہے کہ مال چونکہ حضرت خدیجہ کا تھا، وہ بڑی امیر عورت تھیں اور گو کہ آپ نے اپنا تمام مال آنحضرتﷺ کے سپرد کر دیاتھا، آپ کے تصرف میں دے دیا تھا، آپ کو اجازت تھی کہ جس طرح چاہیں خرچ کریں لیکن پھربھی حضرت خدیجہ سے مشورہ کیااور ہمیں ایک اور سبق بھی دے دیا۔ بعض لوگ اپنی بیویوں کا مال ویسے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے تصرف میں نہیں بھی ہوتا ان کے لئے بھی سبق ہے۔ پھرایک روایت ہے حضرت ابو طفیلؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ کو مقام جِعْرانہ میں دیکھا۔ آپؐ گوشت تقسیم فرما رہے تھے۔ اس دوران ایک عورت آئی تو حضورؐ نے اس کے لئے اپنی چادر بچھادی اور وہ عورت اس پر بیٹھ گئی۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہے جس کی حضورؐ اس قدر عزت افزائی فرما رہے ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ آنحضورﷺ کی رضاعی والدہ ہیں۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی بر الوالدین) ایک بار حضور ؐ تشریف فرما تھے کہ آپ کے رضاعی والد آئے۔ حضور ؐ نے ان کے لئے چادرکا ایک پلّو بچھا دیا۔ پھر آپ کی رضاعی ماں آئیں تو آپ ؐ نے دوسرا پلّو بچھا دیا۔ پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ ؐ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا۔ (سنن ابوداؤد ،کتاب الادب باب فی برالوالدین) پوری کی پوری چادر اپنے رضاعی رشتہ داروں کے لئے دے دی اور آپ ؐ ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے۔ تویہ عزت اور احترام اور تکریم ہے جس کا نمونہ آپﷺ نے پیش فرمایا۔ نہ صرف یہ کہ رضاعی والدین کا احترام فرما رہے ہیں بلکہ جب رضاعی بھائی آتاہے تو اس کے لئے بھی خاص اہتمام سے جگہ خالی کررہے ہیں۔ اور یہ تمام عزت واحترام اس لئے ہے کہ آ پؐ نے جس عورت کا کچھ عرصہ دودھ پیا تھا دوسرے لوگ بھی اس کی طرف منسوب ہیں، اس کے عزیز ہیں۔ آج کل تو بعض جگہ دیکھاگیاہے کہ قریبی عزیز بھی آ جائیں تو بچے اگر کرسیوں پر بیٹھے ہیں تو بیٹھے رہتے ہیں، کوئی جگہ خالی نہیں کرتا۔ اور ان بچوں کے بڑے بھی یہ نہیں کہتے کہ اٹھو بچو، بڑے آئے ہیں ان کے لئے جگہ خالی کردو۔ تویہ مثالیں صرف قصے کہانیوں کے لئے نہیں دی جاتیں بلکہ اس لئے ہوتی ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے۔ یہ حسین تعلیم ہمارے لئے عمل کرنے کے لئے ہے۔ پھرایک روایت میں آتاہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا، مٹی میں ملے اس کی ناک۔ مٹی میں ملے اس کی ناک (یہ الفاظ آپؐ نے تین دفعہ دہرائے) لوگوں نے عرض کیا کہ حضور کون؟ آپؐ نے فرمایا وہ شخص جس نے اپنے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوسکا۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب رغم انف من ادرک ابویہ) تو یہ دیکھیں کس قدر ڈرایا گیاہے، آپ نے کس طرح بیزاری کا اظہار فرمایاہے بلکہ ایک طرح سے لعنت ہی ڈالی گئی ہے ایسے شخص پر کہ جنت میں جانے کے مواقع ملنے کے باوجود ان سے فائدہ نہیں اٹھایا کہ تم پرپھٹکار ہو خدا کی۔ اللہ تعالیٰ تمام ایسے بگڑے ہوؤں کو جو اپنے ماں باپ سے بدسلوکی کرتے ہیں راہ راست پر لائے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے ماں باپ سے اس طرح بدسلوکی کرتاہے وہ میری جماعت میں سے نہیں۔ ……جیسا کہ فرمایا کہ جوشخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لاپروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ (کشتی ٔنوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۱۹) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدا تعالیٰ کے لیے غیرت کا اظہار