(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود؈ او رخلفائے مسیح موعودؑ کی بشارات، گرانقدرمساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروزتذکرہ) مکر م ابو محمد عبد اللطیف صاحب مکرم ابومحمدعبد اللطیف صاحب کا تعلق خلیج کے ایک ملک سے ہے جہاں ان کی پیدائش 1979ء میں ایک متدیّن گھرانے میں ہوئی۔ پھر انہیں خدا تعالیٰ نے نہ صرف مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آنے کی توفیق دی بلکہ اسیر راہ مولیٰ رہنے کا بھی اعزاز بخشا۔ وہ اپنی ایمان افروز داستان یوں بیان کرتے ہیں : خاندانی پس منظر مَیں جب بھی اپنے ننھیال کی جانب دیکھتا ہوں تو وہ مجھے اہل پنجاب سے مشابہ دکھائی دیتے ہیں ۔گو ہمارے خاندان والے اس امر کو بیان نہیں کرتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ زمانوں میں ہمارے خاندان نے انڈیا میں شادیاں کیں یا انڈین لوگوں نے ہمارے علاقے میں آکر شادیاں کیں جن کی بناء پر نہ صرف ہمارے خاندان کے افراد کی شکل وشباہت پر اس کی چھاپ ہے بلکہ ہمارے لباس اور کھانوں میں بھی انڈین رنگ نمایاں تھا۔ میرا خاندان کافی حد تک متدیّن اور متعصّب ہے۔ میرے والد صاحب ہمیشہ ہمیں نمازوں کی ادائیگی اور قرآن کریم کی تلاوت کی ترغیب دیتے تھے۔ زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہیں کی اور وہ علاج کی غرض سے لندن آئے تو یہیں ہارٹ اٹیک ہوا اور چل بسے۔ قتلِ مرتد! لڑکپن کی عمر میں مَیں اس قدر حساس اور نرم دل تھا کہ ظلم، زیادتی اور ایذادہی کو برداشت نہیں کرسکتا تھااور مظلوم کے دفاع کے لئے کھڑا ہو جاتا تھا،بلکہ اگر ایسی کوئی بات ٹی وی وغیرہ پر بھی دیکھتا تو میرے آنسو بَہ پڑتے تھے۔ جب مَیں کچھ بڑا ہوااور دینی معاملات کی سوجھ بوجھ حاصل ہونے لگی تومیرے ذہن میں سب سے زیادہ اعتراض ’’قتل مرتد‘‘ کے عقیدہ پرپیدا ہوا ۔ مَیں سوچتا تھا کہ جب یہ اختیار دیا گیا ہے کہ کوئی اسلام کو مانے یا انکار کرے تو پھر اس اختیار کو استعمال کرکے اسلام کو چھوڑنے والے کی سزا ’’قتل‘‘ کیونکر ہو سکتی ہے؟ ایک دفعہ مَیں نے ایک سلفی مولوی سے جا کر مرتد کے بارہ میں فتویٰ پوچھا تو اس نے کہا کہ اسے قتل کر دینا چاہئے۔ مَیں نے کہا کہ خواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو؟ اس نے کہا کہ خواہ کوئی بھی ہو۔ مَیں نے سبب پوچھا تو اس نے کہاکہ کیونکہ جو اسلام چھوڑتا ہے وہ اپنی عقل اور سوچ کی بناء پر چھوڑتا ہے۔اور اگر اسے کھلی چھٹی دے دی جائے تو اپنے عقلی دلائل سے وہ دوسروں کے خیالات بھی خراب کردے گا اور فتنہ کا باعث ٹھہرے گا، اس لئے اس کے فتنے کو پنپنے سے پہلے ہی ختم کردینا چاہئے۔ مَیں نے کہا کہ کیا اسلام اتنا کمزور ہے کہ اس مرتد کے عقلی دلائل کا جواب دینے سے بھی قاصر ہے؟ اس سوال کے جواب میں سلفی مولوی کی تقریر تولمبی تھی لیکن کوئی بات مطمئن کرنے والی نہ تھی۔ جنّ اور دجّال علاوہ ازیں جنّوں کا مسئلہ ہمارے معاشرے کا ایک لازمی جزو بن چکا تھا۔ ہم بکثرت جنّوں کے بارہ میں سنتے اورسوچتے تھے یہاں تک کہ ہمیں محسوس ہوتاتھا کہ یہ کوئی ایسی مخلوق ہے جو ہمارے ساتھ رہتی ہے ، ہمیں دیکھتی اور ہمارے اعمال وافعال پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن ہم اسے نہ دیکھ سکتے ہیں نہ اس کے شر سے بچ سکتے ہیں ۔اس طرح کی سوچ لے کر مَیں پروان چڑھا لیکن بڑا ہو کر میرا ذہن ان خیالات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ مَیں سوچتا تھا کہ قرآن تو کہتاہے کہ { وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إلَّا لِیَعْبُدُوْنِ} لیکن ان کے بارہ میں مشہور خیالات میں عبادت کا تو کوئی رنگ نظر نہیں آتا ہاں لوگوں کو عبادت سے روکنے اوران کو تنگ کرنے کا عنصر نمایاں ہے۔ اسی طرح جن امور کے بارہ میں مَیں اکثر سوچتا اور متفکّر رہتا تھاان میں سے ایک دجّال کا مسئلہ بھی تھا۔ روایتی عقائد دجّال کو ایک شخص کی صورت میں ظاہرکرتے ہیں ۔ مَیں سوچتا تھا کہ ایسا انسان کے بس میں کہاں ہے کہ وہ آسمان کو حکم دے تو وہ پانی برسانے لگے ،زمین کو حکم دے تو وہ اپنے خزانے باہر نکال دے ، اسی طرح وہ مارنے اور زندہ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہو۔ ایسے غیر معمولی کاموں سے تووہ لوگوں کو ابتلائے عظیم میں ڈال دے گا۔ آجکل کے ترقی یافتہ دَور میں ایسے شخص کو دُور سے بیٹھ کر کسی میزائل اوربم سے بآسانی تباہ کیا جاسکتا ہے۔پھر اس کے بارہ میں روایات میں یہ کیوں آیا ہے کہ اس کے قتل کی کسی کو طاقت نہ ہوگی۔کیاآنے والا مسیح موجودہ زمانے سے بہتر ٹیکنالوجی لائے گا اور اس کے ساتھ دجّال کو قتل کر ے گا؟ لیکن اگر مسیح نے آکرمحض دینی طور پر اسے قتل کرنا ہے تو پھر دجّال کی ظاہری طاقتوں کا بھی معنی کوئی اَور ہے جس کا دین سے تعلق ہے۔ دجال کے بارہ میں ہمارے معاشرے میں مشہور سوچ ناقص تھی ،اور اس بارہ میں جو تصویر پیش کی جاتی وہ کسی ڈراؤنی فلم سے کم نہ تھی۔ مَیں نے شرعی علوم کا مضمون پڑھنا چاہا لیکن مذکورہ بالا مسائل کے بارہ میں مطمئن نہ ہونے کی بناء پر دل اچاٹ ہوگیا۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ میری نظراچانک بہت زیادہ کمزور ہوگئی جس کے باعث مَیں نے تعلیم کو خیر باد کہا اور رفاہی کاموں اور تجارت کی طرف راغب ہو گیااور الحمدللہ کہ مجھے اس کام میں غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی۔ جماعت سے تعارف ایک روز مَیں ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ اس پر ایم ٹی اے لگ گیا جس پر اس وقت پروگرام’’ لقاء مع العرب‘‘ لگا ہوا تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کچھ فرما رہے تھے۔ چونکہ مَیں نہ ایم ٹی اے سے واقف تھا، نہ حضوررحمہ اللہ کی بات سنی ، اس لئے کوئی اندازہ نہ کر سکا کہ یہ چینل کس کا ہے اور اس کا کیا مقصد ہے؟کچھ دیر کے بعد چینلز بدلتے ہوئے دوبارہ جب ایم ٹی اے پر پہنچا تو اس وقت مکرم حلمی الشافعی صاحب حضور رحمہ اللہ کی بات کا عربی میں ترجمہ کررہے تھے۔ مَیں نے بات سنی تو مجھے اچھی لگی۔ چنانچہ مَیں نے اس روز سے اس چینل کو دیکھنا شروع کردیا۔ غلبۂ حجت اور قوتِ برہان کچھ عرصہ اس چینل کے پروگرامز دیکھنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ یہ جماعت احمدیہ کا چینل ہے جس کا دعویٰ ہے کہ امام مہدی ومسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہو چکاہے۔ گویہ بہت بڑی خبر تھی لیکن میں نے ابتداء میں اسے کوئی اہمیت نہ دی کیونکہ مَیں سوچتا تھا کہ یہ کیسا امام مہدی ہے کہ جو آکر گزر بھی کیا اور ہمیں آج سو سال بعد اس کی آمد کی اطلاع مل رہی ہے۔ اس سوچ کے باوجود میں نے ایم ٹی اے دیکھنا نہ چھوڑا۔ ایم ٹی اے کو مسلسل دیکھنے سے مجھے بعض مشکل مسائل کے بارہ میں مضبوط دلائل ملنے لگے، اورمیں دل ہی دل میں ان دلائل کی قوت اور غلبہ کا اقرار کرنے لگا۔ بلکہ ایک دفعہ تو یوں ہؤا کہ مَیں بعض مولویوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ بعض مسائل کے بارہ میں بات چل نکلی۔ میں نے اس گفتگو میں ایم ٹی اے سے سنے ہوئے بعض دلائل بیان کئے تو اس کی عجیب تاثیر دیکھی۔ مَیں جب بھی اور جس مسئلہ کے بارہ میں بھی جماعت کی رائے بیان کرتا سب خاموش اور لاجواب ہوجاتے ۔ متعدد بار ایسی صورتحال کو دیکھ کر انہو ں نے مجھ سے پوچھ ہی لیا کہ تم نے یہ باتیں کہاں سے سیکھی ہیں ۔ مَیں نے برملا کہہ دیا کہ احمدیہ ٹی وی چینل سے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا تم بھی انہی میں سے ہو؟ مَیں نے جواب دیا کہ میں ابھی تک تو احمدی نہیں ہوں لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ ان میں شامل ہو جاؤں ۔ استخارہ، دعا اور بیعت رات کو جب میں گھر واپس آیا تو میرے کہے ہوئے جملے کی بازگشت ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ جب احمدیت ہر مشکل مسائل کا قرآن وسنت سے ایسا حل پیش کرتی ہے جو عقل ومنطق اور فطرت کے عین مطابق ہے اور جب اس کی حجت سب پر غالب ہے، اور جبکہ میرا دل بھی کہتا ہے کہ میں ان میں شامل ہو جاؤں تو پھر مجھے ان میں شامل ہونے کے لئے سوچنا چاہئے۔ چنانچہ مَیں نے اسی رات استخارہ کیااور خداتعالیٰ سے تضرع اورگریہ وزاری کے ساتھ یہ دعا کی کہ اگر یہ جماعت حق پر ہے تو مجھے اس کی قربت اور محبت میں بڑھادے۔ چنانچہ مَیں نے اس دعا کے بعد دیکھا کہ میرا دل اس جماعت کی محبت اور عشق سے بھرتا ہی چلا گیا۔یہ بات میرے لئے خدائی راہنمائی کا واضح اشارہ تھا۔ مَیں ذہنی اور قلبی طور پر جماعت کی سچائی کاقائل ہو کر اس میں شامل ہونے کا ارادہ کرچکا تھا ۔ انہی ایام میں ایک روز میرے بڑے بھائی کا مجھے فون آیا۔اس نے کہا کہ مَیں عمرہ کرنے کے لئے خانہ کعبہ میں موجود ہوں ، بتاؤ مَیں تمہارے لئے اس وقت کیا دعا کروں ؟ مَیں نے کہا کہ تم میرے لئے یہ دعا کرو کہ جو بات میرے دل میں ہے اللہ تعالیٰ اگر اس سے راضی ہے تو مجھے جلد اس کی توفیق عطا فرمادے۔اس نے باصرار پوچھا لیکن مَیں نے اسے صرف اتنا بتایا کہ میرا کوئی ذاتی معاملہ ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے مجھے انشراح صدر کی نعمت سے نوازا او رمیں نے ہر طرح سے مطمئن ہو کر بیعت کرلی۔ بھائی پر اتمام حجت پھر جب میرا مذکورہ بھائی عمرہ سے واپس آیا تو بطور خاص مجھ سے اس امر کے بارہ میں پوچھنے کے لئے میرے گھر چلا آیا جس کے بارہ میں مَیں نے اسے خانۂ خدا میں دعا کے لئے کہا تھا۔ مَیں نے اسے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری دعا قبول کر لی ہے کیونکہ میں جماعت احمدیہ میں شمولیت کے بارہ میں انشراح صدر کا طالب تھا اور اسی بابت آپ سے دعا کی درخواست کی تھی۔ الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اس نے پوچھا کہ جماعت احمدیہ کیا ہے؟ جب مَیں نے اس کی تفصیل بتائی تو وہ غصّہ سے لا ل پیلا ہو گیا اور جماعت کو کافر او رمجھے گمراہی کا طعنہ دینے لگا۔یہی نہیں بلکہ تمام اہل خاندان میں بھی مخالفت کی ایک عجیب رَو چل پڑی اور ہر طرف سے مجھے ملامت او رگمراہی کے طعنے ملنے لگے۔ابھی میری بیعت کا معاملہ خاندان میں زبان زدعام ہی تھا کہ میرا مذکورہ بھائی میرے پاس آیا اور کہنے لگاکہ میں نے تمہارے بارہ میں خواب دیکھی ہے لیکن میں نے تمہیں اس کے بارہ میں کچھ نہیں بتانا،تا تمہیں کوئی غلط فہمی نہ ہو جائے۔ میں نے کہا کہ جب خواب میرے بارہ میں ہے تو تمہیں مجھے بتادینی چاہئے۔کچھ دیر کے اصرار کے بعد اس نے اپنی خواب کو کچھ یوں بیان کیا: میں نے دیکھا کہ میں خانہ کعبہ میں ہوں اوروہاں کھڑے ہو کر خدا تعالیٰ سے مخاطب ہو کر تین مرتبہ یہ کلمات کہتا ہوں : اے اللہ مجھے بھی اس طرح ہدایت دے دے جس طرح تُو نے میرے بھائی کو ہدایت دی ہے۔ میں نے یہ سنتے ہی اسے کہا کہ آپ کو اس سے بڑا اور کونسا نشان چاہئے؟ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا ہے کہ کل ہم نے تمہارے بھائی کے بارہ میں تمہاری دعا قبول کر کے اسے ہدایت کا راستہ دکھا دیا تھا۔ آج تمہارے لئے یہ پیغام ہے کہ اسی راہ کی ہدایت کے لئے دعا کروتو تم بھی اس نعمت کو پا جاؤ گے۔لیکن افسوس کہ میرے بھائی نے میری بات پر کوئی توجہ نہ دی۔ اہلیہ کی بیعت اورخاندان کی مخالفت میرے اس سفر میں میری اہلیہ میرے ساتھ تھی، لیکن اس کا مؤقف فکری وعلمی حقائق پر مبنی نہ تھا بلکہ مجھ پر اعتماد ہونے کے باعث اس کا یہی کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ تم کسی غلط راہ کا انتخاب نہیں کرو گے۔چنانچہ جب مَیں نے بیعت کی تو میں نے اسے بھی کہا کہ مَیں تو بیعت کر کے اس جماعت میں شامل ہو رہا ہوں ،تم بھی سوچ لو۔ اس نے استخارہ کرنے کی مہلت مانگی اور استخارہ کے بعد میرے ساتھ ہی بیعت فارم پر کر دیا۔ گوبیعت کے وقت میری اہلیہ کا جماعت کے بارہ میں علم بہت ہی کم تھا لیکن اب خدا کے فضل سے اس نے پڑھ اور سن کر بہت کچھ سیکھ لیا ہے اور حق الیقین پر قائم ہو گئی ہے۔ بہرحال بیعت کے بعد ہم دونوں کے اہل خانہ کی طرف سے مخالفت کا بازار گر م ہو گیا۔ میر ی والدہ اور بھائیوں نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا۔ اسی طرح میری اہلیہ کے خاندان والوں نے بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ مَیں نے کہا کہ بالآخر یہ میرے اہل خانہ ہیں اور چونکہ انہیں احمدیت کی حقیقت کا علم نہیں ہے اس لئے مخالفت کررہے ہیں ۔ مجھے بہر حال ان کے طرز عمل کو برداشت کر کے صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر بہت فضل فرمایا اور ہمیں صبر کامظاہرہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی اورمحض اپنے کرم سے ثبات قدم عطا فرمایا۔ ……………… (باقی آئندہ)