اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور منشاء سے اس عالم رنگ وبو کے سب سے حسین پیکر ،،خوبی ورعنائی میں یکتا، اخلاق و اطوار میں بے مثال ، وجہ تخلیقِ کائنات ہمارے آقا ومولا حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے مقصد کائنات اپنی معراج کو پہنچا۔آپ کی تشریف آوری سے انسانی زندگی میں رونق اور بہار آگئی اور پیدائشِ انسانی کی حقیقتیں واضح اور روشن ہوگئیں ۔ابرِ الہٰی سے مصفاآسمانی پانی کا نزول ہوا تو روحوں کی کثافتیں اورگناہوں کی آلودگیاں ایک دم میں کافور ہوگئیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اوراعلیٰ اخلاق سے دلوں کے زنگ دور ہونے پر عقلیں روشن اور منور ہوگئیں ۔طبیعتوں کی کج روی دور ہوئی تو اُس کی جگہ اخوت ومحبت اور ہمدری وبھائی چارے نے لے لی اور یوں دنیا میں ایک ایسا حسین معاشرہ وجود میں آگیا جواس سے پہلے نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا تھا۔ یہ اُس نور مجسم کے وجودِ باجود کی برکت تھی جسے اللہ تعالیٰ نے سب اشیاء سے پہلے اپنے نور سے تخلیق کیا اور تمام مخلوقات سے ممتاز کردیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ خوشخبری سنائی کہ: اے جابر! اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تمہارے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا کیا۔ (شرح المواھب اللدنیہ جلد 1صفحہ 27دارالمعرفہ بیروت 1993ء) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نورکا مظہر اور ہدایت کے رستوں کا خورشید ہیں جن سے معرفت اور علوم کے چشمے پھوٹتے اور پیاسی روحیں سیراب ہوتی ہیں ۔آپؐ ایسے عالی سردار ہیں جس کی تعریف سے زمین و آسمان قاصر ہیں ۔ آپؐ بے نظیرکمالات کے جامع اور جودوسخا کے بحر بے کنار ہیں ۔ آپ کا وجود چودھویں کے چاند کی طرح روشن اور آپؐ کی سیرت کا ہر ایک پہلومثلِ خورشید ہے ۔ آپؐ خدا کے ایسے برگزیدہ اور چنیدہ انسان ہیں جن کے فیوض وبرکات کا چشمہ ہمیشہ کے لئے جاری ہے ۔ آپؐ ایسی پناہ گاہ ہیں جس میں اپنے پرائے سب مامون ومحفوظ ہیں جو بھی اس میں داخل ہوا وہ ہر ایک خطرے سے محفوظ ہوگیا۔ آپ ؐبے پایاں احسانات کا مجموعہ اور ان گنت نوازشوں کا عظیم سمندر ہیں گویاآپؐ ہر ایک وصف میں یکتا اوربے مثل ہیں ۔آپؐ خدائے عزوجل کے جمال کا پرتو اور تمام صفات حسنہ کا مجموعہ ہیں ۔ تخلیق انسانی کے جوہر کامل دنیا میں تشریف لائے تو آپ ؐ نے عبادت الہٰی اور اپنے خالق ومالک کی شکر گزاری کے ایسے اعلیٰ نمونے قائم فرمائے کہ رہتی دنیا تک آپ کے ماننے والے ان نمونوں پر چلتے ہوئے اپنی نجات کے سامان پیدا کریں گے ۔ عرش الہٰی کے مالک نے آپ کو حکم دیا کہ : فَاِذَا فَرَغۡتَ فَانۡصَبۡ (الم نشرح:8) ’’پس جب تُو فارغ ہوجائے تو کمرِ ہمت کَس لے ۔‘‘ پھر عرش عظیم کا مالک ربِّ کریم اپنے عبدکامل کے بارہ میں گواہی دیتا ہے کہ: کَانُوۡا قَلِیۡلاً مِّنَ الَّیۡلِ مَا یَھۡجَعُوۡنَ (الذّاریات:18) ’’ تھوڑا تھا جو وہ رات کو سویا کرتے تھے ۔‘‘ اِنَّ رَبَّکَ یَعۡلَمُ اَنَّکَ تَقُوۡمُ اَدۡنٰی مِنۡ ثُلُثَیِ الَّیۡلِ وَنِصفَہٗ وَ ثُلُثَہٗ (المزمل:21) ’’ یقینا تیرا ربّ جانتا ہے کہ تُو دوتہائی رات کے قریب یا اس کا نصف یا اس کا تیسرا حصہ کھڑا رہتا ہے ۔‘‘ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے: ہر رگ وتارِ وجودش خانۂِ یارِ ازل ہر دم وہر ذرّہ اش پُر از جمالِ دوستدار حسنِ روئے اوبہ از صد آفتاب وماہتاب خاکِ کوئے اُوبہ از صد نافۂ مشکِ تتار ہست اُو از عقل وفکر وفہم مردُم دور تر کَیۡ مجالِ فکر تا آن بحرِ ناپیداکنار (آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 24) اس کے وجود کا ہررگ وریشہ خداوند ازلی کا گھر ہے اس کا ہر سانس اور ہر ذرہ دوست کے جمال سے منور ہے ۔ اس کے چہرہ کا حسن سینکڑوں چاند اور سورج سے بہتر ہے اس کے کوچہ کی خاک تاتاری مشک کے سینکڑوں نافوں سے زیادہ خوشبودار ہے ، وہ لوگوں کی عقل وسمجھ سے بالاتر ہے فکر کی کیا مجال کہ اُس ناپیداکنار سمندر کی حد تک پہنچ سکے ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام رگ وریشہ میں عشق الہٰی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجزن تھا یہی وجہ ہے کہ آپ گھنٹوں اپنے ربّ کی عبادت میں سرشار کھڑے رہتے، رکوع وسجود کرتے اور اپنی بندگی کا اظہار کرتے چلے جاتے پھر بھی آپ کا دل سیر نہیں ہوتاتھا اور غایت درجہ لذت و سرور کی وجہ سے آپ کی طبیعت میں اکتاہٹ پیدانہیں ہوتی تھی بلکہ آپ کی روح اس سے راحت محسوس کرتی اور جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا اس آبشارِ محبت کا بہاؤ مزید تیزی اختیار کرجاتا ۔ جب مقصد زندگی خدا تعالیٰ اور اُس کی رضا ہوجائے توپھر انسانی رشتے اورسب محبتیں اُس کے تابع ہوجاتی ہیں ۔ایسا انسان خدا تعالیٰ کی محبت میں کھوکر اپنے وجود تک کو مٹاڈالتا ہے اور اپنی تمام خواہشوں اورارادوں سے الگ ہوکر اُس میں محوہوجاتا ہے اور اُس کی روح دیوانہ وار اپنے محسن کے حضور جھکتی اور رکوع وسجود کرتے ہوئے وارفتگی کے عالم میں اُس کے آستانہ کا طواف کرتی اور سوجان سے اُس پر نثار ہونے کے لئے تیار رہتی ہے ۔ تب وہ محسن اُسے اپنی آغوش محبت میں لے کر اپنے قرب خاص سے نوازتااور پیار کا سلوک فرماتا ہے ۔ہمارے آقاومولا حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطہر دل میں اپنے پیدا کرنے والے خالق ومالک کے عشق ومحبت کی ایسی تلاطم خیز لہریں موجزن تھیں جو آپ کو ایک پل کے لئے بھی یاد خدا سے محو نہ ہونے دیتیں ۔اسی لئے فرماتے ہیں کہ : تَنَامُ عَیۡنَیَّ وَلَا یَنَامُ قَلۡبِی میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے ۔ (بخاری ،کتاب المناقب،بَابُ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللّہ علیہ وسلم تَنَامُ عَیۡنُہُ وَلَا یَنَامُ قَلۡبُہُ حدیث نمبر3569) یعنی اگرچہ بظاہر مَیں سوجاتا ہوں لیکن میرا دل یاد خدا میں محو رہتا ہے کیونکہ محبوب کی یاد ہی میری زندگی ہے اور اس مقصد کومیں کبھی اور کسی وقت فراموش نہیں کرسکتا۔ ہمارے آقا ومولا صلی اللہ علیہ وسلم کوابتدائی زندگی میں ہی یہ ادراک ہوگیا تھا کہ آپؐ اس دنیا میں ہوتے ہوئے بھی اپنے خالق کے لئے بنائے گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؐاپنے جسم کے ذرّے ذرّے کو اپنے آسمانی آقا کے حضور ڈال دیتے تاکہ حق بندگی ادا ہو۔ ربّ عرش کریم فرماتا ہے : اَلَّذِیۡ یَرٰکَ حِیۡنَ تَقُوۡمُ۔ وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیۡنَ (الشعراء:220-219) ’’جو تجھے دیکھ رہا ہوتا ہے جب تو کھڑا ہوتا ہے۔ اور سجدہ کرنے والوں میں تیری بے قراری کو بھی ۔ ‘‘ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت الہٰی کے ذکر میں فرماتے ہیں : لَہ‘ فِیۡ عِبَادَ ۃِ رَبِّہٖ غَلۡیُ مِرۡجَلٍ وَفَاقَ قُلُوۡبَ الۡعَالَمِیۡنَ تَعَبُّدَا (کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلد ہفتم صفحہ 90) اپنے ربّ کی عبادت میں اس میں ہنڈیا کا سا جوش ہے اور عبودیت میں وہ تمام جہانوں کے دلوں پر فوقیت لے گیا ہے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تقویٰ وطہارت ،دعاؤں اور عبودیت کے ایسے اعلیٰ معیار قائم کئے کہ ان پر چل کر تا قیامت خداتعالیٰ کے پیار کے راہوں کو تلاش کیاجاسکتا ہے۔ آپ ؐنے اپنے وجود کو خدا تعالیٰ کے وجود میں گم کرکے اپنی ہستی تک کو مٹاڈالااور ہر ایک نفسانی خواہش سے الگ ہوگئے تب وہ یارنہانی اپنی تمام تر صفات کے ساتھ آپ ؐپر ظاہر ہوا تو آپؐ خدا نما وجود بن گئے ۔ آپؐ ہی وہ کامل انسان ہیں جو خداتعالیٰ کے نور کا پرتوہیں ۔آپ ؐوہ مصفا آئینہ ہیں جس سے خداتعالیٰ کے چہرے کو باآسانی دیکھا جاسکتا ہے ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر دنیا میں کسی کامل انسان کا نمونہ موجود نہیں اور نہ آئندہ قیامت تک ہوسکتا ہے۔ پھر دیکھو کہ اقتداری معجزات کے ملنے پر بھی حضورؐ کے شامل حال ہمیشہ عبودیت ہی رہی اور بار بار اِنَّمَا ٓاَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُم (الکھف:111)ہی فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ کلمہ توحید میں اپنی عبودیت کا اقرار ایک جزو لازم قرار دیا۔ جس کے بدوں مسلمان ، مسلمان ہی نہیں ہوسکتا۔ سوچو اور پھر سوچو، پس جس حال میں ہادی اکمل کی طرز زندگی ہم کو یہ سبق دے رہی ہے کہ اعلیٰ ترین مقام قرب پر بھی پہنچ کر عبودیت کے اعتراف کو ہاتھ سے نہیں دیا تو اور کسی کا تو ایسا خیال کرنا اور ایسی باتوں کا دل میں لانا ہی فضول اور عبث ہے۔ ‘‘ (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ140) جن وانس کی پیدائش کی علت غائی عبادت الہٰی کا قیام ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ان کی معراج تک پہنچانا تھا چنانچہ عبادت الہٰی کے اعلیٰ اسلوب سکھلانے کے لئے آپؐ نے اپنے ماننے والوں کے سامنے یہ تعلیم پیش کی کہ ہر کام خدا تعالیٰ کے حکم، اُس کی رضا اور اُس کی محبت کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے کیونکہ جس کام میں خدا تعالیٰ کے رضا اور خوشنودی شامل ہو جائے وہ عبادت ہے اور جس کام میں خدا تعالیٰ کے ناراضگی کاایک ادنیٰ سا شائبہ نظر آئے وہ گناہ ہے اور گناہ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ قرب الہٰی سے دوری کاسبب بنتا ہے ۔ آپ ؐ نے زمین وآسمان کی پیدائش کا مقصد اور اُس کی علت غائی کھول کر بیان فرمائی تاکہ آپ کے ماننے والے اُن راہوں کو اختیار کریں جو قرب الہٰی کے دروازوں کو کھولنے والی اور دیدار یار سے مشرف کرنے والی ہیں ۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٭میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ کچھ سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے ۔ آسمان پر شور برپا ہے اور اس کا حق ہے کہ ایسا ہو کیونکہ آسمان پر چار انگلیوں کی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی فرشتہ پیشانی رکھے سجدہ نہ کررہا ہو۔ ‘‘ (جامع ترمذی کتاب الزھد باب قول النبی لو تعلمون حدیث نمبر 2234) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی میں ہی مکہ کے لوگوں نے یہ جان لیا تھا کہ یہ شخص کسی اور ہی دنیا کا باسی ہے جس کے تمام افعال صرف اور صرف اپنے ربّ کے لئے ہیں اسی لئے وہ یہ گواہی دینے پر مجبور ہوئے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّہ یعنی محمدؐ تو اپنے ربّ کا عاشق جانثار بن گیا ہے اُسے تو اپنے ربّ کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں ،اُس کی سوچوں کا محور اور اُس کی زندگی کی منزل صرف الٰہ العالمین ہے۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ٭ ’’ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اُس مرد صادق کا منہ دیکھا تھا جس کے عاشق اللہ ہونے کی گواہی کفارقریش کے منہ سے بھی بے ساختہ نکل گئی اور روز کی مناجاتوں اور پیار کے سجدوں کو دیکھ کر اور فنافی الاطاعت کی حالت اور کمال محبت اور دلدارگی کے منہ پر روشن نشانیاں اور اس پاک منہ پر نورالہٰی برستا مشاہدہ کرکے کہتے تھے عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّہٗ کہ محمدؐ اپنے ربّ پر عاشق ہوگیا ہے ۔اور پھر صحابہ نے صرف وہ صدق اور محبت اور اخلاص ہی نہیں دیکھا بلکہ اس پیار کے مقابل پرجو ہمارے سید محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل سے ایک دریا کی طرح جوش مارتا تھا ، خداتعالیٰ کے پیارکو بھی تائیدات خارق عادت کے رنگ میں مشاہدہ کیا۔ تب ان کو پتہ لگ گیا کہ خدا ہے ۔ اور ان کے دل بول اٹھے کہ وہ خدا اِس مرد کے ساتھ ہے ۔ ‘‘ (شہادۃ القرآن ، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 346) عبد شکور اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں اپنے مومن بندوں کی یہ علامت بیان فرمائی ہے کہ: یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّھِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا (الفرقان:65) ’’اپنے ربّ کے لئے راتیں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے گزارتے ہیں ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اللہ کے ذکرکی وجد آمیز کیفیات سے ہمیشہ معمور رہتا اور آپؐ ہر گھڑی اللہ تعالیٰ کی رضاکے طالب رہتے ۔چونکہ نماز کی تمام تر کیفیات عاجزی اور بندگی کا بہترین اظہار ہیں اِس لئے آپ گھنٹوں عبادت کرتے لیکن پھر بھی آپ کی روح اُس سے سیر نہ ہوتی ۔آپؐ فرماتے ہیں : قُرَّۃُ عَیۡنِی فِی الصَّلٰوۃِ (سنن نسائی،کتاب عشرۃ النساء،باب حب النساء) میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔اللہ تعالیٰ جو آپؐ کے دل کا راز دان اور آپ کے دل کی تمام کیفیات کو جاننے والا ہے اُس نے آپ کو رات کے آخری حصہ میں خاص طور پر عبادت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: وَمِنَ الَّیۡلِ فَتَھَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ (بنی اسرآئیل:80) ’’اور رات کے ایک حصہ میں بھی اس (قرآن) کے ساتھ تہجد پڑھا کر۔ یہ تیرے لئے نفل کے طور پر ہوگا۔‘‘ ٭ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنی لمبی نمازادا فرمایا کرتے تھے کہ آپؐ کے پاؤں متورّم ہوکر پھٹ جاتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے آپ سے عرض کی اے اللہ کے رسول! آپ کیوں اتنی تکلیف اٹھاتے ہیں جب کہ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام قصورمعاف فرمادیئے ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا: اَفَـلَا اُحِبُّ اَنۡ اَکُوۡنَ عَبۡدًا شَکُوۡرًا کیا میں یہ نہ چاہوں کہ میں اللہ کا شکر گذار بندہ نہ بنوں ۔(بخاری کتاب التفسیر باب قولہ لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک …حدیث4837) کیا میں اپنے ربّ کی عبادت کرلوں ؟ ٭ عطاء روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ،ابن عمر اور عبیداللہ بن عمرؓ کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی۔ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی عجیب ترین بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دیکھی ہو۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یادسے بے تاب ہوکرروپڑیں اورکہنے لگیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا ہی نرالی ہوتی تھی؟ ٭ ایک دفعہ کاذکرہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میرے پاس تشریف لائے میرے ساتھ میرے بستر میں لیٹے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: اے عائشہ کیاآج کی رات تومجھے اجازت دیتی ہے کہ میں اپنے ربّ کی عبادت کر لوں ۔ میں نے کہاخداکی قسم مجھے توآپ کی خواہش کااحترام اورآپ کاقرب پسندہے ،میری طرف سے آپ کواجازت ہے ۔ تب آپ ؐاُٹھے اور مشکیزے سے وضوکیا ،نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور نماز میں اس قدر روئے کہ آپؐ کے آنسو آپ کے کپڑوں پر گرنے لگے۔ ٭ نمازکے بعدآپ دائیں طرف ٹیک لگاکراس طرح بیٹھ گئے کہ آپ کادایاں ہاتھ آپؐ کے دائیں رخسارکے نیچے تھااورپھرروناشروع کردیایہاں تک کہ آپؐ کے آنسو زمین پرٹپکنے لگے ۔ یہاں تک کہ فجرکی اذان دینے کے بعد بلال ؓ آئے ،جب انہوں نے آپ کواس طرح گریہ وزاری کرتے ہوئے دیکھاتوکہنے لگے یا رسول اللہ! آپ ؐاتنا کیوں روتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ آپؐ کے گزشتہ اور آئندہ ہونے والے سارے گناہ بخش چکا ہے؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟‘‘(تفسیرروح البیان۔ زیر تفسیر سورۂ آل عمران آیت نمبر192-191) حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے وقت گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے ۔یہی آپ کی تہجد کی نماز ہوتی ۔ اس میں آپؐ سجدہ اتنا (لمبا) کرتے کہ جتنے میں تم میں سے کوئی پچاس آیتیں آپ کے سر اُٹھانے سے پہلے پڑھ لے۔ (صحیح البخاری، کتاب التہجد،بَابُ طُوۡلُ السُّجُوۡدِفِی قِیَامِ اللَّیۡلِ حدیث نمبر1123) حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں : ٭ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی نماز بیٹھ کر پڑھتے کبھی نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ جب آپؐ بوڑھے ہوگئے تو آپؐ بیٹھ کر نماز پڑھتے ۔جب رکوع کرنا چاہتے تو کھڑے ہوجاتے ۔ تیس چالیس کے قریب آیات پڑھتے ، پھر رکوع کرتے ۔ (صحیح البخاری، کتاب تقصیرالصلاۃ،بَابٌ اِذَا صَلَّی قَاعِدًاثُمَّ صَحَّ…حدیث 1118) حضرت عبداللہ بن مسعود ص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ٭ ایک رات میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ۔ آپؐ اتنا کھڑے رہے کہ میں نے ایک بری بات کا ارادہ کیا ۔ صحابہ نے پوچھا :آپؓ نے کیا ارادہ کیا؟ جواب دیا کہ میں نے ارادہ کیا کہ بیٹھ جاؤں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑدوں ۔ (صحیح البخاری، کتاب التہجد،بَابُ طُوۡلُ السُّجُوۡدِفِیصَلَاۃِ اللَّیۡلِ حدیث نمبر1135) کسی نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز اور اس کی رکعات سے متعلق بتائیے تو آپ ؓنے فرمایا: ٭ (کبھی ) سات رکعتیں اور (کبھی) نو رکعتیں اور (کبھی ) گیارہ رکعتیں سوائے فجر کی دو رکعات کے ۔ (صحیح البخاری ، کتاب الصلاۃ،باب کَیۡفَ کَانَ صَلَاۃُ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر1139) ٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر موجود نہ پایا۔ میں نے آپ کو ٹٹولنا شروع کیا تو میرا ہاتھ آپؐ کے پاؤں کے تلووں سے جا ٹکرایا۔ آپ اس وقت سجدہ میں تھے اور آپؐ کے پاؤں کھڑے تھے اور آپؐ یہ دعا کر رہے تھے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیۡ اَعُوۡذُ بِرَضَاکَ مِنۡ سَخَطِکَ۔ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنۡ عُقُوۡبَتِکَ۔ وَ اَعُوۡذُبِکَ مِنۡکَ۔ لَا اُحۡصِیۡ ثَنَائً عَلَیۡکَ۔اَنۡتَ کَمَا اَثۡنَیۡتَ عَلٰی نَفۡسِک۔ (ابن ماجہ، کتاب الدعاء، باب ماتعوذ منہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) اے اللہ ! میں تیری ناراضگی کی بجائے تیری رضا کا طالب ہوں اور تیری گرفت کی بجائے تیرے درگزر کا طالب ہوں ۔ اور میں تجھ سے تیری پناہ کا طالب ہوں ۔ میں تیری تعریف کا حق ادا نہیں کر سکتا تُو ویسا ہی ہے جیسا کہ تُو نے اپنی ثناء کی ہے۔ نماز کی محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : حُبِّبَ اِلَیَّ النِّسَائُ وَ الطِّیۡبُ وَجُعِلَتۡ قُرَّۃُ عَیۡنِیۡ فِی الصَّـلَاۃِ ۔ (سنن نسائی کتاب عشرۃ النساء باب حب النساء حدیث نمبر 3950) ٭ مجھے (تمہاری دنیا میں سے) عورتیں اور خوشبو محبوب ہیں مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔ اللہ کے حضور گریہ وزاری کرنے والے عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّہ علیہ وسلم یُصَلِّیْ وَ فِیْ صَدْرِہٖ اَزِیْزٌ کَاَزِیْزِ الرَّحَی (المِرْجَلِ) مِنَ الْبُکَائِ صلی اللّہ علیہ وسلم۔ (ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب البکاء فی الصلاۃ حدیث نمبر899) ٭ حضرت مطرف رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اس وقت شدتِ گریہ وزاری کے باعث آپ کے سینہ سے ایسے آواز آرہی تھی جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے۔ سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ : ٭ جیسے ہنڈیا کے ابلنے کی سی آواز آتی ہے۔ (سنن نسائی،کتاب السہو، باب البکاء فی الصلاۃ) لَہٗ فِیۡ عِبَادَۃِ رَبِّہٖ غَلۡیُ مِرۡجَلٍ وَفَاقَ قُلُوۡبَ الۡعَالَمِیۡنَ تَعَبُّدَا (کرامات الصادقین ،روحانی خزائن جلد ہفتم صفحہ 90) ٭ اپنے ربّ کی عبادت میں اس میں ہنڈیا کا ساجوش ہے اور عبودیت میں وہ تمام جہانوں کے دلوں پر فوقیت لے گیا ہے ۔ ہر حال میں اللہ کی مدد کے طالب ٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جنگ بدر والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی طرف دیکھا تو ا ن کی تعداد ایک ہزار تھی اور آپ کے صحابہ ؓ کی تعدادتین سو انیس تھی۔اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف اپنا مُنہ کر لیا اپنے ہاتھ پھیلا دئیے اور یہ دعا کرنے میں مصروف ہوگئے ۔ اے اللہ! اپنے وہ وعدے جو تُو نے میرے ساتھ کئے ہیں پورے کر دکھا، اے اللہ! اگر آج تُو اس مٹھی بھر مسلمانوں کے گروہ کو ہلاک کردے گا تو زمین میں تیری کبھی بھی عبادت نہ کی جائے گی ۔‘‘ آپ قبلہ رُو ہو کر اپنے ہاتھ پھیلا کر مسلسل یہ دعا کئے جارہے تھے کہ آپ کے کندھوں سے آپ کی چادر گر پڑی اس پر ابوبکر ؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو پکڑااورآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پرڈال دیااورآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے سے چمٹ گئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی !آپ نے اپنے رب سے بہت زیادہ دعاکرلی ہے۔ وہ یقینا وہ وعدے پورے کر دکھائے گا جو اس نے آپ سے کئے ہیں ۔ (مسلم،کتاب الجہاد) رمضان کی عبادت جی ہاں ! عشق ومحبت میں ڈوبی یہی وہ ادائیں تھیں جنہیں دیکھ کر چشم فلک جھوم اٹھتا تھا ،فضائیں مہک جاتی تھیں ۔ آپ ؐ رمضان میں عبادت کا خاص اہتمام فرماتے اور کمر ہمت کس لیتے۔ رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھتے ۔ محرّم کے دس دن کے روزے رکھتے تاکہ خداتعالیٰ کی خاطر بھوک اور پیاس برداشت کرکے اُس کی یاد سے اپنے دل کو آباد کرسکیں ۔ ٭ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھنے لگتے اور رکھتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوتاکہ اب آپ روزے رکھنے نہیں چھوڑیں گے اور پھر آپ روزے رکھنے چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ایسا لگتا کہ آپ روزے نہیں رکھیں گے۔ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کبھی کسی مہینہ میں پورا مہینہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں زیادہ روزے رکھنے والا نہیں پایا۔ (بخاری،کتاب الصوم باب صوم شعبان حدیث نمبر1969) ٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب رمضان کے آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو اپنی کمر کس لیتے ،اپنی راتوں کو زندہ رکھتے اور اپنے اہل کو بھی (تہجد کے لئے)بیدار کرتے ۔ (بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب العمل فی العشر الاواخر من رمضان حدیث نمبر2024) ٭ حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن روایت کرتے ہیں کہ میں نے امّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کی کیا کیفیت ہوتی تھی۔ اس پر انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور اس کے علاوہ اپنی تہجد میں گیارہ رکعت پر اضافہ نہ کرتے تھے۔ آپ چار رکعات پڑھتے ان کے حسن اور ان کی طوالت کے بارہ میں نہ ہی پوچھو، پھر آپ چار رکعات ادا فرماتے، تم ان کی حُسنِ ادائیگی اور طوالت کے بارہ میں نہ ہی پوچھو۔ پھر آپ تین رکعات ادا فرماتے۔ حضرت امّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا آپ وتر ادا کرنے سے پہلے ہی سو جاتے ہیں ؟ تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ اے عائشہ ! میری آنکھیں تو سوتی ہیں مگر میرا دل نہیں سوتا۔ ‘‘ (بخاری کتاب التہجد۔ باب قیام النبیؐ باللیل فی رمضان وغیرہ حدیث نمبر 1147) مجسم دعا ٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگوں سے یا سریہ سے یا حج یا عمرہ سے واپس لوٹتے وقت کسی ٹیلے یا چوٹی پر چڑھتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے۔ پھر یہ دعا کرتے ’’ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، بادشاہت اسی کی ہے اور حمد کا صرف وہی مستحق ہے اور وہ ہر ایک چیز پر قادر ہے ۔ ہم توبہ کرتے ہوئے ، عبادت کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوتے ہوئے اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے لوٹنے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کو پورا کر دکھایا اور اپنے بندہ کی مدد کی۔ اور گروہوں کو اس اکیلے نے شکست دے دی۔ (مسلم ،کتاب الحج، باب مایقول اذا رجع من سفر الحج … حدیث نمبر 3278) کثرت سے ذکر الہٰی کرنے والے جُبَیر بن نُفَیر روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔ ٭ مجھے یہ وحی نہیں کی گئی کہ میں مال جمع کروں اور تاجروں میں سے بن جاؤں ۔ البتہ مجھے یہ وحی کی گئی ہے کہ ’’سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَکُنۡ مِّنَ السَّاجِدِیۡنَ وَاعۡبُدۡ رَبَّکَ حَتّٰی یَأۡتِیَکَ الیَقِیۡنُ ‘‘ (الحجر:100-99) پس اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جا۔ اور اپنے ربّ کی عبادت کرتا چلا جا یہاں تک کہ تجھے یقین آجائے۔ (مشکٰوۃ المصابیح، کتاب الرقاق ، الفصل الثالث حدیث نمبر 5206) ٭ حُسین بن وَاقد روایت کرتے ہیں کہ یحیٰ بن عُقَیل نے مجھے بتایا کہ میں نے عبداللہ بن اَبی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے ذکرِ الٰہی کیا کرتے تھے اور لغو بات نہ کیا کرتے تھے۔ آپؐ نماز لمبی پڑھتے تھے اور خطبہ مختصر دیتے تھے۔ (سنن نسائی ، کتاب الجمعۃ۔ باب ما یستحب من تقصیر) کثرت سے استغفار کرنے والے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’وَاللّٰہِ اِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُاللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً۔‘‘ اللہ کی قسم ! مَیں اللہ سے ایک دن میں ستّر سے زائد مرتبہ توبہ و استغفار کرتا ہوں ۔ (بخاری،کتاب الدعوات ۔ باب استغفار النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الیوم و اللیلۃ حدیث نمبر6307) خلوت میں یادالہٰی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ٭ ’’ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے آشنا ہو تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ آپؐ نے کبھی ایسی باتوں کا التزام نہیں کیا ۔وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا تھے۔ انسان کوتعجب آتا ہے کہ کس مقام اور درجہ پر آپ پہنچے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکہتی ہیں کہ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے۔رات کو جب میری آنکھ کھلی تو میں نے آپ ؐکو اپنے بستر پر نہ پایا۔ مجھے خیال گزرا کہ کسی دوسری بیوی کے گھر میں ہوں گے ـــ چنانچہ میں نے سب گھروں میں دیکھا مگرآپ ؐکونہ پایا۔ پھر میں باہر نکلی تو قبرستان میں دیکھا کہ آپؐ سفید چادر کی طرح زمین پر پڑے ہوئے ہیں اور سجدہ میں گِرے ہوئے کہہ رہے ہیں سَجَدَتۡ لَکَ رُوۡحِیۡ وَجَنَانِی ۔ اب بتاؤ کہ یہ مقام اور مرتبہ33 مرتبہ کی دانہ شماری سے پیدا ہو جاتا ہے۔ ہرگز نہیں ‘‘۔ (ملفوظات جلدچہارم صفحہ15-14مطبوعہ ربوہ) فتح مکہ کے روز عجز سے سرجھکادیا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کے فخر و مباہات سے کوسوں دُور اللہ تعالیٰ کے ایسے عبد کامل تھے کہ آپ کا ہر ایک معاملہ اللہ تعالیٰ کے لئے خاص تھا اوراسی کی رضامندی ہمیشہ آپ ؐکے پیش نظر رہتی۔ فتح مکّہ کے روز جب سارا مکّہ مجرموں کی طرح آپ ؐکے سامنے پیش ہوا تو اس پر بھی آپ ؐنے کوئی فخر نہ کیا بلکہ اپنی گردن کو خدائے واحدویگانہ کے حضور جھکا دیا کیونکہ یہ فتح مبین بھی اُسی کی عنایات کے طفیل عطا ہوئی تھی ۔ ٭ معاویہ بن قُرَّہ روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مُغۡفِلۡ یہ بیان کیا کرتے تھے کہ میں نے فتح مکہ کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اونٹنی پر سوار ’’اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا لِیَغۡفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ (الفتح :3-2) ’’ یقینا ہم نے تجھے کھلی کھلی فتح عطا کی ہے۔ تاکہ اللہ تجھے تیری ہر سابقہ اور ہر آئندہ ہونے والی لغزش بخش دے۔ ‘‘ پڑھتے ہوئے سنا۔ راوی کہتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات کو بار بار پڑھ رہے تھے۔‘‘ (شمائل الترمذی ، باب ماجاء فی قراء ۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ٭ ’’ دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ کو فتح کیا تو آپ نے اسی طرح اپنا سر جھکایا اور سجدہ کیا جس طرح ان مصائب اور مشکلات کے دنوں میں جھکاتے اور سجدے کرتے تھے جب اسی مکہ میں آپ کی ہر طرح سے مخالفت کی جاتی اور دکھ دیا جاتا تھا۔جب آپ نے دیکھا کہ میں کس حالت میں یہاں سے گیا تھا اور کس حالت میں اب آیا ہوں تو آپ کا دل خدا کے شکر سے بھر گیا اور آپ نے سجدہ کیا۔ ‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 404۔ایڈیشن 2003ء حاشیہ) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وقت کی دعا ٭ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے وقت میری گود کا سہارا لے کر لیٹے ہوئے تھے اور یہ دعا کرتے تھے ’’ اَللّٰھُمَّ اغْفِرۡلِیۡ وَارۡحَمۡنِیۡ وَ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالرَّفِیۡقِ الۡاَعۡلٰی‘‘ اے اللہ! مجھے بخش، مجھ پر رحم کر اور مجھے رفیقِ اعلیٰ سے ملا دے (یعنی اپنا قرب خاص عطا کر) ۔ (بخاری کتاب المرضی باب نھی تمنی المریض الموت) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’ آسمان پر ہر ایک رُوح کے لئے ایک نقطہ ہوتا ہے اس سے آگے وہ نہیں جاتی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نقطۂ نفسی عرش تھا اور رفیق اعلیٰ کے معنے بھی خدا ہی کے ہیں ۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اور کوئی معزز ومکرم نہیں ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 136۔ ایڈیشن 2003ء) اللہ کرے کہ ہم بھی ہادی کامل ،نبی رؤف ورحیم کے نقش پا کی متابعت میں اپنے ربّ کی رضا حاصل کرنے کے لئے صرف اُسی کے حضور قیام کریں اور رکوع وسجود کرتے ہوئے اپنی عاقبت کو سنوارنے کی کوشش کریں تاکہ وہ آسمانی آقا ہم سے راضی اور خوش ہوجائے۔