اللہ تعالیٰ کی ایک صفت عزیز ہے، جس کا قرآن کریم میں قریباً سَو دفعہ بیان ہوا ہے۔ یہ بیان مختلف آیات میں مختلف مضامین کے ساتھ اور ایک آدھ بار اس کے علاوہ دوسری صفات کے ساتھ مل کر ہوا ہے۔ اس صفت کے اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے اہل لغت نے جو مختلف معانی کئے ہیں وہ مَیں بیان کرتا ہوں۔ مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ اَلْعَزِیْز وہ جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو۔ یعنی جو دوسروں کو دبا لے اور اُسے کوئی دبا نہ سکے، اس پر غلبہ نہ پا سکے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّہٗ ھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ یعنی وہ یقیناً غالب اور بڑی حکمت والا ہے۔ پھر امام راغب نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ (المنافقون:9) اس کا ترجمہ ہے اور عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کو ہی حاصل ہے۔ عزت کا مطلب بھی قوت، طاقت اور غلبہ ہے۔ یہ لکھتے ہیں کہ وہ عزت جو اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کو حاصل ہے یہی ہمیشہ باقی رہنے والی دائمی اور حقیقی عزت ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ آیت مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا، اس کے معنی ہیں کہ جو شخص معزز بننا چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سے عزت حاصل کرے۔ کیونکہ سب قسم کی عزت خدا ہی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ امام راغب قرآنی آیات کے حوالے سے ہی عموماً معانی بیان کرتے ہیں۔ پھر لسان العرب میں اس کے معنی یوں بیان ہوئے ہیں۔ اَلْعَزِیْزُ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ زُجاج کہتے ہیں کہ عزیز وہ ذات ہے جس تک رسائی ممکن نہ ہو اور کوئی شے اسے مغلوب نہ کر سکتی ہو۔ بعض کے نزدیک اَلْعَزِیْزُ وہ ذات ہے جو قوی ہو اور ہر ایک چیز پرغالب ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اَلْعَزِیْزُ وہ ذات ہے جس کی کوئی مثل نہیں۔ اَلْمُعِزّ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے اور وہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جسے چاہے عزت عطا کرتا ہے۔ اَلْعِزُّ ذلّت کے مقابلے پر عزت استعمال ہوتا ہے اَلْعِزُّ کا اصل مطلب قوت، شدت اور غلبہ ہے، اَلْعِزُّ وَالْعِزَّۃُ کے معانی ہیں اَلرِّفْعَۃُ وَالْاِ مْتِنَاعُ۔ وہ بلندی کہ جس تک رسائی نہ ہو سکے۔ اس ساری وضاحت کا خلاصہ یہ نکلا کہ عزیز خداتعالیٰ کا نام ہے جو کاملیت اور جامعیت کے لحاظ سے صرف خداتعالیٰ پر ہی صادق آتا ہے اور وہی ہے جس کی طرف تمام عزتیں منسوب ہیں۔ وہی ہے جو اپنے پر ایمان لانے والوں اور اپنے رسول کو طاقت و قوت عطا فرماتا ہے جو ان کے غلبہ کا موجب بنتی ہے۔ پس اس غالب اور سب طاقتوں کے مالک خدا سے تعلق جوڑنا ہی ایک انسان کو قوت و طاقت عطا فرماتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ قرآن کریم میں تقریباً سَوجگہ مختلف مضامین اور حوالوں کے تحت اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا ذکر ہے۔ اس بارے میں بعض مفسرین نے بعض آیات کی جو تفسیریں کی ہیں ان میں سے چند ایک پیش کرتا ہوں تاکہ اس کے مزید معنی کھل سکیں۔ علامہ فخرالدین رازی اَمْ عِنْدَ ھُمْ خَزَآئِنُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ الْعَزِیْزِ الْوَھَّاب (سورۃ صٓ:10) کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ’’عزیز کی صفت بیان کرکے یہ واضح کیا گیا ہے کہ نبوت کا منصب ایک عظیم منصب اور ایک بلند مقام ہے اور اس کو عطا کرنے پر قادر ہستی کے لئے ضروری ہے کہ عزیز ہو یعنی کامل قدرت رکھنے والی ہستی ہو اور وھاب ہو یعنی بہت زیادہ سخاوت کرنے والی ہو اور اس مقام پر فائز صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ ہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی کامل قدرتوں والا اور کامل الجود ہے۔‘‘ (یعنی سخاوت اور بخشش کرنے والا ہے۔) (تفسیرکبیر امام رازی تفسیر سورۃص زیر آیت نمبر10)(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۹؍اکتوبر ۲۰۰۷ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ ۹؍نومبر ۲۰۰۷ء) مزید پڑھیں: خدا تعالیٰ کی صفت السَّلام