مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن(الفاتحۃ:۴) خدا مالک ہے جزا سزا کے دن کا۔ ایک رنگ میں اسی دنیا میں بھی جزا سزا ملتی ہے۔ ہم ر وزمرہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ چور چوری کرتا ہے۔ ایک روز نہ پکڑا جاوے گا، دو روز نہ پکڑا جاوے گا آخر ایک روزپکڑا جائے گا اور زندان میں جائے گا اور اپنے کئے کی سزا بھگتے گا۔ یہی حال زانی، شراب خور اور طرح طرح کے فسق و فجور میں بے قید زندگی بسر کرنے والوں کا ہے کہ ایک خاص وقت تک خدا کی شان ستاری ان کی پردہ پوشی کرتی ہے۔ آخر وہ طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور دکھوں میں مبتلا ہو کر ان کی زندگی تلخ ہو جاتی ہے اور یہ اس اُخروی دوزخ کی سزا کا نمونہ ہے۔ اسی طرح سے جو لوگ سرگرمی سے نیکی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اور فرماںبرداری ان کی زندگی کا اعلیٰ فرض ہوتا ہے تو خداتعالیٰ ان کی نیکی کو بھی ضائع نہیں کرتااور مقررہ وقت پر ان کی نیکی بھی پھل لاتی اور بار آور ہو کر دنیا میں ہی ان کے واسطے ایک نمونہ کے طور پر مثالی جنت حاصل کر دیتی ہے۔ غرض جتنے بھی بدیوں کا ارتکاب کرنے والے فاسق، فاجر، شراب خور اور زانی ہیں ان کو خدا کا اور روز جزا کا خیال آناتو درکنار، اسی دنیا میں ہی اپنی صحت، تندرستی، عافیت اور اعلیٰ قویٰ کھو بیٹھتے ہیں اور پھر بڑی حسرت اور مایوسی سے ان کو زندگی کے دن پورے کرنے پڑتے ہیں۔ سِل، دق، سکتہ اور رعشہ اور اَورخطرناک امراض ان کے شامل حال ہوکر مرنے سے پہلے ہی مر رہتے اور آخرکار بےوقت اور قبل از وقت موت کا لقمہ بن جاتے ہیں ۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ۶۴۱-۶۴۲۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء) یاد رہے کہ مالک ایک ایسا لفظ ہے جس کے مقابل پر تمام حقوق مسلوب ہو جاتے ہیں اور کامل طور پر اطلاق اس لفظ کا صرف خدا پرہی آتا ہے کیونکہ کامل مالک وہی ہے۔ (چشمہ ٔ معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ۲۳) چوتھا احسان خداتعالیٰ کا جو قسم چہارم کی خوبی ہے جس کو فیضان اخصّ سے موسوم کر سکتے ہیں، مالکیّت یوم الدّینہے جس کو سورۃ فاتحہ میں فقرہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن میں بیان فرمایا گیا ہے۔ اور اس میں اور صفت رحیمیّت میں یہ فرق ہے کہ رحیمیّت میں دعا اور عبادت کے ذریعہ سے کامیابی کا استحقاق قائم ہوتا ہے۔ اور صفت مالکیت یوم الدّین کے ذریعہ سے وہ ثمرہ عطا کیا جاتا ہے۔ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۲۵۰) مزید پڑھیں: رحیمیت ایسی صفت ہے جو انعامات خاصّہ تک پہنچا دیتی ہے