https://youtu.be/27jHVCSQSVQ علماء کا اس قول کو مرفوع روایات سے تطبیق دینا بھی بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ قول مقبول ہے ۵۔ یہ یاد رہے کہ روایت کا معنعن ہونا اس کے متصل ہونے میں مانع نہیں۔امام الحاکم نے اپنی کتاب کا گیارھواں باب معنعن روایات کے بارے میں تحریر کیا ہے۔چنانچہ آغاز میں ہی لکھتے ہیں:’’ ذِكْرُ النَّوْعِ الْحَادِي عَشَرَ مِنْ عُلُومِ الْحَدِيثِ هَذَا النَّوْعُ مِنْ هَذِهِ الْعُلُومِ هُوَ مَعْرِفَةُ الْأَحَادِيثِ الْمُعَنْعَنَةِ، وَلَيْسَ فِيهَا تَدْلِيسٌ، وَهِيَ مُتَّصِلَةٌ بِإِجْمَاعِ أَئِمَّةِ أَهْلِ النَّقْلِ عَلَى تَوَرُّعِ رُوَاتِهَا، عَنْ أَنْوَاعِ التَّدْلِيسِ‘‘ (معرفة علوم الحديث للحاكم صفحہ ۳۴) یعنی حدیث کے علوم میں سے گیارھویں قسم کا بیان:یہ قسم ان علوم میں سے ہے جو معنعن احادیث جن میں کوئی تدلیس نہ ہو کے متعلق ہے۔ اس قسم کے راویوں کے تمام اقسام کی تدلیس سے پرہیز کرنے کی بنا پر ائمہ کا ان کی معنعن روایات کے متصل ہونے پر اجماع ہے۔ اسی طرح علامہ ابن رشید،علامہ الدانی کے بارے میں لکھتے ہیں:’’ قَالَ الْحَافِظ أَبُو عَمْرو الْمقري وَمَا كَانَ من الْأَحَادِيث المعنعنة الَّتِي يَقُول فِيهَا ناقلوها عَن عَن فَهِيَ أَيْضا مُسندَة متصله بِإِجْمَاع أهل النَّقْل إِذا عرف أَن النَّاقِل أدْرك الْمَنْقُول عَنهُ إدراكا بَينا وَلم يكن مِمَّن عرف بالتدليس وان لم يذكر سَمَاعا۔‘‘(السنن الأبين (صفحہ: ۵۱) ط:مکتبۃ الغرباء الاثریۃ) یعنی علامہ الدانی کہتے ہیں: وہ احادیث جو معنعن کہلاتی ہیں،وہ بھی مسند اور متصل ہوتی ہیں،باجماع اہلِ نقل اگر یہ بات معلوم ہو جائے کہ راوی نے اُس سے جس سے روایت کر رہا ہے، واضح طور پر زمانہ پایا ہواور وہ تدلیس کے ساتھ معروف نہ ہو،اگرچہ اس نے صراحتاً سماع کا ذکر نہ کیا ہو۔ امام البیہقی ایک راوی پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وَالَّذِي يَقْتَضِيهِ مَذْهَبُ أَهْلِ الْحِفْظِ وَالْفِقْهِ فِي قَبُولِ الْأَخْبَارِ أَنَّهُ مَتَى مَا كَانَ قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ ثِقَةً، وَالرَّاوِي عَنْهُ ثِقَةً، ثُمَّ يَرْوِي عَنْ شَيْخٍ يَحْتَمِلُهُ سِنُّهُ وَلُقِيُّهُ، وَكَانَ غَيْرَ مَعْرُوفٍ بِالتَّدْلِيسِ كَانَ ذَلِكَ مَقْبُولًا۔‘‘(معرفة السنن والآثار (۱۴؍ ۲۸۷)ط: جامعة الدراسات الإسلامية (كراتشي - باكستان)، دار قتيبة (دمشق -بيروت)، دار الوعي (حلب - دمشق)، دار الوفاء (المنصورة - القاهرة)) یعنی روایات کو قبول کرنے کے بارے میں اہلِ حفظ اور اہلِ فقہ کا مذہب جس بات کا تقاضا کرتا ہے وہ یہ ہے:جب قیس بن سعد ثقہ ہو،اور اس سے روایت کرنے والا راوی بھی ثقہ ہو،پھر وہ کسی ایسے شیخ سے روایت کرےجس سے اس کی عمر اور ملاقات ممکن ہو،اور وہ تدلیس کے ساتھ معروف نہ ہو تو ایسی روایت قابلِ قبول ہوتی ہے۔ پس غیر مدلس ثقہ راوی کا عنعنہ روایت کے متصل ہونے میں مانع نہیں۔ ۶۔ علماء نے ابن سیرین عن عائشۃ کی سند کی تحسین اور تصحیح کی ہے۔صحیح روایت کی پہلی شرط ہی اتصالِ سند ہوتی ہے۔چنانچہ صحیح کی تعریف بیان کرتے ہوئے معاصر محقق لکھتے ہیں:’’مَا اتَّصَلَ سَنَدُهُ بِنَقْلِ العَدْلِ الضَّابِطِ، عَنْ مِثْلِهِ إِلَى مُنْتَهَاهُ، مِنْ غَيْرِ شُذُوذٍ، وَلَا عِلَّةٍ۔‘‘ (تيسير مصطلح الحديث (ص: ۴۴)ط: مكتبة المعارف للنشر والتوزيع )یعنی وہ حدیث جس کی سند متصل ہو (یعنی راویوں کا سلسلہ منقطع نہ ہو)،اور ہر راوی عادل اور ضابط ہو اور وہ اپنے جیسے (عادل و ضابط) سے روایت کرے،یہ سلسلہ سند کے آخر تک پہنچے،اور اس میں نہ کوئی شذوذ (ثقہ راوی کی مخالفت ہو)اور نہ کوئی علّت ہو تو یہ حدیث صحیح کہلاتی ہےاسی طرح حسن روایت میں بھی حفظ کے علاوہ تمام شرائط پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ ابن حجر لکھتے ہیں:’’فإنَّ خَفَّ الضَّبْطُ فالحَسَنُ لِذَاتِهِ‘‘(تيسير مصطلح الحديث (صفحہ: ۵۸) ط: مكتبة المعارف للنشر والتوزيع)یعنی اگر کسی راوی کے ضبط میں مسئلہ ہو تو وہ حسن لذاتہ کے درجہ پر آجائے گی۔ علماء نے ابن سیرین عن عائشۃ پر کیا حکم لگایا ہے؟ ذیل میں چند حوالہ جات درج کیے جاتے ہیں: (الف) امام حاکم روایت ’’ ما كانَ شيءٌ أبغضَ إلى رسولِ اللّٰهِ صلّى اللّٰهُ عليهِ وسلّمَ منَ الكذبِ…‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه۔‘‘ (المستدرك على الصحيحين للحاكم (۴؍ ۱۱۰) ط: دار الكتب العلمية) اگر کوئی کہے کہ امام حاکم توثیق کے معاملہ میں متساہل ہیں لہٰذا ان کی توثیق قابل حجت نہیں تو یہ یاد رہے کہ اس روایت میں امام حاکم کی توثیق کے ساتھ علامہ الذھبی کی موافقت بھی موجود ہے۔علامہ الذھبی اس روایت کے متعلق کہتے ہیں:’’صحیح‘‘۔(المستدرك على الصحيحين للحاكم (۴؍ ۱۱۰) ط: دار الكتب العلمية) چنانچہ علامہ التویجری لکھتے ہیں:’’فَأَمَّا الحَاكِمُ، فَإِنَّهُ كَانَ يَتَسَاهَلُ فِي تَصْحِيحِ بَعْضِ الأَحَادِيثِ،وَلَكِنْ كَانَ الذَّهَبِيُّ يَتَعَقَّبُهُ فِي تَلْخِيصِهِ لِلْمُسْتَدْرَكِ،فَيُضَعِّفُ مَا صَحَّحَهُ مِنَ الأَحَادِيثِ الضَّعِيفَةِ،وَيُوَافِقُهُ عَلَى تَصْحِيحِ الصَّحِيحِ مِنْهَا…وَمَحَلُّ الذَّهَبِيِّ فِي مَعْرِفَةِ صَحِيحِ الأَحَادِيثِ وَضَعِيفِهَا،وَنَقْدِ الرِّجَالِ، لَا يَخْفَى عَلَى طَالِبِ العِلْمِ۔‘‘(الاحتجاج بالأثر على من أنكر المهدي المنتظر (صفحۃ: ۴۱) ط: الرئاسة العامة لإدارات البحوث العلمية والإفتاء والدعوة والإرشاد، الرياض - المملكة العربية السعودية)یعنی جہاں تک امام حاکمؒ کا تعلق ہے،تو وہ بعض احادیث کو صحیح قرار دینے میں تساہل سے کام لیتے تھے،لیکن امام ذہبیؒ نے اپنی تلخیصِ مستدرک میں ان کا تعاقب کیا ہے چنانچہ جن ضعیف احادیث کو امام حاکمؒ نے صحیح کہا،امام ذہبیؒ نے اُن کو ضعیف قرار دیا،اور جن احادیث کا صحیح ہونا درست تھا،ان میں امام ذہبیؒ نے حاکمؒ کی موافقت کی۔اور احادیث کی صحت و ضعف کی پہچان اورراویوں پر جرح و تعدیل میں امام ذہبیؒ کا مقام طالب علم پر مخفی نہیں۔ (ب) علامہ ابن القیم نے بھی ایک مقام پر اس سند کی تحسین کی ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:’’حَدِيثٌ حَسَنٌ رَوَاهُ الْحَاكِمُ فِي الْمُسْتَدْرَكِ مِنْ طَرِيق ابْنِ وَهْبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا۔‘‘(إعلام الموقعين عن رب العالمين (۲؍ ۲۳۰ ط: دار ابن الجوزي للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية))۔یعنی امام حاکم نے ابْنِ وَهْبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ عَائِشَةَ کے طریق پر روایت کی ہے وہ حسن ہے۔ ۷۔ اگر مان لیں کہ امام ابن سیرین نے حضرت عائشہؓ سے سماع نہیں کی تو یہ بھی بہ وجوہِ ذیل مضر نہیں: (الف) علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں:’’ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ أَنَّ ابْنَ سِيرِينَ أَصَحُّ التَّابِعِينَ مَرَاسِلَ وَأَنَّهُ كَانَ لَا يَرْوِي وَلَا يَأْخُذُ إِلَّا عَنْ ثِقَةٍ وَأَنَّ مَرَاسِلَهُ صِحَاحٌ كُلُّهَا لَيْسَ كَالْحَسنِ وَعَطَاءٍ فِي ذَلِكَ۔‘‘ (التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد (۵؍ ۶۱۵) ط: مؤسسة الفرقان للتراث الإسلامي - لندن)یعنی علمائے حدیث کا اجماع ہے کہ ابن سیرین مرسل روایات کے اعتبار سے سب تابعین میں صحیح ترین روایت کرنے والے ہیں اور وہ صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے تھے ان کی تمام مرسل روایات صحیح کا درجہ رکھتی ہیں۔ان کی مراسیل حسن بصری یا عطا ء کی مراسیل کی مانند نہیں ہیں۔ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: فَمَرَاسِيلُ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ عِنْدَهُمْ صِحَاحٌ۔(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد (۱؍ ۲۲۰-۲۲۱) ط: مؤسسة الفرقان للتراث الإسلامي - لندن) یعنی سعید بن مسیب،محمد بن سیرین اور ابراہیم نخعی کی مراسیل علماء کے نزدیک صحیح ہیں۔ (ب) علامہ ابن تیمیۃ بھی اس بات کی توثیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وَابْنُ سِيرِين مَا كَانَ يَرْوِي إلَّا عَنْ ثِقَةٍ۔‘‘(مجموع الفتاوى (۲۳؍ ۴۷) ط: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف - المدينة المنورة - السعودية ) یعنی ابن سیرین صرف ثقہ راوی سے ہی روایت کرتے تھے۔ (ج) ایک مقام پر علامہ ابن عبد البر نے امام ابن سیرین اور سعید ابن المسیب کی مراسیل کو ایک درجہ کا قرار دیا ہے۔چنانچہ ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ’’وَمَرَاسِيلُ ابْنِ سِيرِينَ عِنْدَهُمْ صِحَاحٌ كَمَرَاسِيلِ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ۔‘‘ (التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد (۱۵؍ ۴۵۶) ط: مؤسسة الفرقان للتراث الإسلامي - لندن) ایک دوسرے مقام پر وہ ابن المسیب کے مراسیل کے بارے میں لکھتے ہیں:’’أَنَّهَا تَجْرِي مَجْرَى الْمُتَّصِلِ وَجَائِزٌ الِاحْتِجَاجُ بِهَا عِنْدَهُمْ۔‘‘(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد (۷؍ ۴۸۴) ط: مؤسسة الفرقان للتراث الإسلامي - لندن ) یعنی سعید بن مسیب کی مرسل روایات علماء کے نزدیک متصل کی مانند ہیں اور ان سے حجت پکڑنا جائز ہے۔پس جبکہ علماءکے نزدیک ابن سیرین کی مراسیل حجیت میں ابن مسیب کی مراسیل کی مانند ہیں لہذا وہ بھی متصل کی طرح ہیں۔ (د) علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ راوی کو حذف کرنا کمال وثوق کی علامت ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’فَإِنَّ حَذْفَ الْوَاسِطَةِ قَدْ يَكُونُ لِكَمَالِ الثِّقَةِ بِخَبَرِهِ۔ ‘‘(فتح الملھم بشرح صحیح الامام مسلم(۹۲؍۱) ط:دار الضیاء) پس امام ابن سیرین جب بغیر واسطہ کی صراحت کے حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں تو یہ اس قول پر کمال وثوق کا غماز ہے۔ (ھ) علامہ العراقی،ابو بکر الصیرفی کا نظریہ یوں پیش کرتے ہیں: ’’فَرَّقَ أَبُو بَكْرٍ الصَّيْرَفِيُّ مِنَ الشَّافِعِيَّةِ فِي كِتَابِ الدَّلَائِلِ بَيْنَ أَنْ يَرْوِيَهُ التَّابِعِيُّ عَنِ الصَّحَابِيِّ مُعْنَعَنًاأَوْ مَعَ التَّصْرِيحِ بِالسَّمَاعِ،فَقَالَ وَإِذَا قَالَ فِي الحَدِيثِ بَعْضُ التَّابِعِينَ "عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ "،لَا يُقْبَلُ؛لِأَنِّي لَا أَعْلَمُ أَسَمِعَ التَّابِعِيُّ مِنْ ذٰلِكَ الرَّجُلِ أَمْ لَا،إِذْ قَدْ يُحَدِّثُ التَّابِعِيُّ عَنْ رَجُلٍ وَعَنْ رَجُلَيْنِ،عَنِ الصَّحَابِيِّ،وَلَا أَدْرِي هَلْ أَمْكَنَ لِقَاءُ ذَلِكَ الرَّجُلِ أَمْ لَا؟فَلَوْ عَلِمْتُ إِمْكَانَهُ مِنْهُ، لَجَعَلْتُهُ كَمُدْرِكِ الْعَصْرِوَقَالَ وَإِذَا قَالَ"سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰهِ "قُبِلَ؛ لِأَنَّ الْكُلَّ عُدُولٌ۔‘‘ (التقييد والإيضاح شرح مقدمة ابن الصلاح (صفحہ: ۱۷۸) ط: دار الفیحاء للنشر والتوزیع) یعنی شافعی فقیہ ابو بکر الصیرفیؒ نے اپنی کتاب الدلائل میں یہ فرق بیان کیا کہ اگر تابعی صحابی سے حدیث ’’عن‘‘ کے ساتھ روایت کرے یا واضح طور پر سماع کا ذکر کرے،تو ان دونوں صورتوں میں حکم مختلف ہوگا۔انہوں نے کہا:اگر تابعی یوں کہے:میں نے ایک آدمی سے سنا جو نبی ﷺ کے صحابہ میں سے ہے’’تو یہ روایت قابلِ قبول ہوتی ہے،کیونکہ تمام صحابہ عادل ہیں۔لیکن اگر وہ یوں کہے: ایک صحابی سے روایت ہے‘‘ یعنی ’’عن رجل من أصحاب النبي ﷺ تو یہ قبول نہیں کی جاتی،کیونکہ میں نہیں جانتا کہ تابعی نے واقعی اس صحابی سے سنا بھی ہے یا نہیں۔کیونکہ تابعی کبھی ایک یا دو افراد کے واسطے سے بھی صحابی سے روایت کرتا ہے،اور مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ اس تابعی کی اس راوی سے ملاقات ممکن تھی یا نہیں۔لیکن اگر مجھے اس راوی کے ساتھ ملاقات کا امکان معلوم ہوتاتو میں اسے معاصرین کے درجے میں شمار کرتا۔ اس کا ردّ کرتے ہوئے علامہ ابن حجر لکھتے ہیں: ’’سَلَامَتُهُ مِنَ التَّدْلِيسِ كَافِيَةٌ فِي ذٰلِكَ،إِذْ مَدَارُ هَذَا عَلَى قُوَّةِ الظَّنِّ بِهِ،وَهِيَ حَاصِلَةٌ فِي هَذَا الْمَقَامِ۔‘‘ (النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر (۲؍ ۵۶۳) ط: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية، المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية) یعنی اگر تابعی تدلیس سے پاک ہو،تو اتنا کافی ہے،کیونکہ یہ مسئلہ ظنِّ غالب پر مبنی ہے،اور یہ ظن یہاں حاصل ہے۔ جیسا کہ گذشتہ صفحات میں یہ ذکر ہو چکا کہ امام ابن سیرین تدلیس سے بالکل بری ہیں لہٰذا کسی صحابی سے ان کی معنعن روایت سماع پر محمول ہو گی۔ (و)ابن رجب ایک مقام پر لکھتے ہیں: وَابْنُ سِيرِينَ لَا يَرْوِي عَنْ كَذَّابٍ أَبَدًا۔‘‘ (شرح علل الترمذي (۲؍ ۵۶۳ ط: مكتبة المنار - الزرقاء - الأردن))یعنی ابن سیرین کبھی جھوٹے راوی سے روایت نہیں کریں گے۔ (ز) یہ بات بھی مسلّم ہے کہ امام ابن سیرین روایت باللفظ کرتے تھے۔چنانچہ امام الترمذی لکھتے ہیں:’’وَكَانَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، وَرَجَاءُ بْنُ حَيْوَةَ، يُعِيدُونَ الْحَدِيثَ عَلَى حُرُوفِهِ۔‘‘ (كتاب العلل الواقع بآخر جامع الترمذي (۶؍ ۲۳۹) ط: دار الغرب الإسلامي – بيروت) یعنی قاسم بن محمد،محمد بن سیرین اور رجاء بن حیوۃ لفظاً روایت کرتے تھے۔یعنی بالمعنی نہیں کرتے تھے۔ (ح) ابن قتیبۃ نے اپنی کتاب میں حضرت عائشہؓ کے اس قول کی مرفوع احادیث کے ساتھ تطبیق دی ہے۔ (تأويل مختلف الحديث (صفحہ: -۲۷۲ ۲۷۱) ط: المكتب الاسلامي - مؤسسة الإشراق) اگر یہ روایت ان کے نزدیک قابل احتجاج نہ ہوتی تو تطبیق کی ضرورت نہ تھی۔ امام الشوکانی لکھتے ہیں:’’وَالتَّأْوِيلُ فَرْعُ الْقَبُولِ۔‘‘ (إرشاد الفحول إلى تحقيق الحق من علم الأصول (۱؍ ۲۵۵)ط: دار الفضیلۃ) یعنی تاویل کرنا قبول کرنے کی ہی قسم ہے۔ اعتراض: حافظ عبید اللہ صاحب لکھتے ہیں:’’اب خودنبی کریم ﷺ کے واضح اور صریح الفاظ کے بعد کسی صحابی کی طرف منسوب کسی منقطع یا مرسل روایت کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے جو فرمانِ نبوت کے ساتھ ٹکراتی ہو؟‘‘ (مطالعہ قادیانیت صفحہ۱۰۰-۱۰۱) اسی طرح ماہانہ لولاک کے مضمون نگار مولوی رضوان عزیز صاحب منقطع روایت کے حکم کے حوالہ جات درج کر کے لکھتے ہیں:’’جب حدیث مرفوع اور حدیث موقوف میں تعارض واقع ہو جائے تو ترجیح حدیث مرفوع کو ہوتی ہے۔‘‘ (لولاک جنوری ۲۰۱۵ء صفحہ ۱۹-۲۰) جواب: یہ اعتراض بہ وجوہ ِ ذیل غلط ہے: ۱۔ امام السیوطی لکھتے ہیں: ’’وَالتَّرْجِيحُ بِالْمُرْسَلِ جَائِزٌ‘‘ (تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي (۱؍ ۲۲۵) ط: مکتبۃ الکوثر) یعنی مرسل روایت سے ترجیح دینا جائز ہے۔ ۲۔ ہمارا موقف یہ نہیں کہ حضرت عائشہؓ کا قول مرفوع احادیث کے مخالف ہونے کے باوجود ہم لازماً حضرت عائشہؓ کے قول کو ہی ترجیح دیں گے۔بلکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ کا قول مرفوع احادیث کا مفسر ہے۔یہ ممکن ہے کہ مرسل روایت مرفوع روایت کی وضاحت کر ے۔اس کی بہت سی مثالیں ہیں مثلاً علامہ ابن حجر لکھتے ہیں: ’’حدثنا عُبَيْدُ اللّٰهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، هُوَ ابْنُ عَائِشَةَ، ثنا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللّٰه عَنْه قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰه صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " خديجة رَضِيَ اللّٰه عَنْها خَيْرُ نِسَاءِ عالمها، ومريم عليها السلام خَيْرُ نِسَاءِ عالمها، وفاطمة رَضِيَ اللّٰه عَنْها خَيْرُ نِسَاءِ عَالَمِهَا "هَذَا مُرْسَلٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وقد أخرجه الترمذي مِنْ طَرِيقِ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ جَعْفَرٍ عن علي رَضِيَ اللّٰه عَنْهم بِلَفْظِ " خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ، خير نِسَائِهَا فَاطِمَةُ"وَهَذَا الْمُرْسَلُ يُفَسِّرُ هَذَا الْمُتَّصِلَ۔‘‘ (المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية (۱۶؍ ۱۶۷) ط: دارالعاصمة للنشر والتوزيع - دار الغيث للنشر والتوزيع) یعنی متصل روایت جو ترمذی نے روایت کی ہے اس میں حضرت مریم و فاطمہؓ کی سب عورتوں پر فضیلت کا ذکر ہے لیکن یہ مطلق ذکر ہے۔جب مرسل روایت میں اس بات کی تخصیص ہے کہ وہ اپنے اپنے زمانہ کی افضل ترین عورتیں تھیں۔ گویا مرسل روایت، مرفوع روایت کی تفسیر کر رہی ہے۔ یہی بات علامہ السیوطی (تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي (۲؍ -۶۸۷۶۸۶) ط: مکتبۃ الکوثر) وغیرہ نے بحوالہ علامہ ابن حجر لکھی ہے۔پس ثابت ہوا کہ مرسل روایت متصل کی شرح کر سکتی ہے۔ اس کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ صحابہ حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کی مراد زیادہ بہتر جانتے تھے۔چنانچہ علامہ ابن القیم، امام الشافعی کے حوالہ سے لکھتے ہیں: ’’أَدَّوْا إلَيْنَا سُنَنَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَشَاهَدُوهُ وَالْوَحْيُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ فَعَلِمُوا مَا أَرَادَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامًّا وَخَاصًّا وَعَزْمًا وَإِرْشَادًا، وَعَرَفُوا مِنْ سُنَّتِهِ مَا عَرَفْنَا وَجَهْلِنَا، وَهُمْ فَوْقَنَا فِي كُلِّ عِلْمٍ وَاجْتِهَادٍ وَوَرَعٍ وَعَقْلٍ وَأَمْرٍ اُسْتُدْرِكَ بِهِ عِلْمٌ وَاسْتُنْبِطَ بِهِ، وَآرَاؤُهُمْ لَنَا أَحْمَدُ‘‘ (إعلام الموقعين عن رب العالمين (۲؍ ۱۵۰) ط: دار ابن الجوزي للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية )یعنی انہوں نے ہمیں رسول اللہ ﷺ کی سنتیں پہنچائیں، اور وہ رسول اللہ ﷺ کو دیکھتے رہے جب اُن پر وحی نازل ہو رہی تھی، چنانچہ وہ جان گئے کہ رسول اللہ ﷺ کی مراد کیا ہے: عام اور خاص، پختہ حکم اور محض ہدایت۔ انہوں نے آپ ﷺ کی سنت سے وہ کچھ پہچان لیا جو ہم نے پہچانا بھی اور جسے ہم نہیں پہچان سکے۔ وہ ہم سے ہر علم، اجتہاد، تقویٰ، عقل اور ہر اُس معاملے میں برتر ہیں جس سے علم حاصل کیا گیا ہو یا جس سے استنباط کیا گیا ہو۔ اور اُن کی آراء ہمارے لیے زیادہ قابلِ ستائش ہیں۔ اعتراض: معاصر محقق احمد بن سعد الغامدی لکھتے ہیں: ’’هَذِهِ الآثَارُ لَمْ تُرْوَ فِي الكُتُبِ المُعْتَمَدَةِ فِي الحَدِيثِ،وَهِيَ الكُتُبُ السِّتَّةُ،وَلَا فِي المَسَانِيدِ‘‘ (عقیدۃ ختم النبوۃ بالنبوۃ المھمدیۃ (صفحہ:۱۳۴)) گویا ان کے نزدیک چونکہ یہ آثار معتمد کتابوں میں نہیں آئے لہذا قابل حجت نہیں؟ جواب: علامہ الخرشی لکھتے ہیں: ’’قُوَّةُ الحَدِيثِ إِنَّمَا هِيَ بِالنَّظَرِ إِلَى رِجَالِهِ،لَا بِالنَّظَرِ إِلَى كَوْنِهِ فِي كِتَابِ كَذَا‘‘(حاشية الخرشي منتهى الرغبة في حل ألفاظ النخبة (صفحہ: ۱؍۳۳۰) ط: دار اليسر - القاهرة ) یعنی حدیث کی قوت کا مدار اس کے رواۃ پر ہے نہ کہ اس بات پر کہ وہ فلاں کتاب میں ہے یا نہیں۔ اعتراض: اکثر مخالفین قول عائشہؓ کے بعد مروی حضرت مغیرہ بن شعبۃؓ کے اثر سے ہمارے استدلال کی نفی کرنے کی نا ممکن کوشش کرتے ہیں۔ (مثلاً دیکھیں: مطالعہ قادیانیت (صفحہ:۱۰۲-۱۰۳))۔ جواب: (الف) دیوبندی حضرات اس قول کی سند کے متعلق اپنے اہل حدیث ساتھیوں سے مشورہ کر لیتے تو کبھی اس کو بطور استدلال کے پیش نہ کرتے۔حافظ زبیر علی زئی صاحب اس کے متعلق لکھتے ہیں:’’اس روایت کا راوی مجالد بن سعید الھمدانی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف تھا‘‘ (تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات(۵؍۴۳)) دیگر مقامات پر بھی حافظ صاحب نے مجالد بن سعید کی تضعیف کی ہے۔ (مثلاً دیکھیں:تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات(۳؍۴۰۱)) (ب) اگر بطور تنزل کے اس اثر کو درست مان لیں تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مغیرۃؓ کے نزدیک حضرت عیسیؑ کے بطور نبی نزول کو مانتے ہوئے لا نبی بعدہ کے الفاظ دھوکا دے سکتے ہیں۔وہ دھوکا کیا ہے؟ لا نبی بعدہ میں نفی عام لینے کی صورت میں عیسیٰؑ کے بطور نبی نزول کے عقیدہ پر زد پڑتی ہے۔ورنہ اگر یہ احتمال موجود نہ ہوتا تو اس صراحت کی ضرورت نہیں تھی۔یہ طرز کلام خود بتاتا ہے کہ لا نبی بعدی کے الفاظ میں نفی عام نہیں بلکہ صحابہ کرام خود اس نفی کی تخصیص کرتے تھے۔ ۹۔ یہ روایت ایک اور سند کے ساتھ بھی مروی ہے الرَّبِيعُ بْنُ صُبَيْحٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لا تَقُولُوا لا نَبِيَّ بَعْدَ مُحَمَّدٍ، وَقُولُوا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ۔ (تفسير يحيى بن سلام (۲؍ ۷۲۳) ط: دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان) خلاصہ یہ کہ ۱۔ امام ابن سیرین سے حضرت عائشہؓ سے سماع کے واضح اور روشن امکانات موجود ہیں۔ ۲۔ علماء کا یہ واضح موقف ہے کہ سماع کے اثبات کے لیے صرف معاصرت ہونا کافی ہے۔سماع کی صراحت کی ضرورت نہیں۔ ۳۔ علماء جس اصول کی بنا پر ابن سیرین کے حضرت عائشہؓ سے عدم سماع کا ذکر کرتے ہیں وہ اصول یہاں لاگو نہیں ہوتا۔ ۴۔ کثرت سے ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں علماء نے محض امکان سماع کی بنا پر روایت کو متصل قرار دیا ہے۔ ۵۔کثرت سے ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ علماء نے عدم سماع کی صراحت کے باوجود دیگر قرائن کو مدنظر رکھ کر روایت کو متصل قرار دیا ہے۔ ۶۔ علماء کے نزدیک عدم تدلیس،امکان سماع اور معاصرت اتصال کے لیے کافی ہیں اور یہ تمام شرائط حاصل ہیں۔ ۷۔ علماء نے ابن سیرین عن عائشۃ کی تصحیح و تحسین کی ہے۔ ۸۔ ابن سیرین تابعین میں سے صحیح ترین مرسل روایت کرنے والے ہیں۔پس جب ان روایات میں جن میں حذف واسطہ یقینی ہے وہ صحیح ترین بلکہ متصل کے برابر ہیں، تو جن میں امکان ِ سماع کی شرائط نیز عدم تدلیس پائی جاتی ہے، وہاں بالاولیٰ اتصال مانا جائے گا۔ ۹۔ علماء کا اس قول کو مرفوع روایات سے تطبیق دینا بھی بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ قول مقبول ہے۔ نوٹ:اس مضمون میں مذکور اکثر حوالہ جات کے اصل عکس درج ذیل لنک پر موجود پی ڈی ایف میں ملاحظہ کیےجاسکتےہیں: https://issuu.com/alfazl/docs/references ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: قُوْلُوْا اِنَّہُ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَلَا تَقُوْلُوْا لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ(قولِ عائشہؓ کی سند پر ہونے والے اعتراضات کا جائزہ)(قسط اوّل)