https://youtu.be/9t5031Wps6k (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۹؍فروری ۲۰۲۴ء) حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’احادیث میں آتا ہے کہ غزوۂ اُحد میں جب ابوسفیان نے بڑے زور سے کہا کہ لَنَا عُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ۔یعنی ہماری تائید میں ہمارا عزیٰ بت ہے مگر تمہاری تائید میں کوئی بت نہیں تو اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم کہو لَنَا مَوْلٰی وَلَا مَوْلٰی لَکُمْ۔ہمارا والی اور ہمارا مددگار ہمارا حی ّو قیوم خدا ہے مگر تمہارا کوئی والی اور مددگار نہیں۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’یہ اَنتَ مَولٰنَا کی سچائی کا کیسا عملی ثبوت تھا کہ تلواروں کے سایہ میں بھی انہوں نے یہی کہا کہ اللہ ہمیں بچا سکتا ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد 2صفحہ 660۔ایڈیشن2004ء) پھر آپؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’جب مسلمانوں کے کانوں میں یہ آواز پڑی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو وہ جلدی جلدی واپس لوٹے اور انہوں نے آپؐ کے اوپر سے لاشوں کو ہٹایا۔ معلوم ہوا کہ آپؐ ابھی زندہ ہیں اور سانس لے رہے ہیں۔ اس وقت سب سے پہلے آپؐ کے خَود کا کیل نکالا گیا۔ یہ کیل نکلتا نہیں تھا آخر ایک صحابیؓ نے اپنے دانتوں سے نکالا جس کی وجہ سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ پھر آپؐ کے منہ پر پانی چھڑکا گیا تو آپؐ ہوش میں آگئے۔ اکثر صحابہؓ تو تتربتر ہوچکے تھے صرف چند صحابہؓ کا گروہ آپؐ کے پاس تھا۔ آپ نے ان سے فرمایا ہمیں اب پہاڑ کے دامن میں چلے جانا چاہئے۔ چنانچہ آپؐ ان کو لے کرایک پہاڑی کے دامن میں چلے گئے اور پھر باقی لشکر بھی آہستہ آہستہ اکٹھا ہونا شروع ہوا۔ کفار کا لشکر جب واپس جا رہا تھا تو ابوسفیان نے بلند آواز سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا اور کہا ہم نے اسے مار دیا ہے۔ صحابہؓ نے جواب دینا چاہا مگر آپؐ نے ان کو روک دیا۔ فرمایا: یہ موقعہ نہیں۔ ہمارے آدمی تتر بتر ہوچکے ہیں کچھ مارے گئے ہیں اور کچھ زخمی ہیں۔ ہم تھوڑے سے آدمی یہاں ہیں اور پھر تھکے ماندے ہیں۔ کفار کا لشکر تین ہزار کا ہے اور وہ بالکل سلامت ہے۔ ایسی حالت میں جواب دینا مناسب نہیں۔ وہ اگر کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے مار دیا ہے تو کہنے دو۔ چنانچہ آپؐ کی ہدایت کے مطابق صحابہؓ خاموش رہے۔ جب ابوسفیان کو کوئی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے ابوبکرؓ کو بھی مار دیا ہے۔ آپؐ نے صحابہ ؓ کو پھر جواب دینے سے روک دیا اور فرمایا خاموش رہو۔ وہ کہتا ہے تو کہنے دو چنانچہ صحابہؓ اس پر بھی خاموش رہے۔ ابوسفیان کو جب پھر کوئی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے عمرؓ کو بھی مار دیا ہے۔ حضرت عمرؓ بڑے تیز طبیعت کے تھے۔ آپؓ بولنے لگے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو منع کر دیا۔ بعد میں آپ نے بتایا‘‘ حضرت عمرؓ نے بعد میں یہ کہا ’’کہ میں کہنے لگا تھا کہ تم کہتے ہو ہم نے عمرؓ کو مار دیا ہے حالانکہ عمرؓ اب بھی تمہارا سر توڑنے کے لئے موجود ہے۔ بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی جواب دینے سے منع کر دیا۔ جب ابوسفیان نے دیکھا کہ کوئی جواب نہیں آیا تو اس نے نعرہ مارا۔ اُعْلُ ھُبَلْ۔ اُعْلُ ھُبَلْ۔یعنی ہبل دیوتا جسے ابوسفیان بڑا سمجھتا تھا اس کی شان بلند ہو۔ ہبل کی شان بلند ہو۔ (یعنی آخر ہمارے ہبل نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کو مار ہی دیا۔) صحابہؓ کو چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بولنے اور جواب دینے سے منع فرمایا تھا اس لئے وہ اب بھی خاموش رہے مگر خدا کا وہ رسولؐ جس نے اپنی موت کی خبر سن کر کہا تھا خاموش رہو جواب مت دو۔ حضرت ابوبکرؓ کی موت کی خبر سن کر کہا تھا خاموش رہو جواب مت دو۔ حضرت عمرؓ کی موت کی خبر سن کر کہا تھا خاموش رہو جواب مت دو اور جو بار بار کہتا تھا کہ اس وقت ہمارا لشکر پراگندہ ہے اور خطرہ ہے کہ دشمن پھر حملہ نہ کر دے اس لئے خاموشی کے ساتھ اس کی باتیں سنتے چلے جاؤ۔ اس مقدس انسانؐ کے کانوں میں جب آواز پڑی اُعْلُ ھُبَلْ۔ اُعْلُ ھُبَلْ۔ ہبل کی شان بلند ہو، ہبل کی شان بلند ہو تو اس کے جذبۂ توحید نے جوش مارا کیونکہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال نہیں تھا اب ابوبکرؓ اور عمرؓ کا سوال نہیں تھا۔اب اللہ تعالیٰ کی عزت کا سوال تھا۔ آپؐ نے بڑے جوش سے فرمایا تم کیوں جواب نہیں دیتے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! ہم کیا جواب دیں؟ آپؐ نے فرمایا کہو اَللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ اَللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ہبل کیا چیز ہے خدا تعالیٰ کی شان بلند ہے خداتعالیٰ کی شان بلند ہے۔ یہ کتنا شاندار مظاہرہ آپؐ کے جذبۂ توحید کا ہے۔ آپؐ نے تین دفعہ صحابہؓ کو جواب دینے سے روکا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کو خطرہ کی اہمیت کا پورا احساس تھا۔ آپؐ جانتے تھے کہ اسلامی لشکر تتر بتر ہوگیا ہے اور بہت کم لوگ آپؐ کے ساتھ ہیں۔ اکثر صحابہؓ زخمی ہوگئے ہیں اور باقی تھکے ہوئے ہیں۔ اگر دشمن کو یہ معلوم ہوگیا کہ اسلامی لشکر کا ایک حصہ جمع ہے تو وہ کہیں پھر حملہ کرنے کی جرأت نہ کرے مگر ان حالات کے باوجود جب خدا تعالیٰ کی عزت کا سوال آیا تو آپؐ نے خاموش رہنا برداشت نہ کیا اور سمجھا کہ دشمن کو خواہ پتہ لگے یا نہ لگے۔ خواہ وہ حملہ کرے اور ہمیں ہلاک کر دے اب ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ چنانچہ آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا تم خاموش کیوں ہو؟ جواب کیوں نہیں دیتے کہ اَللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔ اَللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ341–342۔ایڈیشن2004ء) یہ سارا بیان آپؓ نے سورت کوثر کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے۔ اس کی تفصیل اگر پڑھنی ہے تو تفسیر کبیر میں سے پڑھیں۔ اَور بھی بہت ساری باتیں علم میں اضافے کے لیے وہاں سے مل جائیں گی۔ پھر ایک جگہ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’مکہ کے جن اکابر نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنا چاہا کیا آج دنیا میں ان لوگوں کا کوئی نام لیوا ہے؟ اُحد کے مقام پر ابوسفیان نے آواز دی تھی اور کہا تھا کیا تم میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے؟ اور جب اس کا جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مارڈالا ہے۔ پھر اس نے آواز دی۔ کیا تم میں ابوبکرؓ ہے؟ اور جب اس کا بھی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے ابو بکرؓ کو بھی مار ڈالا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کیا تم میں عمرؓ ہے؟ جب اس کا بھی جواب نہ ملا تو اس نے کہا ہم نے عمرؓ کو بھی مار ڈالا ہے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ اُحُد) لیکن آج جاؤ اور دنیا کے کناروں پر اس آواز دینے والے کے ہمنوا کفار کے سردار ابوجہل کو بلاؤ اور آواز دو کہ کیا تم میں ابوجہل ہے؟ تو تم دیکھو گے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر تو کروڑوں آوازیں بلند ہونا شروع ہوجائیں گی اور ساری دنیا بول اٹھے گی کہ ہاں! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود ہیں کیونکہ آپؐ کی نمائندگی کا شرف ہمیں حاصل ہے۔ لیکن ابوجہل کو بلانے پر تمہیں کسی گوشہ سے بھی آواز اٹھتی سنائی نہیں دےگی۔ ابوجہل کی اولاد آج بھی دنیا میں موجود ہے مگر کسی کو جرأت نہیں کہ وہ یہ کہہ سکے کہ میں ابوجہل کی اولاد میں سے ہوں ۔ شاید عُتْبَہ اور شَیْبَہ کی اولاد بھی آج دنیا میں موجود ہو مگر کیا کوئی کہتا ہے کہ میں عتبہ اور شیبہ کی اولاد ہوں ۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 290۔291۔ایڈیشن2004ء) پس رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بلند کیا اور بلند رکھا۔ پھر اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بیان فرماتے ہیں کہ ’’انبیاء پر جو مصائب آتے ہیں ان میں بھی اللہ تعالیٰ کے ہزار ہا اسرار ہوتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت سے مصائب آتے تھے۔ جنگ اُحد میں ایک روایت ہے کہ آپؐ کو ستر تلواروں کے زخم لگے تھے اور مسلمانوں کی ظاہری حالت خراب دیکھ کر کفار کو بڑی خوشی ہوئی۔ چنانچہ ایک کافر نے یہ یقین کرکے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب کبار سب شہید ہوگئے ہوں گے بآواز بلند پکار کر کہا کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم میں ہے؟ آنحضرتؐ نے کہا کہ خاموش رہو۔ اس کا جواب نہ دو۔ خاموشی سے اسے خوشی ہوئی کہ فوت ہوگئے ہوں گے اس واسطے جواب نہیں آیا۔ پھر اسی طرح اس نے حضرت ابوبکرؓ کے متعلق آواز دیا۔ تب بھی ادھر سے خاموشی اختیار کی۔ پھر اس نے حضرت عمرؓ کے متعلق آواز دیا۔ حضرت عمرؓ سے نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا کمبخت کیا بکتاہے۔ سب زندہ ہیں۔ ایسی تلخیوں کا دیکھنا بھی ضروری ہوتاہے مگر ان کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب اس کے بعد کفار ہم پر چڑھائی نہ کریں گے۔‘‘ یہ غالباً غزوۂ خندق کے بعد آپ نے فرمایا تھا۔ اُحد کےبعد پھر غزوۂ خندق ہوئی۔ یہ ملفوظات کا کیونکہ حوالہ ہے، ہوسکتا ہے لکھنے والے سے رہ گیا ہو تو یہ غزوہ خندق کے بعد آپؐ نے فرمایا تھا کہ اب اس کے بعد کفار ہم پر چڑھائی نہ کریں گے ’’بلکہ ہم کفار پر چڑھائی کریں گے۔ مکہ سے نکلنے کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسی تلخی کا وقت تھا۔‘‘(ملفوظات جلد9صفحہ 266-267۔ ایڈیشن 2022ء)لیکن اب اللہ تعالیٰ نے حالات بدل دیے۔ مزید پڑھیں: سورج اور چاند گرہن