https://youtu.be/jLqpvIDyaCM ٭… امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دوپُر معارف آن لائن خطابات ٭…علمائے سلسلہ کی علمی اور تربیتی موضوعات پر پُر مغز تقاریر ٭… دنیا کے ۷۸؍ممالک سے ۴۶؍ہزار سے زائد فدائیان احمدیت کی شرکت جماعت احمدیہ جرمنی کا ۴۹واں جلسہ سالانہ ۲۹، ۳۰ و ۳۱؍اگست بروز جمعہ،ہفتہ و اتوار تین روز روحانی ماحول میں جاری رہنے کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے اسلام آباد سے براہ راست خطاب اور اجتماعی دُعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ جلسہ میں ۷۸؍ممالک سے ۴۶؍ہزار سے زائد فدائیان احمدیت نے شرکت کرکے اپنے ایمان تازہ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ انگلستان سے ۱۱۳۳؍افراد نے جرمنی آکر جبکہ ۲۵۸۵؍افراد نے اسلام آباد میں حاضر ہو کر شرکت کی۔ کیمرون کے بادشاہ کے علاوہ جرمنی بھر سے متعدد سماجی اور ممتاز شخصیات نے بھی جلسہ میں اظہارِ خیال کیا اور جماعت احمدیہ کی سوشل اور سماجی خدمات کا تذکرہ کرکے جرمن معاشرہ میں احمدیوں کے کردار کو سراہا۔ تین روز جاری رہنے والے اجلاسات کی کارروائی بالترتیب پیش خدمت ہے۔یاد رہے کہ جلسہ سالانہ فرینکفرٹ سے ۱۴۰ کلو میٹر مغرب میں واقع Mendig شہر میں منعقد ہوا۔ تیاری جلسہ گاہ یوں تو جلسہ کی تیاری کا کام سارا سال جاری رہتا ہے لیکن جوں جوں جلسہ سالانہ کی تاریخیں قریب آنا شروع ہوتی ہیں کام کے حجم اور نوعیت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا۔ سب سے پہلے ۲۹؍جون کو جماعت باڈ ناؤ ہائم کے مکرم محمد حبیب صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ میدان جلسہ گاہ میں اترے اور نقشہ کے مطابق چھوٹے بڑے خیمہ جات اور چھولداریوں کے لیے نشان دہی کا فریضہ سرانجام دیا۔ یہ کام کم و بیش ایک ماہ جاری رہا۔ اس کام کے مکمل ہونے پر ۳۱؍جولائی سے کمپنیوں کی طرف سے اشیاء کی ترسیل شروع ہونا تھی۔ کمپنیوں اور جلسہ انتظامیہ کے درمیان مضبوط رابطے کے لیے اس بار ایک نئی نظامت کا اضافہ کیا گیا تھا جس کو PMO یعنی Project Management office کا نام دیا گیا۔ کمپنیوں سے اشیاء دیے ہوئے آرڈر کے مطابق وصول کرنا اور معاہدہ کے تحت نصب کروانا اس نظامت کی ذمہ داری تھی۔ مکرم شہاب الدین صاحب اور ان کی ٹیم نے بہت محنت سے یہ ڈیوٹی سرانجام دی۔ سب سے پہلے کھلے میدان میں ایلومینیم ٹریک بچھایا گیا تاکہ بارش کی صورت میں اشیاء لانے والے ٹرکوں کو دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ۶؍اگست تک مکرم تاثیر احمد صاحب جن کا تعلق Stuttgart جماعت سے ہے نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ایک ہزار ٹریک بچھائے جبکہ چار سو پچاس ٹریک کمپنی کے ملازمین نے بچھائے۔ جب افسر صاحب جلسہ سالانہ کی طرف سے حضور کی خدمت اقدس میں ٹریک بچھانے کی رپورٹ بغرض دعا ارسال کی گئی تو حضور نے از راہ شفقت ٹریک بچھانے والے خدام کی گروپ فوٹو دیکھنے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ ایلومینیم کی سڑکیں تیار ہو جانے کے بعد دونوں جلسہ گاہ کی مارکیاں نیز دوسرے خیمہ جات لگانے کا کام شروع ہو گیا۔ اس کے ساتھ دو شعبہ جات بھی پوری مستعدی سے کام میں مصروف ہو گئے۔ ساتھ ساتھ محکمہ بجلی کے کارکنان ناظم بجلی مکرم رانا ندیم احمد صاحب کی سرکردگی میں بجلی کے تار بچھانے اور سپلائی لائن کی بحالی کا کام کرتے رہے۔ دوسرا شعبہ جس کے ذمہ چالیس ہزار افراد کے لیے سینٹری سسٹم قائم کرنا تھا ۳۱؍جولائی سے یہ ٹیم کام میں مصروف ہو گئی تھی۔ اجتماعی وقارعمل کا آغاز اجتماعی وقارعمل کے آغاز کے لیے ۲۲؍اگست جمعہ کا دن مقرر تھا۔ جماعتوں میں اعلانات کے علاوہ شعبہ وقف عارضی نے بھی مہم کی صورت میں احباب جماعت سے اپیل کی تھی۔ ۲۲؍اگست کو احباب کی ایک بڑی تعداد وقار عمل کے لیے دس بجے صبح جلسہ گاہ پہنچ چکی تھی۔ اس موقع پر مکرم جری اللہ راجپوت صاحب متعلم جامعہ احمدیہ نے تلاوت قرآن پاک کی۔ نیشنل امیر جماعت جرمنی مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب اور مکرم عطاء الحلیم احمد صاحب افسر جلسہ سالانہ نے حاضرین سے خطاب میں اپنی توقعات کا اظہار کیا۔ مکرم ندیم احمد صاحب جو ایک لمبا عرصہ سے ناظم تیاری کی ذمہ داری بہت احسن رنگ میں سر انجام دے رہے ہیں نے وقارعمل سے متعلق خصوصی ہدایات دیں جس کے بعد اجتماعی دعا سے وقار عمل کا آغاز ہوا۔ نماز جمعہ بھی جلسہ گاہ میں ہی ادا کی گئی جو مکرم مبارک احمد تنویر صاحب مبلغ انچارج جرمنی نے پڑھائی۔ وقار عمل کے حوالے سے ڈاکٹر راشد نواز صاحب نے نمائندہ الفضل انٹرنیشنل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ۲۲؍اگست کے بعد سے روزانہ سات سو کے قریب افراد تیاری جلسہ گاہ میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہفتہ کے روز پندرہ سو اور اتوار کے روز دو ہزار افراد نے وقار عمل میں حصہ لیا۔ اسی طرح ۱۸۹ افراد نے وقف عارضی کیا ہے۔ ۷۹ طلبہ جامعہ احمدیہ ہیں جو روزانہ ڈیوٹی دے رہے ہیں اس کے علاوہ تین مربیان سلسلہ اس وقارعمل سکیم کا حصہ ہیں۔ ان سب افراد نے مل کر چٹیل میدان کو مردانہ و زنانہ جلسہ گاہ، لنگر خانہ، ضیافت و دیگر ضروری دفاتر میں ایسے تبدیل کیا ہے کہ دُور سے خیمہ بستی پر مشتمل شہر آنکھوں کو بھاتا ہے۔ معائنہ جلسہ گاہ مورخہ ۲۸؍اگست بروز جمعرات شام چھ بجے انتظامات کے معائنہ کا وقت مقرر تھا۔ نماز ظہر وعصر دو بجے جلسہ گاہ میں مکرم مبلغ انچارج صاحب کی اقتدا میں ادا کی گئی۔ جس کے بعد مکرم افسر صاحب جلسہ سالانہ نے جرمن اور اردو زبان میں حاضرین کو بتایا کہ خدا کے فضل، حضور انور کی دعاؤں اور آپ سب کے بھر پور تعاون کے سبب جلسہ سالانہ کے تمام اہم کام مکمل ہو چکے ہیں۔ معائنہ کے لیے چھ بجے کا وقت مقرر ہے۔ اس دوران سب دوستوں سے درخواست ہے کہ جلسہ گاہ کی صفائی میں بھر پور حصہ لے کر اس جلسہ گاہ کو پوری طرح چمکا دیں۔ افسر جلسہ سالانہ کے اعلان کے بعد مکرم نیشنل امیر صاحب نے انہی الفاظ کو انگریزی زبان میں یہ کہہ کر دوہرایا کہ آج جلسہ گاہ میں دوسری قومیتوں کے بہت سارے لوگ مجھے ملے ہیں جو جرمن اور اردو نہیں جانتے۔ وہ ہمارے مہمان ہیں اس لیے میں ہدایات کو انگریزی میں دوہرانا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ ہدایات کے انگریزی ترجمہ کے بعد مکرم امیر صاحب نے پُرجوش اسلامی نعرے بلند کر کے ماحول کو جذباتی کر دیا۔ ہر چند کہ مکرم امیر صاحب تقریباً روزانہ جلسہ گاہ آکر انتظامات کا جائزہ لے رہے تھے لیکن انتظامات جلسہ گاہ کا معائنہ جلسہ سالانہ کی روایت ہے جو حضور انور کی غیر موجودگی میں نیشنل امیر صاحب یا حضور انور کا مقرر کردہ نمائندہ سرانجام دیتا ہے۔ آج کا معائنہ نیشنل امیر صاحب اور مشنری انچارج صاحب نے مل کر سرانجام دیا۔ ٹھیک چھ بجے شام معائنہ کا آغاز لنگر خانہ سے کیا گیا اور شام آٹھ بجے تمام شعبہ جات کے تفصیلی معائنہ کے بعد مرکزی پنڈال میں دعائیہ تقریب منعقد ہوئی۔ تلاوت قرآن کریم مکرم حافظ اویس قمر صاحب نے کی جس کے اردو و جرمن ترجمہ کے بعد مکرم امیر صاحب نے مختصر خطاب کیا جس کے بعد تمام حاضرین نے مل کر جلسہ سالانہ کی کامیابی اور حضور انور کی صحت والی فعال زندگی کے لیے اجتماعی دعا کی جس کے بعد نماز مغرب و عشاء باجماعت ادا کی گئیں۔ جمعرات کی رات گئے تک مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مردانہ اجتماعی قیام گاہ میں دو ہزار مرد احباب اور خواتین کی اجتماعی قیام گاہ میں ایک ہزار سے زائد خواتین نے قیام کیا۔ ۷۵۰ پرائیویٹ خیمہ جات لگائے گئے۔ ۱۴۰ موبائل کارواں جلسہ گاہ میں موجود تھے جبکہ ۹۴ خاندانوں نے کرایہ پر خیمہ جات حاصل کر کے جلسہ گاہ میں رات بسر کی۔ پہلا روز ۲۹؍اگست بروز جمعۃ المبارک: رات بھر مہمانوں کی آمد وقفہ وقفہ سے جاری رہی اور لنگر خانہ حضرت مسیح موعودؑ بھی مہمانوں کے لیے کھلا تھا۔ آج روزنامہ الفضل انٹرنیشنل کی سوشل میڈیا ٹیم اور الحکم کا عملہ بھی جلسہ گاہ میں پہنچ کر کام میں مصروف ہو چکا تھا۔ آج کے دن کا آغاز حسب روایت نماز تہجد سے ہوا جو صبح ساڑھے چار بجے حافظ خواجہ احتشام احمد صاحب نے پڑھائی۔ سوا پانچ بجے اذان فجر دینے کی سعادت مکرم محمد ولید عابد صاحب نے حاصل کی۔ ساڑھے پانچ بجے نماز فجر کی امامت مکرم مبلغ انچارج صاحب جرمنی نے کروائی۔ درس مکرم محفوظ احمد منیر صاحب نے ‘درود شریف کی اہمیت’ کے حوالے سے دیا۔ دن کے آثار نمایاں ہوتے ہی جلسہ میں چہل پہل کا آغاز ہو گیا۔ پارکنگ اور ٹریفک کے کارکنان کو علی الصبح کام میں مصروف دیکھا گیا۔ گذشتہ سال، اس جگہ جلسہ منعقد کرنے کا پہلا سال تھا، اس کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے جلسہ گاہ آنے والی سڑکوں کا منصوبہ پولیس نے اس طرح تیار کیا تھا کہ مقامی آبادی کو کم سے کم تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔ جلسہ کی ٹریفک کو Mendig شہر میں جانے کی اجازت نہیں تھی البتہ موٹر وے سے جلسہ گاہ تک ۱۷کلومیٹر کے راستہ میں جگہ جگہ پولیس کی گاڑی لوگوں کی راہنمائی کے لیے موجود تھی۔ اسی طرح ۱۷کلومیٹر کے طویل راستہ کے دوران آنے والے ہر موڑ پر ایک خادم السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا بینر لے کر مستعد کھڑا ہاتھ ہلا کر انتظامیہ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ یہ ایسا دیدہ زیب منظر تھا جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اس بار تین اطراف سے کاریں پارکنگ احاطہ میں داخل ہورہی تھیں اورمختلف بلاکس میں پارک کروائی جارہی تھیں جہاں سے بسوں میں لوگوں کو جلسہ گاہ کے داخلی دروازوں پر پہنچایا جارہا تھا۔ داخلہ سے قبل پینے کے پانی کے سٹال موجود تھے۔ مقامی احمدی اور مہمانوں کے داخلہ کارڈ بنانے اور تصدیق کروانے کے دفاتر بھی مصروف عمل تھے۔ جلسہ گاہ کی پیشانی جلسہ کے حسن لا ریب دیدہ ور منظر سے مزین تھی۔ آنے والے مہمان ایک دوسرے سے گلے مل کر جلسہ سالانہ کی اہمیت باور کروا رہے تھے۔ صبح سے شروع ہونے والے اس منظر میں جمعہ کی اذان تک ہر لمحہ اضافہ ہوتا رہا۔ جمعہ کے لیے ڈیڑھ بجے کا وقت مقرر تھا۔ ایک بجے عزیزم وقاص احمدمتعلم جامعہ احمدیہ نے پہلی اذان دی تو اس وقت کی رپورٹ کے مطابق دونوں جلسہ گاہ کی حاضری پچیس ہزار تھی اور ابھی مسلسل کاریں جلسہ گاہ میں داخل ہورہی تھیں۔ ایک بجکر تیس منٹ پر دوسری اذان کے بعد مکرم مبلغ انچارج صاحب نے خطبہ جمعہ دیا جس کا آٹھ زبانوں میں رواں ترجمہ کیا گیا۔ انہوں نے حضور انور کے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵؍جولائی بر موقع جلسہ سالانہ برطانیہ میں کی جانے والی نصائح کی طرف متوجہ کیا۔ ان نصائح میں حضور انور نے جلسہ کے مقاصد اور اس جلسہ سے وابستہ برکات کا احاطہ فرمایا ہے۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد جلسہ گاہ میں ہی حضور انور کا خطبہ جمعہ ایم ٹی اے پر سنا گیا۔ خطبہ جمعہ کے آخر میں حضور انور نے ازراہ شفقت شاملین جلسہ سالانہ جرمنی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آج سے جرمنی کا جلسہ سالانہ بھی شروع ہوا ہے۔ وہاں کے تمام شاملین کو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جلسے کے مقاصد کو پورا کرنے کی توفیق دے اور صرف میلہ سمجھ کر یہاں جمع نہ ہوں بلکہ اِن دنوں میں اپنی علمی، عملی اور روحانی ترقی میں مستقل بڑھتے چلے جانے کا عہد کریں اور اس کے لیے کوشش کریں۔ اِن دنوں میں خاص طور پر ذکر الٰہی اور دعاؤں میں وقت گزاریں۔ جہاں اپنے لیے، اپنی نسلوں کے لیے دعا کریں وہاں جماعت کی ترقی اور ہر مخالف کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے اور ان کے شر کے خاتمہ کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اِن کے شر سے بچائے۔ تقریب پرچم کشائی: جلسہ سالانہ کے اجلاس اول کے لیے پانچ بجے شام کا وقت مقرر تھا۔ اس سے قبل پونے پانچ بجے لوائے احمدیت لہرانے کی تقریب منعقدہوئی جس کے لیے پنڈال کے بائیں طرف جگہ مخصوص کی گی تھی جس کے چبوترے اور راستہ میں سرخ قالین بچھایا گیا تھا۔ بعض دیگر ممالک کے جھنڈے بھی اس خوبصورت ماحول کا حصہ تھے۔ اس جگہ کو خوبصورتی سے سجانے کی ذمہ داری مکرم منظور احمد آف Wetzlar جماعت نے نبھائی جبکہ مکرم عثمان احمد صاحب ناظم پرچم کشائی تھے۔ آپ کا تعلق Riedstadt سے ہے۔ دس خدام مکرم خلیل احمد صاحب نائب افسر خدمت خلق کی معیت میں لوائے احمدیت کو اپنی حفاظت میں پرچم لہرانے کی جگہ پر لے کر آئے۔ پونے پانچ بجے مکرم امیر صاحب جرمنی اور مکرم مشنری انچارج صاحب جرمنی، افسر جلسہ سالانہ اور افسر جلسہ گاہ کے ساتھ چبوترے پر تشریف لائے۔ مکرم امیر صاحب نے جرمنی کا قومی پرچم اور مشنری انچارج صاحب نے لوائے احمدیت لہرانے کی سعادت حاصل کی۔ جس کے آخر پر اجتماعی دعا ہوئی۔ مکرم خلیل احمد صاحب نائب افسر خدمت خلق نے نمائندہ الفضل سے گفتگو میں بتایا کہ روزانہ صبح نو بجے سے شام ساڑھے سات بجے تک لوائے احمدیت جلسہ گاہ میں لہرایا جائے گا جس کی حفاظت کے لیے پورے جرمنی میں خدام کو دعوت دی گئی تھی۔ لوائے احمدیت کی حفاظت کے لیے ایک سو سے زائد خدام نے نام لکھوائے ہیں۔ اس لیے سب کو موقع دینے کے لیے ہر ایک گھنٹہ کے بعد شفٹ تبدیل کی جائے گی۔ ایک وقت میں نو خدام ڈیوٹی دیں گے۔ اجلاس اول: پانچ بجے اجلاس اول کی کارروائی شروع ہوئی۔ اس اجلاس کی صدارت کے لیے حضور انور نے مکرم عبد اللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت احمدیہ جرمنی کو مقرر فرمایا تھا۔ مکرم امیر صاحب کے کرسیٔ صدارت پر بیٹھنے کے بعد اجلاس کا آغاز تلاوت قران کریم سے ہوا جو مکرم دانیال احمد داؤد صاحب نے کی۔ آپ نے سورۃ الاحزاب کی آیات ۲۲ سے ۲۸ کی تلاوت کی جن کا جرمن ترجمہ مکرم مرزا نعمان احمد صاحب اور اردو ترجمہ مکرم مشہود احمد ظفر صاحب مربی سلسلہ نے پیش کیا۔ مکرم راحیل احمد صاحب نے درثمین میں سے حضور علیہ السلام کا کلام ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمدؐ سا نہ پایا ہم نے میں سے چند اشعار پیش کیے۔ نظم کے دوران بار بار نعرے لگتے رہے۔ اجلاس کے پہلے مقرر مولانا مبارک احمد تنویر صاحب مشنری انچارج جرمنی تھے جن کی تقریر کا موضوع تھا ‘‘نبی کریمﷺ کا تکالیف اور ابتلا کے دوران مثالی نمونہ’’۔ آپ نے اپنی تقریر کے شروع میں قرآن کریم کا حوالہ دیا جس میں رسول کو صبر کا حکم ہے۔ آپ نے سورۃ الاحزاب کا بھی حوالہ دیا جس میں کافروں اور منافقوں کی بات پر کان نہ دھرنے کا ارشاد ہے۔ آپ نے آنحضرتﷺ کی زندگی کے قبل از نبوت اور زمانہ نبوت کے واقعات جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں کیا ہے ان کے اقتباسات پیش کیے۔ نیز حضورﷺ کے جسمانی اور ذاتی تکالیف اور برداشت کے وہ واقعات جن کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ نے بھی فرمایا ہے بیان کیے۔ فاضل مقرر نے ۲۰۱۷ء سے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس کی طرف سے حضورﷺ اور صحابہ کی سیرت کے واقعات پر مشتمل خطبات کا بھی حوالہ دیا جو صبر کی تعلیم اور تلقین کا بہترین نمونہ ہیں۔ اپنی تقریر کے آخر میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نہایت پر اثر اقتباس پیش کیا جو صحابہ کے صبر اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج کے متعلق تھا۔ دوسرے مقرر سے قبل دو مہمان مقررین کو مختصر تقریر کا موقع دیا گیا جن میں سے پہلے مقرر Mr. Reiner Braun برلن سے تشریف لائے تھے اور امن کے قیام کے لیے کوشاں ایک تنظیم کے سربراہ ہیں۔ موصوف نے جماعت کی امن کے لیے کوششوں کی تعریف کی۔ برطانیہ جاکر حضور انور سے ملاقات کا ذکر کیا۔ انہوں نے غزہ میں جاری نسل کشی کی پر زور مذمت کی اور کہا کہ دنیا میں ایک ارب لوگ بھوکے سو رہے ہیں۔ ان کا پیٹ بھرنے کی بجائے ایٹمی جنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے جس کے لیے ہمیں امن کی کوششوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔ دوسرے مہمان مقرر Mr. Clemens Hoch تھے جو صوبہ Rheinland-Pfalz میں صوبائی وزیر ہیں۔ انہوں نے اپنے صوبہ کے چیف منسٹر کی طرف سے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور آئندہ سال بھی جلسہ سالانہ اسی جگہ منعقد کرنے کی درخواست کی۔ جماعت کے ماٹو محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں کو عام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبہ نے چار مسلم تنظیموں سے برابری کی بنیاد پر معاہدہ کیا ہے جس میں جماعت احمدیہ بھی شامل ہے۔ ہم سب مل کر صوبہ کو ترقی دیں گے۔ جلسہ سالانہ اور اس طرز کی مجالس قومیتوں اور مذاہب کے درمیان گفتگو کا دروازہ کھولتی ہیں جس کی زمانہ کو ضرورت ہے۔ مہمان مقررین کے بعد مکرم عدیل احمد خالد صاحب مربی سلسلہ نے ‘ڈیجیٹل دور کے فوائد و مسائل اور ہماری ذمہ داریاں’ کے موضوع پر جرمن زبان میں تقریر کی۔ آپ نے اپنی تقریر کے شروع میں بہت ساری ایسی مثالیں پیش کیں کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت اس کے غلط استعمال سے سکولوں کے بچوں نے بے راہ روی اختیار کی۔ اس سے بچنے کی قرآنی تعلیم کا آپ نے تفصیل سے ذکر کیا۔ اسی طرح بچوں کے ساتھ حضور کی مجالس میں پوچھے جانے والے سوالات اور حضورانور کے جوابات کا ذکر نصائح کے رنگ میں کیا۔ اس کے بعد مکرم راشد منصور صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کا کلام خوش الحانی سے پیش کیا۔ جس کے بعد اعلانات ہوئے اور آج پہلے دن کی کارروائی شام سات بجے اختتام پذیر ہوئی۔ کھانے کے وقفہ کے بعد نو بجے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے ادا کی گئیں۔ دوسرا روز ۳۰؍اگست بروز ہفتہ: دوسرے دن کا آغاز صبح باجماعت نماز تہجد سے ہوا جو حافظ اویس احمد قمر صاحب مربی سلسلہ کی اقتدا میں ساڑھے چار بجے ادا کی گئی۔ سوا پانچ بجے متعلم جامعہ احمدیہ عزیزم قویم احمدنے فجر کی اذان دی اور ساڑھے پانچ بجے مکرم مبلغ انچارج صاحب نے نماز فجر پڑھائی۔ جس کے بعد مکرم احیاء الدین صاحب مربی سلسلہ نے قول سدید کے موضوع پر قرآن کریم کا درس دیا۔ اجلاس دوم: پروگرام کے مطابق آج صبح کا اجلاس ساڑھے دس بجے مکرم عطاء الرب چیمہ صاحب مبلغ انچارج و صدر جماعت احمدیہ قزاقستان کی صدارت میں تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا جو عزیزم محمد صفوان احمدمتعلم جامعہ احمدیہ جرمنی نے کی۔ آپ نے سورۃالنور کی آیات ۵۵ تا ۵۷ کی تلاوت کیں جن کا اردو ترجمہ تفسیر صغیر سے مکرم ملک صفوان احمد صاحب نے پڑھا۔ جرمن ترجمہ پڑھنے کی سعادت مکرم بہزاد احمد صاحب نے حاصل کی۔ بعد ازاں مکرم خواجہ عبدالنور صاحب مربی سلسلہ اور عزیزم ماحد الیاس نے مل کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درج ذیل کلام میں سے منتخب اشعار ترنم سے پیش کیے۔ وہ آیا منتظر جس کے تھے دن رات معمہ کھل گیا روشن ہوئی بات آج کی پہلی تقریر ڈاکٹر وجاہت احمد وڑائچ صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کی تھی جس کا موضوع تھا ‘خلافت سے ذاتی تعلق کا سفر۔ نوجوانوں کے خلافت کے ساتھ ذاتی تجربات کی روشنی میں’۔ آپ نے اپنی تقریر میں نوجوانوں کے ایسے متعدد واقعات بیان کیے جن میں خلیفۂ وقت سے ذاتی رابطہ بڑھانے کی صورت میں ان میں روحانی تبدیلی پیدا ہوئی اور ان کی زندگی بدل گئی۔ اپنے ذاتی تجربہ میں انہوں نے متعدد ایسے سفروں کا ذکر کیا جن کے دوران حضور انور کی ہدایات پر عمل کرنے کے نتیجہ میں آسانیاں پیدا ہوتی چلی گئیں۔ ذاتی تعلق بنانے سے خلیفہ کی دعاؤں سے انسان کی غیب سے بھی مدد کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس ضمن میں آپ نے ایک افغان بچے اور ایک خادم جو اپنے والد کی بیماری کی وجہ سے اس حد تک پریشان تھا کہ پریشانی مایوسی میں بدل رہی تھی حضور انورسے رابطہ اور ملنے والی دعا کے نتیجہ میں خدائی مدد کا تفصیل سے ذکر کیا۔ مکرم خواجہ فواد احمد صاحب نے درثمین سے نظم اے خدا اے کارساز و عیب پوش و کردگار اے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار کے چند اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔ آج کے اجلاس کی دوسری تقریر مولانا محمد الیاس منیر صاحب مربی سلسلہ و صدر تاریخ احمدیت کمیٹی جرمنی کی تھی جس کا موضوع تھا ‘صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار’ مولانا صاحب نے اپنی تقریر کے شروع میں قرآن کریم میں صدق کی جو تعریف بیان کی گئی ہے اس کا ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرنے والے، ایفائے عہد کو نبھانے والے اور ابتلاؤں میں صبر کرنے والوں کو صدق میں شمار کیا گیا ہے۔ آپ نے اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فارسی شعر بھی پیش کیا۔ آپ نے صدق و وفا کی لا زوال مثالیں قائم کرنے والے حضور علیہ السلام کے صحابہ کا بھی تذکرہ کیا جن کی مثالیں آج کے دَور کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آپ نے عافیت کے حصار کی مثال میں مجسٹریٹ والے مشہور واقعہ اور سیالکوٹ میں چھت گرنے والے واقعہ کا بھی ذکر کر کے خدا کی طرف سے عافیت حاصل ہونے کا ذکر کیا۔ عافیت کے حصار میں ہر وہ اہل بیعت شامل ہے جس کی زندگی کشتی نوح میں بیان کردہ تعلیم کے مطابق ہے جس کا خلاصہ شرائط بیعت ہیں۔ ہمیں الدار میں داخل ہونے کے لیے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اس زمانہ میں خلافت احمدیہ کی صورت میں عافیت کے حصار کا فیض جاری ہے جس کی قدر کرنی چاہیے اور خلیفہ وقت کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بنانا چاہیے۔ فاضل مقرر کے بعد Mendig شہر جہاں جلسہ سالانہ منعقد ہو رہا ہے کے میئرMr Jörg Lempertzنے مختصر خطاب کیا جس میں آپ نے جماعت احمدیہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط کا بطور خاص ذکر کیا۔ آپ نے کہا کہ تین سال قبل جب آپ لوگوں نے اتنے بڑے اجتماع کے انعقاد کی اجازت مانگی تو انتظامیہ کے دل میں جو خدشات پیدا ہوئے تھے آپ لوگوں کا عمل اور سنجیدگی دیکھ کر ہمیں اس کا جواب مل گیا ہے اور احمدیہ کمیونٹی کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ مہمان مقرر کے جذبات کے اظہار کے بعد اجلاس دوم کی کارروائی اپنے اختتام کو پہنچی۔ حضور انور کا خواتین سے خطاب آج دوپہر ساڑھے بارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایوان مسرور، اسلام آباد سے مستورات سے خطاب فرمایا۔ (اس اجلاس کی کارروائی پر مشتمل رپورٹ کے لیے اسی شمارے کا صفحہ اوّل ملاحظہ فرمائیں۔) سپیشل سیشن: حضور انور کے خواتین سے خطاب کے بعد دوپہر دو بجے جلسہ گاہ جرمنی میں نماز ظہر وعصر ادا کی گئیں۔ ہفتہ کے روز درمیانی وقفہ کے دوران تبلیغی ڈیسک اور دیگر تنظیمیں اپنے اجلاسات منعقد کرتی ہیں لہٰذا تیسرے اجلاس کا وقت ساڑھے پانچ بجے رکھا گیا تھا۔ اس دوران عربی ڈیسک نے عرب مہمانوں کے ساتھ ایک طویل نشست منعقد کی جس میں باہمی مشاورت بھی شامل تھی۔ ترک ڈیسک کے احمدی احباب اپنے مہمانوں کے ساتھ مصروف رہے۔ احمدیہ lawyers ایسوسی ایشن نے غزہ کی صورت حال پر ایک فورم منعقد کیا جس میں لوگ بڑی تعداد میں شامل ہوئے۔ النصرت نے میت کو غسل دینے کے حوالے سے لوگوں کو راہنمائی مہیا کی۔ احمدیہ سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن اور احمدیہ میڈیکل ایسوسی ایشن نے اپنے اپنے اجلاسات منعقد کیے۔ اجلاس سوم: شام ساڑھے پانچ بجے جلسہ سالانہ کا اجلاس سوم مکرم لئیق احمد منیر صاحب مبلغ سلسلہ جرمنی کی صدارت میں شروع ہوا۔ جامعہ احمدیہ کے طالب علم عزیزم فاتح احمد عزیز نے سورۃالمؤمنون کی آیات ایک تا بارہ کی تلاوت کی جن کا جرمن ترجمہ مکرم صالح احمد اور اردو ترجمہ مکرم انتصار احمد صاحب مربی سلسلہ نے پیش کیا۔ مکرم شیخ عبد الحفیظ صاحب نے درثمین سے اردو نظم ‘جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا’ خوش الحانی سے پڑھی۔ اس اجلاس کے پہلے مقرر مکرم صادق احمد بٹ صاحب مربی سلسلہ و صدر جماعت احمدیہ ترکی تھے۔ آپ نے تزکیہ نفس کے موضوع پر تقریر کی۔ اپنی تقریر کے شروع میں مقرر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس خواہش کا ذکر کیا کہ جماعت کے قیام کی اصل غرض و غایت یہی ہے کہ پاک دل اور باخدا لوگوں کی جماعت قائم ہو جائے اسی لیے ساتھ نصیحت فرمائی کہ پاک دل مثل صحابہ بن جاؤ۔ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ تزکیہ نفس اطاعت کے بغیر ممکن نہیں۔ اطاعت امام و تزکیہ نفس سے متعلق فاضل مقرر نے حضور علیہ السلام کے اقتباسات پیش کیے جن میں حضورؑ نے فلسفیانہ بحثوں سے نکال کر معرفت الٰہی اور اصلاح نفس کی طرف متوجہ کیا ہے۔ آپ نے حاضرین کو حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کی یاددہانی کروائی کہ نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بے زار ہو کر ترک کرو۔ اخلاقی بدیوں سے اجتناب برتنے کے بارے میں آپ نے بتایا کہ اپنی بات پر اڑ جانا شیطان صفت کہلاتا ہے جبکہ اپنی غلطی پر شرمسار ہونا حضرت آدم کی صفت ہے۔ آپ نے ناراضگی چھوڑنے اور انانیت کے بتوں کو پاش پاش کرنے سے متعلق حضورؑ کا اقتباس بھی پیش کیا۔ بعدازاں دو مہمان مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جرمن فلسطین دوستانہ تنظیم کے ندیم مشابش صاحب جرمنی کے شہر Osnabrück سے تشریف لائے تھے۔ اسی طرح Mrs Doyar Zebel برلن سے تشریف لائی تھیں جنہوں نے اپنی طرف سے جلسہ کی مبارک باد اور جماعت احمدیہ سے اپنے تعلق کو سراہا۔ مہمان مقررین کے بعد مکرم اسامہ نسیم صاحب نے اردو نظم ‘اسلام سے نہ بھاگو راہ ھدیٰ یہی ہے’ ترنم سے پڑھی ۔مکرم سعید احمد عارف صاحب مربی سلسلہ نے گھریلو زندگی اسلامی اقدار کا آئینہ کے عنوان سے جرمن زبان میں تقریر کی۔ جس میں گھروں کو امن کا گہوارہ بنانے کے حوالے سے اسلامی تعلیم پیش کی۔ روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور معاشرہ میں سر اٹھانے والے مسائل اور ان کے حل کے لیے خلفاء سلسلہ کے ارشادات سے راہنمائی حاصل کرنے کی تلقین کی۔ ساڑھے سات بجے اجلاس کی کارروائی اختتام پذیر ہوئی۔ جس کے بعد مہمانوں کو کھانا پیش کیا گیا اور مغرب و عشاء کی نمازیں نو بجے شب ادا کی گئیں۔ تیسرا و اختتامی روز ۳۱؍اگست بروز اتوار: جلسہ کے تیسرے دن کا آغاز حسب پروگرام صبح ساڑھے چار بجے باجماعت نماز تہجد سے ہوا جو مکرم عمران احمد بشارت صاحب مربی سلسلہ نے پڑھائی۔ سوا پانچ بجے عزیزم باسل احمد متعلم جامعہ احمدیہ نے فجر کی اذان دی۔ مکرم مشنری انچارج صاحب کی اقتدا میں ساڑھے پانچ بجے نماز فجر ادا کی گئی۔ جس کے بعد مکرم انصر بلال انورچٹھہ صاحب مربی سلسلہ نے سورۃ الانعام کی ۸۳ویں آیت کا درس دیا۔ آپ نے ظلم کو شرک ہی کی ایک قسم قرار دیتے ہوئے اس کی تفصیل میں ایمان کی مضبوطی اور استقامت کے حوالے سے بعض دعاؤں کا ذکر کیا۔ اجلاس چہارم: اتوار کے روز صبح ساڑھے دس بجے شروع ہونے والے اجلاس کی صدارت کے لیے حضور انور ایدہ اللہ نے امیر جماعت احمدیہ گھانا مکرم الحاج محمد بن صالح صاحب کو مقرر فرمایا تھا۔ ان کے کرسیٔ صدارت پر بیٹھنے کے بعد اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کی سعادت حافظ عطاء الرازق بھٹی صاحب کے حصہ میں آئی۔ جس کا جرمن ترجمہ مکرم احمد نوید لون صاحب اور اردو ترجمہ مکرم نبیل احمد شاد صاحب مربی سلسلہ نے پیش کیا۔ مکرم رضوان احمد صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام لوگو سنو! کہ زندہ خدا وہ خدا نہیں جس میں ہمیشہ عادتِ قدرت نما نہیں میں سے چند اشعار ترنم سے پڑھے۔ آج کی پہلی تقریر مکرم محمد حماد ہیرٹر صاحب نے جرمن زبان میں ‘زندہ خدا’ کے موضوع پر کی۔ انہوں نے بتایا کہ تمام مذاہب میں مشترکہ بات زندگی کو بامقصد گزارنے کا عمل ہے۔ آنحضرتﷺ نے اللہ پر ایمان لانے اور استقامت دکھانے کے جو طریق بتائے ہیں ان کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد جگہ فرمائی ہے اس ضمن میں آپ نے حضور کی کتب نسیم دعوت، چشمۂ معرفت اور حقیقۃ الوحی کے اقتباسات بھی پیش کیے۔ آپ نے مختصراً حقیقۃ الوحی میں زندہ خدا کی حقیقت کے دو سو سے زائد نشانات بتائے۔ آپ نے زندہ خدا کے حوالے سے بائبل کا بھی تذکرہ کیا۔ آپ کے بعد مولانا شمشاد احمد قمر صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی نے تقریر کی جس کا موضوع تھا ‘‘نظام جماعت کی برکات’’۔ آپ نے تقریر کے شروع میں زمین و آسمان کی پیدائش بطور نشان کے ہونے اور اس کے بعد شروع ہونے والے مختلف نظاموں کا ذکر کیا۔ ان میں روحانی زندگی کی اہمیت، خلافت کا روحانیت سے تعلق اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی وحدت اور اس کی افادیت کا تفصیل سے ذکر کیا۔ آپ نے فرمانبرداری کے اصول اختیار کرنے سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک پُراثر اقتباس بھی پیش کیا۔ آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے احباب کے سامنے اطاعت کا جو مفہوم بیان فرمایا گیا ہے اس کو بھی سامنے رکھا۔ آپ نے مثالوں سے واضح کیا کہ خلیفہ وقت کی ہدایات پر عمل کرنے سے کس طرح برکتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ پرنسپل صاحب کی تقریر کے بعد کیمرون سے تشریف لائے پیرامائونٹ چیف الحاجی عبداللہ یریما بکری صاحب لامیڈو آف مروہ جو سٹیج پر موجود تھے کی انگریزی زبان میں لکھی تقریر ان کے سیکرٹری محمد ثانی صاحب نے ڈائس پر آکر پڑھی جس میں جماعت کی خدمات دینیہ اور سماجی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیاتھا۔ مکرم ہدایت اللہ ہبش صاحب مرحوم کی اسلام سے محبت میں لکھی نظم دو احمدی دوستوں Monos Nunez صاحب اور Philip Luka صاحب نے مل کر ترنم سے پڑھی۔ اس اجلاس کے آخری مقرر مکرم عبد اللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت احمدیہ جرمنی تھے جنہوں نے جماعت احمدیہ کی تاریخ اور فلسطین کی تاریخ کے خدوخال کے موضوع پر جرمن زبان میں تقریر کی۔ آپ نے ۱۹۲۴ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے دورہ فلسطین کے دوران محسوس کیے جانے والے خطرات اور ان کے اظہار کا تذکرہ کیا۔ آپ نے ۱۹۲۵ء میں فلسطین کے لیے عدل پر قائم ایک ریاستی حل کی تجویز کو دوہرایا اور اسی سال حیفا میں مسجد کے قیام کا اعلان فرمایا۔ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی عالمی سیاست کی کوششوں سے حضور انورنے خبردار کیا اور زمینیں فروخت کرنے والوں کو اس کام سے منع فرمایا۔ لیکن جیسا کہ عالمی سازشیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں آجکل بھی فلسطین کی سرزمین صیہونیوں کی سازشوں کا شکار ہے۔ پہلے بھی ایک احمدی کو ۱۹۴۸ء میں خدمت فلسطین کی توفیق ملی اور اب جبکہ ارض فلسطین بربریت کا شکار ہے خدا ایک احمدی کو نمایاں خدمت کی توفیق دے رہا ہے۔ امیر صاحب نے اس احمدی کی حفاظت کے لیے دعا کی درخواست کی۔ امیر صاحب کی اس اہم تقریر کے ساتھ آج کے اس اجلاس کی کارروائی اختتام کو پہنچی۔ جس کے بعد کھانے کا وقفہ ہوا۔ چار بجے ظہر وعصر کی نمازیں ادا کی گئیں۔ جس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ کی صدارت میں ایوان مسرور، اسلام آباد سے جلسہ سالانہ کی اختتامی کارروائی کا آغاز ہوا۔(اختتامی اجلاس کی رپورٹ کے لیے ملاحظہ فرمائیںصفحہ اوّل۔) جماعت جرمنی کے جلسہ سالانہ پر الفضل انٹرنیشنل کے سوشل میڈیا ایڈیٹر مکرم جواد احمد قمر صاحب مع اپنی ٹیم کے شامل ہوئے تھے۔ جنہوں نے تین روز جلسہ گاہ کے علاوہ وہاں موجود تمام دفاتر اور نظامتوں کی کارکردگی کی ریکارڈنگ کی اور شرکاء جلسہ کے تاثرات پوری دنیامیں پھیلائے۔ اس ٹیم میں اُن کے ساتھ برطانیہ سے فراست احمد، ماہر احمد اور ہالینڈ سے طہٰ شکیل، شیخ شہزاد احمد اور مرتضیٰ احمد شامل تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا عطا فرمائے۔ جلسہ سالانہ جرمنی کے دوران نمائندگان الفضل اور سوشل میڈیا کے ارکان کے ساتھ جلسہ سالانہ انتظامیہ نے جو تعاون کیا اس کے لیے ادارہ اُن کا ممنون ہے۔ کام میں آسانیاں پیدا کرنے اور سہولیات باہم پہنچانے پر مکرم فرید احمد خالد صاحب افسر جلسہ گاہ، مکرم آفاق احمد صاحب مربی سلسلہ آخن اور عزیزم نور الدین صاحب ناظم رپورٹنگ نے کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی۔اللہ تعالیٰ اُن کو بہترین جزاءعطا فرمائے۔آمین (رپورٹ: عرفان احمد خان۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل) ٭…٭…٭