ہمارا یہ زمانہ ہربدعت، شرک اورضلالت کاطوفانی زمانہ ہے۔ مجھے تلوار دے کر نہیں بھیجا گیا لیکن بایں ہمہ مجھے ایک عظیم جنگ کا حکم دیاگیاہے۔ اورتمہیں کیامعلوم کہ وہ جنگ عظیم کیاہے؟اُس جنگ کاہتھیارلوہے کاقلم ہے۔نہ کہ شمشیروسنان۔ اگر اللہ کایہ اِرادہ ہوتا کہ تم کفّار سے برسرِپیکار ہو تو لازماً وہ تمہیں اُن سے کہیں بڑھ کر دیتا اورتم ہر اس شخص پر غالب آجاتےجوتمہارے سامنے آتا اور تمہارامقابلہ کرتا۔تم دیکھتے ہوکہ حکمت الٰہی سے تمام فنونِ حرب کافروں کودے دئیے گئے ہیں ۔ ’’کیا عیسٰی ؑ آسمان سے اتریں گے جبکہ قرآن نے انہیں روکاہوا ہے۔ جوتم گمان کرتے ہووہ عقل سے دور بہت ہی دور ہے۔ قرآن کی قید آہنی قید سے زیادہ سخت ہے۔ پس ہلاکت ہو اُن اندھوں پر جو اللہ کی کتاب پر غورنہیں کرتے اورنہ ہی عاجزی اختیار کرتے ہیں۔ کاش وہ جانتے کہ (عیسٰی ؑ)کی موت اِن (مسلمانوں )کے اوراِن کے دین کے لئے بہترہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیسٰی ؑ کے بعد ساتویں صدی میں تمہارے پاس تشریف لائے۔ اورمَیں تمہارے پاس اُس صدی میں آیاہوں جواس(سات)کادوگنا(یعنی چودھویں صدی)ہے۔ یقینااس میں غوروفکرکرنے والی قوم کے لئے بڑی بشارت ہے۔ پس جان لو کہ اللہ نے جب سب سے بڑاحَکَم (یعنی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کوعیسٰی ؑکے بعدساتویں صدی میں مبعوث فرمایاتواس میں تمہارے لئے کیا بعید از عقل بات ہے کہ وہ اس سے دوگنی مدت میں (چودہویں صدی میں )اس حَکَم کواس فساد کی اصلاح کے لئے بھیج دے جومخلوق میں پھیل گیا ہے۔ اس لئے اے عقلمندوغوروفکرکرو۔ تم جانتے ہو کہ اس زمانے کافسادمسلم اورغیرمسلم تمام اُمتوں میں پھیلا ہوا ہے جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ اوروہ (فساد)اُس فساد سے کہیں بڑھ کر ہے جواُن نصاریٰ میں ظاہر ہواجوکہ ہمارے نبیٔ مجتبیٰ(صلی اللہ علیہ وسلم)سے پہلے گمراہ ہوئے تھے۔ بلکہ تم آج ان کوپہلے سے کہیں بڑھ کر گمراہ اورخبیث پائوگے۔ یہ امر پوشیدہ نہیں کہ ہمارا یہ زمانہ ہربدعت، شرک اورضلالت کاطوفانی زمانہ ہے۔ مجھے تلوار دے کر نہیں بھیجا گیا لیکن بایں ہمہ مجھے ایک عظیم جنگ کا حکم دیاگیاہے۔ اورتمہیں کیامعلوم کہ وہ جنگ عظیم کیاہے؟اُس جنگ کاہتھیارلوہے کاقلم ہے۔ نہ کہ شمشیروسنان۔ ہم اسی ہتھیارسے لَیس ہو کر دشمن کاسامنا کرنے آئے ہیں۔ اس لئے تم اُس کا انکار مت کروجوصاحب جبروت اوربزرگ وبرتر اللہ کی طرف سے عین وقت پر تمہارے پاس آیا ہے۔ کیامَیں نے اللہ پرافترا باندھا ہے اور افترا کرنے والا ہمیشہ خائب و خاسر رہتاہے۔ کیا تم کفّار سے جہاد نہ کرنے اوراُنہیں تیغِ بُرّاں سے قتل نہ کرنے پرمجھے ملامت کرتے ہو۔ تمہیں کیا ہو گیاہے کہ تم وقت (کے تقاضے) کو نہیں سمجھتے اور بہکی بہکی باتیں کرنے والے کی طرح باتیں کرتے ہو۔ مزیدبرآں تم اللہ کے نزدیک اول درجہ کے کافر ہو، تم نے کتاب اللہ کو ترک کردیا اور دوسری راہیں اختیار کرلیں۔ پس اے لڑنے مرنے پر راضی ہونے والو! اگر تمہارے خیال کے مطابق جہاد واجب ہے توپھر خود تم قتل کئے جانے کے زیادہ مستحق ہو اس لئے کہ تم نے اللہ کے نبی کی نافرمانی کی اورتمہارے پاس اللہ کی کتابِ مبین سے کوئی دلیل موجود نہیں۔ اے پرستارانِ ہوس! تمہارے پاس دین کی کونسی چیز باقی رہ گئی ہے اورتم نے دنیا اور اس کے بڑے مردار سے کیا چیز چھوڑی ہے۔ حکّام کاقرب حاصل کرنے کے لئے تم ہر حیلہ اختیار کرتے ہواوراپنے اُس مالک خدا کو بھول گئے ہو جس نے زمین اوربلندوبالا آسمان پیدا کئے۔ تم حضرتِ احدیت کی خوشنودی کے قریب بھی کیسے پھٹک سکتے ہوجبکہ تم نے اس دنیوی زندگی کو دین پرمقدم کیاہواہے اورتمہارے اندراسلامی شعائر کی ظاہری شکل کے سواکچھ باقی نہیں رہا۔ اورتم نے اللہ کے اوامرونواہی کوبالکل بھلادیاہے اورخوداپنے ہاتھوں سے اسلام اوردینِ حنیف کی عمارت کو گرا دیاہے۔ کیونکہ تم نے مسکینی،گوشہ نشینی اورعاجزی کے طریقوں کوچھوڑدیااورتم نے لوگوں میں شرف حاصل کرنے کا قصدکیااورتم نے اس دنیاکازہر کھایا اور حرص و ہوا،رِیااورنخوت کی طرف مائل ہوئے اور بادشاہوں کا قرب اور ان سے درجات و مراتب حاصل کرنے میں تم مسرت پاتے ہو۔ اور تم نے یہودیوں کی عادات میں سے کوئی عادت باقی نہ چھوڑی۔ اورتم نے ان کا انجام دیکھ لیاہے۔ اے اہلِ دانش!کیاتم ایسی پاکدامنی کے ساتھ کفّار سے لڑو گے؟تم خوش مت ہویقینااللہ تعالیٰ دیکھتا ہے۔ اگر اللہ کایہ اِرادہ ہوتا کہ تم کفّار سے برسرِپیکار ہو تو لازماً وہ تمہیں اُن سے کہیں بڑھ کر دیتا اورتم ہر اس شخص پر غالب آجاتے جوتمہارے سامنے آتا اور تمہارامقابلہ کرتا۔ تم دیکھتے ہوکہ حکمت الٰہی سے تمام فنونِ حرب کافروں کودے دئیے گئے ہیں اور وہ اس وجہ سے بحروبرّ کے میدانِ کارزارمیں تم پر فوقیت رکھتے ہیں اوراُن کی نگاہوں میں تم محض ذرّہ کی طرح ہو۔ سو یہ تمہارے بس میں نہیں کہ تم اُس چیز کوجسے اللہ نے کھول دیا ہے بندکر سکو اور جسے اس نے بند کردیا ہے اُسے کھول سکو۔ پس تم اللہ کی رحمت میں اُس کے دروازوں سے داخل ہوجائو۔ اورتم اُس شخص کی طرح مت بنو جس نے اپنے ربّ کو ناراض کیااورغُصّہ دلایا۔ اورنہ اس شخص کی طرح بنوجس نے اللہ سے جنگ کی اوراُس کی نافرمانی کی۔ اورتم ایسے مسیح کاانتظارنہ کروجوآسمان سے نازل ہوگااورمخلوق کاخون بہائے گا اورتمہیں مختلف فتوحات سے حاصل کردہ غنیمتیں عطاکرے گا۔ کیا تم ان لوگوں سے مشابہت اختیار کرتے ہو جو تم سے پہلے اسی قسم کے خیالات میں مبتلاہوئے۔ مومن کاخُلق تویہ ہے کہ وہ دوسروں سے عبرت حاصل کرے اورجودیکھے اس سے فائدہ اٹھائے۔ اور اُس بیابان میں نہ گھسے جس میں کوئی دوسرا ہلاک ہو چکاہو۔ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ اللہ نے اس زمانے میں جس کاانتظارکیا جارہاتھاتمہی میں سے تمہارا مسیح بھیجا اورتم گڑھے کے کنارے کھڑے تھے تواللہ نے تمہیں اس گڑھے سے نجات دیناچاہی اوراپنے احسان عظیم سے تمہیں تھام لیا۔ کیاتم اس بات پرغورنہیں کرتے کہ کس طرح نشانیاں نازل ہوئیں اورعلامات جمع کر دی گئیں۔ کیا تمہاری آنکھیں اللہ کے نشانات کوحقیر سمجھتی ہیں یاتم حق کے آجانے پراُس سے بے رُخی برت رہے ہو۔ کیاتم اس بات پرتعجب کرتے ہو کہ تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک تنبیہ کرنے والا آگیااورتم نے اُس کا انکار کردیااوراپنے بزرگ وبرترخدا کا شکرادانہ کیااورتم اللہ کے دلائل پر ایمان نہ لائے۔ اوراسی طرح اللہ نے اُن لوگوں کے دلوں میں یہی روش جاری کردی جنہوں نے بدبختی کواختیارکیا۔ تمہاری رائے آنے والے امام کے متعلق بھٹک گئی اورتم نے خیال کیاکہ وہ یہود میں سے ہوگا اوریہ یقین نہ کیا کہ وہ تمہیں میں سے ہوگا۔ اسی نابینائی نے تمہیں ہلاک کیا اوراِسی طرح تم سے پہلے گروہ ہلاک ہوئے۔ ان کی خبریں تمہارے پاس آئیں لیکن تم نے انہیں بھلادیااورتم انہیں کی راہ پر چل نکلے تاکہ تمہارے بارے میں ہمارے ربّ کی بات اُن لوگوں کی مانند جوگزر گئے پوری ہو۔ جب بھی ہدایت اُن کے پاس ایک نئے انداز سے آئی تولوگوں کے لئے اس پر ایمان لانے میں کوئی امر مانع نہ ہواسوائے اس کے کہ اُنہوں نے یہ کہا کہ جو باتیں ہمارے پہلوں (آباء واجداد)کی طرف سے ہم تک پہنچی ہیں وہ ساری کی ساری باتیں ہم اِس شخص میں نہیں پاتے۔ اِس لئے ہم صرف اُسی شخص پرایمان لائیں گے جواُن خبروں کے مطابق آئے گا جو ہمیں دی گئیں اورہم نئی باتیں کرنے والوں کی پیروی نہیں کریں گے۔ اگلوں پچھلوں کی یہی عادت رہی ہے۔ کیاان لوگوں نے ایک دوسرے کو ایسا طرزِعمل اختیار کرنے کی وصیّت کررکھی ہے؟ نہیں بلکہ وہ ایسے لوگ ہیں جورسولوں پرایمان نہیں لاتے۔ (تذکرۃالشہادتین، عربی حصّہ کا اردو ترجمہ۔ صفحہ 17 تا 22)