(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود؈ او رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات،گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ) مکر م ابو محمد عبد اللطیف صاحب(3) گزشتہ دو اقساط میں ہم نے مکرم ابو محمد صاحب کے احمدیت کی طرف سفر کا بڑا حصہ پیش کردیا تھا۔ اس قسط میں ان کے اس ایمانی سفر کے باقی واقعات پیش کئے جائیں گے۔ وہ بیان کرتے ہیں : جیل میں مجھے جسمانی طور پر توکوئی اذیّت نہیں پہنچائی گئی لیکن مختلف کارندوں کی طرف سے جب جماعت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی جاتی تو مجھے نفسیاتی طور پر شدید اذیت سے گزرنا پڑتا۔ لیکن اس طرح دعا کی بھی توفیق ملتی اور مَیں ملاقات کے لئے آنے والے احمدی احباب کو بھی اس کی تلقین کرتا۔اس دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑے نشان دکھائے۔ مثلاً چینی قیدی کو کلمۂ شہادت پڑھانے والا واقعہ گزر چکا ہے جسے سن کر جیل کا داروغہ سمجھا تھا کہ شاید میں اسے تبلیغ کرکے مسلمان کرنے لگا ہوں لہٰذا اس نے چینی قیدی کو مخاطب کر کے کہا کہ تمہاراکفر اس (ابومحمد)کے اسلام سے بہتر ہے اس لئے اپنے کفر پر قائم رہو۔ یہ سن کر میرا دل درد سے بھر گیا اور ایسی حالت میں پُرسوز دعاؤں کی توفیق ملی۔خدا تعالیٰ کو اپنے دین اور اپنے کلمہ کی بڑی غیرت ہے۔ لہٰذا چند روز ہی گزرے تھے کہ اس داروغہ کے خلاف کوئی کیس بنا اور اسے نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔مجھے تو خیر خدا کی تقدیر پر یقین تھا لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اسے بھی احساس ہو گیا کہ اسے یہ سزا اپنے کہے گئے جملے کی وجہ سے ملی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جیل سے رہائی کے بعد ایک روز اتفاق سے سرِراہ اس سے ملاقات ہوگئی۔ وہ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا کہ مجھے معاف کردوکیونکہ مَیں نے تمہارے بارہ میں نہایت نامناسب بات کہی تھی۔ مَیں نے کہا کہ تم اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو اور مَیں بھی تمہارے لئے دعا کروں گا۔ دسواں پہاڑ جیل کے ایام میں مجھے اپنے اردگرد سے بھی بہت کچھ سننا پڑتا تھا۔ بعض کہتے تھے کہ اسے سر عام پھانسی دے دینی چاہئے تا کہ دوسروں کے لئے عبرت کا نشان بن جائے۔ اسی طرح بعض دیگر مختلف طریقوں سے تمسخر اور استہزاء کا نشانہ بناتے لیکن یہ باتیں میرے ایمان میں مزید پختگی کا باعث بنتی تھیں چنانچہ میں نے کہا کہ اگر خدا کی یہی تقدیر ہے تو میں تیار ہوں۔ ایک عبد اللطیف عجمیوں میں سے تھے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان کے جرم میں شہید کردیا گیا اور انشاء اللہ میں عربوں میں سے دوسرا عبد اللطیف بنوں گاجسے امام الزمان پر ایمان کی پاداش میں شہادت کا درجہ نصیب ہوگا۔ لوگوں کی باتیں سن کر مجھے اگر کسی کا خیال آتا تھا تو وہ خلیفۂ وقت کا ،میں ایسے حالات میں اپنے احمدی احباب کے ذریعہ حضور انور کی خدمت میں پیغام بھجواتا تھاکہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں میری طرف سے یہ عرض کردیں کہ احمدیت تو خون کے ساتھ میرے رگ وریشہ میں سما چکی ہے۔ اس لئے حضورانور میرے بارہ میں پریشان نہ ہوں۔ میں اپنے ایمان اور عہد پر قائم ہوں۔ کوئی دھمکی ، کوئی خوف میرے ایمان کو متزلزل نہیں کرسکتا۔میں جس علاقے میں رہتا ہوں اس کے ارد گرد 9پہاڑ ہیں ، اور میں حضور انور کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اپنی ثبات قدمی کے حوالے سے اس علاقے کا دسواں پہاڑ میں ہوں اور کوئی بھی مجھے میرے موقف سے ہٹا نہیں سکتا۔ إِنّی مُہِیْنٌ مَنْ أَرَادَ إِھَانَتَک چونکہ مَیں نے تین مختلف جیلوں میں اپنی قید کا عرصہ گزارا تھا اس لئے کئی دارغوں سے واسطہ پڑا تھا۔ جیل سے رہائی کے بعد ایک روزاتفاقًا ایک داروغے سے ملاقات ہوئی اور ہمارے مابین بعض دینی امور کے بارہ میں بات چیت ہونے لگی۔کچھ دیرکے بعد ہماری گفتگو کا رخ بعض دنیاوی امور کی طرف ہو گیااور کسی بات پرہمارا اختلاف ہوگیا۔ اس کے غلط موقف کی میں نے ایک دو بار تصحیح کی تو وہ زچ ہو کر کہنے لگا کہ تم ہو کون؟ کل تک تو تم میری جیل میں میرے قیدی تھے اور آج آکرمجھے اصلاح کے بھاشن دے رہے ہو۔ میں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ہمارے معاشرے میں کسی کے کردار کو مشکوک کرنے کے لئے اس کے بارہ میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ وہ جیل میں رہا ہے۔لیکن تمہیں معلوم ہے کہ مَیں کسی چوری، ڈاکے یا کسی جرم کی پاداش میں جیل نہیں گیا تھا۔ مَیں اپنے ایمان کی حفاظت میں جیل گیا تھا۔چنانچہ تم جس بات کا مجھے طعنہ دے رہے ہو وہ میرے لئے قابل فخر ہے۔ اس کے ساتھ مزید بات کرنے کا تواب کوئی مقصد نہ رہا تھا اس لئے میں اس کو چھوڑ کر چلاآیا لیکن اس کی بات کی کاٹ میرے دل کو زخمی کرگئی۔ اور بار بار میری زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام: إِنّی مُہِیْنٌ مَنْ أَرَادَ إِھَانَتَکَآنے لگا۔ واپسی پر میری ملاقات اپنے ایک دوست سے ہوئی جسے تفصیل بتاتے ہوئے میں نے کہا کہ میں تو امام الزمان پر اپنے ایمان اورعقیدے کی حفاظت کی پاداش میں جیل گیا تھا اور خدا کا شکر ادا کرتاہوں کہ کسی قابل شرم فعل کے ارتکاب میں قید نہیں ہوا، لیکن کسی کو اس طرح ناجائز طعنے دینے والے کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خداتعالیٰ اسے کسی جرم کی پاداش میں جیل میں ڈلوا دے۔ اس واقعہ کے صرف ایک ہفتہ کے اندر ہی میں نے سنا کہ مذکورہ بالا شخص کی جیل سے اس کی ڈیوٹی کے دوران ایک قیدی فرار ہو گیااور اس کو فرار کروانے کا الزام اس داروغہ پرعائد ہوا جس کی پاداش میں قیدی کی جگہ پراس داروغہ کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ یوں جس بات کا اس نے مجھے طعنہ دیا تھا وہ خود اس میں گرفتار ہو گیا۔ اہلیہ کی بیعت جیل کے دوران مجھے لمبی قید کے اشارے مل رہے تھے لہٰذا میں نے جیل سے ہی اپنی اہلیہ کو فون کر کے کہا کہ شاید مجھے لمبی قید کی سزا ہوجائے لیکن ایسی حالت میں بڑا ظلم ہوگا کہ میں تمہیں اپنے ساتھ زبردستی باندھے رکھوں۔ اس لئے مَیں تمہیں اختیار دیتا ہوں کہ اگر چاہوتو میرا انتظار کرو اور چاہوتو بے شک اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کر لو ، مجھے تم سے کوئی شکوہ نہ ہوگا۔الحمد للہ کہ میری بیوی نے بڑے تحمل کے ساتھ میری بات سننے کے بعد کہا آپ مجھے ہر حالت میں اپنے موقف کا مؤید بن کر اپنے پہلو میں کھڑا پائیں گے۔ یوں اس وقت اقرار کرنے کے بعد میری اہلیہ نے بھی جیل سے میری رہائی کے بعدسچے دل سے بیعت کرلی۔ سزا اور رہائی تقریبًا دو ماہ کی جیل کے بعد میرے کیس کا فیصلہ ہو گیا اور مجھے جج نے قبولیت احمدیت کے جرم میں دو سال کی سزا سنائی۔سزا کی خبر بھی مجھے متزلزل نہ کرسکی۔ مجھے سب سے بڑی تسلی اس بات سے ہوتی تھی کہ خلیفہ وقت میرے لئے دعا کررہے ہیں اور افراد جماعت کو میرے لئے دعا کی تلقین فرماتے ہیں۔ مجھے خدا کے حضوران دعاؤں کی قبولیت کا یقین تھالیکن یہ وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ یہ اس قد ر جلدی قبول ہونے والی ہیں۔ ہوا یوں کہ انہی ایام میں حاکم وقت کو بیماری سے شفا حاصل ہوئی تو اس خوشی میں اس نے بعض قیدیوں کی رہائی کا بھی اعلان کیا۔لیکن اس اعلان سے وہی قیدی استفادہ کر سکتے تھے جو اپنی سزا کا نصف حصہ جیل میں گزار چکے تھے۔مجھے تو دو سال کی سزا ہوئی تھی اور ابھی میں نے پہلے دن سے لے کر کل اڑھائی ماہ کا عرصہ جیل میں گزارا تھا۔لیکن دعاؤں کا کرشمہ یوں ظاہر ہوا کہ حاکم وقت کے اعلان کے اگلے روز قیدیوں کی رہائی کا پروانہ اوران کے ناموں کی جو فہرست جاری ہوئی ان میں سے پہلا نام اس عاجز کا تھا۔ یوں جیل کا ہر دن اورہر مرحلہ مجھے اپنے ایمان میں مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا گیااور مَیں جب جیل سے نکلا تو اگلے روز اپنے آفس میں ایسے کام کررہا تھا جیسے گزشتہ چند ہفتوں میں کوئی غیر معمولی واقعہ نہ ہوا ہو۔ لقائِ حبیب اور دُعائِ مستجاب رہائی کے بعد پیارے آقا سے ملنے کی تڑپ اور بھی بڑھ گئی۔ چنانچہ مَیں کچھ عرصہ کے بعد جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقعہ پر لندن میں حاضر ہوا۔پیارے آقا سے ملاقات، مصافحہ اورمعانقہ کر کے جو احساس ہوا اس کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ حضورانور نے نہایت پیار، بے پایاں شفقت، غیر معمولی محبت اورلطف وکرم سے نوازاکہ مجھے اپنی قسمت پر رشک آنے لگا۔ حضورانور سے ملاقات کے دوران مَیں نے دو امور کے لئے بطور خاص دعا کی درخواست کی۔ایک تو جیل سے لگنے والے وائرس سے شفا پانے کے لئے تھی جس نے جیل سے رہائی کے بعد کئی ماہ گزرنے کے باوجود مجھے پریشان کررکھا تھا۔ مَیں نے اچھے سے اچھا علاج کرایا لیکن وقتی آرام آتا اورمحض چند دن کے بعد بیماری پھرمزید شدّت کے ساتھ عود کر آتی تھی۔ اور دوسری درخواست کے لئے میری اہلیہ نے مجھے خصوصی تاکید کی تھی اور وہ ہمارے ہونے والے بچے کے لئے تھی۔ جس کے بارہ میں ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ بچے کی پوزیشن درست نہیں ہے اور اس کی ولادت آپریشن سے ہوگی۔ جب میں نے ہر دو امور کے بارہ میں دعا کی درخواست کی توحضورانور نے فرمایا کہ اللہ فضل فرمائے گااور تمہیں بھی شفا مل جائے گی اور بچہ کی پیدائش بھی نارمل ہوجائے گی۔ گو مجھے خلیفہ ٔ وقت کی دعاؤں کی قبولیت کا تو ذاتی طور پر بھی تجربہ تھا لیکن یہ احساس نہ تھا کہ خلیفہ ٔ وقت کی زبان مبارک سے نکلنے والے الفاظ بھی دعا کا رنگ رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ پا جاتے ہیں۔ لہٰذا میں یہی سمجھا کہ حضور انور کا مذکورہ بالا جملہ مجھے تسلی دینے کے لئے ہے۔لیکن جب میں واپس اپنے ملک آیا تو پیارے آقا کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ان دعائیہ کلمات کا پہلا نشان یوں ظاہر ہوا کہ وہ خارش جس کا علاج کرا کرا کے مَیں تھک گیا تھا اورایک سال سے اس تکلیف میں گرفتار تھا وہ خلیفہ ٔ وقت کی دعاسے مکمل طور پر ختم ہوگئی اور اب تک اس کا نام ونشان تک نہیں ہے۔ دوسرا نشان ہمارے ہاں بچہ کی پیدائش کے وقت ظاہر ہوا۔ ہمارے ہاں ہسپتالوں میں بچہ کی ولاد ت کے لئے دو کمرے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ایک نارمل ولادت کے لئے اور ایک آپریشن سے ولادت کے لئے۔چونکہ آخری وقت تک ڈاکٹرز کی یہی رائے تھی کہ بچہ کی پوزیشن ٹھیک نہیں ہے لہٰذامیری اہلیہ کے لئے آپریشن تھیٹر کو تیار کیا گیا۔ عین اس وقت جبکہ میری اہلیہ کے آپریشن کی تیاری ہورہی تھی مَیں نے دیکھا کہ کچھ سٹاف بڑی تیزی سے نارمل ولادت والے کمرے کو تیار کررہے ہیں۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ابھی یکدم بچہ کی پوزیشن درست ہوگئی ہے اور اب لگتا ہے کہ ولادت بغیر آپریشن کے ہی ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ یہ ہمارے لئے خلیفۂ وقت کی استجابت دعا کا بہت بڑا نشان تھا۔ برکات ِقرب خلافت اسی طرح جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر میرے ساتھ ایک اور غیر معمولی واقعہ بھی ہوا جسے بلا شبہ قربِ خلافت اور برکاتِ خلافت کی ایک جھلک سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مَیں جامعہ احمدیہ برطانیہ میں بیٹھا ہوا تھا اور اپنے اہل وعیال کے بارہ میں سوچ رہا تھا کہ اچانک محض چند لمحات کے لئے میری آنکھوں کے سامنے ایک منظر آگیا۔ میں نے دیکھا کہ میری بیٹی نیلے رنگ کی ایک شیشی سے شیمپو زمین پر گرارہی ہے اورمیری دوسری بیٹی اس شیمپووالے فرش پر چلنے لگتی ہے تو پھسل کر گرجاتی ہے۔ یہ منظرمحض چند لمحوں کے لئے ہی آنکھوں کے سامنے آیا اور پھر بسرعت غائب ہو گیا۔میں نے فورًا فون لیا اور اپنی بیوی کو بتایا کہ میں نے ابھی ابھی یہ نظارہ دیکھا ہے۔ وہ میری یہ بات سن کر دم بخود رہ گئی اورپھر کہنے لگی کہ کچھ دیر قبل بعینہٖ یہی واقعہ یہاں ہوا ہے، بڑی بیٹی نے شیمپو گرایا اور چھوٹی بیٹی اس سے پھسل کر گر گئی،اورعجیب بات یہ ہے کہ شمیپووالی بوتل کا رنگ بھی نیلا ہی ہے۔ لیکن اللہ کے فضل سے دونوں محفوظ ہیں ،کسی کو چوٹ وغیرہ نہیں آئی۔ یہ بلا شبہ قرب خلافت کی برکات میں سے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے ایک نہایت قیمتی تحفہ تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دو بار مجھے قادیان کی زیارت کی توفیق بھی عطا فرمائی۔ وہاں کے مقامات مقدسہ کی زیارت کے وقت کے جذبات، وہاں کی جانے والی عبادات، اور وہاں گزارے جانے والے دن اور رات کے بارہ میں لکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ خدا کا احسان ہے کہ اس نے امام الزمان کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اس نعمت پر جس قدر شکرکیا جائے کم ہے۔ (باقی آئندہ)