وَلَوْ لَادَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا۔ (الحج:۴۱) (ترجمہ) یعنی اگر خداتعالیٰ کی یہ عادت نہ ہوتی کہ بعض کو بعض کے ساتھ دفع کرتا تو ظلم کی نوبت یہاں تک پہنچتی کہ گوشہ گزینوں کے خلوت خانے ڈھائے جاتے اور عیسائیوں کے گرجے مسمار کئے جاتے اور یہودیوں کے معبد نابود کئے جاتے اور مسلمانوں کی مسجدیں جہاں کثرت سے ذکر خدا ہوتا ہے منہدم کی جاتیں۔ اس جگہ خداتعالیٰ یہ ظاہر فرماتا ہے کہ ان تمام عبادت خانوں کا مَیں ہی حامی ہوں اور اسلام کا فرض ہے کہ اگر مثلاً کسی عیسائی ملک پر قبضہ کرے تو ان کی عبادت خانوں سے کچھ تعرض نہ کرے اور منع کر دے کہ ان کے گرجے مسمار نہ کئے جائیں اور یہی ہدایت احادیث نبویہ سے مفہوم ہوتی ہے کیونکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جبکہ کوئی اسلامی سپہ سالار کسی قوم کے مقابلہ کے لئے ما مور ہوتا تھا تو اس کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے عبادت خانوں اور فقراء کے خلوت خانوں سے تعرض نہ کرے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام کس قدرتعصب کے طریقوں سے دور ہے کہ وہ عیسائیوں کے گرجاؤں اور یہودیوں کے معبدوں کا ایسا ہی حامی ہے جیسا کہ مساجد کا حامی ہے ہاں البتہ اس خدا نے جو اسلام کا بانی ہے یہ نہیں چاہا کہ اسلام دشمنوں کے حملوں سے فنا ہو جائے بلکہ اس نے دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے اور حفاظتِ خود اختیاری کے طور پر مقابلہ کرنے کا اِذن دے دیا ہے۔ (چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ۳۹۳-۳۹۴) کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلۃ:۲۲) یعنی خدا نے ابتداء سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔ پس چونکہ مَیں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اسی نبی کریم خاتم الانبیاء کا نام پا کر اور اسی میں ہو کر اور اسی کا مظہر بن کر آیا ہوں۔ اس لئے مَیں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرتﷺ تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ جس زمانہ میں ان مولویوں اور ان کے چیلوں نے میرے پر تکذیب اور بدزبانی کے حملے شروع کئے اس زمانہ میں میری بیعت میں ایک آدمی بھی نہیں تھا۔ گو چند دوست جو انگلیوں پر شمار ہو سکتے تھے میرے ساتھ تھے۔ اور اِس وقت خداتعالیٰ کے فضل سے ۷۰ہزار کے قریب بیعت کرنے والوں کا شمار پہنچ گیا ہے کہ جو نہ میری کوشش سے بلکہ اس ہوا کی تحریک سے جو آسمان سے چلی ہے میری طرف دوڑے ہیں۔ اب یہ لوگ خود سوچ لیں کہ اس سلسلہ کے برباد کرنے کے لئے کس قدر انہوں نے زور لگائے اور کیا کچھ ہزار جانکا ہی کے ساتھ ہر ایک قسم کے مکر کئے یہاں تک کہ حُکّام تک جھوٹی مخبریاں بھی کیں، خون کے جھوٹے مقدموں کے گواہ بن کر عدالتوں میں گئے اور تمام مسلمانوں کو میرے پر ایک عام جوش دلایااو رہزارہا اشتہار اور رسالے لکھے اور کفر اور قتل کے فتوے میری نسبت دئے اور مخالفانہ منصوبوں کے لئے کمیٹیاں کیں۔ مگر ان تمام کوششوں کا نتیجہ بجزنامرادی کے اور کیا ہوا۔ پس اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو ضرور ان کی جا ن توڑ کوششوں سے یہ تمام سلسلہ تباہ ہو جاتا۔ کیا کوئی نذیر دے سکتا ہے کہ اس قدر کوششیں کسی جھوٹے کی نسبت کی گئیں اور پھر وہ تباہ نہ ہوا بلکہ پہلے سے ہزار چند ترقی کر گیا۔ پس کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ کوششیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تخم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہو جائے اور صفحۂ ہستی پر اس کا نام و نشان نہ رہے مگر وہ تخم بڑھا اور پھولا اور ایک درخت بنا اور اس کی شاخیں دور دور چلی گئیں اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزار ہا پرند اس پرآرام کر رہے ہیں۔(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ۳۸۰-۳۸۴) مزید پڑھیں: سلام تو وہ ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے ہو