’اللہ کے نام پر دے جابابا ، اللہ کے نام پر دے دے ، تجھے اللہ نبی کا واسطہ ‘۔یہ وہ تمام آوازیں ہیں جو پاکستان، انڈیا وغیرہ کئی ممالک میں ہم روزانہ ٹریفک سگنلز اور اسی طرح کی دوسری پُر ہجوم جگہوں پر سنتے ہیں اور پھر یہ مانگنے والے ایسے ضدی ہوتے ہیں کہ لے کر ہی چھوڑتے ہیں اور دینے والے بھی خداکے خوف کے باعث انہیں دے کر اپنی جان چھڑاتے ہیں ۔ ان مانگنے والوں میں اکژیت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو حقیقتاً ضرورتمند نہیں ہوتے ۔وہ مانگتے صرف اس لئے ہیں تاکہ اپنی نشہ کی ضروریات پوری کر سکیں یا ایسی ہی اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں ۔آج میں نے اسی موضوع کے متعلق قلم اٹھایا ہے تاکہ اس حقیقت سے آگاہ کر سکوں کہ کیا بندوں سے مانگنا جائز ہے؟ اور اگر مانگنا جائز ہے تو کس کے لئے؟ اور سوال سے بچنا کتنی بڑی نیکی ہے۔ قر آن کریم اورہمارے پیارے ہادی و راہنما حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم فدا ہ نفسی و روحی نے جو ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں اس بارہ میں بھی بڑے واضح ارشادات فرمائے ہیں اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی مذمت فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہی ہمیں یہ سبق دیا کہ مانگو تو صرف اللہ سے سوال کرو تو صرف اپنے داتا سے جو سوال نہ کرنے والوں کو بھی عطا کرتاہے ۔جو رازق ہے اور جس نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ جب بندہ میرے سامنے اپنے دونوں ہاتھ پھیلاتا ہے تومیں اسے خالی ہاتھ لوٹانے سے شرماتاہوں ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَمَامِنْ دَآبَّتٍہ فِیْ الْاَرْضِ الْاَعْلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا کہ زمین پرکوئی جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے ۔ (ھود آیت نمبر 6) اسی طرح فقراء کی تعریف کرتے ہوئے قر آن کریم فرماتاہے: خرچ کرو فقیروں کے لئے وہ جو روکے گئے راہ میں اللہ کی نہیں طاقت رکھتے زمین میں سفر کی گمان کرتا ہے ناواقف انہیں دو لت مند بسبب سوال نہ کرنے کے تو پہچانتا ہے انہیں بذریعہ ان کے نشان کے نہیں مانگتے وہ لوگوں سے پیچھے پڑ کر اور جو خرچ کرو گے تم کوئی مال تو یقینا اللہ اسے خوب جاننے والا ہے ۔ (البقرہ آیت نمبر 273) قر آن کے مطابق گویا حقیقی فقیر وہ ہوا جوباوجود تنگ دستی کے لوگوں سے سوال نہ کرے اور صرف اللہ سے سوا ل کرے ۔ جب ایک سوالی نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کرنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے ایک چادر اور ایک برتن جو اس کا کُل اثاثہ تھا بیچنے کا ارشاد فرمایا اور پھر اس رقم سے کلہاڑی خریدنے کا حکم دیا۔ دستہ اپنے ہاتھ سے اس میں ڈالا اور فرمایا کہ جاؤ اور جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور انہیں بازار میں بیچ کر اپنا گزر چلاؤ۔ اور چند دنوں میں اس کے حالات بدل گئے اور وہ خوشحال ہو گیا۔ سبق یہ دیا کہ اپنے ہاتھ سے کماکر کھاؤ۔ کسی کے آگے ہاتھ مت پھیلاؤ ۔اسی طرح فرمایا: اَلْکَاسِبُ حَبِیْبُ اللّٰہِ کہ ہاتھ سے کمانے والا اللہ کا دوست ہوتاہے اللہ بھی اسے پسند کرتاہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جس شخص نے دلی اطمینان اور جسمانی صحت کے ساتھ صبح کی اور اس کے پاس ایک دن کی خوراک ہے اس نے گویا ساری دنیا جیت لی اور اس کی ساری نعمتیں اسے مل گئیں ۔ (ترمذی کتاب الزھد) اسی طرح فرمایادولت مند وہ نہیں جو زیادہ مال والا ہے بلکہ دولت مند وہ ہے جو دل کا غنی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ عطا فرماتے تومیں عرض کرتا حضو ریہ کسی ایسے شخص کو عطا فرمائیں جومجھ سے زیادہ ضرورت مند ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے جو مال حرص، طمع، آرزو کے بغیر تجھے ملے وہ لے لینا چاہئے اس کا انکار نہیں کرنا چاہئے۔ یہ لے لو اورمحفوظ رکھو۔ پھر چاہو تو استعمال میں لاؤ اور چاہو تو صدقہ کر دو۔ جو تجھ کو نہیں ملتا اس کے پیچھے مت بھاگو اور جو ملتاہے اس کے لینے سے بلا وجہ انکار مت کرو۔ سالم کہتے ہیں کہ عبدا للہ بن عمرؓ کسی سے کوئی چیز نہیں مانگتے تھے اور جو چیز انہیں دی جاتی وہ لینے سے انکار نہیں کرتے تھے ۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ ) آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح طور پر فرمادیا کہ جو تجھ کو نہیں ملتا اس کے پیچھے مت بھاگو مگر یہاں ان پیشہ ور گداگروں کا حال تو اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ لوگوں کی جیبوں سے ان کے نہ چاہنے کے با وجودانہیں تنگ کرکے پیسے نکلواتے ہیں اور پھر مانگتے اس اللہ اور رسول کے نام پر ہیں جس نے اس بات سے سختی سے منع کیا ہے ۔ حضرت سہلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے کوئی ایسا کام بتا ئیے کہ جب میں اسے کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کرنے لگے اور باقی لوگ بھی مجھے چاہنے لگیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دنیا سے بے رغبت ہو جاؤ اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرنے لگے گا ۔جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس کی خواہش چھوڑدو لوگ تجھ سے محبت کرنے لگ جائیں گے ۔ (ابن ماجہ باب الزھد فی الدنیا) یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح طور پر فرمادیا کہ جو لوگوں کے پاس ہے اس کی خواہش چھوڑ دو لوگ تجھ سے محبت کرنے لگیں گے ۔اس میں یہ مضمون بھی بیان فرمادیا کہ اگراس کی خو اہش کرو گے اور لوگوں سے مانگو گے تو تحقیر کا باعث بنو گے اور لوگ تجھ سے نفرت کریں گے۔ آج ہم یہ بات روز مرہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ لوگ جو لوگوں کے پیچھے مانگنے کے لئے دوڑتے ہیں اور وہ بھکاری عو رتیں جو چمٹ چمٹ کر مانگتی تھکتی نہیں ، لوگ انہیں ناپسند کرتے ہیں اور عملًا چاہتے ہیں کہ یہ کسی طرح ہم سے دُور ہو جائیں اور ہم ان سے بچ جا ئیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تو قناعت پر زور دیااور فرمایا قناعت ایک نہ ختم ہو نے والا خزانہ ہے ۔ حضرت ابو امامہ باھلیؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک موقع پر فرمایا مجھ سے کون عہد باندھتا ہے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان نے عرض کیا: حضور مَیں عہد باندھنے کے لئے تیار ہوں ۔ حضورؐ نے فرمایا تو عہد کرو کہ تم کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگوگے۔ اس پر ثوبان نے عرض کیا:حضور! اس عہد کا اجر کیا ہوگا؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کے بدلے میں جنت ملے گی۔ اس پر ثوبان نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اس عہد پر عمل کرنے کا اقرار کیا۔ ابو امامہؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے ثوبان کو مکہ میں دیکھا کہ بھیڑ کے باوجود سواری کی حالت میں اگرآپ کے ہاتھ سے چابک گر جاتا تو خود اتر کر زمین پر سے اٹھاتے اور اگر کوئی شخص خود ہی انہیں چابک پکڑانا چاہتا تو نہ لیتے بلکہ خود اتر کر اٹھاتے ۔ (التر غیب والترھیب صفحہ100) پس یہ ہیں وہ پاکیزہ نمونے جو ہمارے سامنے ہمارے پیا رے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحا بہ کے موجود ہیں کہ کبھی کسی سے سوال نہ کرتے بلکہ مانگتے تو صرف اللہ سے۔ پس کیوں نہ اس سے مانگا جائے، اس کے سامنے ہاتھ پھیلا ئے جائیں اور اس سے ہی سوال کیا جائے ۔اور ہر آن اس کی مدد اور نصرت چاہی جائے ۔ پھر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی کے لئے مانگنا جائز بھی ہے کہ نہیں ؟اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے واضح ارشادا ت موجود ہیں ۔ حضرت قبیصہؓ بن مخارق بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کے قرض کی ذمہ داری اٹھائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااور اس کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مددکی درخواست کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ کا مال آنے تک ٹھہرو۔پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلمنے فرمایا اے قبیصہ! تین آدمیوں کے سوا کسی کے لئے مانگنا جائز نہیں ۔ایک وہ شخص جس نے کسی مصیبت زدہ کی ذمہ داری اٹھائی ہے اسے مانگنے کی اجازت ہے تاکہ وہ اس ذمہ داری کو پورا کر سکے۔ دوسرے وہ کہ جس پر کوئی مصیبت آن پڑے جس نے اس کے مال کو تباہ و برباد کر دیا ہو اس کے لئے بھی سوال کرنا جائز ہے تاکہ بقدر کفایت اپنا گزارہ چلا سکے۔ تیسرے وہ شخص جس پرفاقہ کی نوبت آگئی ہو اور محلے کے تین سمجھدار اور معتبر آدمی اس بات کی تصدیق کریں کہ وہ بھوکوں مر رہا ہے اس کے لئے بھی مانگنا جائز ہے تاکہ وہ گزر اوقات کر سکے۔ ایسے ضرورتمندوں کے علاوہ کسی کا مانگنا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینا ہے ۔ (مسلم کتاب الزکوٰۃ من تحل لَہُ الْمَثئلَۃ) پس تمام وہ لوگ جو پیشہ ور گداگر ہیں اور لوگوں سے لپٹ لپٹ کر محض نشہ کے لئے یا ایسی ہی دوسری مجرمانہ سرگرمیوں کے لئے مانگتے ہیں انہیں اللہ کے خوف اور اس کی نا راضگی سے ڈرنا چاہئے ۔اسی طرح لوگوں کو بھی چاہیے کہ انہیں نہ دیں ۔بلکہ جماعت میں جو ایک باقاعدہ نظام اس سلسلہ میں موجود ہے وہاں اپنی رقوم جمع کر وا ئیں تاکہ حقیقی مستحقین اس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اس پورے مضمون کو ایک ہی شعر میں بہت ہی خوبصورتی سے پرو دیا ہے۔ فرمایا مَیں تجھ سے نہ مانگوں تو نہ مانگوں گا کسی سے مَیں تیرا ہوں تُو میرا خدا میرا خدا ہے آخرپر حضرت مسیح موعو د ؑ کا ایک شعر پیش ہے: حاجتیں پوری کریں گے کیا تیری عاجز بشر کر بیاں سب حاجتیں حاجت رو اکے سامنے …………………………