https://youtu.be/SPu1Xjo-sjo ٭…حدیث الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ کا کیامطلب ہے ؟ ٭… کیا تجارتی اموال پر زکوٰۃ ہے، اگر ہے تو زکوٰۃ کا حساب کیسے ہو گا؟ نیز اگر کوئی شخص زمینیں اور جائیدادیں خریدنے اور بیچنے کا کاروبار کرتا ہے تو کیا اس پر زکوٰۃ ہے؟ ٭… حرمت والے مہینوں اور حج کے مہینوں میں کیا فرق ہے؟ ٭… ایک سوال کرنے والے نے پیسہ انویسٹ کرنے کے بارے میں مختلف سکیموں کا ذکر کر کے ان میں اپنا پیسہ انویسٹ کرنے کے بارے میں دریافت کیا ہے ٭… حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ایڈز کی بیماری بد تر ہو جائے گی، جبکہ اس وائرس کا عروج ۱۹۹۴ء میں تھا اور بہت ساری دوائیوں کی ایجاد سے اس بیماری کے ذریعہ اموات میں کمی آئی ہے؟ ٭… ایک سوال کرنے والے نے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ انہیں بہت کم وقت دیا گیا تھا سوال: جرمنی سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ آنحضورﷺ کی حدیث الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ کا کیامطلب ہے ؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۲؍نومبر ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: یہ حدیث امام بخاریؒ نے حضرت عائشہ ؓسے اور امام مسلمؒ نے حضرت ابوہریرہ ؓسے اپنی اپنی صحیح میں درج کی ہے اور اس حدیث کے عام معنی تو یہ ہیں کہ روحیں بھی فوجیں ہیں جو الگ الگ دستہ بند ہیں۔ اس لیے ان میں سے جنہوں نے ایک دوسری کو پہچان لیا، ایک دوسری سے مانوس ہو گئیں۔ جنہوں نے نہ پہچانا، انہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ علماء نے اس حدیث کی مختلف تشریحات کی ہیں۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:نیک فطرت انسان نیکوں کی صحبت اور بد فطرت بدوں کی صحبت میں سکون پاتا ہے۔ طبائع کی اس مماثلت کا مشاہدہ روزمرہ کی بات ہے۔ علاوہ ازیں دیکھا گیا ہے کہ بُرا انسان نیکوں کی صحبت میں نیک ہو جاتا ہے۔ یہ امر مذکورہ بالا کلیہ کے خلاف نہیں۔ کیونکہ انسان کی فطرت میں نیکی ودیعت کی گئی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جو بھی بچہ اس دنیا میں آتا ہے وہ فطرت صحیحہ لے کر آتا ہے۔ بعد ازاں اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الجنائز بَاب إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ) پس نیکی کا یہ پیدائشی میلان صحبت صالحہ سے اُبھرتا اور صحبت طالحہ سے مکدر ہوتا ہے۔ جو شخص ہمیں بظاہر بد نظر آتا ہے اور پھر نیک صحبت سے اصلاح پذیر ہو جاتا ہے، اس کی روح یقیناً ان ارواح میں سے ہے جو فطرتاً استعداد صالح رکھتی ہیں۔ انبیاء علیہم السلام جن کا ذکر اگلے ابواب میں آئے گا، وہ بلحاظ پیدائش ایک ہی زمرۂ ابرار سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ ان کا عقیدہ ایک اور کردار بھی ایک۔ (شرح صحیح بخاری جلد ۶ صفحہ ۱۷۵،۱۷۴) تاہم میرے نزدیک اس حدیث کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ دنیا میں دین اور ایمان کے اعتبار سے لوگوں کے طبائع آپس میں ملتے ہیں۔ یہود کا میلان یہود کی طرف ہوتا ہے، عیسائی عیسائیوں کی طرف مائل ہوتے ہیں اور مسلمانوں کو مسلمانوں سے مانوسیت ہوتی ہے۔ اسی طرح نیک لوگوں کا میلان نیکوں کی طرف ہوتا ہے اور بدوں کا رجحان بد لوگوں کی طرف ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے اپنے متبعین کو یہ حکم دیا کہ كُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِيْنَ۔(التوبہ:۱۱۹) یعنی صادقوں (کی جماعت) کے ساتھ شامل ہو جاؤ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارہ میں فرماتے ہیں: ‘‘انسان کو اگر دیکھنے کی آرزو ہو تو ان کو دیکھیں جو منقطعین ہیں اور خدا کی طرف آ گئے ہیں اور خدا ان کو زندہ کرتا ہے۔ ان کی زیارت سے مصائب دور ہوتے ہیں جو شخص رحمت والے کے پاس آوے گا تو وہ رحمت کے قریب تر ہوگا۔ اور جو ایک لعنتی کے پاس جاوے گا وہ لعنت کے قریب تر ہو گا دنیا میں یہی بات غور کے قابل ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے: كُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِيْنَ یعنی اے بندو تمہارا بچاؤ اسی میں ہے کہ صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ۔(البدر نمبر ۱۱ جلد ۱ مورخہ ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۸۶) پھر اخروی زندگی کے اعتبار سے اگر اس حدیث کے معنی کیے جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جو میاں بیوی کا جوڑا بنایا ہے اگر وہ چاہتے ہیں کہ آخرت میں بھی اکٹھے رہیں تو دونوں کو ہی جنت کے حصول کے لیے کوشش کرنی ہو گی، دونوں نیک ہوں گے تو آخرت میں اکٹھے جنت کے وارث ہوں گے۔ اس لیے دونوں میاں بیوی کو اس دنیا میں بھی اپنے ساتھی کو نیکی اور تقویٰ کے راستہ پر چلانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ سوال: اردن سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیاکہ کیا تجارتی اموال پر زکوٰۃ ہے، اگر ہے تو زکوٰۃ کا حساب کیسے ہو گا؟ نیز اگر کوئی شخص زمینیں اور جائیدادیں خریدنے اور بیچنے کا کاروبار کرتا ہے تو کیا اس پر زکوٰۃ ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۳؍نومبر۲۰۲۳ء میں ان سوالات کے بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: جمہورکے نزدیک اموال تجارت پر زکوٰۃ واجب ہے، فقہ احمدیہ کا بھی یہی موقف ہے اوراموال تجارت پر ادائیگی زکوٰۃکا ایک طریق فقہ احمدیہ میں یہ بیان ہوا ہےکہ جتنا جتنا روپیہ جتنے جتنے ماہ تک تجارت میں لگایا جائے اتنے اتنے روپے اتنے اتنے مہینوں میں ضرب دے کر تمام حاصل ضربوں کو جمع کر لیا جائے اور حاصل جمع کو بارہ پر تقسیم کر کے جو رقم نکلے اس کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں دے دیا جائے۔ (فقہ احمدیہ عبادات صفحہ ۳۶۱) میرے نزدیک اس کا ایک آسان طریق یہ بھی ہے کہ سال میں ایک وقت مقرر کر لیا جائے اور اس وقت اپنے اموال تجارت کا حساب کیا جائے اور اگر انسان کے اموال تجارت نصاب زکوٰۃ کے مطابق ہوں تو اڑھائی فیصد کے حساب سے اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اموال تجارت پر زکوٰۃ کی بابت فرماتے ہیں: ’’تجارتی مال پر جو مکان میں رکھا ہے،زکوٰۃ نہیں۔ حضرت عمرؓ چھ ماہ کے بعد حساب لیا کرتے تھے اور روپیہ پر زکوٰۃ لگائی جاتی تھی۔‘‘ (اخبار بدر نمبر ۷، جلد ۶، مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸) یعنی مالِ تجارت پر زکوٰۃ نہیں ہے بلکہ اس کی قیمت پر زکوٰۃ عائد ہو گی، جیسا کہ حضرت عمرؓ کیا کرتے تھے۔ اسی طرح ایک صاحب نے دریافت کیا کہ تجارت کا مال جو ہے جس میں بہت سا حصہ خریداروں کی طرف ہوتاہے اور اُگراہی میں پڑا ہوتاہے اس پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا: ’’جو مال معلق ہے اس پر زکوٰۃ نہیں جب تک کہ اپنے قبضہ میں نہ آجائے لیکن تاجر کو چاہئے کہ حیلے بہانے سے زکوٰۃ کو نہ ٹال دے۔ آخر اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اخراجات بھی تو اسی مال میں سے برداشت کرتاہے۔ تقویٰ کے ساتھ اپنے مال موجودہ اور معلق پر نگاہ ڈالے اور مناسب زکوٰۃ دے کر خدا تعالیٰ کو خوش کرتا رہے۔ بعض لوگ خدا کے ساتھ بھی حیلے بہانے کرتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ (اخبار بدر نمبر ۲۸، جلد ۶، مورخہ ۱۱؍جولائی۱۹۰۷ء صفحہ۵) پس تجارت پر بھی زکوٰۃ واجب ہے اور اس کا بہترین طریق یہی ہے کہ سال بعد اپنے اموال اور اپنے آمد و خرچ کا حساب کر کے اس میں سے زکوٰۃ کی ادا ئیگی کی جائے۔ زمینوں اور جائیدادوں کی خرید و فروخت کے کاروبار پر بھی ادائیگی زکوٰۃ کا یہی طریق ہو گا کہ سال میں ایک دفعہ آمد و خرچ کا حساب کر کے جو بچت ہوئی ہو اور اس پر سال گزر جائے(اس بچت کو خواہ پیسے کی صورت میں جمع رکھا گیا ہو یا کاروبار میں ہی لگا دیا ہو) اس میں سے اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ کی ادائیگی کی جائے گی۔ سوال: فرانس سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ حرمت والے مہینوں اور حج کے مہینوں میں کیا فرق ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ۴؍نومبر۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: حرمت والے مہینے اور حج کے مہینے دونوں کا قرآن کریم اور احادیث میں ذکر آیاہے۔ چنانچہ فرمایا:یقیناً اللہ کے نزدیک، جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، اللہ کی کتاب میں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہی ہے۔ اُن میں سے چار حرمت والے ہیں۔ (التوبہ:۳۶) نیز فرمایا کہ حج (کے مہینے) (سب کے) جانے بوجھے ہوئے مہینے ہیں۔(البقرہ:۱۹۸) احادیث میں ان مہینوں کی تفصیل بھی بیان ہوئی ہے کہ حرمت والے مہینے کون سے ہیں اور حج کے مہینے کون سے ہیں۔ چنانچہ حرمت والے مہینوں کے بارے میں حضرت ابی بکرہؓ کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ ان میں سےچار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین لگاتار ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم (اور چوتھا) رجب مضر جو جمادی اور شعبان کے درمیان میں ہے۔ (بخاری کتاب المغازی بَابُ حَجَّةُ الْوَدَاعِ) اور حج کے مہینوں کے متعلق حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ان سے مراد شوال اورذی القعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔(بخاری کتاب الحج بَاب قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ) حرمت والے مہینوں اور حج کے مہینوں دونوں کا ایک مقصد تو یہی ہے کہ ان میں حج جیسی عالی مرتبہ عبادت کے لیے مکہ آنے اور واپس جانے والوں کے لیے راستوں کا امن مہیا کیا جائے تا کہ وہ پوری توجہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے گھر کی زیارت اور اس سے متعلقہ مناسک بجا لا سکیں۔ چنانچہ حرمت والے مہینوں اور حج کے مہینوں میں ذی القعدہ اور ذی الحجہ کے دومہینے مشترک ہیں۔نیز حرمت والے مہینوں میں ان دو مہینوں کے بعد والا مہینہ یعنی محرم شامل ہے جبکہ حج کے مہینوں میں ان دو مہینوں سے پہلے والا مہینہ یعنی شوال شامل ہے۔اس طرح حاجیوں کو چار مہینوں کا کھلا وقت مہیا کیا گیا ہے تاکہ وہ لوگ جنہوں نے دُور دراز کے علاقوں سے بھی سفر کر کے آنا ہوانہیں ان چار مہینوں میں حج کی تیاری وغیرہ کے لیے کھلا وقت مل جائے۔ لیکن اس کے ساتھ حج کے مہینوں کا خاص طور پر ذکر کر کے حج پر آنے والوں پر یہ بات بھی واضح کر دی گئی کہ حج سے متعلقہ مناسک از قسم احرام وغیرہ صرف حج کے مہینوں (شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ )میں ہی باندھا جا سکتا ہے لیکن واپسی کا سفر حرمت والے مہینہ یعنی محرم میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ فرماتے ہیں: (اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ سے) بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مقررہ مہینوں میں کسی وقت حج کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ اس کے لیے ذوالحج مہینہ کی دسویں تاریخ مقرر ہے۔ اس سے قبل یا بعد حج نہیں کیا جا سکتا۔ امام بخاری ؒ نے روایت نمبر ۱۵۶۰(جس میں حضور ﷺ کے حج کے لیے مدینہ سے روانہ ہونے، احرام باندھنے اور صحابہ کرام کو حج اور عمرہ کی بابت ہدایات دینے کا ذکر ہے)پیش کر کے آیت کا مفہوم واضح کیا ہے کہ ان مہینوں میں سے کسی ایک مہینہ میں حج کا احرام باندھا جاتا ہے۔ دور دراز کے ملکوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تین مہینے مقرر کیے گئے ہیں۔ حج کی نیت کرنے اور اس کے لیے احرام باندھنے کی وجہ سے ہی شوال اور ذیقعدہ کو بھی حج کے مہینے قرار دیا گیا ہے۔ (شرح صحیح بخاری جلد سوم صفحہ ۲۲۵،۲۲۴) حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’بعض لوگ اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ۔(التوبہ:۳۶) سے استدلال کر کے کُل کا نام حج قرار دے لیتے ہیں لیکن ائمہ اربعہ میں میں نے دیکھا ہے کہ وہ تمام سال احرام باندھنے کو پسند نہیں کرتے۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ ۳۳۵) پس حرمت والے مہینوں کا مقصد یہی تھا کہ ان میں جنگ و جدل اور قتل و غارت جو اہل عرب کا مشغلہ تھا کو موقوف کرکے امن قائم رکھا جائے تا کہ خدا تعالیٰ کے گھر کے لیے آنے والوں کو کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے اور پھر حج کے مہینوں کا خاص طور پر ذکر کر کے یہ توجہ دلائی کہ حج سے متعلقہ امور ان مہینوں میں ہی بجا لائے جائیں۔ باقی رہی بات رجب کے مہینہ کی کہ اسے کیوں حرمت والے مہینوں میں شامل کیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عربوں میں حج کے مہینوں میں عمرہ کو نہایت ناپسند کیا جاتا تھا بلکہ اسے أَفْجَرِ الْفُجُورِ یعنی تمام گناہوں سے بڑا گناہ گردانا جاتا تھا۔ (بخاری کتاب الحج بَاب التَّمَتُّعِ وَالْإِقْرَانِ وَالْإِفْرَادِ بِالْحَجِّ)جس کی حضورﷺ نے اصلاح فرمائی اور اپنے اسوہ کے ساتھ صحابہؓ کو بتایا کہ حج کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی نہ صرف منع نہیں بلکہ بالکل جائز ہے۔ لیکن جیساکہ میں نے کہا عربوں میں حج کے مہینوں میں عمرہ کی ادائیگی بہت بڑا گناہ متصور ہوتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے رجب کے مہینہ کو بھی حرمت والا مہینہ قرار دیا تا کہ جو لوگ عمرہ کی ادائیگی کے لیے الگ وقت میں خانہ کعبہ آنا چاہیں انہیں اس مہینہ میں راستوں کا امن میسر رہے۔ یہاں پر یہ بات بھی یادر کھنی ضروری ہے کہ اسلام نے بعض احکامات کو اسی طرح قائم رکھا ہے جیسا کہ وہ قبل از اسلام جاری تھے۔ چنانچہ حج کے مہینوں اور حرمت والے مہینوں کے بارے میں بھی اسلام نے اسی اصول پر عمل کیا ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارہ میں فرماتے ہیں:‘اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ حج کے بارہ میں قرآن کریم نے کوئی نیا حکم نہیں دیا بلکہ اسی حکم کو قائم رکھا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے چلا آ رہا ہے۔ اس وجہ سے حج کے مہینے بھی سب لوگوں کو معلوم ہیں یعنی شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ۔ ‘‘(تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ۲۵۱، مطبوعہ یوکے ۲۰۲۳ء) سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیسہ انویسٹ کرنے کے بارے میں مختلف سکیموں کا ذکر کر کے ان میں اپنا پیسہ انویسٹ کرنے کے بارے میں دریافت کیا ہے۔ نیز ایک خط میں ایڈز کی بیماری کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ایڈز کی بیماری بد تر ہو جائے گی، جبکہ اس وائرس کا عروج ۱۹۹۴ء میں تھا اور بہت ساری دوائیوں کی ایجاد سے اس بیماری کے ذریعہ اموات میں کمی آئی ہے۔ اس سلسلہ میں سائل نے مختلف گراف بھی اپنے خط کے ساتھ لگائے۔ علاوہ ازیں ایک خط میں سوال کرنے والے نے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ انہیں بہت کم وقت دیا گیا تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۶؍نومبر ۲۰۲۳ء میں ان سوالات کے بارہ میں درج ذیل راہنمائی عطا فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: پیسہ انویسٹ کرنے کے لیے جو مختلف سکیموں کا آپ نے ذکر کیا ہے، ان میں سے ایسی سکیمیں جن میں نفع اور نقصان کی شراکت کی شرط کے ساتھ پیسہ لگایا جاتا ہے، وہ جائز ہیں، لیکن اگر ان میں صرف نفع دینے کا عندیہ دیا جاتا ہےا ور نقصان میں شراکت کا معاہدہ میں کوئی ذکر نہیں ہوتا تو ایسا منافع سود کے تحت آتا ہے، جو اسلام میں جائز نہیں ہے۔چنانچہ سود کی تعریف بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’شرع میں سُود کی یہ تعریف ہے کہ ایک شخص اپنے فائدے کے لیے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلاوے گا۔ لیکن جس نے روپیہ لیا ہے اگر وہ وعدہ وعید تو کچھ نہیں کرتا اور اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے تو وہ سود سے باہر ہے۔ چنانچہ انبیاء ہمیشہ شرائط کی رعایت رکھتے آئے ہیں۔ اگر بادشاہ کچھ روپیہ لیتا ہے اور وہ اپنی طرف سے زیادہ دیتا ہے اور دینے والا اس نیت سے نہیں دیتا کہ سود ہے تو وہ بھی سود میں داخل نہیں ہے وہ بادشاہ کی طرف سے احسان ہے۔ پیغمبر خدا نے کسی سے ایسا قرضہ نہیں لیا کہ ادائیگیٔ وقت اُسے کچھ نہ کچھ ضرور زیادہ (نہ)دیدیا ہو۔یہ خیال رہنا چاہئے کہ اپنی خواہش نہ ہو۔خواہش کے بر خلاف جو زیادہ ملتا ہے وہ سُود میں داخل نہیں ہے۔ ‘‘(البدرنمبر ۱۰، جلد ۲، مورخہ ۲۷مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۷۵) لیکن اگر کوئی ادارہ جو خالصۃً حکومت کی ملکیت ہو(جیسا کہ پاکستان میں قومی بچت اور نیشنل بینک ہے)جو اپنے سرمایہ کو مختلف قسم کے فلاحی کاموں میں خرچ کرتا اور عوام الناس کی بھلائی اور بہتری کے لیے اس پیسہ کو استعمال کرتا ہےجس کے نتیجہ میں ملک کی معیشت میں ترقی ہوتی ہے،عوام کے لیے روز گار کے زیادہ مواقع پیدا ہوتے ہیں اور حکومت کے Revenue میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ جس وجہ سے اس مالیاتی ادارہ میں رقم جمع کروا کر فائدہ اٹھانے والے افراد کے علاوہ باقی عوام بھی حکومت کے ان فلاحی کاموں سے مستفید ہو رہے ہوتے ہیں۔اس صورت میں یہ حکومتی مالی ادارہ اپنے کھاتہ داروں کو بھی اپنے نفع میں شریک کرلیتا ہے، جسے وہ منافع کا نام دیتا ہے۔ اور کھاتہ داروں کو جب اپنی رقم کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے واپس بھی لے سکتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں یہ خالص حکومتی ادارے اپنے کھاتہ داروں کو منافع کے نام پر جو زائد رقم دیتے ہیں وہ سود کے زمرہ میں نہیں آتی، بلکہ وہ بادشاہ کی طرف سے ایک احسان سمجھا جائے گا۔ لہٰذا ایسا منافع انسان اپنے ذاتی استعمال میں لا سکتا ہے۔ جہاں تک موجودہ زمانہ میں مختلف قسم کے کاروباروں میں سودی عناصر کے پائے جانے کا تعلق ہے تو اس بات کو سمجھنے کے لیے اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حسب ذیل ارشاد بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: اب اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہو گئے ہیں۔کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے۔ اس لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ (البدرنمبر ۴۱ و ۴۲، جلد ۳، مورخہ یکم و ۸نومبر۱۹۰۴ء صفحہ۸) اس بارہ میں ابھی جماعت میں اس مسئلہ پر غور ہو رہا ہے۔ کوئی معین رائے بنے گی تو پھر احباب جماعت کو بھی ان شاء اللہ اس سے آگاہ کر دیا جائے گا۔ باقی آپ نے جو ایڈز کی بیماری کی بات کی ہے۔ ٹھیک ہے اس وقت علاج کے نتیجہ میں وہ اس طرح نقصان نہیں پہنچا رہی جس طرح ماضی میں اس نے نقصان پہنچایا تھا۔ لیکن جہاں تک بیماری کے پھیلنے کا تعلق ہے تو اس میں تو آپ ہی کے پیش کردہ گراف کے مطابق مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اور اگر دیکھا جائے تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی بات تو صداقت پر مبنی ہے کہ یہ مزید پھیلے گی، جو کہ ابھی تک مزید پھیل رہی ہے۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے رحم کے نتیجہ میں بعض اوقات وباؤں میں کمی بھی آ جاتی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں طاعون کی وبا جو ۱۸۹۸ء میں ہندوستان میں شروع ہوئی تھی اور پھر کچھ عرصہ بعد اس میں کسی حد تک کمی آ گئی تھی لیکن ۱۹۰۵ء میں اس نے پھر زور پکڑا اور اس کے نتیجہ میں بہت سی اموات ہوئیں۔ پس بعض وبائیں اندر ہی اندر پھیلتی رہتی ہیں اور ایک وقت میں پھر دوبارہ زور پکڑ لیتی ہیں۔ اس لیے انسان کو ہر وقت خدا تعالیٰ سے رحم مانگتے رہنا چاہیے اور ایسے کاموں سے گریز کرنا چاہیے جو اس کی ناراضگی کو بھڑکانے کا باعث ہوں۔ لیکن یہ انسان کی کمزوری ہے کہ جب وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے دل میں خوف خدا پیدا ہوتا ہے اور وہ کسی قدر خدا کی طرف رجوع بھی کرتا ہے لیکن جونہی اس مصیبت کے آثار کم ہونے شروع ہوتے ہیں تو وہ پھر اپنی پرانی ڈگر پر رواں دواں ہو جاتا ہے۔ حالانکہ انسان کو ہر وقت اپنے خالق حقیقی کے سامنے توبہ و استغفار کرتے ہوئے جھکے رہنا چاہیے۔ ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم میں ایک دن میں ستر (ستر کا لفظ عربی میں کثرت کے لیے آتا ہے) مرتبہ سے بھی زیادہ اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتا اور اللہ کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکتا ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات بَاب اسْتِغْفَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ) حالانکہ آپ نے تو فرمایا ہے کہ میرا شیطان بھی مسلمان ہو گیا ہے۔ (مسلم كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِبَاب تَحْرِيشِ الشَّيْطَانِ) پس اس حدیث کا مطلب بھی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رحم مانگنے سے بھی انسان کو لاپرواہ نہیں ہونا چاہیے۔ آپ نے ملاقات میں وقت کم ملنے کی جو بات کی ہے، تو یہ ہماری ایک مجبوری ہے۔ کیونکہ سب لوگوں کو کچھ نہ کچھ وقت دینا ہوتا ہے۔ اس لیے ایسی صورت میں آپ کو ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: بنیادی مسائل کے جوابات(قسط ۱۰۰)