اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیمو ں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔ ………………………… حضرت مولوی صفدر حسین صاحبؓ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍اگست 2011ء میں حضرت مولوی صفدر حسین صاحبؓ (یکے از صحابہ 313) کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ حضرت مولوی صفدر حسین صاحبؓ نے 17؍ اگست 1892ء کو بیعت کی۔ رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپؓ کا نام 349 نمبر پر ’مولوی منشی صفدر علی صاحب ولد محی الدین صاحب ساکن … ضلع میدک علاقہ ملک سرکار نظام‘ درج ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ’’ازالہ اوہام‘‘ اور ’’کتاب البریہ‘‘ میں پُرامن جماعت کے ضمن میں آپؓ کا ذکر فرمایا ہے۔ آپؓ کے والد محترم محی الدین صاحب ریاست حیدرآباد دکن میں مہتمم تعمیرات تھے۔ جب مولوی انواراللہ خان صاحب افسر اعلیٰ امور مذہبی حیدر آباد دکن نے ’’ازالہ اوہام‘‘ کے جواب میں ’’انوارالحق‘‘ نامی کتاب لکھی تھی تو حضرت مولوی صفدر حسین صاحبؓ نے اس پر تنقیدی نظر ڈالی تھی (اور بعد میں حضرت مولانا مولوی میر محمد سعیدؓ نے اس کا جواب نہایت شرح و بسط سے تصنیف کیا تھا)۔ …٭…٭…٭… محترم ماسٹر ضیاء الدین ارشد صاحب شہید روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍اگست 2011ء میں مکرمہ و۔ ن صاحبہ نے اپنے والد محترم ماسٹر ضیاء الدین ارشد صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جنہیں 1974ء میں نامعلوم شرپسندو ں نے سرگودھا میں گولیو ں کا نشانہ بنایا اور بعدازا ں آپ زخمو ں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگئے۔ آپ 20؍اکتوبر 1910ء کو مڈھ رانجھا ضلع سرگود ھا میں حضرت حکیم سرا ج الدین صاحبؓ کے ہا ں پیدا ہوئے جنہو ں نے 1904ء میں بذریعہ خط حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی تھی اور اپنے وقت کے علماء میں آپؓ کا شمار ہوتا تھا۔ محترم ماسٹر صاحب کی والدہ کا نام صا لحہ بی بی تھا۔ محترم ماسٹر صاحب نے سات سال کی عمر میں قرآ ن کریم نا ظرہ پڑھا۔ اس کے بعد تر جمۃالقر آن کے ساتھ اپنے والد محترم کے مشکوٰ ۃ الشریف کے درس میں شامل ہوتے رہے۔ گھر میں بہت دینی ماحول تھا۔ نماز باجماعت اور قرآن کریم کو تدبّر سے پڑھنے پر خاص زور دیا جاتا۔ نماز میں غیرحا ضری کی صورت میں سزا بھی دی جاتی۔ 1924ء میں محترم ما سٹر ضیا ء الدین ارشد صاحب اور آپ کے بڑے بھائی مکرم راجہ زین العا بدین صاحب نے مڈل پاس کیا اور دونو ں کو اپنے قصبہ مڈھ رانجھا کے مڈل سکول میں مدرس لگالیا گیا۔ 1928ء میں ماسٹر ضیا ء الدین ارشد صاحب نے S.V. کا امتحان پاس کیااور 1935ء میں ادیب عالم کا امتحان بھی پاس کیا۔ بعد میں آپ کے چھوٹے بھا ئی مکرم راجہ بشیرالدین صاحب بھی بطور مدرس سکول میں پڑھانے لگے اور آپ تینو ں بھائیو ں کی بدولت ہی قصبہ مڈھ رانجھا میں احمدیت متعارف ہوئی۔ محترم ماسٹر صاحب کی شادی 31مئی1930ء کو مکرم شیخ عبد الحمید وہرہ صاحب آف چنیو ٹ کی بیٹی ہا جرہ بیگم صاحبہ سے ہوئی۔ محترم ماسٹر صاحب کو بچو ں کی تعلیم کا بہت خیال تھا۔ چنانچہ 1935ء میں آپ نے احمدی بچیو ں کو بھی اپنے سکول میں ایک کلاس جاری کرکے خود تعلیم دینا شروع کی۔ بعد میں غیراز جماعت بچیا ں بھی اس کلاس میں آنے لگیں اور دو سال میں کلاس کی تعداد 40 تک پہنچ گئی۔ اس پر محکمہ تعلیم نے ایک استانی کا تقرر کرکے بچیو ں کا سکول بھی تیسری تک جاری کردیا۔ محترم ماسٹر صاحب نے 22سال تک مڈھ رانجھا کے سکول میں ملازمت کی اور جب تعلیم الاسلام ہا ئی سکول چنیوٹ میں آگیا تواس میں منتقل ہوگئے۔ پچاس سال کی عمر میں موتیابند کی وجہ سے ملازمت چھوڑنی پڑی۔ پھر دو سال آنکھو ں کے آپریشن میں صَرف ہوگئے۔ بعد ازا ں ایک سال تک ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ میں بطور کارکن کام کیا۔ اس کے بعد 1967ء میں محمودآ باد سٹیٹ سندھ میں بطور ہیڈماسٹر ملازم ہوئے۔ 1971ء میں شدید ملیریا بخار میں مبتلا ہونے کے باعث آپ کی قوّت سماعت بہت کمزور ہو گئی جو آخری عمر تک رہی۔ بے شمار بچو ں کو دنیاوی تعلیم سے آراستہ کرنے کے علاوہ قرآن کریم پڑھانے کی توفیق بھی آپ نے پائی۔ 1958ء میں محلہ دارالبر کات کی مسجد آپ کی زیر نگرا نی تیار ہو ئی۔ یہا ں پندرہ سال زعیم انصاراللہ بھی رہے۔ پھر محمودآباد میں صدر جماعت اور صدر مو صیان رہے۔ نیز کئی سال تک نما ئندہ مجلس مشاورت کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ آپ باقاعدہ نماز تہجد ادا کرنے والے اور بہت گریۂ و زاری سے دعائیں کرنے والے بزرگ تھے۔ آپ بہت مہمان نواز تھے۔ گھر کے کامو ں میں اہلیہ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ 1974ء کے فسادات میں کئی بے گناہ احمدیو ں کو اسیرراہ مولیٰ بننے کی سعادت ملی جن میں آپ کے ایک بیٹے نعیم احمد ظفر صاحب اور ایک نواسہ اشرف علی صاحب بھی شامل تھے۔ یہ سب اسیران سرگودھا جیل میں تھے جنہیں مختلف اذیتیں پہنچا ئی جاتی رہیں۔ ربوہ سے لوگ گروپس کی صورت میں اپنے رشتہ دا ر قیدیو ں کو ملنے جاتے اور انہیں کھانے پینے کی اشیاء، صا بن اور کپڑے وغیرہ دے کر آتے۔ قریباً ایک ماہ اسیری کو گزر گیا تو آپ بھی اپنے بیٹے اور نواسے کو ملنے کیلئے ایک وفد میں شامل ہوکر ریل گاڑی میں سرگودھا گئے۔ جب یہ وفد واپس ربوہ آنے کے لئے سرگودھا ریلوے سٹیشن پہنچا تو وہا ں نامعلوم نقاب پوشو ں نے احمدی قافلہ پر فائرنگ کردی جس کے نتیجہ میں 9؍افراد زخمی ہوئے۔ آپ کے سر پر بھی گولی لگی۔ فائرنگ رُکی تو باقی احمدیو ں نے زخمیو ں کو اٹھاکر گاڑی میں ڈالا۔ لیکن پولیس نے کہا کہ جب تک رپورٹ درج نہیں ہوجاتی اُس وقت تک زخمیو ں کو نہیں لے جاسکتے۔ چنا نچہ زخمیو ں کو گاڑی سے نیچے اتارا گیا اور جو زیادہ زخمی تھے انہیں سرگودھا ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ آپ بھی تقریباً تین ہفتے سرگودھا کے ہسپتال میں رہے پھر لاہور کے جنرل ہسپتال میں منتقل کردیا گیا۔ لیکن ڈاکٹر آپ کے سر میں سے گولی نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ چنانچہ کچھ عر صہ بعد آ پ کو فضل عمر ہسپتال ربوہ میں منتقل کر دیا گیا جہا ں 29ستمبر 1974ء کو آپ نے شہادت پائی۔ آپ ربوہ کے پہلے شہید تھے۔ آپ مو صی تھے اور تحریک جدیدکے پانچ ہزاری مجاہدین میں آپ اور آپ کی اہلیہ بھی شامل ہیں۔ غضّ بصر انتہا درجہ کا تھا۔ سکول کے طلباء میں فرشتہ کے نام سے مشہور تھے۔ ہمیشہ اسوئہ رسولؐ پر عمل پیرا رہے۔ تعلق باللہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ میرے (مضمون نگار کے) بیٹے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کا نام امتیاز احمد رکھ دیا۔ میں نے کہا کہ میں نے تو اس کا نام حضور سے رکھوانا ہے۔ تو آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کو نام کے لیے خط لکھ دیا۔ جب جواب آیا تو حضورؒ نے بھی اس کا نام امتیاز احمد ہی تجویز فرمایا تھا۔ آپ شاعر بھی تھے۔ فارسی زبان پر عبور حاصل تھا اور درثمین فارسی اکثر مطالعہ میں رکھتے تھے۔ آپ کی پانچ بیٹیا ں اور چھ بیٹے تھے۔ مکرم ہادی علی چودھری صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ کینیڈا آپ کے نواسے ہیں۔ …٭…٭…٭… انجینئر شاہین سیف اللہ صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8ستمبر 2011ء میں مکرم شوکت علی صاحب کے قلم سے ان کے ہم زلف انجینئر شاہین سیف اللہ صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ انجینئر شاہین سیف اللہ صاحب انتہائی قابل انجینئر لیکن سادہ مزاج خداترس آدمی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شاندار ملازمت اور لاکھو ں روپے تنخواہ پانے کے باوجود ذاتی گھر یا کار وغیرہ کے مالک نہیں تھے۔ بلکہ سادگی کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ عام لوگو ں کے ساتھ بسو ں میں سفر کرتے اور سادہ لباس پہن کر سادہ کھانا کھاتے۔ جو بھی پکا ہوتا، گرم یا ٹھنڈا ، بخوشی قبول کرتے۔ یہا ں تک کہہ دیتے کہ اگر کوئی پرانا بچا ہوا سالن ہے تو وہ دے دیں۔ کوئی اپنی کسی بیماری کے علاج کے لئے امداد مانگتا تو فوراً ہا ں کردیتے۔ کئی عزیزو ں کے علاج پر بھی لاکھو ں روپیہ خرچ کردیا لیکن کبھی واپس نہ لیا۔ چندے بھی دل کھول کر ادا کرتے۔ ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ ایمانداری کا یہ حال تھا کہ موٹر وے کی تعمیر کے دوران چکوال میں تھے۔ مجھے فون کیا کہ میرا گھریلو سامان کرایہ کے ٹرک میں وہا ں بھجوا دو۔ میں نے کہہ دیا کہ کمپنی کا ٹرک بھیج دیں۔ کہنے لگے نہیں یہ میرا ذاتی کام ہے۔ نوکری کے دوران بڑی بڑی رشوت کی پیشکش ہوتی رہی لیکن آپ کے قدم نہ ڈگمگائے۔ یہا ں تک کہ ایک بار ٹھیکیدارو ں نے رشوت قبول نہ کرنے پر مارکٹائی بھی کی لیکن آپ ایمانداری پر قائم رہے۔ فرشتہ سیرت درویش انسان تھے۔ ایک نوجوان بیٹی کی وفات کا صدمہ نہایت صبر سے برداشت کیا۔ آپ کی وفات 64سال کی عمر میں ہوئی۔ پسماندگان میں ایک بیٹی موجود ہے۔ …٭…٭…٭… مکرم ملک محمد الدین صاحب اور مکرمہ ناصرہ بیگم صاحبہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8ستمبر 2011ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرمہ م۔ فیروز صاحبہ نے اپنے والدین کا ذکرخیر کیا ہے۔ محترم ملک محمدالدین صاحب 1924ء میں کبیروالہ میں پیدا ہوئے۔ 18سال کی عمر میں 1942ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔ آپ سے قبل آپ کے بڑے بھائی مکرم ملک نورالدین صاحب قبولِ احمدیت کی سعادت حاصل کرچکے تھے۔ دونو ں بھائی تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے اور دونو ں نے صدر جماعت کے علاوہ کئی شعبو ں میں بھی خدمت دین سرانجام دینے کی توفیق پائی۔ کبیروالہ میں ان کا گھرانہ احمدیت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اور مخالفین کہتے تھے کہ ان دونو ں بھائیو ں کو ختم کر دو تو کبیر والہ سے احمدیت ختم ہو جائے گی۔ محترم ملک محمد الدین صاحب بتایا کرتے تھے کہ بیعت کرنے کے بعد انہو ں نے کبھی نماز تہجد بھی ترک نہیں کی۔ 9اور10 مارچ2011ء کی درمیانی شب بھی آپ کی وفات اُس وقت ہوئی جب آپ تہجد کی تیاری کررہے تھے۔ آپ کچھ عرصہ مدرسہ احمدیہ قادیان میں بھی زیرتعلیم رہے لیکن بعض وجوہات کی بِنا پر تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ لیکن مطالعہ کا انتہائی شوق تھا اور بڑی نادر کتب جمع کی ہوئی تھیں۔ حافظہ بھی بلا کا تھا اور تبلیغ کے دوران کوئی حوالہ پیش کرنا ہوتا تو کتاب کی ضرورت نہ پڑتی بلکہ کتاب کا نام اور حوالہ زبانی یاد ہوتا۔ 1953ء کے فسادات میں آپ کو مالی طور پر بہت نقصان اٹھانا پڑا لیکن ایمان نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا۔ آپ کی بیٹی کی عمر اس وقت قریباً دو سال تھی۔ وہ شدید بیمار ہو گئی اور حالات اتنے خراب تھے کہ ڈاکٹر کے پاس لے جانا بھی مشکل تھا۔ آپ کے بڑے بھائی نے پریشانی سے کہا کہ اگر یہ بچی مر گئی تو ہم لوگو ں کے سامنے جھوٹے پڑ جائیں گے۔ اس پر دونو ں بھائیو ں نے گڑگڑاکر دعا شروع کی تو اگلے ہی روز سے بچی خدا کے فضل سے تندرست ہونا شروع ہو گئی اور تین چار دن میں مکمل طورپر صحت مند ہوگئی۔ مکرم محمدالدین صاحب بہت مہمان نواز تھے۔ جو بھی میسر ہوتا مہمان کو پیش کردیتے۔ مرکز سے آنے والے اکثر مہمان آپ کے ہا ں ہی ٹھہرا کرتے۔ مسجد کی تعمیر سے قبل لمبا عرصہ آپ کے گھر پر ہی جمعہ بھی ادا کیا جاتا رہا۔ آپ ہی امام الصلوٰۃ اور خطیب بھی ہوتے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ ناصرہ بیگم صاحبہ شادی کے وقت احمدی نہیں تھیں۔ بعد میں دو سال تک مختلف کتب کا مطالعہ کیا اور مطمئن ہوکر بیعت کرلی تو پھر کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ 1953ء اور 1974ء کے فسادات میں بہت صبر و ثبات کا مظاہرہ کیا اور کئی معجزے بھی دیکھے۔ مثلاً 1953ء میں سوشل بائیکاٹ کی وجہ سے کوئی سبزی دودھ دینے کو تیار نہ تھا۔ لیکن ایک بزرگ آتا گلی میں آواز لگاتا سبزی لے لو۔ آپ اور آپ کی جٹھانی اس سے سبزی خرید لیتیں۔ حالات ٹھیک ہونے کے بعد وہ دوبارہ نظر نہ آیا۔ جب آپ نے گلی والو ں سے پوچھا تو انہو ں نے بھی بتایا کہ گلی میں کبھی کوئی سبزی والا نہیں دیکھا گیا۔ …٭…٭…٭… محترمہ منصورہ بیگم صاحبہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19ستمبر 2011ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرم رانا عبد الرزاق خا ں صاحب نے اپنی بڑی بہن محترمہ منصورہ بیگم صاحبہ کا مختصر ذکرخیر کیا ہے۔ مکرمہ منصورہ بیگم صاحبہ قریباً 1939ء میں مکرم رانا عبداللطیف خا ں صاحب ولد حضرت چوہدری عبدالحمید خا ں صاحبؓ کے ہا ں کاٹھگڑھ ضلع ہوشیارپور میں پیدا ہوئیں۔ ہم پانچ بہنیں اور تین بھائی تھے۔ ہماری یہی بہن ہماری تعلیم و تربیت کا خیال رکھتی۔ قرآن بھی پڑھایا۔ 1962ء میں ان کی شادی ہمارے مامو ں زاد مکرم رانا محمد حنیف خا ں صاحب ولد مکرم رانا عبدالستار خا ں صاحب کاٹھگڑھی آف ککی نو شورکوٹ سے ہوئی۔ 1965ء میں جب ہم دو بھائی ربوہ میں پڑھنے لگے تو اس بہن نے رضاکارانہ طور پر ربوہ میں ٹھہر کر ہمارا بہت خیال رکھا۔ پھر 1967ء میں خاکسار بغرضِ تعلیم لاہور گیا تو رہائش اپنی اسی بہن کے ہا ں رکھی۔ آپ خدمت دین میں ہمیشہ پیش پیش رہتیں۔ پہلے لاہور اور پھر ککی نو شورکوٹ میں خوب خدمت کی توفیق پائی۔ بہت مہمان نواز تھیں۔ مرکز سے آنے والے مہمانو ں کے لئے بستر علیحدہ بنوائے ہوئے تھے۔ صاف گوئی اور ہر کسی کا احترام ان کا شیوہ تھا۔ صوم و صلوٰۃ کی بہت پابند تھیں اورجماعت کے لئے بہت غیرت رکھتی تھیں۔ تبلیغ اور تربیت میں بہت مستعد تھیں۔ لوگو ں کے دکھ درد بلاتفریق بانٹنے کی کوشش میں ہر وقت رہتیں۔ احمدی یا غیر احمدی کی وفات ہوجاتی تو فوراًپہنچ جاتیں۔ مہمانو ں کو سنبھالتیں اور اپنے گھر سے کھانا بھجواتیں۔ وہ کسی کا بھی دکھ دیکھ نہیں سکتی تھیں۔ اپنے دو بیٹو ں اور دو بیٹیو ں کی بھی بہت اچھی تربیت کی اوربچو ں کی شادی کے بعد ربوہ میں ایک کنال کا پلاٹ لے کر چارو ں بچو ں میں تقسیم کردیا اور سب کو لے کر وہا ں منتقل ہوگئیں۔ 7مارچ 2011ء کو حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے کینیڈا میں آپ کی وفات ہوئی۔ موصیہ تھیں۔ جنازہ ربوہ لایا گیا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ …٭…٭…٭… محترم محمد اشرف اسحق صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23ستمبر 2011ء کی ایک خبر کے مطابق جماعت احمدیہ کے دیرینہ خادم اور مبلغ سلسلہ محترم مولانا محمد اشرف اسحق صاحب ابن مکرم محر م دین صاحب مورخہ 4ستمبر 2011ء کو چند ماہ پھیپھڑو ں کی انفیکشن میں مبتلا رہ کر وفات پاگئے۔ بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔ محترم محمد اشرف اسحق صاحب 1946ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ 1970ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ لمباعرصہ بیرونی ممالک میں خدمت کی توفیق پائی۔ آپ نے یوگنڈا میں قریباً چھ ماہ اور تنزانیہ میں قریباً 8سال کا عرصہ گزارا۔ 1984ء میں امیر ومشنری انچارج سورینام (جنوبی امریکہ) مقرر ہوئے۔ 1989ء میں واپس ربوہ آئے اور 1992ء میں پھر آپ کی تقرری فجی میں ہوئی۔ دسمبر 1995ء میں واپسی ہوئی۔ کچھ عرصہ شعبہ تاریخ احمدیت میں خدمت کی جس کے بعد تا وفات وکالت اشاعت تحریک جدید ربوہ میں خدمات دینیہ میں مصروف رہے۔ ذیلی تنظیمو ں میں بھی مختلف شعبو ں میں خدمات کرنے کی توفیق پائی۔ معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ اور ناظم مجلس اطفال الاحمدیہ مقامی ربوہ کے علاوہ کوارٹرز تحریک جدید میں لمبا عرصہ تک بطور صدر محلہ خدمت کرتے رہے۔ آپ ملنسار ، مہمان نواز ، خاموش طبع اور نرم خُو طبیعت کے انسان تھے۔ خدمت دین کو ہمیشہ فوقیت دیتے۔ خلافت احمدیہ کے ساتھ پختہ تعلق رکھنے والے تھے۔ آپ نے پسماندگان میں اہلیہ مکرمہ فریدہ بشیر صاحبہ بنت مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب مرحوم، ایک بیٹا اور تین بیٹیا ں چھوڑی ہیں۔ …٭…٭…٭… محترمہ خدیجہ بیگم صاحبہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍اگست 2011ء میں مکرم عبدالعزیز خانصاحب نے اپنی والدہ محترمہ خدیجہ بیگم صاحبہ آف خوشاب کا ذکرخیر کیا ہے۔ محترمہ خدیجہ بیگم صاحبہ کا سارا خاندان غیراحمدی تھا اور اسی حالت میں آپ کی شادی محترم حافظ عبدالکریم خان صاحب سے ہوئی۔ محترم حافظ صاحب اگرچہ احمدی والدین کی اولاد تھے لیکن بچپن میں ہی آپ ہر دو کے سایۂ عاطفت سے محروم ہوگئے چنانچہ آپ کی تربیت احمدی ماحول میں نہیں ہوسکی۔ تاہم فطرت نیک تھی اور بچپن میں ہی قرآن مجید حفظ کر نے کے بعد اپنی خاندانی مسجد میں امام الصلوٰۃ کے فرائض ادا کرنے شروع کر دئیے تھے۔ 1931ء میں آپ نے 72 مقتدیو ں سمیت باقاعدہ احمدیت قبول کرلی جن میں آپ کی اہلیہ بھی شامل تھیں۔ محترمہ خدیجہ بیگم صاحبہ کا قبولِ احمدیت کے بعد نظام جماعت کے ساتھ پختہ تعلق رہا۔ گو آپ نے دنیاوی تعلیم حاصل نہیں کی۔ مگر بچو ں کی تربیت کا خاص خیال رکھا اور نماز، قرآن کے علاوہ چندہ جات کی ادائیگی اور جلسہ سالانہ میں شمولیت کی طرف خاص توجہ دیتیں۔ آپ پردہ کی بہت پابند، تہجد گزار، پانچ وقت کی نمازو ں کی پابند اور روزانہ تلاوتِ قرآن کرنے والی تھیں۔ گو اَن پڑھ تھیں مگر کا فی عرصہ لجنہ خوشاب کی صدر رہیں۔ پڑھی لکھی مددگار سے کام لیتی تھیں۔ جب تک صحت نے اجازت دی باقاعدگی سے رمضان میں روزے رکھتیں اور اعتکاف میں بیٹھتی رہیں۔ آپ کی وفات فروری 1974ء میں خوشاب میں ہوئی۔ چونکہ آپ موصیہ تھیں آپ کا جنازہ ربوہ لایا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم عبدالستار خان صاحب آجکل گوئٹے مالا میں امیر و مبلغ انچارج کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ نیز آپ کی اولاد میں کئی دیگر مربیان سلسلہ بھی شامل ہیں۔ …٭…٭…٭… مکرم نسیم احمد بٹ صاحب کی شہادت روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6ستمبر 2011ء کی خبر کے مطابق مکرم نسیم احمد بٹ صاحب ولد مکرم محمد رمضان بٹ صاحب مرحوم آف فیصل آباد کو 3اور 4ستمبر 2011ء کی درمیانی رات چند نامعلوم افراد نے آپ کی رہائشگاہ میں دیوار پھلانگ کر گھر کے اندر داخل ہوکر فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ ایک فائر پیٹ میں اور دوسرا کمر میں لگا۔ آپ کو سول ہسپتال پہنچایا گیا جہا ں صبح ساڑھے نو بجے زخمو ں کی تاب نہ لاکر آپ شہید ہوگئے۔ تدفین ربوہ میں ہوئی۔ قبل ازیں 1994ء میں آپ کے چھوٹے بھائی مکرم وسیم احمد بٹ صاحب اور آپ کے تایا زاد مکرم حفیظ احمد بٹ صاحب ولد اللہ رکھا بٹ صاحب کو شہید کردیا گیا تھا جبکہ آپ کے دوسرے تایا زاد مکرم نصیر احمدبٹ صاحب ولد اللہ رکھا بٹ صاحب کو ستمبر 2010ء میں شہید کردیا گیا تھا۔ مرحوم1957ء میں فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ پرائمری کے بعد پاور لوم فیکٹری میں بطور کاریگر کام کرنے لگے۔ ایک بااخلاق اور باکردار شخصیت کے حامل اور بڑے بہادر اور نڈر انسان تھے۔ جماعتی کامو ں میں حصہ لیتے تھے۔ جماعتی چندو ں کی ادائیگی میں باقاعدہ تھے۔ نماز جمعہ باقاعدگی کے ساتھ مسجد جاکر ادا کرتے۔ نظام جماعت اور خلافت کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق تھا۔ طبیعت میں سادگی تھی۔ بیوی بچو ں کے ساتھ بہت محبت و شفقت کا سلوک کیا کرتے تھے۔ ہمدردیٔ خَلق اور غربا پروری آپ کا نمایا ں خلق تھا۔ آپ نے 1994ء میں اپنے چھوٹے بھائی کی شہادت پر بھی کمال صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ اپنی شہادت سے قبل گولیا ں لگنے کے بعد بھی خود کو سنبھالا اور اپنی بیوی کو حوصلہ اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔ شہید مرحو م کی شادی 1983ء میں محترمہ آسیہ نسیم صاحبہ بنت مکرم مقصود احمد بٹ صاحب آف ڈیریانوالہ ضلع نارووال کے ساتھ ہوئی تھی۔ خداتعالیٰ نے آپ کو 4بیٹیو ں اور دو بیٹو ں سے نوازا تھا۔ جبکہ ایک بیٹا ڈیڑھ سال قبل وفات پاگیا تھا۔ …٭…٭…٭… محترم چودھری محمد عبدالوہاب صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19ستمبر 2011ء میں مکرم محمد یوسف بقاپوری صاحب کے قلم سے محترم چودھری محمد عبدالوہاب صاحب (برادرِ اصغر محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب) کا ذکرخیر شائع ہوا ہے جو 7 ستمبر 2010ء کو مختصر علالت کے بعد اسلام آباد (پاکستان) میں بعمر 71سال وفات پاگئے۔ تدفین ربوہ میں ہوئی۔ پسماندگان میں 3بیٹے اور اہلیہ شامل ہیں۔ محترم چودھری محمد عبدالوہاب صاحب حضرت چودھری محمدحسین صاحب سابق امیر جھنگ شہر کے سب سے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ 9؍ اکتوبر 1939ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ دورانِ ملازمت کئی شہرو ں میں مقیم رہے اور ہر جگہ خدمتِ دین میں پیش پیش رہے۔ محترم چودھری محمد عبدالوہاب صاحب کراچی میں مجلس خدام الاحمدیہ کے قائد رہے اور علَم انعامی حاصل کیا۔ بنک کی ملازمت سے ریٹائرہوکر 1988ء سے اسلام آباد میں رہائش اختیارکرلی اور یہا ں لمبا عرصہ بطور سیکرٹری مال خدمت کی توفیق پائی۔ مجلس مشاورت میں نمائندگی کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ نیز ناظم ضلع انصاراللہ ضلع اسلام آبادکے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ خاکسار کو 13سال زعیم اعلیٰ انصاراللہ رہنے کا موقع ملا ہے۔ اس دوران مرحوم کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مرکزی ہدایات پر سختی سے عمل کراتے۔ آپ کے دَور میں نظامت ضلع اسلام آباد نے پاکستان کے اضلاع میں لگاتا ر دو سال اوّل پوزیشن حاصل کی۔ آپ کام کرنے والو ں کی کھلے دل سے حوصلہ افزائی کرتے۔ طبیعت میں مزاح بھی تھا اور نرم گفتگو سے ہر ایک کا دل موہ لیتے تھے۔ اکثر سوال و جواب کی محافل منعقد کرواتے جن میں مرکزی عہدیداران کو بھی بلایا جاتا اور دعوت الی اللہ کا کام نہایت خوش اسلوبی سے چلتا رہتا۔ سب ایک ٹیم کی طرح کام کرتے۔ آپ وقت کی خود بھی پابندی کرتے اور دوسرو ں سے بھی کرواتے۔ مقامی اجتماعات باقاعدگی سے منعقد کرواتے اور کوشش ہوتی کہ حاضری سوفیصد ہو۔ اس کے لئے ضلع بھر کی مجالس سے آنے والے احباب رات کو مسجد میں قیام کرتے۔ اُن کا آمد و رفت کا سارا خرچ خود برداشت کرتے تھے۔ آپ خلیفۂ وقت کو باقاعدگی سے خطوط لکھتے اور دوسرو ں کو بھی اس کے لئے بار بار یاددہانی کرواتے۔ پنج وقتہ نماز کے پابند، نہایت دعاگو، منکسرالمزاج، خلافت سے والہانہ عقیدت رکھنے والے مخلص اور باوفا انسان تھے اور مشکلات اور تکالیف کو ہمیشہ صبر اور شکر سے برداشت کیا کرتے تھے۔ اپنے بچو ں کی بھی نہایت اعلیٰ تربیت کی۔ آپ کے تین بیٹے ہیں۔ ایک بیٹے مکرم محمد عبدالرئوف ریحان صاحب سالہاسال سے خدام الاحمدیہ میں قائد ضلع اسلام آباد کے طور پر خدمت بجالارہے ہیں۔ …٭…٭…٭… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍نومبر 2011ء میں مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کا حضورِ انور ایدہ اللہ کی والدہ محترمہ کی وفات کے موقع پر کہا جانے والا کلام شائع ہوا ہے۔ اس طویل نظم سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے: تھک کے آخر کار جب اُس ما ں نے آنکھیں موند لیں حسرتیں باقی ہیں پر ارما ں نے آنکھیں موند لیں آٹھ سالو ں تک بہت جھیلا عذابِ ہجر کو آخرش کمزور بے کس جا ں نے آنکھیں موند لیں صبر کی سِل تو نے سینے پر دھری کچھ اس طرح دل میں اُٹھتے دردکے طوفا ں نے آنکھیں موند لیں یادِ ماضی ہے ، اُداسی ہے ، غمِ تنہائی ہے دردِ فُرقت بڑھ گیا درما ں نے آنکھیں موند لیں جس کی اُلفت نے کیا سیراب برسو ں تک تجھے اُس محبت کے کھلے بارا ں نے آنکھیں موند لیں ہو گئی رُخصت جہا ں سے دُخترِ فضلِ عمر مہربا ں اور پیکرِ احسا ں نے آنکھیں موند لیں اُس کی یادو ں کی مہک عرشیؔ شکستہ دل میں ہے داستا ں باقی ہے گو عنوا ں نے آنکھیں موند لیں …………………………… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍اگست 2011ء میں حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کی رحلت کے حوالہ سے مکرم عطاء المجیب راشد صاحب کی ایک نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں : جب خبر رحلت کی آئی تو سبھی کو یو ں لگا فیض کا سیلِ روا ں تھا جو اچانک رُک گیا بارشِ انوار کی وہ اک صدی شاہد رہی قدرتِ ثانی کے سب جلوو ں کی وہ زندہ گواہ پیکرِ حُسنِ عبادت ، منبعٔ لطف و کرم خوبیا ں اس ذات کو بخشیں خدا نے بے بہا زندگی اس کی دعائو ں کا بھرا کشکول تھا جاری و ساری رہے گا فیض کا چشمہ سدا فیض اس ما ں کا سدا جاری رہے گا بالیقیں جس کا بیٹا کشتیٔ دینِ متیں کا ناخدا ہے ہمالہ صبر کا غمگیں ترا مسرورؔ ہے اس کو اپنی گود لے اور شاد رکھ صبح و مسا …………………………… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23اگست 2011ء میں ’’منزلِ ضبط‘‘ کے عنوان سے مکرم عبدالکریم قدسی ؔصاحب کی نظم شائع ہوئی ہے جو انہو ں نے حضور انور ایدہ اللہ کا خطبہ جمعہ مورخہ 5؍اگست 2011ء سننے کے بعد کہی۔ اس خطبہ میں حضور انور نے اپنی مرحومہ والدہ ماجدہ کا ذکر خیر فرمایا ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے: اتنے ضبط سے ذکرِ جدائی کون کرے گا کون کرے گا ایسے ، ما ں کے غم کی باتیں ضبط کے پشتو ں کو اتنا مضبوط کیا تھا ٹوٹ نہ پائے ، سیل اشک کو دے دی ماتیں اُمڈے ہوئے جذبات پہ قابو وہ رکھتا ہے حمد میں گزریں جس کے دن ، سجدو ں میں راتیں اس منظر کی منظر کشی نہ ہو گی قدسیؔ متحیّر ہیں سوچیں ، عاجز قلم دواتیں وہ مُسکائے تو کِھلتے ہیں دل کے غنچے ورنہ قدسیؔ کیا عیدیں ہیں کیا شبراتیں