دسمبر کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا بھر میںکئی قسم کی سرگرمیاں زور پکڑ جاتی ہیں ۔ کہیں کاروباری حضرات مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سٹاک کو کم کرنے اور گاہکوں کو کھینچنے میںمصروف ہیں ۔ کہیں سیل(sale) کے میلے ہیں تو کہیں برف باری سے لطف اندوز ہونے کی تیاریاں ۔ کہیں چھٹیاںگزارنے کے لئے ہوٹلوں کی بکنگ پر توجہ ہے تو کہیں ائیر ٹکٹس کی خرید و فروخت جاری ہے۔ کوئی سال بھر کی کمائی لٹانے کے لئے آمادہ ہے تو کوئی اس لٹائی جانے والی دولت کو سمیٹ کر اپنے لئے سال بھر کی کمائی اکٹھی کرلینے کی کوشش میں مصروف۔ ماہ دسمبر کے ساتھ کئی جماعتی یاد یں بھی وابستہ ہیں ۔ سب سے بڑھ کر امام الزمان کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے ہاتھوں رکھی جانے والی جلسہ سالانہ کی بنیادی اینٹ۔ جو آج ایک تناور درخت بن کر اپنی برکات کی شاخیں ساری دنیا میں پھیلا رہا ہے ۔ پھر ربوہ کے وہ جلسے جو آج تک ان لوگوں کا لہو گرمانے کا ذریعہ ہیں جن کو ان میں شرکت کی توفیق ملی۔ ماہ دسمبر کا ایک اور یادگارباب وقف جدید بھی ہے ۔اسی کا ذکر یہاں مقصود ہے۔ دنیا بھر میں سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز کے لئے جو جوحرکتیں کی جاتی ہیں انہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ان لوگوں کو بتا دیا گیا ہو کہ یہ تمہاری زندگی کی آخری شاپنگ ہے ۔ جیسے اس کے بعد دکانیں خالی ، بازار ویران اور شہر اجڑ جائیں گے۔بس بھاگو اور بھر لو اپنے گھر ۔ اور اس کے لئے کوئی بھی ذریعہ اختیار ہو جائے پرواہ نہیں ۔ ایک عیسائی ملک میں سال کے اختتام اور نئے سال کے آغاز کا آنکھو ںدیکھا حال کچھ یوں ہے کہ بازاروں میں رش اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ کھوّے سے کھوّا چھلتا ہے۔ راستے تنگ اور آمد و رفت مشکل ہو جاتی ہے ۔ ان تمام سرگرمیوں کے منفی پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔ مثلاً ہر کس و ناکس خریداری کرنے کے شوق میں مرا جا تا ہے ۔ بیوی بچوں کی فرمائشیں خاندان کے سربراہ کو چین نہیں لینے دیتیں۔ ان حالات میںغربا ء میں احساس کمتری پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ بعض افراد رقم کمانے کے لئے ہر ذریعہ اپنانے کے لئے پر تولنے لگتے ہیں جس سے بعض اوقات جائز اور ناجائز کی تمیز بھی اٹھ جاتی ہے ۔ رشوت کا بازار گرم اور چھوٹی موٹی چوریوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے ۔ ان حالات میں والدین کی بچوں کی فرمائشوں کے آگے بے بسی، بڑوں میں ہر طرح سے رقم اکھٹی کرنے کی جستجو اور لگن دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے ہم پر بے شمار احسانا ت میں سے یہ بھی ایک بہت بڑا احسان ہے کہ ہمیں غیر ضروری بوجھوں سے آزاد کر دیا ۔اور قرآن پاک کی رو سے یہ کام ایک نبی ہی کر سکتا ہے ۔ پھرآپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خلفاء کرام نے ان شاہراہوںکو وسیع تر کرکے ہمارے ذوق بدل دئے ۔ فضول خرچیاں، انفاق فی سبیل اللہ میں بدل گئیں ۔ اپنے اوپر بے جا اور بے تحاشا خرچ کرنے کی عادت غرباء کی مدد اور ان کی ہمدردی میں بدل گئی ۔ فضول رسم ورواج اور بیہودہ حرکات سے نجات دلا دی گئی۔دنیوی تہواروں اور میلوںٹھیلوں کی جگہ بامعنی پروگراموں اور روحانی اجتماعات نے لے لی ۔ اگر ہم اپنے ماحول میں جائزہ لیں او رصرف ایک نظر ان حادثات کے اعدادو شمار پر ڈالیں جو سال کے اختتام اور نئے سال کے موقع پر ہوتے ہیں ۔ جب شوخی میں غلط ڈرائیونگ اور غل غپاڑے کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ہر سال ضائع ہوجاتی ہیں ۔ ایسے میں ہم بطور احمدی ان سب حرکات سے بچائے گئے ہیں ۔اس پر جتنا شکر ادا کریں کم ہے ۔ خدا تعالیٰ کی حکمت بالغہ نے خلافت کی با برکت زبان سے ایک فضل ہم پر وقف جدید کی شکل میں کر دیا ہے ۔ماہ دسمبر میں وقف جدید کا اختتام ہو رہا ہوتا ہے ۔ ابتدا میں یہ تحریک صرف پاکستان کے لئے تھی لیکن جب سے اس میں ساری دنیا کے احمدی شریک ہو رہے ہیں دنیا بھر میں دسمبر میں جماعتیں وقف جدید کے چندے اور وعدے پورے کرنے کی طرف لگ جا تی ہیں۔جن جماعتوںکے ٹارگٹ ابھی پورے نہیں ہوتے وہ کوشش کرتی ہیں کہ ٹارگٹ پورے ہو جائیں تا وہ خلیفہ وقت کی دعائوں سے زیادہ سے زیادہ فیض پا سکیں ۔جن کے وعدے پورے ہو جاتے ہیں وہ چاہتی ہیں کہ خدا کے راستے میں سبقت کی منازل طے کرکے اپنے مولیٰ کی رضا پر اور آگے چلی جائیں ۔ جماعتی طور پر جہاں کوشش ہو رہی ہوتی ہے وہیں ذاتی حیثیت میں ایک دوسرے کو یاددہانیاں بھی کروائی جاتی ہیں ۔ گھروں میں اس بات کے تذکرے چلتے ہیں کہ ہمارا وعدہ پورا ہوا یا نہیں ۔ تبلیغ اسلام کی عالمگیر مہم میں حصہ بننے اور اور اپنا حصہ ڈالنے کے لئے پائی پائی جمع کرکے خدا کے حضور پیش کرنے کے لئے خلیفۂ وقت کے قدموں میں ڈھیر کرتے جاتے ہیں ۔ جہاں دنیوی ماحول میں بچے کرسمس کے کھلونے خریدنے کے لئے بضد ہیں تو وہیں احمدی بچے وقف جدید کے اپنے وعدے پورے کرنے کے لئے پُرجوش نظر آتے ہیں ۔ اپنے کُبّے اور گلّے خالی کر کے وقف جدید کے لئے پیش کرنے لگتے ہیں۔ یہ کیوں نہ ہو، ایک بار امام وقت نے ان ننھے مجاہدین کو یہ جو کہا تھا: ’’میں آج احمدی بچوں سے اپیل کرتا ہوں کہ بچواٹھو اور آگے بڑھو اور تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں وقف جدید کے کام میں جو رخنہ پڑ گیا ہے اسے پُر کر دواور اس کمزوری کو دور کر دوجو اس تحریک کے کام میں واقع ہو گئی ہے ۔‘‘ (الفضل ربوہ7 اکتوبر1966ء) جہاں جماعت احمدیہ سے باہرکے ماحول میں خواہشات پوری کرنے کے لئے والدین مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ خواہشات اس قدر حاوی ہو جاتی ہیں کہ جائز و ناجائز کا فرق مٹا کے بھی رقم کا حصول چاہتے ہیں تاکہ سال کے اختتام پر ایک تہوار منا سکیں ۔ زندگی کا ایک سال کم ہونے کی ’’ خوشی ‘‘ منا سکیں ۔ وہیں احمدی والدین جائز ذرائع سے کمائی ہوئی رقم اپنی اور اپنے بچوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضو رپیش کر رہے ہوتے ہیں ۔ اور یہ ذوق کیوں پیدا نہ ہوتا جب کہ ہمارے امام نے ا س قربانی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے یہاں تک فرما دیا: ’’ یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہو کر رہے گا ۔ میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے ا س لئے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں، کپڑے بیچنے پڑیں۔ مَیں اس فرض کوتب بھی پورا کروں گا ۔اگر جماعت کا ایک فرد بھی میرا ساتھ نہ دے، خدا تعالیٰ ان لوگوں کو الگ کر دے گا جو میرا ساتھ نہیں دے رہے ۔ اور میری مدد کے لئے فرشتے آسمان سے اتارے گا۔‘‘ ( خطبہ 5 جنوری 1958ء) یاد رہے خلیفہ ٔوقت ہما رے لئے باپ سے بڑھ کر ہے۔ اور کون غیرتمند بیٹا یہ برداشت کرے گا کہ ا س کے باپ کو کسی ضرورت کے لئے اپنے کپڑے بیچنے پڑیں۔ کون غیرتمند بیٹی برداشت کرے گی کہ کسی ضرورت کے لئے اس کے باپ کو اپنا لباس اور مکان فروخت کرنا پڑے۔ ہم تو بحیثیت قوم ، بحیثیت جماعت غیرتمند ہیں ۔ دین کی غیرت ، خدا کے رسول کے لئے غیرت ، ناموس دین کے لئے غیرت ہمارے خون میںڈال دی گئی ہے ۔ اے مصلح موعود! آپ کی تمام بیٹیاں اور آ پ کے تمام بیٹے اس بات کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں کہ وہ وقت کبھی نہیں آنے دیں گے جب آپ کو ایسا کرنا پڑے۔ ہمارے پیارے امام کو کسی دینی اور دنیاوی ضرورت کے لئے اپنے مکان اور اپنے کپڑے بیچنا پڑیں اس کا کوئی احمدی تصور بھی نہیں کر سکتا اور کبھی ایسی ضرورت پیش آئی نہ آئے گی ۔ بلکہ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے کہ اس دَور کے مومنین اور فدایان خلافت نے امام وقت کی آواز پر لبیک کہنے کی خاطر کپڑوں کی سلائی کر کر کے چندے دیئے ہیں اور دیتے چلے جا رہے ہیں ۔ دوسروں کے کپڑے سلائی کر کے چندہ دینے کی مثالیں دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں ۔ یہ معاملہ صرف غریب ممالک تک محدود نہیں بلکہ انگلستان جیسے ملک میں بھی ایک مخلص احمدی بہن نے اپنا وقف جدید کا چندہ ادا کرنے کے لئے دوسروں کے کپڑے سلائی کر کے اپنا وعدہ نہ صرف پورا کیا بلکہ جب آمدن زیادہ ہوگئی تو وعدہ بڑھا بھی دیا۔( الفضل انٹرنیشنل 30 جنوری2015 ء) جہاں نئے سال پر نئے کپڑوں کی خرید پر بے تحاشا خرچ کئے جاتے ہیں ۔ اور لوگ دیوانوں کی طرح مادیت کی اس دوڑ میں ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے آگے سے آگے بڑھنے کی لگن میں مگن ہیں ۔وہاں وہ دیوانے بھی ہیں جنہوں نے نئے جہان آباد کرنے ہیں بلکہ کر دیئے ہیں اور کرتے چلے جا رہے ہیں ۔ وہ نئے کپڑوں کی فکر میں نہیں بلکہ امام وقت کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے تن کے کپڑے بیچ کرمالی قربانی کے جہاد میں حصہ لے رہے ہیں ۔ ملاحظہ ہو سیرالیون کے ایک گائوں Kpangbaru کی ایک نابینا عور ت کا حوصلہ جس نے تحریک جدید کے چندے کا وعدہ دو ہزار لیون Leon) ( لکھوایا۔لیکن اپنی غربت کی وجہ سے جب ادائیگی کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو خدا کی اس بندی نے جووعدہ اپنے خدا سے کر لیا تھا اسے ہر حال میں پورا کرنے کی کس طرح ٹھان لی ۔ ’’ چندہ دینے کے لئے انہوں نے ارادہ کیا کہ اپنی ایک غیر احمدی سے ادھار لے لیں۔لیکن بہن نے انکار کر دیا کہ تم نابینا ہو۔تمہارے پاس ذرائع بھی ایسے نہیں ہیں ۔ پتا نہیں مجھے واپس بھی کر سکو گی یانہیں ۔ اس پر وہ نابینا عورت بڑی فکر مند ہوئی … چنانچہ وہ دعا میں مصروف ہو گئیں۔ اسی دوران ایک اجنبی شخص گائوں میں آیااور ان کے پا س سے گزرا ۔ گھر کے باہربیٹھی ہو ئی تھیں ۔ تو انہوں نے اس آدمی کو آواز دی ۔ اس سے کہنے لگیں کہ میرے پاس اس وقت ایک سر پر لینے والا کپڑا ہے وہ دو ہزار لیون میں تم خرید لو… حالانکہ وہ کپڑا دس سے پندرہ ہزار لیون کا تھا ۔ اس آدمی نے حیران ہو کر پوچھا کہ اتنا سستا کیوں بیچ رہی ہو ۔ا س پر اس خاتون نے بتایا کہ میں نے چندہ تحریک جدید ادا کرنا ہے اور میرے پاس اس وقت رقم نہیں ہے۔ اس اجنبی نے کپڑا خرید لیا اور دو ہزار لیون اس نابینا عورت کو دے دئیے۔ شریف آدمی تھا اور بعد میں وہ کپڑا بھی واپس کر دیا اور کہا یہ میری طرف سے آپ رکھ لیں۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل 27 نومبر تا 03دسمبر 2015ء) اے امام وقت ! آپ کے بیٹے اور آپ کی بیٹیاںآپ کی جاری کردہ خدائی تحریکات کو مسلسل کامیابیوں کے ساتھ جاری رکھنے کے لئے آپ کو کوئی چیز بیچنے کی نوبت کیوں آنے دیں گے۔عام صحتمند افراد تو دُور رہے بظاہر معذور افراد بھی اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ایسے علاقے جنہیں دنیا گھمبیر اندھیروں کی سر زمین کہتی رہی ، ان میں ظاہری بینائی سے محروم لیکن روح کی اتھاہ گہرائیوں تک روشن اس خاتون جیسے فدایان خلافت جب تک زندہ ہیں احمدیت اور خلفائے احمدیت کی تحریکات کا ہر دن روشن تر ہوتا چلا جائے گا۔ بالعموم سارا سال اور خاص طور پر سال کے آخر میں اپنے ارد گرد نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے، اپنے وقتی اور دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے سرگرداں و غلطاں لوگوں کے جھرمٹ کے جھرمٹ دیکھ کرجہاں ان لوگوں کی حالت زار پر رحم آتاہے اور ان تک اسلام کا امن و عافیت اور دائمی خوشیوں کا حقیقی پیغام پہنچانے کا جذبہ جوش مارتا ہے۔ وہیں اللہ کے حضور سجدہ شکر بجا لانے کے لئے سرجھکتا اور جھکتا ہی چلا جاتا ہے ۔ اور خلافت کے لئے بھی دعا نکلتی ہے کہ خلافت احمدیت کے ان تاجداروں نے کس قدر مثبت تبدیلی دنیا میں پید افرما دی ہے ۔ خلفاء کرام کے دہن مبارک سے نکلی مبارک تحریکات اور ہدایات کی بدولت پیدا ہونے والی تبدیلی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور خلیفۂ وقت کے فیصلوں کو تائید الٰہی حاصل ہوتی ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی توان تحریکات کو قبول عام کی سند کیسے حاصل ہو جاتی ۔ یہ آواز اندھیروں کے براعظم کے لئے روشنی کی کرن کیسے بن جاتی ۔ یہ خدائی فیصلے تھے جو ایک زبان مبارک سے جاری کئے گئے ۔ پھر وقف جدید کے لئے تو آپ نے خود فرما دیاتھا: ’’ یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہو کر رہے گا ۔ میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے۔‘‘ واقعۃً یہ خدا تعالیٰ کا کام تھا اور ہے ۔ اسی نے شروع کروایا اور وہی پورا کروا رہا ہے ۔ وقف جدید کا اختتام دسمبر میں ہو یہ بھی منشا الٰہی تھا۔واقعۃ ً آج احمدیت کے پروانوں، خلافت کے عاشقوں کی دنیا اور ہے اور دنیاداروں کی دنیا اور ۔ایک طرف ایک نہ ختم ہونے والے خواہشات کے سراب ہیں تو دوسری طرف تسکین و اطمینان کے بلندو بالا پہاڑ۔ایک طرف ہزاروں لاکھوں خرچ کرنے کے باوجود خوشی دُور بھاگتی چلی جارہی ہے تودوسری طرف خلیفۂ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے چند پائیاں حُسنِ نیّت سے قربان کر نے والوں کی طمانیت عرش کے پائے چھو رہی ہے ۔ خدا تعالیٰ کے حضور قبولیت کادرجہ پا کر جب کبھی خلیفۂ وقت کی زبان مبارک سے ایسی قربانی کا تذکرہ ہو جاتاہے تو قربانی کرنے والے پر طمانیت ،مسرت ، عجز و انکساری کا جو دَور چلتا ہے کوئی اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ ایسی خوشی جو روح تک اتر جائے۔ایسی سکینت جو پہاڑ جیسی ہو ۔ اور پہاڑ بھی وہ جس پر شیطان اچھل کود نہیں کر سکتا۔ یہ طمانیت صرف محسوس کی جا سکتی ہے یا مستقبل کی جاری قربانیوں سے ناپی جا سکتی ہے ۔کیونکہ یہ قربانی کرنے والے کو اور مضبوط عزم و ہمت عطا کر جاتی ہے ۔ روشن ماضی اور شاندار مستقبل اس تحریک کے ابتدا سے ہی فدایان خلافت نے غیرمعمولی جوش و خروش سے اس میں حصہ لیا اور قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کر دی۔ تا ہم ان سب میں سے نمایاں اور شاندار قربانی کی مثال حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت چوہدری محمدظفر اللہ خان صاحب نے قائم کی۔ جنہوں نے ابتداء میں ہی دس دس ایکٹر زمین اس کے لئے وقف کر دی۔ (تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 19 ) اور بہت ساری غیر معمولی مثالوں میں سے قربانی کا ایک نمونہ حضرت مسیح پاک ؑ کے وطن ثانی سیالکوٹ کے ایک مخلص احمدی محترم محمد اعظم صاحب بی ٹی سیکنڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیالیاں کا بھی ہے ۔ انہوں نے حضور کی خدمت میں لکھا: ’’تحریک وقف جدید میں حضور نے ایک لاکھ چندہ دینے والے احمدیوں کا مطالبہ کیا ہے ۔ آج خطبہ جمعہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے میرے دل میں یہ تحریک کی ہے کہ میں ہر چندہ دینے والے احمدی کی طرف سے ضرور کچھ نہ کچھ ادا کروں … سو میں ایک پائی ہر احمدی کی طرف سے ادا کرتا ہوں یعنی کل ایک لاکھ پائی …مبلغ 4 / 520/13 روپے‘‘ جب دعائوں اور اخلاص کی ساتھ اس تحریک کا مبارک آغاز ہوا تو عالم الغیب خدا نے اس تحریک کے مستقبل کے لئے امام وقت کی زبان سے پیشگوئی ان الفاظ میں جار ی کروا دی۔ ’’خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کے آثار بتا رہے ہیں کہ اس کا مستقبل بہت شاندا رہو گا۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد 19صفحہ23) آج دو سو سے زائد ممالک میں پھیلے شاملین وقف جدید ہر سال لاکھوں پونڈ کی قربانی کر کے اس تحریک کے شاندار مستقبل کے لئے مددگار و گواہ ہیں ۔سال2014ء کی قربانی کی رقم 62لاکھ 9 ہزار پونڈ تھی ۔ اور 2015ء میں 68 لاکھ91ہزار پونڈ اس تحریک میں پیش کئے گئے۔ اس بابرکت تحریک کی آمد سے کئے جانے والے با برکت کاموں کا ایک خلاصہ حضرت امیرالمومنین اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یوں بیان فرمایا: ’’آج حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت ہی وہ جماعت ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ، اس کی خاطر نیک مقاصد کی ترقی کے لئے خرچ کرتی ہے ۔اور خرچ کرنے کی خواہشمند ہے ۔ اسلام کی تبلیغ ہے۔ مبلغین کی تیاری اور ان کو میدان عمل میں بھیجنا ہے ۔لٹریچر کی اشاعت ہے ۔قرآن کی اشاعت ہے ۔مساجد کی تعمیر ہے ۔مشن ہائوسز کی تعمیر ہے۔سکولوں کا قیام ہے ۔ ریڈیو اسٹیشن کا مختلف ممالک میں اجراء ہے جہاں سے دین کی تعلیم پھیلائی جاتی ہے ۔دوسرے انسانی خدمت کے کام ہیں ۔غرض کہ اس طرح کے مختلف النوع کام ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی سے تعلق رکھتے ہیں ۔جو آج دنیا کے نقشے پر حقیقی اسلامی تعلیم کے مطابق صرف جماعت احمدیہ ہی کر رہی ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 9 جنوری 2015 الفضل انٹرنیشنل 30 جنوری 2015 صفحہ 5 ) کہاں وہ وقت جب امام وقت اپنے مکان اور کپڑے بیچنے کا کہہ رہے تھے اور کہاں سالانہ لاکھوں پونڈ کی قربانی۔ پھرہر سال مسلسل اس میں اضافہ۔واقعی شاندار مستقبل ۔ کہاں وقتی اور مصنوعی لذات پر دولت لٹانے والوں کے جھرمٹ کے جھرمٹ اور کہاں خدمت خلق کے لئے سب کچھ قربان کرنے والوں کے حوصلے۔ آج ذوق دو انتہائوں کو چھو رہے ہیں ۔ احمدیت کے پروانوں ، خلافت کے عاشقوں کی دنیا اور ہے اور دنیا داروں کی دنیا اور۔ ایک ہی جگہ رہتے ہوئے جنت و جہنم کے مضامین بہت گہرے اور واضح ہو گئے ہیں۔ ٭…٭…٭