(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۵؍جنوری ۲۰۰۸ء) چند ایک برائیوں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جس نے باوجود اس کے کہ دلوں میں نیکی موجود ہے لیکن پھر بھی بعض احمدیوں کے دلوں میں بھی یہ برائیاں پیدا کر دی ہیں۔ اور نیکی اور برائی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ اگر برائیاں بڑھتی رہیں یا قائم رہیں تو نیکیوں کو نکال دیتی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے دلوں میں نیکیوں کے قدم مضبوط ہوں اور برائیوں کو باہر نکالیں تاکہ تزکیہ قلب حقیقی رنگ میں ہو۔ ان برائیوں میں سے ایک حسد ہے۔ ایک جھوٹ ہے۔ پھر قرض لینے کی عادت ہے اور قرض نہ واپس کرنے کی عادت ہے۔ تو آجکل کے معاشرے میں ان باتوں نے بہت سے مسائل پیدا کئے ہوئے ہیں، اس لئے ان کا بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ حسد سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعا سکھائی ہے کہ یہ دعا کرو: وَمِنْ شَرِّ حَا سِدٍ اِذَا حَسَدَ (الفلق:6) کہ حاسد کے حسد سے اللہ تعالیٰ بچائے۔ جب ایک مومن خود بچنے کی دعا کرے گا تو پھر ایک پاک دل مومن یہ بھی کوشش کرے گا کہ دوسرے سے حسد کرنے سے بھی بچے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ حسد سے بچوکیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح بھسم کر دیتا ہے جس طرح آگ ایندھن اور گھاس کو بھسم کر دیتی ہے۔ (ابو داؤد کتاب الادب باب فی الحسد حدیث نمبر 4903 و سنن ابن ماجہ ابواب الزھدباب الحسدحدیث نمبر 4210) نیکیاں جو ہیں وہ حسد سے بالکل ختم ہو جاتی ہیں جل کے راکھ ہو جاتی ہیں۔ پھر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، بے رخی اور بے تعلقی اختیار نہ کرو باہمی تعلقات نہ توڑو، بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو، کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے اور اس سے قطع تعلق کرے۔ (مسند احمد جلد نمبر4 مسند انس بن مالک حدیث نمبر 13084 عالم الکتب بیروت لبنان1998) یہ چیزیں ہیں جو دلوں میں پاکیزگی پیدا کرتی ہیں۔ دلوں کی پاکیزگی اگر قائم رکھنی ہے۔ اگر اپنی عبادات سے فائدہ حاصل کرنا ہے۔ اس مزکیؐ کی تعلیم سے فائدہ اٹھانا ہے تو حسد سے بچنے کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہر شخص اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی کرنے کا عہد کرے تو حسد پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض بظاہر بڑے اچھے نظر آنے والے جو لوگ ہیں ان میں بھی دوسروں کے لئے حسد ہوتا ہے جس کی آگ میں وہ آپ بھی جل رہے ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی تکلیف پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جتنا وقت ایسے لوگ حسد کرنے اور چالاکیوں کے سوچنے میں لگاتے ہیں کہ دوسروں کو کس طرح نقصان پہنچایا جائے اتنا وقت اگر وہ تعمیری سوچ میں لگائیں، دعاؤں میں لگائیں تو شاید حسد سے بچنے اور مسابقت کی روح کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں ان لوگوں سے زیاد ہ آگے بڑھا دے اور جلدی آگے بڑھا دے۔ پھر دوسری بات جھوٹ ہے۔ اس بارے میں بھی میں اکثر کہتا رہتا ہوں۔ ہر قسم کی غلط بیانی سے بچنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق جھوٹ بھی شرک کے قریب کر دیتا ہے۔ پس اس سے بچنا بھی ایک مومن کے لئے، ایک ایسے شخص کے لئے جو اپنا تزکیہ کرنا چاہتا ہو انتہائی ضروری ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تمہیں سچ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے۔ انسان سچ بولتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدیق کہلاتا ہے۔ صدیق لکھا جاتا ہے۔ ہمیں جھوٹ سے بچنا چاہئے کیونکہ جھوٹ فسق و فجور کا باعث بن جاتا ہے اور فسق و فجور سیدھا آگ کی طرف لے جاتے ہیں۔ ایک شخص جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کا عاد ی ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذّاب یعنی جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الادب باب قول اللہ یا ایھا الذین امنوا اتقوا اللہ و کونوا… حدیث نمبر 6094) پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں ؟ ہم نے عرض کیا۔ جی حضور ضرور بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا اللہ کا شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا۔ آپؐ تکیے کا سہارا لئے ہوئے تھے جوش میں آ کر بیٹھ گئے اور بڑے زور سے فرمایا دیکھو تیسرا بڑا گناہ جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے۔ آپؐ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایاکہ ہم نے چاہا کہ کاش آپؐ خاموش ہو جائیں۔ (صحیح بخاری کتاب الشہادات باب ما قیل فی شھادۃ الزور حدیث نمبر 2654) پس آنحضرتﷺ کو گوارا نہیں تھا کہ ان کی امت میں سے ہو کر اس مزکّی کی طرف منسوب ہو کر پھرآگ میں پڑنے والا ہو اور اس تصور نے ہی آپؐ کو بے چین کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس لعنت سے ہمیشہ بچنے کی توفیق دے اور اپنے دلوں کا حقیقی تزکیہ کرنے والا بنائے۔ تیسری بات جو آجکل کا مسئلہ بن کر سامنے آ رہی ہے جیسا کہ میں نے کہا وہ قرضوں کی واپسی ہے۔ لوگ ضرورت ہو تو قرض لے لیتے ہیں مگر واپسی پر بہت لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ قرض لینے سے پہلے جس شخص سے قرض مانگا جا رہا ہو۔ اس سے زیادہ نیک اور پُر خلوص دل رکھنے والا اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ نیکیوں او ر خوبیوں کا وہ مالک ہوتا ہے۔ لیکن جب اس کی طرف سے واپسی کا مطالبہ ہوتا ہے تو اس سے زیادہ خبیث اور بددماغ اور ظالم شخص کوئی نہیں ہوتا۔ تو مومن کا تویہ شیوہ نہیں ہے۔ پاک دل کی خواہش رکھنے والوں کا تو یہ شیوہ نہیں ہے۔ اس عظیم رسولؐ اور مزکی کی طرف منسوب ہونے والوں کا تو یہ شیوہ نہیں ہے۔ پس ہمیں وہی راستے اختیار کرنے چاہئیں جو اس مزکّی نے اپنے اسوہ کے طور پر ہمارے سامنے پیش فرمائے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: اسلام کی خوبصورت تعلیم اور سیرت النبویﷺ کے کچھ پہلوئوں کا بیان