اسلامی مکاتب فکر اسلامی نقطئہ نظر دو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ اوّل تو یہ کہ اسے مختلف مسلم مفکّرین کی علمی کاوشوں کے تجزیہ کی روشنی میں بیان کیا جائے اور دوم یہ کہ اسے قرآنی تعلیمات، سنّت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور احادیث کی روشنی میں براہ راست پیش کیا جائے۔ اسلامی تعلیمات کے بارہ میں اوّل الذکر طریق کی تفہیم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشکوک اور غیر مستند ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مفکّرین اپنے استنباط میں ، جو ضروری نہیں کہ جائز اور معقول بھی ہو، روز بروز کٹّر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ حالانکہ جسے وہ اسلام قرار دیتے ہیں ابتدائی طور پر تو وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے بارہ میں ان کے اپنے فہم پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو قرآن و سنت سے استنباط کرتے ہیں اگر اقلیت کے اصولوں پر سختی سے کاربند رہیں تو ایسی صورت میں انہیں دوسروں سے الگ حیثیت دی جا سکتی ہے۔ آگے چل کر ہم بنیادی مسائل کا ایک تجزیاتی مطالعہ پیش کریں گے۔ سردست ہم قرون اولیٰ کے مسلمان علماء، دانشوروں اور فلسفیوں کے اوّل الذکر گروہ کے ان افکار کی وضاحت کریں گے جن کے پس منظر میں اس دور کے مختلف اسلامی مکاتبِ فکر کی تشکیل ہوئی۔ تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں دو قسم کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں : اوّل: سب سے زیادہ غالب اور طاقتور اثر قرآن اورسنّت کا تھا جس کی وجہ سے تصوّرِعلم میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہوئی اور مطالعہ اور تحقیق مختلف جہتوں میں بے پایاں وسعت سے ہمکنار ہوئے۔ دوم: یونانی فلسفہ اور سائنس میں روزافزوں دلچسپی نیز ہندوستان، ایران اور چین کے کلاسیکی فلسفہ کے مطالعہ نے بھی مسلمانوں کے فکری ارتقا میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اس کے نتیجہ میں بہت سے بیرونی فلسفے آزادانہ طور پر یا اسلامی تعلیمات کے اختلاط سے مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ ان مختلف فلسفوں میں دلچسپی اور ان کی قرآنی آیات سے مطابقت کی خواہش نے نئے مکاتبِ فکر کو جنم دیا جو اس لئے اسلامی کہلائے کہ ابتدائی طور پر یہ مکتبہ ہائے فکر اسلامی سوچ، تعلیم اور عقائد کی گود میں پروان چڑھے تھے۔ نتیجۃً بدیشی فلسفہ کا کلیۃًقرآنی مطالعہ پر مبنی خیالات سے اختلاط شروع ہوا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ چند تنگ نظر علماء نے ان کے وسیع النظر اور لچکدار رویہ کے باعث ان پر غیراسلامی ہونے کی مہر لگا دی تھی اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ عظیم علماء بنیادی طور پر مسلمان ہی تھے۔ مختلف دنیوی علوم سے ان کا تعلق شاذ ہی ان کے ایمان کی راہ میں حائل ہوا ہو گا۔ اس لحاظ سے ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قرآن وسنت کے مطالعہ کے بعد خو د فیصلہ کرے کہ ایسے مفکرین کا پیش کردہ فلسفیانہ نقطۂ نظر اسلامی ہے یا نہیں ۔ تاہم ان کے اخذ کردہ نتائج ہمیشہ بحث طلب رہے ہیں ۔ بعض کے نزدیک یہ نتائج اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہیں اور بعض کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ تاہم کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان کی نیتوں پر شک کرے۔ سچائی کے ہر متلاشی کا یہ حق ہے کہ قرآن اورسنت کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کی مخلصانہ کوشش کے بعد اپنے نتائج اخذ کرے۔ اسی طرح دوسروں کو بھی اس سے اختلاف کا حق حاصل ہے۔ لیکن کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ دوسرے کو اس بنیادی حق سے محروم کر دے کہ وہ جس چیز پر چاہے ایمان لائے اور خود کو حق پر سمجھے۔ اب ہم بعض اسلامی مکاتبِ فکر کا مختصر تعارف پیش کرتے ہیں جو ایک ہی ماخذ سے مختلف نتائج اخذ کرنے کی وجہ سے معرض وجود میں آئے۔ تاہم یاد رہے کہ قرآن و سنت پر مبنی ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہر مکتبۂ فکر کو براہ راست ان شواہد کی کسوٹی پر پرکھا جانا چاہئے جو وہ اپنی تائید میں پیش کرتا ہے۔ اسلامی حکومت کے دور میں پنپنے والے تمام نظریات اور نقطہ ہائے نظر کو فی ذاتہٖ اسلامی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان میں سے کچھ جزوی طور پر متضاد بلکہ ایک دوسرے کے بالکل برعکس تھے۔ تاہم یہ بات ان کو اس حق سے محروم نہیں کرتی کہ ان کے ماننے والے ان کا حوالہ دیتے وقت ان کو اسلامی قرار دیں ۔ اَلْاَشْعَرِیَّہ الاشعریہ مکتبۂ فکر امام ابوالحسن علی بن اسمٰعیل الاشعری (260 تا 330ھ) کا مرہون منت ہے کہ انہوں نے اسے مروّجہ مکاتبِ فکر میں ایک منفرد اور نمایاں اسلوب بخشا۔ یہ وہ دور تھا جب بعض مسلمان علماء تیزی سے عقلیت پسندی کی طرف مائل ہو رہے تھے اس لئے اس رجحان کے ردّکی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس جوابی تحریک کے سربراہ مشہور امام اسمٰعیل الاشعری تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ الاشعری کے اپنے استاد الجبائی (وفات 303ھ) اس وقت کے سرکردہ عقلیت پسند تھے۔ امام اشعری نے نہ صرف عقلیت پسندوں سے اختلاف کیا بلکہ ہر اس نظام کی خامیوں کو پُر زور طریق پر بیان کیا جو سچائی کی شناخت کے لئے کلیۃً عقل پر انحصار کرتا ہے۔ اشعریہ کے نزدیک عقلیت پسندی نہ تو کسی یقینی علم کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نہ ہی اس سے ابدی صداقت تک رسائی ممکن ہے بلکہ شکوک و شبہات کی طرف لے جاتی ہے۔ اشعریہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ حقیقی علم صرف عرفان حق سے وابستہ ہے کیونکہ حق کا ابدی سرچشمہ خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کے حصول کا واحد راستہ وحی ٔالٰہی ہے۔ عقلیت پسندی کے خلاف ردّعمل میں بعض اشعری اس انتہا تک چلے گئے کہ انہوں نے قرآنی آیات کی ہر منطقی تفسیر کو بھی مسترد کر دیا یہاں تک کہ انہوں نے قرآنی آیات کے مجازی معنوں کا بھی مطلق انکار کر دیا۔ امام اشعری خود ماہر منطقی تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عقلیت پسندی کے خلاف ان کے پیش کردہ دلائل کی بنیاد خود عقل پر رکھی گئی ہے۔ اس امر کی وضاحت ان کے اپنے استاد الجبائی کے ساتھ ایک مناظرہ سے بخوبی ہو جاتی ہے جس میں اشعری نے الجبائی سے سوال کیا کہ آپ کی ان تین بھائیوں کی نجات کے بارہ میں کیا رائے ہے جن میں سے ایک مومن ہو، ایک کافر اور ایک ابھی بچہ ہو؟ الجبائی نے جواب دیا کہ مومن جنت میں جائے گا اور کافر جہنم میں ، جبکہ بچہ نہ تو جنت میں جائے گا اور نہ ہی جہنم میں کیونکہ بچہ اپنے اعمال کی بنیاد پر کسی جزا سزا کا مستحق نہیں ۔ اس پر اشعری نے کہا کہ بچہ خدا سے سوال کرسکتا ہے کہ تو نے مجھے کچھ وقت دیا ہوتا تو میں بھی کچھ اچھے اعمال کر لیتا۔ پس مجھے جنت سے کیوں محروم رکھا جارہا ہے؟ الجبائی نے جواباً کہا۔ خدا کہہ سکتا ہے کہ میں جانتا تھا کہ تم بڑے ہو کر بُرے عمل کرو گے اس لئے کم سنی میں تمہاری موت درحقیقت تم پر شفقت ہے کیونکہ اس طرح تم جہنم سے بچ گئے ہو۔ اشعری نے برجستہ کہا اس صورت میں کافر بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ اے خدا! تو نے مجھے بھی کیوں نہ بچپن میں وفات دے دی تا کہ میں بھی بُرے اعمال سے بچ جاتا؟ یہ امر قابل ذکر ہے کہ عقلیت پسندی کے خلاف دلائل دیتے ہوئے اشعری خود انہی کے ہتھیار استعمال کررہے تھے۔ پس یہ کہنا درست نہیں کہ وہ سراسر عقلیت پسندی کے خلاف تھے۔ اس مکتبۂ فکر کے امام غزالی اور امام رازی وغیرہ جیسے پیروکار اپنے مسائل کے حل اور عقائد کی مضبوطی کیلئے عقلی دلائل پر بے حد انحصار کرتے تھے کہ اسلامی دنیا میں متعارف ہونے والے نئے فلسفوں سے کہیں اسلامی تعلیم کو ہی نقصان نہ پہنچ جائے۔ یہ اندیشہ بھی تھا کہ کہیں مجرد عقل کا استعمال ایسی تحریکات کا پیش خیمہ نہ بن جائے جو بالآخر حقیقی اسلام سے دُور لے جانے والی ہوں ۔ اس لئے عقلیت پسندی کا میلان رکھنے والی تمام ایسی تحریکات کو الحادی یا بدعتی قرار دے دیا گیا جو ایک ہتک آمیز اصطلاح ہے کیونکہ اس سے مراد صراط مستقیم سے انحراف ہے۔ عقلیت پسند تحریکات کے بانیوں کو کٹر علماء جن القابات سے نوازتے تھے ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علماء کا یہ کٹر طبقہ کتنا پریشان تھا۔ مثلاً وہ ان کو معتزلہ یا الحادی کہتے تھے یعنی راہ راست سے ہٹ جانے والے۔ ایک اور گروہ جو متردّیہ کے نام سے موسوم ہے اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ وحی کو پہلے بعینہٖ قبول کر کے اس کی تائید میں منطقی توجیہات تلاش کرنی چاہئیں ۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ وحی ایمان کو مضبوط کرتی ہے جبکہ منطقی تشریحات اس ایمان کو مزید تقویت بخشتی ہیں ۔ اشعریہ نے منطقی تشریحات کا کلیۃً رد نہیں کیا بلکہ وہ انہیں زوائد میں سے سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک اگر منطقی تشریح ممکن ہو تو فبہا وگرنہ مطلق وحی منطقی اور عقلی دلائل کے بغیر ہی کافی ہے۔ اشعریہ ہی کا ایک انتہا پسند گروہ جنہوں نے قدیم علماء کی اندھادھند پیروی کی سلفیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ ان کے نزدیک وحی کو بغیر کسی فلسفیانہ یا منطقی توجیہ کے بلاحیل و حجت قبول کر لینا چاہئے۔ کیونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ یہ تشریحات بالآخر صراط مستقیم سے انحراف پر منتج ہوں گی۔ معتزلہ جہاں تک معتزلہ کا تعلق ہے انہوں نے اس امر سے انکار نہیں کیا کہ وحی صداقت تک پہنچنے کا معتبر ترین ذریعہ ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وحی کا حقیقیپیغام عقلی استدلال کے بغیر صحیح معنوں میں سمجھا نہیں جاسکتا۔ چنانچہ انہوں نے عقل کو وحی پر ان معنوں میں ترجیح دی کہ جب کبھی یہ دو نوں بظاہر ایک دوسرے سے متصادم نظر آئیں تو وحی کی صحیح تفہیم کے لئے عقل کو فوقیت دی جائے گی یعنی عقل کو یہ فوقیت الہام کے متبادل کے طور پر نہیں بلکہ الہام کی صحیح توجیہ و تشریح کے مددگار کے طور پر حاصل ہو گی۔ ان کا موقف یہ تھاکہ قرآن وسنت کی معروف تشبیہات، استعارات اور علامات کو سمجھے بغیر سچائی تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ اللہ کے ہاتھ اور اس کے چہرے سے مراد اس کی طاقت اور شان و شوکت ہے۔ علیٰ ھٰذا القیاس۔ الاشعری کا اپنا موقف تھا کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں صفاتِ الٰہیہ کا تذکرہ ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی حقیقی صفات مراد ہیں اگرچہ ان کی پوری حقیقت کا ہمیں علم نہیں ۔ لیکن انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ان اصطلاحات سے ظاہری خدّو خال مراد نہیں ۔ اگرچہ تحریک معتزلہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے نویں صدی سے سترھویں صدی عیسوی تک یورپی مکاتبِ فکر سے مماثل دکھائی دیتی ہے لیکن اس نے کوئی ایسا الحاد یا بدعت کا رنگ اختیار نہیں کیا جیسا کہ یورپ میں عقلیت پسندی نے اپنے مسلسل انحطاط کے زمانہ میں اختیار کیا۔ معتزلہ نے اپنے دلائل کے حق میں ہمیشہ قرآن وسنت کے حقیقی سرچشموں سے ہی استنباط کیا اور خود کو کبھی ان سے الگ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ان سے منسلک رہے۔ آج معتزلہ اور اشعریہ کے نقطۂ نظر میں کوئی واضح فرق نہیں رہا۔ اگرچہ مذکورہ بالا تاریخی پس منظر نے عصرِ حاضر کے علماء کی علمی کاوشوں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں لیکن ماضی کی واضح تفریق کے نقوش اب دھندلا چکے ہیں ۔ عصرِ حاضر کے علماء گزشتہ فرقہ وارانہ مکاتبِ فکر کے مقابل پر اپنے ذاتی نقطۂ نظر کو ترجیح دیتے ہیں تاہم دورِ گزشتہ کی باقیات کے کچھ آثار اب بھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں ۔ یہ باقیات وہ ہیں جو ایک لمبے عرصہ پر محیط مختلف مکاتبِ فکر کی باہمی افہام وتفہیم کا ثمر ہیں ۔ ان میں سے بعض تو قطعی طور پر قرون وسطیٰ کی سوچ کے حامل ہیں ۔ لیکن وہ اپنے موقف کی تائید میں اگرچہ کسی واحد پرانے مکتبۂ فکر پر کلیۃً انحصار نہیں کرتے لیکن اپنی تائید میں کسی نہ کسی مکتبۂ فکر کے عالم کی تلاش میں سرگرداں ضرور رہا کرتے ہیں ۔ ان کے لئے قرون وسطیٰ کے مختلف فرقوں کے مابین پائی جانے والی حدود تو اب مفقود ہو چکی ہیں مگر ان کے نزدیک ازمنۂ وسطیٰ کے دقیانوسی خیالات سے آج بھی رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہی بات کسی حد تک نام نہاد جدّت پسندوں کے بارہ میں بھی کہی جاسکتی ہے جو ایک طرف تو بڑی بے باکی سے ذاتی نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف گزشتہ دانشوروں کا کوئی حوالہ مل جائے جو ان کے مفید مطلب ہو تو وہ اسے بھی اپنے مؤقف کی تائید میں پیش کرنے سے نہیں جھجکتے۔ (باقی آئندہ)