اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں ۔ ………………………… حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب ؓ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍اگست 2011ء میں حضرت مولوی رحیم اللہ صاحبؓ (یکے از 313 صحابہؓ) کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ آپؓ کے والد محترم حبیب اللہ صاحب کا تعلق راجپوت قوم سے تھا۔ آپؓ 1813ء میں پیدا ہوئے تھے۔ آپؓ مسجد کوچہ سیٹھاں لاہور کے امام الصلوٰۃ تھے۔ یہ مسجد حضرت میاں چراخ دین صاحب رئیس لاہور کے دادا میاں الٰہی بخش صاحب نے بنوائی تھی اور انہوں نے ہی حضرت مولوی رحیم اللہ صاحبؓ کو امام الصلوٰۃ مقرر کیا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جب بیعت لینے کا اعلان فرمایا تو حضورؑ کے ساتھ عقیدت رکھنے کی وجہ سے بیعت پر آمادہ ہوگئے ۔بیعت کرنے سے قبل پرانے وفات یافتہ بزرگوں کے مزاروں پر جاتے تھے۔ حضرت کے دعاوی کے متعلق استخارہ کیا تو ایک خواب دیکھا جس کے بعد شرح صدر سے پاپیادہ قادیان پہنچے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچایا اور 30؍اگست 1891ء کو بیعت کی سعادت حاصل کی۔ زبانی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بیعت لدھیانہ میں کی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ’’آسمانی فیصلہ‘‘ میں جلسہ سالانہ کے شرکاء اور ’’کتاب البریہ‘‘ میں پُرامن جماعت کے ضمن میں آپؓ کا ذکر کیا ہے۔ حضرت مولوی رحیم اللہ صاحبؓ بہت نیک اور متقی بزرگ تھے۔ حافظِ قرآن بھی تھے۔ آپؓ کی مسجد میں حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے بھی نمازیں ادا کی ہیں ۔ آپؓکے شاگرد حضرت میاں عبدالعزیز المعروف مغلؓ بیان کرتے ہیں کہ آپؓ پہلے کثرت سے مثنوی مولانا روم پڑھا کرتے تھے مگر پھر جب بھی آپؓ کو دیکھاآپ تلاوت قرآن میں مشغول ہوتے۔ حضرت مولوی صاحب کی چار بیویاں تھیں ۔ وہ اُن کی وفات سے پہلے ایک ہی ماہ میں فوت ہو گئیں ۔ ان بیویوں سے آپؓ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ 1894ء میں آپؓ کی وفات بعمر 80 سال ہوئی۔ …٭…٭…٭… مکرم منصور احمد ظفر صاحب کی یاد میں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30جون 2011ء میں مکرم طارق بلوچ صاحب نے اپنے تایا محترم منصور احمد ظفر صاحب ابن محترم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب (سابق پرو فیسر جامعہ احمدیہ) کا ذکرخیر کیا ہے جو 13 جنوری 2009ء کو بعمر 76 سال وفات پاگئے۔ آپ نے پسماندگان میں 6 بیٹے اور 2بیٹیا ں چھوڑیں ۔ آپ نہایت متّقی انسان تھے اور انتہائی ایماندار تھے۔ اس کا ذکر غیرازجماعت دوست بھی کثرت سے کرتے ہیں کہ آپ کو سرگودھا بورڈ کی طرف سے جس امتحانی مرکز کا بھی سپرنٹنڈنٹ مقرر کیا جاتا، آپ کسی لالچ اور ترغیب سے قطعی بے نیا ز ہوکر اپنی ڈیوٹی دیتے۔ ایک بار جب آپ کے بیٹے بھی امتحان دے رہے تھے تو آپ نے اس کا علم امتحانی مرکز کے دوسرے کارکنان کواُس وقت تک نہیں ہونے دیا جب تک امتحان ختم نہ ہوگیا۔ آپ کا باقاعدہ پیشہ تو درس و تدریس تھا تا ہم اس کے علاوہ بھی بہت محنت کی۔ ہمیشہ رزق حلال پر انحصار کیا اور اس کے لئے مقدور بھر کوشاں بھی رہے۔ انہوں نے ایک کام یہ بھی کیا کہ اپنے سُسر محترم مولانا عبدالر حمن مبشر صاحب آف ڈیر ہ غا زی خان کے جدید طرز کے ترجمہ قرآن کو متعدد تعلیمی اداروں میں متعارف کروایا اور یہ ان کی ایک بہت بڑی دینی اور جماعتی خدمت بھی تھی۔ آپ کو علم سے بہت رغبت تھی۔ دنیاوی تعلیم حاصل تو کی ہی تھی لیکن دینی علم بڑھانے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہتے۔ کئی موضوعات پر علمی مقالہ جات تحریر کئے۔ آپ حاضر جو اب بھی بہت تھے اور بڑے شگفتہ لہجے میں بات کرتے۔ مفادِ عامہ کے کئی کام آپ نے کروائے۔ احمدنگر میں رہائش تھی جہاں ایک سماجی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا کام خدمت خلق تھا۔ اس تنظیم نے بہت سے دیگر کاموں کے علاوہ گلیوں اور سڑ کو ں کی بہتر ی کے علاوہ بجلی کے خستہ اور خطرناک تاروں کی تبدیلی کا کام بھی کیا۔ …٭…٭…٭… احمدیہ مسلم مشن اردن روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19جولائی 2011ء میں ایک مختصر مضمون میں اردن میں احمدیہ مسلم مشن کی بنیاد کے حوالہ سے معلومات پیش کی گئی ہیں ۔ خلیج فارس سے مراکش تک پھیلی ہوئی عرب دنیا میں شرق اردن (Jordon) ایک نہایت مشہور مملکت ہے ۔ اردن کا علاقہ صدیوں تک دمشقؔ، حمصؔاور فلسطینؔ کی طرح شام کی اسلامی عملداری میں شامل رہا۔ مگر پہلی جنگ عظیم کے بعد اسے برطانیہ کے زیر حمایت ایک مستقل ریاست تسلیم کر لیا گیا۔ یہ ریاست دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر برطانوی انتداب سے آزاد اور خود مختار ہو گئی اور عبداللہ بن الشریف حسین الہاشمی اس کے پہلے آئینی بادشاہ قرار پائے۔ شاہ عبد اللہ والی ٔ اردن کی بادشاہت کے تیسرے سال محترم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی واقف زندگی 3؍مارچ 1948 ء کو حیفا سے شرق الاردن کے دارالحکومت عمان پہنچے اور ایک نئے احمدی مشن کی بنیاد ڈالی۔ یہ مشن 7جولائی 1949ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد آپ بغرض تبلیغ شام و لبنان میں تشریف لے گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے محترم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کو قادیان سے رخصت کرتے وقت ان کی نوٹ بک میں حسب ذیل ہدایات تحریر فرمائی تھیں : ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان باتوں سے پرہیز کرو جن سے تعلق نہ ہو۔ قرآن کریم فرماتا ہے لغو باتوں سے پرہیز کرو، … ہدایات بہت دی جاچکی ہیں ان کو یاد کریں اور ان پر عمل کریں ۔کسی نے کہا ہے ’ایازقدر خود بشناس‘۔ اس مقولہ کو یاد رکھو، ہم غریب لوگ ہیں ۔ ہم نے اپنے ذرائع سے کام لے کر دنیا فتح کرنی ہے۔ یہ سبق بھولا تو تبلیغ یونہی بیکار ہو جائے گی۔ باقی فتح دُعاؤں اور نماز اور روزہ سے آئے گی۔ تبلیغ سے زیادہ عبادت اور دُعا اور روزہ پر زور دو۔‘‘ پھر 3نومبر 1947ء کو محترم مولوی صاحب کے ایک خط کے جواب میں حضورؓ نے تحریر فرمایا: ’’اب وقت کام کاہے۔ تبلیغ پرزور دے کر ایک موت وارد کریں تا احمدیت دوبارہ زندہ ہو اور مالی اور روحانی قربانی کی جماعت کو نصیحت کریں ۔ اب ہر ملک کو ایسا منظم ہونا چاہئے کہ ضرورت پڑنے پر وہی تبلیغ اور سلسلہ کا بوجھ اٹھا سکے ۔ پہلے بہت سستی ہو چکی۔ اب ایک معجزانہ تغیر ہمارے مبلغین اور جماعت میں پیدا ہونا چاہئے‘‘۔ اُردن میں مشن کی ابتداء نہایت پریشان کُن ماحول اور حوصلہ شکن حالات میں ہوئی۔ قضیہ فلسطین کے باعث ہرطرف ابتری پھیلی ہوئی تھی اور دوسرے کثیرالتعداد مظلوم فلسطینی لوگوں کی طرح حیفا کے متعدد احمدی گھرانوں کو بھی ہجرت کر کے شام و لبنان میں پناہ گزین ہونا پڑا تھا۔ خود محترم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی جو حیفا ہی سے اُردن میں تشریف لائے تھے محض اجنبی اور غریب الدیار تھے۔ مولوی صاحب موصوف نے اپنی علمی اور اصلاحی سرگرمیوں کا آغاز ایک ہوٹل سے کیا جہاں آپ صرف چند ہفتے مقیم رہے مگر پھر جلدہی اخراجات میں تنگی کی وجہ سے اپنے ایک عرب دوست السید عبد الکریم المعایطہ ابن الحاج محمد ھلال المعایطہ کے ساتھ ایک کمرہ میں رہائش پذیر ہوگئے۔ چند ماہ بعد جب فلسطین کے ایک مخلص عرب احمدی پناہ گزین السید طٰہٰ القزق عمان میں آگئے تو مولوی صاحب ان کے پاس ایک مختصر کمرہ میں منتقل ہو گئے ۔ یہ کمرہ کرایہ پر لیا گیا تھا اور شارع المحطۃ (ریلوے روڈ)پر واقع تھا۔ …٭…٭…٭… محترم چوہدری محمد سلیم صاحب روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6ستمبر 2011ء میں مکرم چوہدری ھبۃالحئی صاحب کے قلم سے اُن کے دادا محترم چوہدری محمد سلیم صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ محترم چوہدری محمد سلیم صاحب عرف بابا ہریوالی سرکار 22جون 1909ء کو سیالکوٹ کے ایک قصبہ ٹھروہ ہریاں میں پیدا ہوئے۔ چونڈہ ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ اپنی ایک رؤیا کی بِنا پر یکم جنوری 1931ء کو حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کی۔ دو سال بعد 10 جنوری 1933ء کو نظام وصیت میں شامل ہوگئے۔ آپ کے والد محترم کا نام چوہدری بخش اور دادا کا نام دولوسنگھ تھا۔ مکرم چوہدری محمد سلیم صاحب بچپن سے ہی بڑے عبادت گزار تھے اور اکثر اپنا وقت ذکر الٰہی میں گزارتے تھے۔ صاحب کشف و رؤیا اور مستجاب الدعوات وجود تھے۔ صفائی پسند انسان تھے۔ اکثر سفید لباس اور سر پر پگڑی پہنا کرتے تھے۔ ہمدردیٔ خلق کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ نے دو شایاں کیں جن سے تین بیٹے اور دو بیٹیاں عطا ہوئے۔ بڑے بیٹے چوہدری ناصر احمد سدھو صاحب لاہور میں اپنی جماعت کے لمبے عرصہ سے صدر ہیں ۔ جبکہ ایک پوتا اور ایک نواسہ جامعہ احمدیہ ربوہ میں زیرتعلیم ہیں ۔ محترم چودھری محمد سلیم صاحب نے 10؍ اکتوبر 1998ء کو قریباً 85سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔ …٭…٭…٭… ’’اِس ڈھب سے‘‘ دین اسلام میں شعر کہنے یا شاعر کہلانے کی جو گنجائش موجود ہے وہ کلیۃً ایسی اصلاحی شاعری ہے جس کے ذریعے ہمارے دین کا بول بالا ہو، خالق حقیقی کی محبت اور اُس کا قرب حاصل ہو، اصلاحِ خلق کی سعی پیش نظر ہو اور اصلاح نفس بھی اس کا منطقی نتیجہ ہو۔ چنانچہ اکثر احمدیوں نے اِسی حسین انداز فکر کو اپناتے ہوئے شعر کہنے کی جسارت کی ہے اور اُن کے لاشعور میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر کسی جگہ ضرور موجود رہا ہے کہ: کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدّعا یہی ہے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ نومبرودسمبر 2011ء میں خاکسار فرخ سلطان محمود کے قلم سے جناب محمد شریف خالد صاحب کی شاعری کی کتاب ’’اس ڈھب سے‘‘ پر تبصرہ شائع ہوا ہے۔ اس مجموعۂ کلام میں شامل نظمیں ایک ایسے دل کی آواز ہیں جو اپنے قلبی جذبات کو احساس کے نہایت لطیف جھونکے سے پڑھنے والے کے دل کے نہاں خانوں میں موجود تاروں کو چھونے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ قریباً تمام تر نظمیں ، سادہ انداز میں کہے جانے کے باوجود، اُسی دینی محبت کی غمّاز اور ایسی اصلاح خلق کی خواہش کا اظہار ہیں جس کی ایک مخلص احمدی سے توقع کی جاتی ہے۔ اور اِس کے ساتھ ساتھ بلاشبہ فن شاعری کے مروّجہ اصول و ضوابط سے آراستہ ہیں ۔ کتاب کا خوبصورت سرورق بھی ایسی ہی ایک منفرد سوچ کا غمّاز ہے۔ قریباً دو صد صفحات پر مشتمل اِس مجموعہ کلام کو مجلّد اور خوبصورت گیٹ اَپ کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ تین چوتھائی کلام اردو زبان میں جبکہ باقی پنجابی زبان میں ہے۔ اس خوبصورت کلام کے بارہ میں اپنی رائے کا اظہار کرنے سے بہتر ہے کہ اس حساس شاعر اور اِس کی قلبی واردات کو جو داد سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ سے ملی ہے، اُس پر اکتفا کرلیا جائے۔ حضورؒ فرماتے ہیں : ’’آپ کا وجود ایک خاموش سطح کے نیچے ایک متلاطم سمندر کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے فکر اور آپ کے جذبات دونوں کو اللہ تعالیٰ نے وسعت اور گہرائی عطا فرمائی ہے۔ کچھ آپ کی تحریریں آپ کے دل کا راز کھول دیتی ہیں ۔ کچھ آپ کا کلام ماوراء سے پردہ اٹھاتا ہے ورنہ ملنے جلنے والوں کو کچھ پتہ نہیں چلتا ہوگا کہ اس خالد شریف کے اندر کیسا خالد شریف چھپا ہوا ہے‘‘۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جناب محمد شریف خالد صاحب کو تمغۂ خدمت پاکستان سے نوازا جاچکا ہے۔ ذیل میں اس مجموعۂ کلام سے نمونہ ملاحظہ فرمائیں : ترے حسنِ بے کراں سے تری ذات آشکارا مری زندگی کا حاصل تری دید کا نظارا کہیں بادلوں کے اوپر کہیں دُور آسماں میں تری عظمتوں کا مرکز مری حسرتوں کا چارا ترے عشق کے جنوں سے مَیں کبھی کا مٹ چکا ہوں مری خاک اُڑ رہی ہے اسے دیکھ لیں خدارا ………………… صد شکر کہ محفوظ تھے ہم کشتیٔ نوح میں صد شکر کہ اس نے ہمیں ساحل پہ اتارا اے طالبِ حق سوچ یہ کم فضل و کرم ہے جاری ہوا انعام خلافت کا دوبارا ………………… بعض بندے عجیب ہوتے ہیں دُور رہ کر قریب ہوتے ہیں اُن کی عادات بادشاہوں سی دوست اُن کے غریب ہوتے ہیں اُن کی صحبت میں اے خدا رکھیو جو جہاں کے طبیب ہوتے ہیں ………………… جن پرندوں کے پَر نہیں ہوتے وہ کبھی ہم سفر نہیں ہوتے نظر ہو جن کی کامیابی پر امتحاں دردِ سر نہیں ہوتے زندگی کے حسیں لمحے بھی دوستو بے خطر نہیں ہوتے