موسم چند روز سے شدید گرم رہنے کے بعد آج بہت بارش ہوئی۔ بچے جو گرمی سے انتہائی گھبرا گئے تھے آج بارش میں خوب نہانے کے بعد اب گرما گرم پکوڑوں اور چائے کا لطف لے رہے تھے۔باہر ابھی بھی بارش جاری تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد بادلوں کی گھن گرج بھی سنائی دے رہی تھی۔دادی جان بھی موسم انجوائے کررہی تھیں۔ محمود :دادی جان خاقان کے جانے سے بہت اداسی ہورہی ہے۔ میں تو ان چھٹیوں میں اس سے خوب کھیلا تھا۔ دادی جان: اس کی بھی تو چھٹیاں ختم ہو گئی تھیں۔ آپ سنائیں سکول کیسا گزر رہا ہے؟ محمود: بہت اچھا دادی جان۔ آج آپ ہمیں کونسی کہانی سنائیں گی ؟ احمد : دادی جان نے آج ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے پاکیزہ بچپن کے بارے میں بتانا ہے۔ دادی جان : بہت خوب، میں نے بھی اس کے لیے تیاری کی ہوئی ہے۔ گڑیا میری ڈائری پکڑائیں۔ دادی جان ڈائری کھولتے ہوئے بولیں: حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒ کا نام مرزا ناصر احمد ہے۔ آپ 16؍نومبر1909ءکو قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تربیت حضرت اماں جانؓ کے مبارک ہاتھوں میں ہوئی تھی۔حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ آپؒ کے بارے میں فرماتی ہیں کہ حضرت اماں جان ؓآپؒ کو بچپن میں اکثر یحییٰ کہا کرتیں تھیں۔ احمد :دادی جان وہ ایسا کیوں کہتی تھیں ؟ دادی جان : اس لیے کہ حضرت اماں جان ؓکہتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبارک احمد کے بدلے میں عطا فرمایا ہے۔آپ کو میں نے بتایا تھا ناں کہ حضرت مرزا مبارک احمد کی وفات بہت بچپن میں ہی ہوگئی تھی۔ حضرت اماں جانؓ نے آپ کو اپنا بیٹا بنا لیا اور چھوٹی عمر سے ہی حضرت اماں جانؓ کی مبارک گود آپ کو میسر آگئی۔ اس بارے میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حضرت اماں جان جن کے پاس میں رہا… اکثر اوقات ضرورت کے وقت ہمیں زمین پر سلا دیتی تھیں۔ صبح اٹھتے ہی سلام کرنے کی عادت امّاں جانؓ نے ڈالی تھی۔ نماز کا وقت ہوتا تو وضو کرواکر نماز کے لیے بھیج دیتیں۔ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ ضرور دھلواتیں۔ بسم اللہ اونچی آواز میں پڑھتیں، ساتھ مَیں بھی پڑھتا۔ سکول جانے لگا تو فرمایا کہ سکول سے سیدھے گھر آنا ہے۔ سکول سے آتے ہی سلام کرنا اور ہاتھ دھلوانا آپ کا پہلا کام ہو تا تھا۔ عصر کے بعد کھیلنے کے لیے بھیجتیں لیکن حکم تھا کہ مغرب کی اذان کے ساتھ گھر آجاؤ اور پھر مغرب کے بعد کہیں بھی جانے کی اجازت نہ ہوتی۔ بڑے ہوکر کوئی ضروری جماعتی کام ہوتا تو نکل سکتا تھا لیکن کسی اپنے کے گھر جانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ گڑیا : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اتنی شفقت کے ساتھ ساتھ بعض اوقات تربیت کی خاطر حضرت اماں جانؓ سختی بھی کیا کرتی تھیں۔ اسی لیے ہمیں بھی امی جان سے ہماری غلطی پر ڈانٹ پڑتی ہے۔ دادی جان : جی بیٹا بالکل،ماں کی سختی میں بے پناہ پیار بھی چھپا ہوتا ہےاوراس سختی کا مقصد بچوں کی بہترین تربیت کرنا ہوتا ہے۔بہرحال ناظره قرآن کریم ختم ہونے پر آپ کی آمین منعقد ہوئی۔ ناظرے کے بعد 17؍اپریل 1922ء کو 13 سال کی عمر میں آپ نے قرآن کریم حفظ کیا۔ محمود :اور بھی کچھ بتائیں ؟ دادی جان: جب آپ قرآن کریم حفظ کر رہے تھے اور ساتھ دوسری تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے تو حضرت اماں جانؓ فکر مند ہوئیں کہ آپ کہیں خاندان کے دوسرے بچوں سے تعلیم میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بتاتی ہیں کہ ایک دن حضرت اماں جانؓ کے پاس محمد احمد، منصور اور ناصر احمد تینوں بیٹھےتھے۔ میں بھی تھی بچوں نے بات کی شاید حساب یا انگریزی ناصر احمد کو نہیں آتا ہمیں زیادہ آتا ہے۔ اتنے میں بھائی جان ( حضرت مصلح موعودؓ ) تشریف لائے توحضرت اماں جانؓ نےفکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ سے فرمایا کہ آپ قرآن شریف ضرور حفظ کروائیں مگر ساتھ دوسری پڑھائی کا بھی انتظام کریں یہ نہ ہو کہ کہیں ناصر دوسرے بچوں سے پیچھے رہ جائے۔اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے انہیں تسلی دلائی کہ آپ اس کے بارے میں بالکل فکر نہ کریں، ایک دن یہ سب سے آگے ہوگا۔ ان شاء اللہ احمد: اور بھی کوئی واقعہ سنائیں ! دادی جان :آپ کے بچپن کا ایک واقعہ جو خود آپ کو بہت پیارا لگتا تھا آپؒ فرماتے تھے کہ میں بہت چھوٹا تھا، مسجد اقصیٰ میں عشاء کی نماز کے لیے جایا کرتا تھا۔ ایک دن نماز کے لیے میں نیچے اترا تو عین اس وقت مدرسہ احمدیہ کے طلبہ کی لائن نماز کے لیے جارہی تھی اور اندھیرا تھا۔ خیر لائن میں شامل ہو گیا۔ میرا پاؤں ایک طالب علم کے سلیپر پر لگا۔ وہ سمجھا کہ کوئی لڑکا اس سے شرارت کر رہا ہے۔ وہ پیچھے مڑا اور مجھے ایک چپیڑ لگا دی۔ مجھے خیال آیا کہ میں اس کے سامنے ہو گیا تو بہرحال اس کو شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ اس خیال سے میں ایک طرف ہو گیا۔ جب 15-20 بچے گزر گئے تب میں دوبارہ لائن میں داخل ہوا تا کہ اس کو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ گڑیا : ہائے اللہ ! اس بچے کو پتا ہی نہیں چلا ؟ دادی جان : پتا کیسے لگتا آپ نے اس پر ظاہر ہی نہیں ہونے دیا۔ محمود :اور کیا کرتے تھے بچپن میں ۔کیا آپؒ کو گیمز کا شوق تھا ؟ دادی جان : جی ہاں پڑھائی کے ساتھ ساتھ آپؒ کھیلوں میں بھی باقاعدہ حصہ لیتے تھے آپؒ نے ہا کی، فٹبال، میروڈ بہ، گلی ڈنڈا اور کلائی پکڑنا جیسی کھیلیں کھیلی ہیں۔اس کے علاوہ آپ کو سیر اور شکار کا بھی شوق تھا۔پھر تیرا کی بھی کرتے تھے۔ آپ کو گھڑ سواری کا بھی شوق تھا ایک بار گھوڑے سے گرے اور کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔مگر انتہائی صبر اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔ گڑیا : دادی جان کیا خلیفۃ المسیح الثالثؒ بھی جلسے میں ڈیوٹی دیا کرتے تھے ؟ دادی جان : جی بیٹا بالکل بلکہ آپ تو بہت لمبی ڈیوٹی دیا کرتے تھے اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ ہم نے بچپن میں یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہماری چند گھنٹے کی ڈیوٹیاں لگیں گی۔ یعنی یہ کہا جائے گا کہ تم پانچ گھنٹے کام کرو اور باقی وقت تم آزاد ہو۔ ہم صبح سویرے جاتے تھے اور رات کو دس بجے، گیارہ بجے گھر میں واپس آتے تھے۔فرمایا کہ مجھے یاد ہے کہ بعض دفعہ ماموں جان ( حضرت میر اسحاق صاحبؓ ) کہتے تھے کہ اب تم تھک گئے ہو گے کھانے کا وقت ہو گیا ہے اب تم جاؤ۔ لیکن ہمارا گھر جانے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ بس یہ ہوتا تھا کہ دفتر میں بیٹھے رہیں اور اپنی عمر کے لحاظ سے جو کام ملتا ہے وہ کر تے رہیں۔ احمد: جی دادی جان جلسے اور چائے والا واقعہ بھی آپ نے سنایا تھا۔ محمود: جی مجھے بھی یاد ہے وہ۔ شکریہ دادی جان آپ نے ہمیں اتنی اچھی باتیں سنائی ہیں۔ دادی جان : چلیں اب نماز کی تیاری کریں۔ بچے جی دادی جان! کہہ کر وضو کرنے چلے جاتے ہیں۔ (درثمین احمد۔ جرمنی)